شام کا مرثیہ - ابو یحییٰ

شام کا مرثیہ

 لوگ عرصے سے مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ میں شام پر لکھوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا لکھوں؟ مرثیہ لکھوں یا نوحہ پڑھوں؟ مسلمانوں کی جدید تاریخ کا یہ پہلا المیہ ہوتا تو شاید لکھ دیتا۔ دو صدیاں ختم ہوگئیں، پر المیے ختم نہیں ہوتے۔ مگر اصل المیہ یہ نہیں۔ ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ ہمارا کوئی المیہ آخری المیہ نہیں ہے۔

شروع شروع میں نوحے اور مرثیے ہی پڑھے۔ پھر مالک ذوالجلال نے اپنی کتاب تک پہنچا دیا۔ حقیقت دن کی روشنی کی طرح کھل گئی تو جوش و جذبے کے ساتھ سبق لکھنے لگا۔ اس کے جواب میں جو کچھ ہوا وہ ایک الگ داستان ہے۔ اس کا ذکر جانے دیجیے۔ مگر ہمارا کام خدا کے پیغام کو ہر حال میں زندہ رکھنا ہے۔ چاہے ہم زندہ رہیں یا نہ رہیں۔ اس لیے وہ سبق پھر سنا دیتے ہیں جو چار ہزار سال سے تمام صحف سماوی اور انبیا علیھم السلام کی تاریخ کا خلاصہ ہے۔

نبوت ختم ہو چکی ہے۔ اب اسلام کے نام لیوا اجتماعی طور پر پیغام رسالت کے امین ہیں۔ انھیں اپنے قول اور فعل سے ایمان و اخلاق کی شمع کو روشن رکھنا ہو گا۔ وہ یہ کریں گے تو دنیا کا اقتدار ان کو دے دیا جائے گا۔ نہیں کریں گے تو ذلت اور مغلوبیت ان پر مسلط کر دی جائے گی۔ کیونکہ یہ خدا سے غداری ہے۔ اس جرم پر نہ یہود کو چھوڑا گیا نہ مسلمانوں کو چھوڑا جائے گا۔

اپنی کتاب ’’آخری جنگ‘‘ میں ہم چار ہزار برس کی یہ پوری داستان اور یہ سبق اپنے تمام دلائل کے ساتھ جمع کر چکے ہیں۔ بخت نصر سے ٹائٹس رومی تک اور تاتاریوں سے لے کر موجودہ غیر مسلموں تک جو کچھ اسلام کے نام لیواؤں کے ساتھ ہوا، وہ سزا و جزا کا خدائی قانون ہے۔ یہ قانون میرے اور آپ کے مرثیوں سے نہیں بدلے گا۔ خود کو بدلیں ۔ ایمان واخلاق کی شمع کو پھر روشن کر دیجیے۔ غلبہ آپ کا ہو گا۔ ورنہ اطمینان رکھیے، ہمارا کوئی المیہ آخری المیہ نہیں۔

بشکریہ ماہنامہ انذار، تحریر/اشاعت فروری 2017
’’انذار فروری 2017‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مصنف : ابو یحییٰ
Uploaded on : Feb 14, 2017
1440 View