ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ (1) - ڈاکٹر وسیم مفتی

ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ (1)

 حضرت ابو بکر عام الفیل کے اڑھائی برس بعد ۵۷۲ء میں پیدا ہوئے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے اڑھائی سال چھوٹے تھے۔ ان کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو تیم بن مرہ سے تھا۔ ابو بکر کا شجرۂ نسب اس طرح ہے: عبد اﷲ بن عثمان بن عامر بن عمروبن کعب بن سعدبن تیم بن مرہ۔ مرہ ہی پر ان کا شجرہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے شجرے سے جاملتا ہے۔ کلاب بن مرہ آپ کے جبکہ تیم بن مرہ ابو بکر کے جد تھے۔ عبداﷲ اپنی کنیت ابو بکر اور ان کے والد عثمان اپنے نام کے بجائے اپنی کنیت ابو قحافہ سے مشہور ہیں۔ ابو بکر کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت صخر اورکنیت ام خیر تھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ابوبکرکے کئی بھائی بچپن ہی میں فوت ہو گئے تو ان کی والدہ نے ان کی پیدایش سے پہلے نذر مانی کہ اب اگر لڑکا ہوا تو اس کا نام عبدالکعبہ رکھیں گی۔ ان کے بچپن کا یہ نام قبول اسلام کے بعد بدل کر عبداﷲ ہو گیا۔ خون بہا، تاوان اور دیتوں (اشناق) کی رقوم کا تعین کرنا بنو تیم بن مرہ کے سپرد تھا۔ تاوانوں کی رقوم وہی وصول اور جمع کرتے، متعلقہ مقدمات بھی انھی کے سامنے پیش ہوتے اورانھی کا فیصلہ نافذ ہوتا۔ ابو بکر جوان ہوئے تو یہ خدمت ان کو سونپی گئی۔ اگرچہ عمر بھر ابو بکر اپنی کنیت سے موسوم کیے جاتے رہے، لیکن اس کنیت کا یقینی سبب معلوم نہیں ہو سکا۔ انھیں جوان اونٹوں (بکر) کی پرورش اور ان کے علاج معالجے سے دل چسپی تھی یا شایدان کا سب سے پہلے اسلام لانا (بکر الی الاسلام) اس کنیت کا سبب بنا۔ ان کا ایک نام عتیق بھی ہے، جس کے معنی ہیں: خوب صورت اور سرخ و سفید، شروع سے نیک۔ ایک سبب یہ ہے کہ آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابو بکر کو دیکھ کر فرمایا: ’’تم اﷲ کی طرف سے دوزخ سے آزاد (عتیق اﷲ) ہو۔‘‘ (ترمذی، رقم ۳۶۷۹) ہمیشہ سچ بولنے اورواقعۂ معراج کی فی الفور تصدیق کرنے کی وجہ سے صدیق کا لقب ملا۔ ان کی رافت و شفقت کی وجہ سے ان کو اواہ بھی کہا جاتا۔
ام القریٰ میں پروان چڑھنے والے ابو بکر اپنے لڑکپن اور جوانی میں اپنے ہم سنوں میں پائے جانے والی برائیوں اور آلایشوں سے محفوظ تھے۔ انھوں نے جاہلیت میں بھی کبھی شراب نہ چکھی حالانکہ ان کے اردگرد شراب کے رسیا پائے جاتے تھے۔ فکر معاش کی عمر کو پہنچے تو ایک تجارت پیشہ قوم کا فرد ہونے کی بنا پر ان کا میلان تجارت ہی کی طرف ہوا۔ انھوں نے کپڑے کی تجارت شروع کی۔ ایک پر کشش شخصیت اور عمدہ اخلاق کا مالک ہونے کی وجہ سے انھیں غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ جلد ہی ان کا شمار مکہ کے بڑے تاجروں میں ہونے لگا۔ انھوں نے پہلا تجارتی سفراٹھارہ برس کی عمر میں کیا، آخری بار مدینہ سے شام کے شہر بصرہ کو گئے۔ ان سفروں کی وجہ سے باہر کے تاجر ابو بکر کو خوب پہچانتے تھے۔ ابو بکر بیدار عقل، بلند نظراور قلب سلیم رکھتے تھے۔ مکہ کے بہت کم لوگ اس معاملے میں ان کے ہم پلہ تھے۔ ڈاکٹر جواد علی کا کہنا ہے کہ ابو بکر لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ ماہر علم الانساب تھے، مکہ کے تمام قبیلوں کے نسب ان کو ازبریاد تھے۔ ہر قبیلے کے عیوب و نقائص اور محامد و فضائل سے بخوبی واقف تھے۔
ان کی پہلی شادی بنو عامر کی قتیلہ بنت عبد العزیٰ سے ہوئی۔ اگرچہ ایک بار وہ اپنے شوہر کے ساتھ مدینے بھی گئیں، لیکن مسلمان نہ ہوئیں۔ ابو بکر سے علیحدگی اختیار کر کے دوسری شادی کر لی اور مکہ میں مقیم رہیں۔ ابوبکر کی دوسری شادی بنو کنانہ کی ام رومان بنت عمر سے ہوئی جو پہلے طفیل بن سنجرہ کی زوجیت میں رہ چکی تھیں۔ صرف انھوں نے ہجرت میں ابوبکر کا ساتھ دیا۔ تیسری شادی بنو کلب کی ام بکر سے ہوئی، جو مسلمان ہوئیں نہ ہجرت کی۔ ابو بکر نے ان کو طلاق دے دی تھی۔ بنو خثعم کی اسما بنت عمیس سے ابو بکر کی چوتھی شادی ہوئی جو ان کی وفات کے بعد حضرت علی کی زوجیت میں آئیں۔ بنو خزرج کی حبیبہ بنت خارجہ سے ان کی پانچویں شادی ہوئی۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے دوستی بعثت سے پہلے کی ہے۔ وہ اس محلے میں رہتے تھے، جہاں خدیجہ بنت خویلد اور دوسرے بڑے تاجر سکونت رکھتے تھے۔ جب آپ سیدہ خدیجہ سے شادی کے بعد انھی کے گھر منتقل ہوگئے تو ابوبکر کا آپ سے ربط ہوا۔ میل جول بڑھا اور اخلاق و عادات کی مماثلت نے دونوں میں گہری دوستی پیدا کر دی۔ کچھ مورخین کا یہ خیال درست نہیں کہ آپ دونوں کے تعلقات اسلام کی آمد کے بعد استوار ہوئے، پہلے محض ہم سایگی اور یکسانی خیالات ہی تھی۔ ابوبکر پہلے مرد تھے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نماز ادا کی۔ خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے جس کسی کو اسلام کی دعوت دی، اس نے کچھ نہ کچھ ہچکچاہٹ اور پس وپیش ضرور دکھائی سوائے ابو بکر بن ابوقحافہ کے۔ جب میں نے ان کو اسلام کی طرف بلایا، انھوں نے تامل کیے بغیر میری آواز پر لبیک کہا۔‘‘ (ابن ہشام) اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے اس کی ترویج میں نمایاں حصہ لیا، لوگوں کو انفرادا ی طور پر اور علانیہ اسلام کی طرف بلایا۔ عثمان بن عفان، عبد الرحمان بن عوف، طلحہ بن عبید اﷲ، سعد بن ابی وقاص، زبیر بن عوام اور ابو عبیدہ بن جراح ابوبکر کی کوششوں ہی سے مسلمان ہوئے۔ ابو بکر نے نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتی نصرت و حمایت بھی کی۔ ایک باربیت اﷲ میں قریش آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر جھپٹ پڑے اور کہا: تم نے ہمیں برے انجام کی دھمکی دی ہے اور ہمارے معبودوں کے متعلق بری باتیں کی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ ان میں سے ایک نے آپ کی چادر کے دونوں پلو پکڑ کر کھینچ لیے (اور گلا گھونٹنے لگا)۔ ابوبکر آپ کا دفاع کرنے کھڑے ہو گئے۔ روتے جاتے اور فرماتے: کیا تم ایک شخص کو محض اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اﷲ ہے؟ تب انھوں نے آپ کو چھوڑا۔ ابو بکر معرو ف مال دار تاجر تھے، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے۔ اسی میں سے غلام خرید کر آزاد کرتے اور مسلمانوں کو قوت پہنچاتے۔ ایک روزدیکھا کہ نو مسلم بلال کو ان کے آقا نے کڑی دوپہر میں تپتی ریت پر لٹایا اور سینے پر بھار ی پتھر رکھ کر کہا کہ اسلام چھوڑنے کا اعلان کرو ورنہ ایسے ہی مار ڈالوں گا۔ ابو بکر نے انھیں فوراً مہنگے داموں خرید کر آزاد کر دیا۔ ایک اور اذیتیں پانے والے مسلمان غلام عامر بن فہیرہ کو خرید کر نہ صرف آزاد کیا، بلکہ اپنی بکریاں چرانے کی ملازمت بھی دے دی۔ ہجرت کے بعدپانچ ہزار درہم لے کر مدینہ پہنچے تو وہاں بھی یہ پیسے اسی مصرف میں لاتے رہے۔
واقعۂ معراج کے موقع پر ابو بکر نے حیرت انگیز قوت ایمانی کا مظاہرہ کیا۔ آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکہ والوں سے فرمایا کہ رات انھوں نے بیت المقدس کا سفر کیا، مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی اور پھر سیر آسمان کو گئے۔ مشرکین مکہ نے آپ کا مذاق اڑایا، مکہ سے شام تک ایک ماہ کی مسافت ہے۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ محمد ایک رات میں دو ماہ کا سفر طے کر کے لوٹ آئیں؟ کچھ مسلمان بھی متردد ہوئے، لیکن ابوبکر نے ان کو گم راہ ہونے سے بچالیا۔ انھوں نے کہا کہ جو اﷲ لمحوں میں آسمان سے وحی اتار دیتا ہے، اس کے لیے کیا دشوار ہے کہ رات بھر میں محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو اتنی مسافت طے کرا دے؟ حق کی بلا تاخیر تصدیق کرنے پر پیغمبر علیہ السلام نے ابو بکر کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔
جب قریش نے بنو ہاشم کا بائیکاٹ کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے کنبے کو شعب ابی طالب میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا تو آپ نے اپنے صحابہ کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ ایک سو کے قریب صحابہ نے حبشہ کی راہ لی جن میں عثمان بن عفان، جعفر بن ابو طالب اور زبیر بن عوام شامل تھے۔ ابو بکر نے ایک عرصہ سختیاں جھیلیں، جب ان کے لیے عبادت بھی دشوار ہوگئی تو انھوں نے براہ یمن حبشہ جانے کا قصد کیا۔ برک غماد پہنچے تھے کہ قارہ کے سردار ابن دغنہ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے پوچھا: ’’کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ فرمایا: ’’چاہتا ہوں، کہیں الگ جا کر عبادت کروں۔‘‘ ابن دغنہ نے کہا: ’’تم جیسا شخص نکل سکتا ہے نہ نکالا جا سکتا ہے۔‘‘ وہ ان کو واپس لے آیا اور قریش کو اپنی ضمانت دے کر لوٹا۔ ابو بکر جب تک مکہ میں مقیم رہے، حمزہ اور عمر کے ساتھ مل کر قریش کو ایذارسانی سے روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ ظن غالب ہے کہ انھوں نے بنو ہاشم کا مقاطعہ ختم کرانے کی دوڑ دھوپ کی جس کا نتیجہ قدرے دیر بعد ہوا اور کفار ہی کے کچھ انصاف پسندوں نے یہ بائیکاٹ ختم کرایا۔
بیعت عقبہ کے بعد یثرب میں اسلام پھیلنا شروع ہوا تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو اس شہر کی طرف ہجرت کرنے کا اذن عطا فرمایا۔ اس موقع پر ابو بکر نے بھی ہجرت کی اجازت مانگی۔ آپ نے فرمایا: ’’ابھی ایسا نہ کرو، شاید اﷲ ہجرت کے لیے تمھارا کوئی ساتھی پیدا کر دے۔‘‘ یہ آپ کا اپنی طرف اشارہ تھا۔ اسی روز انھوں نے دو اونٹنیوں کا انتظام کر لیااور اپنے پیارے نبی کی معیت میں مکہ سے کوچ کا انتظارکرنے لگے۔ آخر ایک شام آپ حسب معمول ابو بکر کے گھر آئے اور فرمایا: ’’مجھے مکہ سے ہجرت کرنے کا حکم ہوا ہے۔‘‘ ابوبکر نے بے تابی سے کہا: ’’یارسول اﷲ! ساتھی کی ضرورت ہو توآپ کا ساتھ موجود ہے۔‘‘ اسی رات قریش کے نو جوانوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ آپ نے حضرت علی کو اپنے بستر پر لٹایا اور قریش کے لوگوں کو غفلت میں پا کر اپنے گھر سے نکلے اورابو بکر کے گھر پہنچے۔ وہ جاگ رہے تھے، فوراً دونوں گھر کی عقبی کھڑکی سے نکلے اور جنوب کی سمت تین میل سے زیادہ کی مسافت طے کر کے غار ثور پہنچے۔ یار غار نے پہلے غارکو اچھی طرح سے دیکھا، کہیں کوئی سانپ، بچھو یا موذی جانو رنہ ہو تب اپنے صاحب کو اندر آنے دیا۔ صبح ہوتے ہی قریش نے آپ دونو ں کی تلاش میں آدمی دوڑائے۔ ابو بکر گھبرائے تو آپ نے فرمایا، ’لا تحزن ان اﷲ معنا‘ ’’مت غم کرو،بے شک اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ (توبہ۹: ۴۰) ڈھونڈنے والے نے غارکے دہانے پر مکڑی کا جالا بنا دیکھا تو واپس پلٹ گیا۔ غار کے اندر ابو بکر نے آپ سے فرمایا: ’’اگر ان میں سے کوئی آپ کے قدموں کو دیکھتا تو وہ ہمارا پتا پا لیتا۔‘‘ آپ نے جواب میں فرمایا: ’’اے ابوبکر، ان دوکے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا ساتھی اﷲ ہے؟‘‘ (بخاری،رقم۳۶۵۳) ابو بکر کے صاحب زادے عبد اﷲ رات کو آکر مکہ کی خبریں سناتے پھر دن واپس جا کرمکہ والوں کے بیچ گزارتے۔ ابو بکرکا آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ صبح ان کی بکریاں چراتے ہوئے جبل ثور لے جاتا تو دونوں ان بکریوں کا دودھ پی لیتے۔ اسما بنت ابو بکر دونوں کا کھا نا تیار کرتیں، انھوں نے توشہ دان میں کھانا ڈال کر اپنے بھائی عبداﷲ کودیا، باندھنے کو کچھ نہ ملا تو اپنا کمر بند (نطاق) پھاڑ کر اس سے باندھ دیا، اسی وجہ سے ان کا لقب ذات النطاقین (دو کمر بندوں والی) پڑگیا۔ تین دن گزرے، مشرکین کا جوش کچھ ٹھنڈا پڑا توانھوں نے یثرب کا ارادہ کیا۔ ابو بکر کے گھر سے دو اونٹنیاں آگئیں، ایک اور اونٹ خریدا گیا، ان میں سے ایک پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے، دوسرے پر ابوبکر سوار ہوئے اور تیسرے پر عامر بن فہیرہ بیٹھے۔ عبد اﷲ بن اریقط ان کا گائیڈ بنا، کافر ہونے کے با وجود آپ نے اس پر اعتماد کیا۔ طلحہ بن عبید اﷲنے ابو بکر کوشام سے سفید کپڑے بھیجے، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور ابو بکر یہی کپڑے پہن کر مدینہ پہنچے۔
انیس کہتے ہیں کہ ابوبکر مدینہ میں حبیب بن یساف کے مہمان ہوئے، جبکہ ایوب بن خالد کا کہنا ہے کہ وہ خارجہ بن زید کے ہاں ٹھہرے۔ یہ وہی خارجہ ہیں جنھیں ہجرت کے بعد مدینہ میں مواخات قائم فرماتے ہوئے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابو بکر کا اسلامی بھائی قرار دیا۔ ان کی زمینوں پر ابو بکر نے کاشت کاری کی، بعد میں انھی کی بیٹی حبیبہ سے ابو بکر کا نکاح ہوا۔ ہجرت کے چند روز بعد ابوبکر کو بخار ہوگیا، یہ مدینہ کی مرطوب آب و ہوا کا اثرتھا۔ محمد بن جعفرکی روایت ہے: ’’ابو بکر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات تک سنح میں مقیم رہے‘‘ جو مدینے میں خارجہ کے قبیلے بنو حارث بن خزرج کا محلہ تھا۔ یہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر سے ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ مشہور تابعی فقیہ عبید اﷲ بن عبداﷲ فرماتے ہیں: ’’جب آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینے میں گھروں کے لیے زمین تقسیم فرمائی تو ابو بکر کے گھر کے لیے مسجد نبوی کے پاس جگہ متعین فرمائی، مسجد کے مغرب میں واقع ان کے گھر سے چھوٹا سا دریچہ مسجد میں کھلتا تھا۔ اور صحابہ کے گھروں کے بھی ایسے دریچے مسجد میں آنے جانے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ آپ نے اﷲ کے حکم سے سارے راستے بند کرائے اور فرمایا: ’’اس مسجد میں کوئی دریچہ نہ کھلا رہنے پائے سوائے دریچۂ ابو بکر کے۔‘‘ (بخاری، رقم۳۹۰۴) رہا حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا گھر تو اس کا بڑا دروازہ ہی مسجد کے اندر تھا، اسے بند کرنا ممکن نہ تھا۔ حضرت ابو بکر کے مسجد نبوی کے پڑوس والے گھر میں ان کی دوسری بیوی ام رومان، بیٹی عائشہ اور ان کے تمام بیٹے مقیم تھے۔ بعد میں کسی ضرورت کے لیے انھوں نے یہ گھر ام المومنین حفصہ رضی اﷲ عنہا کو چار ہزار درہم میں بیچ دیا۔ حضرت عثمان کے دور خلافت میں اسے سیدہ حفصہ سے خرید کر مسجد کی توسیع میں شامل کر لیاگیا۔ اب بھی مسجد نبوی کے مغربی کونے میں ترکوں کے عہد کی تحریر ’ہذہ خوخۃ ابی بکر‘ (یہ ابو بکر کے گھر کا دریچہ ہے) لکھی نظر آتی ہے۔
سیدناابوبکر آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ دینی حمیت رکھتے تھے۔ وہ بدر، احد، خندق اور تمام غزوں میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کو شان دار فتح حاصل ہوئی او ر مشرکوں کے سترقیدی ان کے ہاتھ لگے۔ انھوں نے ابو بکر کو بلایا اوررشتہ داری کا واسطہ دے کر جان بخشی کرانے کی درخواست کی۔ ابو بکر نے وعدہ کرلیا۔ سیدنا عمر کی رائے تھی، ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے، لیکن ابوبکر نے اصرار کر کے ان کو زرفدیہ کے عوض رہا کرا لیا۔ جنگ بدر میں ابو بکر و علی کے بارے میں کہا گیا کہ ایک کا ساتھ جبرئیل نے اور دوسرے کا میکائیل نے دیا۔ جنگ احد میں مسلمانوں کو ابتدائی طور پر فتح ملی، لیکن جب انھوں نے رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایات کو فراموش کر کے اپنی متعین جنگی پوزیشنیں چھوڑ دیں تو کفار کو غلبہ پانے کا موقع مل گیا، چنانچہ جہاں ستر صحابہ شہید ہوئے وہاں سنگ باری سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک پر بھی زخم آئے اور آپ کے دو دانت شہید ہو گئے۔ اس دوران میں ابوبکران بارہ ثابت قدم صحابیوں میں شامل تھے جنھوں نے آپ کا دفاع کیا۔ ۶ھ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ چلنے کا حکم ارشاد کیا۔ قریش نے یہ خبر سن کر تہیہ کیا کہ آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے۔ آپ حدیبیہ کے مقام پر فرو کش ہوئے اور مکہ والوں پر واضح کیا کہ ہمارا مقصد صرف عمرہ ادا کرنا ہے۔ تب مذاکرات کے بعد وہ مشہور معاہدہ طے پایا جسے صلح حدیبیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی کچھ شرائط مسلمانوں کو نا گوار گزریں خاص طور پر حضرت عمر کا رد عمل بہت سخت تھا۔ ابو بکر رضی اﷲ عنہ اس موقع پر بھی مطمئن اور پر سکون تھے، انھیں پختہ یقین تھا کہ آپ کا کوئی عمل بھی حکمت سے خالی نہیں اور یہ معاہدہ لازماً مسلمانوں کے حق میں بہتر ثابت ہو گا۔ چنانچہ سورۂ فتح نازل ہونے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی۔ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں نے ذی قعد۷ھ میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی معیت میں عمرہ ادا کیا۔ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک میں ابو بکر کو مرکزی سیاہ پرچم عنایت کیا اور کھانے کو خیبر کی کھجوروں کے سو ٹوکرے عنایت فرمائے۔ آپ نے انھیں نجد کے سریہ میں امیر بنا کر بھیجا۔ ۹ھ میں حج فرض ہوا توآپ نے دین اسلام کا پہلا حج ادا کرنے کے لیے ابوبکر کو امیر الحج مقرر فرمایا۔ وہ تین سو مسلمانوں کو لے کر مکہ پہنچے اور آں حضرت کی ہدایت کے مطابق خطبۂ حج میں اﷲ کا اظہار برأ ت سنایا: ’انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامہم ہذا‘ ’’بلا شبہ مشرک تو نا پاک (عقیدہ والے) ہیں، لہٰذااس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس نہ پھٹکیں۔‘‘ (توبہ۹:۲۸) اگلے برس۱۰ھ میں آپ خود حج کرنے مکہ تشریف لے گئے، یہ حجۃالوداع تھا کیونکہ اس کے بعد آپ کی وفات ہوگئی۔
ایک بار حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ سے دریافت فرمایا: ’’تو نے ابو بکر کے بارے میں بھی کوئی شعر کہا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’ہاں۔‘‘ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’کہو، میں سن رہا ہوں۔‘‘ انھوں نے یہ دو شعر پڑھے: 

وثانی اثنین فی الغار المنیف وقد
طاف العدو بہ اذ صعد الجبلا

’’بلند غار (ثور) میں دو افرا دمیں سے دوسرا ،دشمن اس کے گرد چکر لگاچکا تھا جب وہ ا س پہاڑ پر چڑھا۔‘‘ 

وکان حب رسول اﷲ قد علموا
من البر ےۃ لم یعدل بہ رجلا

 ’’وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا پیار ادوست ہے، سب نے جان لیا ہے۔ دنیا میں کوئی آ دمی اس کے برابر نہیں ہے۔‘‘

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کھل کر مسکرائے حتیٰ کہ آپ کی ڈاڑھیں نمایاں ہو گئیں۔ پھر فرمایا: ’’تو نے سچ کہا حسان، ابو بکر ایسے ہی ہیں جس طرح تو نے کہا۔‘‘ یہ واقعہ ہے کہ آپ کو عورتوں میں عائشہ اور مردوں میں ابوبکر سب سے زیادہ محبوب تھے۔ عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ میں نے (غزوۂ ذات سلاسل کے موقع پر) آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’آپ کو کون سا انسان سب سے بڑھ کر محبوب ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’عائشہ۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’مردوں میں سے کون؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ان کے والد (ابوبکر)۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’ان کے بعد؟‘‘ جواب فرمایا: ’’عمر۔‘‘ (مسلم،رقم ۶۱۷۷) آپ کا ارشادہے: ’’سنو، میں ہر دوست کی دوستی سے بے نیاز ہوں، اگر میں نے دوست بنانا ہوتا تو لازماً ابوبکر کو دوست بناتا۔ تمھارا ساتھی رسول تو اﷲ کا دوست ہے۔‘‘ (مسلم، رقم۶۱۷۶) ’’ابو بکرمیرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں۔‘‘ (بخاری، رقم۳۶۵۶) فرمان نبوی ہے: ’’میری امت میں امت پر سب سے بڑھ کررحم کھانے والے ابو بکر ہیں۔‘‘ (مسند احمد، مسند انس بن مالک) ایک عورت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے کسی شے کے بارے میں گفتگو کی۔ آپ نے اسے حکم فرمایا: ’’میرے پاس پھر آنا۔‘‘ اس نے کہا: ’’یا رسول اﷲ، آپ کا کیا ارشاد ہے، اگر میں دوبارہ آئی اور آپ کو نہ پایا؟‘‘ یہ آپ کی وفات کا کنایہ تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر تو نے مجھے نہ پایا تو ابو بکر کے پاس چلی جانا۔‘‘ (بخاری،رقم۷۲۲۰)
حجۃ الوداع سے فارغ ہونے کے بعد کچھ عرصہ گزراکہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے شام پر فوج کشی کے لیے ایک لشکر کی تیاری کا حکم فرمایا۔آپ نے اسامہ بن زید کو سپہ سالار بنایا اورابو بکر وعمر جیسے بڑے بڑے صحابہ کو لشکر کے ساتھ جانے کے لیے ارشاد فرمایا۔ ابھی یہ لشکر مدینہ سے کچھ دور جرف کے مقام تک پہنچا تھا کہ آپ کی علالت کی خبر آ گئی، چنانچہ وہیں پڑاؤ ڈال دیا گیا اور ابو بکر وعمر مدینہ لوٹ آئے۔ جب رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تکلیف زیادہ ہو گئی تو بلال آپ کو نماز کی اطلاع دینے آئے۔ آپ نے فرمایا: ’’ ابو بکر کو کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ نے کہا: ’’یارسول اﷲ، ابوبکر رقت رکھتے ہیں۔ جب آپ کی جگہ (نماز پڑھانے) کھڑے ہوں گے، لوگوں کو (تلاوت) سنا نہ پائیں گے۔ آپ عمر سے کیوں نہیں کہتے؟‘‘ پھر عائشہ نے حضرت حفصہ سے کہا: یہی بات تم آپ کے گوش گزار کرو۔ حفصہ سے یہ مشورہ دوبارہ سننے پر آپ نے فرمایا: ’’تم تو بالکل یوسف کی ساتھی عورتیں ہو (اپنے دل کی بات چھپا کر رکھتی ہو۔ جس طرح زلیخا نے عورتوں کی ضیافت بظاہر ان کی عزت افزائی کے لیے کی، مقصد انھیں حسن یوسف سے مرعوب کر کے اپنی محبت کی صفائی پیش کرنا تھا ایسے ہی عائشہ نے ابو بکر کی نرم دلی کا ذکر کرکے امامت عمر کو سونپنے کی تجویز دی، مقصد ان کو بار خلافت سے بچانا تھا)۔ ابو بکرکو کہو، لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ جب ابو بکر نے نماز پڑھانی شروع کی، آپ نے اپنی بیماری میں کچھ تخفیف محسوس کی، آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کرچلے، پاؤں مبارک زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ مسجد میں داخل ہوئے، ابو بکر نے آپ کی آہٹ سنی تو پیچھے ہٹنے لگے۔ آپ نے اشارہ فرمایا: ’’تم اسی طرح کھڑے رہو۔‘‘ اور خود ابو بکر کے بائیں طرف بیٹھ گئے۔ آپ بیٹھ کر نماز پڑھانے لگے، ابو بکر کھڑے ہوئے آپ کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ ابو بکر کی نماز کی پیروی کر رہے تھے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تیرہ روز بیمار رہے، جب مرض میں کمی محسوس کرتے، خود امامت فرماتے اور جب شدت ہوتی تو ابو بکر جماعت کراتے۔ ایک بار ابو بکر مدینہ میں نہ تھے، بلال نے عمر کو آگے کر دیا۔ آپ نے حجرۂ مبارک سے حکم بھیجا: ’’اﷲ اور مسلمان یہ پسند کرتے ہیں کہ ابو بکر نماز پڑھائیں۔‘‘ ابوبکر نے آپ کی زندگی میں سترہ نمازیں پڑھائیں۔ آپ نے مرض الموت میں عائشہ سے فرمایا: ’’اپنے باپ اور بھائی کو میرے پاس بلاؤ تاکہ میں ابوبکر کے بارے میں ایک تحریر لکھا لوں۔ مجھے اندیشہ ہے، کوئی معترض اعتراض کرے اور (خلافت کی) تمنا کرنے لگے۔ اﷲ اور اہل ایمان ابو بکر ہی کو چاہتے ہیں۔‘‘ عائشہ سے پوچھا گیا: ’’اے ام المومنین، اگرجا نشین مقرر کرنا ہوتا تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کس کاتقرر فرماتے؟‘‘ ان کا جواب تھا: ’’ابوبکر۔‘‘ پھر سوال ہوا کہ ’’ابو بکر کے بعد؟‘‘ جواب آیا، ’’عمر۔‘‘ پھر دریافت کیا گیا: ’’عمر کے بعد؟‘‘ عائشہ نے فرمایا کہ ’’ابوعبیدہ بن جراح۔‘‘
آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا انتقال پیر کے دن دوپہرکے وقت ہوا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ابو عبیدہ بن جراح کے پاس آئے اور کہا: ’’اپنا ہاتھ پھیلائیں، میں آپ کی بیعت کرتا ہوں، اس لیے کہ آپ رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اس امت کے امین ہیں۔ ابو عبیدہ نے کہا: ’’ جب سے تم مسلمان ہوئے ہو، تم میں ایسی غفلت میں نے نہیں دیکھی۔ کیا تم میری بیعت کرو گے جبکہ تمھارے بیچ ثانی اثنین صدیق مو جود ہیں۔‘‘ اور صحابہ بھی بیعت کے لیے ابوعبیدہ کے پاس پہنچے تو انھوں نے یہی جواب دیا۔ آپ کے انتقال کے بعدانصار سعد بن عبادہ کے پاس اکٹھے ہوئے۔ ابو بکر، عمر اور ابوعبیدہ بن جراح بھی وہاں پہنچے۔ حباب بن منذر انصاری نے جوبدر میں حصہ لے چکے تھے، تجویز پیش کی: ’’ایک امیر ہم میں سے ہو، ایک تم میں سے۔ قریش کے ساتھیو، بخدا ہم تمھیں خلافت کے لیے نااہل نہیں سمجھتے، لیکن ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ لوگ اقتدار کے مالک بن بیٹھیں گے جن کے بھائیوں اور باپوں کو ہم نے قتل کیا ہوگا۔‘‘ عمر کی حباب کے ساتھ تکرا ر ہوگئی تو ابوبکر نے گفتگو شروع کی: ’’حکمران ہم ہوں گے، تم مدد گار ہو گے۔ یوں خلافت ہمارے درمیان آدھی آدھی بٹ جائے گی۔‘‘ انصار میں سب سے پہلے بشیر بن سعد نے بیعت کی۔ عمران کے پاس گئے اور کہا: ’’ اے گروہ انصار، تم نہیں جانتے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابوبکر کو لوگوں کو نماز پڑھانے کا حکم دیا؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’ہاں، بالکل۔‘‘ پھر عمر نے کہا: ’’تم میں سے کسے اچھا لگتاہے کہ ابو بکر سے آگے بڑھے؟‘‘ ان کا جواب تھا: ’’اﷲ کی پناہ کہ ہم ابوبکر سے آگے ہوں۔‘‘ پھر صحابہ حضرت ابو بکر کی بیعت میں مشغول ہو گئے جو پیر کا باقی دن اور منگل کی صبح سقیفۂ بنی ساعدہ اور مسجد نبوی میں جار ی رہی۔ جب ابو بکر کی خلافت کا فیصلہ ہو گیا تو بیعت میں پس و پیش کرنے والوں کو ابو بکر نے خود آمادہ کیا۔ منگل کے دن آپ کو غسل دیا گیا اور بد ھ کی رات تدفین عمل میں آئی۔
مطالعۂ مزید: الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، السیرۃ النبویہ (ابن ہشام)، فتح الباری(ابن حجر)، البدایہ والنہایہ (ابن کثیر)، رحمۃللعالمین (قاضی سلیمان منصور پوری)، اردو دائرۂ معارف اسلامیہ (پنجاب یونیورسٹی)، الصدیق ابوبکر (محمد حسین ہیکل)، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام (جواد علی)
[باقی]

-----------------------------

 

بشکریہ ڈاکٹر وسیم مفتی

تحریر/اشاعت فروری 2006
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Sep 19, 2016
3784 View