دبستان شبلی - جاوید احمد غامدی

دبستان شبلی

حلقہ گردمن زنید اے پیکران آب و گل
آتشے در سینہ دارم از نیاگان شما


رات کے پچھلے پہر اپنی مطالعہ کی میز پر بیٹھا ہوں۔ آلۂ تکییف نے کمرے کی ساری گرمی باہر پھینک دی ہے، لیکن سینے کی آتش پر اس کا زور کیا چلتا، اس کی انگیٹھی برسوں سے سلگ رہی ہے۔ میں نے بارہا چاہا کہ اس کی کچھ چنگاریاں ادھر ادھر بجھی ہوئی راکھ میں بھی ڈال دوں تو شاید قرار آ جائے، لیکن اس سے تپ شعلہ کیا کم ہو جائے گی؟

غزلے زدم کہ شاید بنوا قرارم آید
تپ شعلہ کم نہ گردد زگسستن شرارہ


تاہم آج یہ چنگاریاں خود بے تاب ہیں کہ اس آگ کا پتا دوسروں کو بھی دیں:

می کشد شعلہ سرے از دل صد پارۂ ما
جوش آتش بود امروز بہ فوارۂ ما


۱۸۵۷ء جہاں ہماری تاریخ کا وہ سال ہے جس میں ہمارے اقبال کا آفتاب اس برصغیر میں غروب ہوا ، وہاں ایک دوسرا آفتاب اس سال میں مطلع امت پر طلوع بھی ہوا ۔ یہ مولانا شبلی کا سال پیدایش ہے۔ سید سلیمان ندوی کے بقول: وہ ہنگامۂ مشرق میں پیدا ہوئے اور ۱۹۱۴ء کے ہنگامۂ مغرب میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ یہ انھی کا دور ہے جس میں مغربی تہذیب سے ہمارا پہلا تعارف ہوا اور اس کے نتیجے میں یہ امت دو گروہوں میں بٹ گئی۔ ان میں سے ایک گروہ اس بات پر مصر ہوا کہ نہ دین کو خاص اپنے مکتب فکر کے اصول و مبادی اور اپنے اکابر کی رایوں سے بالاتر ہو کر براہ راست قرآن و سنت سے سمجھنا ممکن ہے اور نہ مغربی تہذیب اور اس کے علوم اس کے مستحق ہیں کہ وہ کسی پہلو سے اہل دین کی نظروں میں ٹھیریں۔ اس گروہ کے بڑوں میں قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی، محمود الحسن دیوبندی، انور شاہ کاشمیری، حسین احمد مدنی، اشرف علی تھانوی اور شبیر احمد عثمانی کے نام بہت نمایاں ہیں۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جن کے نزدیک حق و باطل کا معیار یہی تہذیب اور اس کے علوم قرار پائے۔ ان کا سرخیل وہی بڈھا تھا جس کے بارے میں خود شبلی نے کہا تھا:

پیری سے کمر میں اک ذرا خم
توقیر کی صورت مجسم


شبلی ان دونوں کے مقابلے میں ایک تیسری جماعت کے بانی ہوئے۔ اس جماعت کے بنیادی اصول دو تھے: ایک یہ کہ ہمارے لیے ترقی یہی ہے کہ ہم پیچھے ہٹتے چلے جائیں، یہاں تک کہ اس دور میں پہنچ جائیں جب قرآن اتر رہا تھا اور جب خدا کا آخری پیغمبر خود انسانوں سے مخاطب تھا۔ اور دوسرے یہ کہ یہ خود قدیم کی ضرورت ہے کہ ہم جدید سے بھی اسی طرح آشنا رہیں، جس طرح قدیم سے ہماری شناسائی ہے۔ سید سلیمان ندوی، ابو الکلام آزاد، ابوالاعلیٰ مودودی، حمید الدین فراہی، امین احسن اصلاحی، یہ سب اسی جماعت کے اکابر ہیں۔ میں اسے ’’دبستان شبلی‘‘ کہتا ہوں۔ اقبال بھی زیادہ تر اسی دبستان سے متعلق رہے۔ ان کی آواز اس عہد کی خوب صورت ترین آواز تھی۔ ان کی شاعری ادب عالیہ قرار پائی۔ تاہم فلسفہ و تصوف سے دل چسپی کی وجہ سے ان کا معاملہ وہی رہا جو اس سے پہلے ہم اپنی تاریخ میں مثلاً غزالی کے ہاں دیکھ چکے تھے۔ وہ جس غزال رعنا کے اسیر ہوئے، اس پر چلانے کے لیے تیر کمان میں رکھتے ہیں، پھر اسے دیکھتے ہیں تو یہی تیر کسی اور کے سینے میں ترازو ہو جاتا ہے۔ گویا وہی معاملہ ہے :

خدنگ جعبۂ توفیق امشب در کمانم بود
غزالم درنظر بسیار خوب آمد خطا کردم


سید سلیمان ندوی اگرچہ شبلی کے جانشین ہوئے، لیکن حق یہ ہے کہ وہ پہلے گروہ ہی سے متعلق تھے۔ چنانچہ انھوں نے عملاً اس حقیقت کو اس طرح ثابت کیا کہ مولانا اشرف علی تھانوی کی بیعت کر لی۔ عبدالماجد دریا بادی کے بارے میں بھی خیال ہوتا ہے کہ شاید اسی جماعت کے فرد تھے، لیکن ان کی داستان حیات یہی ہے کہ دانش گاہ الحاد سے نکلے اور سیدھے تھانہ بھون کی خانقاہ میں پہنچ گئے۔ ابو الکلام اس دور کے عبقری تھے، ان کی تحریر و خطابت نے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ وہ آئے تو لگتا تھا کہ صحراؤں کی وسعتیں سمٹ گئیں اور دریاؤں کا زور ان کے سامنے ٹوٹ گیا ہے۔ لیکن ان کے علم و عمل کی ناقہ خود اپنے ہی غبار میں گم ہو گئی۔ ابوالاعلیٰ عالم بھی تھے اور صاحب طرز انشا پرداز بھی۔ ان کے حسن طبیعت میں حسن فطرت کی جھلک تھی۔ وہ ان کے بعد اس شان سے اس راہ پر چلے کہ ہر شخص نے یہی خیال کیا کہ اب منزل پر پہنچ کر ہی دم لیں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہ بہت آگے گئے، لیکن پھر بھی کتنا پیچھے رہ گئے، اس کا اندازہ کوئی شخص اگر کرنا چاہے تو مثال کے طور پر قرآن مجید کی آیت: ’فقد صغت قلوبکما‘کے بارے میں فراہی کی تحقیق اور ان کی تفسیر کو ایک نظر دیکھ لے۔ میں نے آخری عمر میں انھیں بہت قریب سے دیکھا ہے۔ پاس ادب مانع رہا، ورنہ بارہا جی چاہا کہ ان کی خدمت میں عرض کروں :

بال بکشا و صفیر از شجر طوبیٰ زن
حیف باشد چو تو مرغے کہ اسیر قفسی


اس دبستان میں جس شخص کو امام العصر کہنا چاہیے، وہ تنہا حمید الدین فراہی ہیں۔ وہ اس زمین پر خدا کی آیات میں سے ایک آیت تھے۔ سید سلیمان ندوی سے سنیے، وہ ان کی وفات پر لکھتے ہیں:
’’الصلوٰۃ علیٰ ترجمان القرآن (مفسر قرآن کی نماز جنازہ) وہ صدا ہے جو آج سے ساڑھے چھ سو برس پیشتر مصر و شام سے چین کی دیواروں تک ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی نماز جنازہ کے لیے بلند ہوئی تھی۔ حق یہ ہے کہ یہ صدا آج پھر بلند ہو اور کم از کم ہندوستان سے مصرو شام تک پھیل جائے کہ اس عہد کا ابن تیمیہ ۱۱ نومبر ۱۹۳۰ (۱۹ جمادی الاخریٰ ۱۳۴۹ھ) کو اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ وہ جس کے فضل و کمال کی مثال آیندہ بظاہر حال عالم اسلامی میں پیدا ہونے کی توقع نہیں۔ جس کی مشرقی و مغربی جامعیت عہد حاضر کا معجزہ تھی۔ عربی کا فاضل یگانہ اور انگریزی کا گریجویٹ، زہد و ورع کی تصویر، فضل و کمال کا مجسمہ، فارسی کا بلبل شیراز، عربی کا سوق عکاظ، ایک شخصیت مفرد، لیکن ایک جہان دانش۔ ایک دنیاے معرفت، ایک کائنات علم، ایک گوشہ نشین مجمع کمال، ایک بے نوا سلطان ہنر، علوم ادبیہ کا یگانہ، علوم عربیہ کا خزانہ، علوم عقلیہ کا ناقد، علوم دینیہ کا ماہر، علوم القرآن کا واقف اسرار، قرآن پاک کا داناے رموز، دنیا کی دولت سے بے نیاز، اہل دنیا سے مستغنی، انسانوں کے ردو قبول اور عالم کی دادو تحسین سے بے پروا ، گوشۂ علم کا معتکف اور اپنی دنیا کا آپ بادشاہ۔ وہ ہستی جو تیس برس کامل قرآن پاک او رصرف قرآن پاک کے فہم و تدبر اور درس و تعلیم میں محو، ہر شے سے بے گانہ اور شغل سے ناآشنا تھی۔ افسوس کہ ان کا علم ان کے سینہ سے سفینہ میں بہت کم منتقل ہو سکا۔ مسودات کا دفتر چھوڑاہے، مگر افسوس کہ اس کے چھپنے اور ربط و نظام دینے کا دماغ اب کہاں۔ جو چند رسالے چھپے، وہ عربی میں ہیں، جن کے عوام کیا، علما تک ناقدر شناس ہیں۔ ان کی زندگی ہمارے لیے سرمایۂ اعتماد تھی اور ان کا وجود دارالمصنفین کے لیے سہارا تھا۔ افسوس کہ یہ اعتماد اور سہارا جاتا رہا اور صرف اسی کا اعتماد اور سہارا رہ گیا جس کے سوا کسی کا اعتماد اور سہارا نہیں۔ اس سے زیادہ افسوس یہ ہے کہ یہ ہستی آئی اور چلی گئی، لیکن دنیا ان کی قدرو منزلت کو نہ پہچان سکی اور ان کے فضل و کمال کی معرفت سے ناآشنا رہی:

تو نظیری زفلک آمدہ بودی چو مسیح
بازپس رفتی و کس قدر تو نشناخت دریغ‘‘


یہ شرف تنہا اسی ہستی کو حاصل ہوا کہ اس نے سفر شروع کیا تو پھر راہ نہیں چھوڑی۔ چنانچہ اس راہ کے مسافروں میں منزل بھی تنہا اسے ہی ملی۔ امین احسن اصلاحی اسی نابغۂ عصر کے جانشین ہیں۔ وہ اپنے استاد سے آگے نہیں بڑھے تو پیچھے بھی نہیں رہے۔ حمید الدین جس مقام پر پہنچے تھے، ان کی ساری عمر اسی کے اسرار و رموز کی وضاحت میں گزری ہے۔ ان کی ’’تدبر قرآن‘‘ تفسیر کی کتابوں میں ایک بے مثال شہ پارۂ علم و تحقیق ہے۔ ان کے قلم سے پچاس برس کے معرکوں کی رو داد سنیے تو بقول عرفی:

رمح او گوید اگر جنگ و گر صلح کہ من
بہ کشاد گرہ جبہۂ خاقاں رفتم


وہ عمر بھر جن لوگوں میں رہے، ان میں کم ہی اس کے اہل تھے کہ ان کے فضل و کمال کو پہچانتے۔ میں نے ان کی مجلس میں صدیوں کے عقدے لمحوں میں کھلتے دیکھے اور بارہا اعتراف کیا ہے کہ:

طے می شود ایں رہ بدرخشیدن برقے
ما بے خبراں منتظر شمع و چراغیم


اب اس وقت دیکھیے، پہلے گروہ کی عمر پوری ہو چکی۔ اس کی مثال اب اس فرسودہ عمارت کی ہے جو نئی تعمیر کے وقت آپ سے آپ ویران ہو جائے گی۔ دوسرا گروہ، اگرچہ ابھی شرف و اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ کیے ہوئے ہے، لیکن تاریخ کا فیصلہ یہی ہے کہ پرانی ضلالتوں کی طرح یہ ضلالت بھی کچھ عرصے کے بعد اس کے صفحات ہی میں باقی رہ جائے گی۔ آنے والے دور کی امامت ’’دبستان شبلی‘‘ہی کے لیے مقدر ہے۔ تاریخ کے مرسح پر اب پس پردہ اسی کے ظہور کی تیاری ہو رہی ہے۔

عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب


لیکن یہ خود کس حال میں ہے؟
سید سلیمان ندوی کے خلف ابو الحسن علی ہیں۔ مگر وہ انھی کی طرح اب ندوہ سے زیادہ دیو بند میں ہیں۔ ابوالکلام اس دنیا سے تنہا رخصت ہوئے۔ ابو الاعلیٰ نے جو لوگ اپنے پیچھے چھوڑے، ان میں وہ بھی ہیں جو ان کے جانشین ہوئے اور وہ بھی جن کا دعویٰ ہے کہ وہ انھی کی جانشینی میں لوگوں سے سمع و طاعت کی بیعت لے رہے ہیں۔ ابو الاعلیٰ کی میراث میں سے بہت سی چیزیں ان دونوں کو ملیں، مگر ان کے علم و ادب اور حسن طبیعت سے کوئی حصہ، افسوس ہے کہ انھیں نہیں مل سکا۔ چنانچہ ان بے چاروں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہ اسی پہلے گروہ کے دروازے پر ہاتھ پھیلائیں اور بار بار دھتکارے جائیں۔ یہاں تک کہ ’’دبستان شبلی‘‘ کی ہر ’غلطی‘ کا کفارہ بھر دیں۔ اس جماعت میں بے شک، ان کے علاوہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے بارے میں کوئی شخص اگر چاہے تو کہہ سکتا ہے کہ وہ کچھ پڑھے لکھے ہیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کی حیثیت بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ابو الاعلیٰ ہی کے متن کی شرح ہیں۔ عرفی نے صدیوں پہلے شاید انھی کے لیے کہا تھا:

قدم بروں منہ ازجہل یا فلاطوں شو
کہ درمیانہ گزینی سراب و تشنہ لبی ست


’’دبستان شبلی‘‘ کی آخری نشانی اب امین احسن ہی ہیں۔ ان کے تلامذہ و احباب میں کتنے ہیں جو اس حقیقت سے آگاہ ہیں؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ پچھلے دس برس سے اسی احساس کی آگ ہے جو میرے سینے میں سلگ رہی ہے۔ اس کی چنگاریاں اپنی ہی راکھ میں دب جاتی ہیں، مگر بجھنے نہیں پاتیں:

کہ آتشے کہ نہ میرد ہمیشہ در دل ماست


کبھی جی چاہتا ہے کہ ابو الاعلیٰ کے جانشینوں سے کہوں:

دست ہر نااہل بیمارت کند
سوئے مادر آکہ تیمارت کند


کبھی خیال آتا ہے کہ امین احسن کے حلقۂ سخن سے عرض کروں:

آں نیست کہ من ہم نفساں را بگذارم
با آبلہ پایاں چہ کنم قافلہ تیز است

دیکھیے، قلم کی سیاہی خشک ہو گئی۔ یہ حادثہ میرے ساتھ پہلی بار نہیں ہوا۔ میں نے جب بھی یہ داستان سنانی شروع کی، یہیں پہنچ کر ختم ہو گئی۔ کبھی لفظ جواب دے گئے، کبھی رشتۂ معنی میں گانٹھ پڑ گئی، کبھی سننے والے سو گئے، اور آج قلم ایں جارسید سربشکست۔ یہ شاید، میرے لیے اس حقیقت کی یاددہانی ہے کہ :

سخن از تاب و تب شعلہ بہ خس نتواں گفت 
بشکریہ ماہنامہ اشراق تحریر/اشاعت مارچ 2008
مصنف : جاوید احمد غامدی
Uploaded on : Sep 05, 2016
3873 View