ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ (2) - ڈاکٹر وسیم مفتی

ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ (2)

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا صدمہ اس قدر جاں کاہ تھا کہ اسے خو د برداشت کرلینااور آپ کے بعد آپ کی دل گیر امت کو درست سمت میں لے کر چلناایسا کارنامہ تھا جوحضرت ابو بکر ہی سر انجام دے سکتے تھے۔ وفات کی صبح آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حجرۂ عائشہ سے مسجد میں تشریف لائے ،لوگوں سے کچھ باتیں کیں اورجیش اسامہ کی کامیابی کی دعا فرمائی ۔ آپ کے حجرے میں واپس جانے کے بعد ابو بکر آپ کی صحت کی طرف سے مطمئن ہوکراپنے گھر چلے گئے۔ دوپہر کے وقت آپ کی وفات کی خبر آئی تو ایک شخص ابو بکر کو واپس بلا لایا ۔ مسجد میں عمر تلوار لیے جوش کے عالم میں کہہ رہے تھے: ’’جو کہے گا ،رسول اﷲ فوت ہو گئے ہیں، میں اس تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا ۔‘‘ابو بکر سیدھے حجرے میں گئے ،رخ مبارک سے کپڑا ہٹایا ، رخسار کوبوسہ دے کر فرمایا: ’’کیا ہی با برکت تھی آپ کی زندگی اور کیا ہی با برکت ہے آپ کی موت ۔‘‘پھر باہر آئے اور منبر پر چڑھ کر فرمایا: ’’اے لوگو، جو محمد کی پوجا کرتا تھا، جان لے، محمد تو فوت ہوچکے ہیں ۔جو اﷲ کی عبادت کرتا ہے، اسے معلوم ہوناچاہیے، اﷲ زندہ ہے،کبھی نہ مرے گا۔‘‘انھوں نے سورۂ آل عمران کی آیت تلاوت کی: ’وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات او قتل انقلبتم علی اعقابکم‘ (۱۴۴)’’محمد تو بس ایک رسول ہیں ۔ ان سے پہلے بہت رسول گزر چکے ہیں۔تو بھلا کیا یہ مر جائیں یا مار دیے جائیں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟‘‘ یہ آیت سن کر سب کو یوں لگا جیسے یہ ابھی اسی موقعے کے لیے نازل ہوئی ہے۔ حضرت عمر کو بھی یقین ہو گیا ،ان پراتنا شدید اثر ہواکہ بے سدھ ہو کر گر گئے۔ایک رقیق القلب مومن کا ضبط نفس اس موقع پر مسلمانوں کے کام آیا، وہ انتشار سے محفوظ ہو کر حقائق کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔
آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا سانحۂ انتقال ہو چکا تھا، لیکن اصحاب نبی جسد مبارک کی تدفین کے بجائے خلیفہ کے انتخاب میں مصروف تھے۔مہاجرین وانصارکے بیچ کیوں کشمکش ہوئی اور اوس وخزرج کی باہمی چپقلش نے ابو بکر کے انتخاب میں کیا کردار ادا کیا؟ ان سوالوں کا جواب پانے کے لیے تاریخ سے مدد لینا ہو گی۔
صعل و عمالقہ یثرب کے قدیم باشندے تھے، داؤدو موسیٰ علیہما السلام کے زمانے میں اسرائیلی اور یہودی آباد ہوئے۔ عربوں میں سے بنو انیف اور بنو مرید کی آمد بعدمیں ہوئی ۔ارم کا سیلاب آنے کے بعد عمرو بن عامر بن حارثہ کی اولاد بکھر گئی تواس کے دو بیٹوں اوس اور خزرج نے مدینہ میں ڈیرا ڈالا،وہ اپنی ماں کی نسبت سے بنو قیلہ کہلاتے ہیں۔ پہلے وہ یہود کے پڑوسی اور حلیف بنے پھر انھی سے ان کی جنگیں ہوئیں۔شروع میںیہود غالب آئے ،بعد میں اوس و خزرج ہی کا پلہ بھاری رہا۔ یہود پر کامیابی پانے کے بعد معمولی باتوں پر اوس وخزرج میں لڑائیوں کا آغاز ہواحتیٰ کہ سمیر، سرارہ،بنو وائل،بنو مازن، حاطب، فجار اور بعاث کی جنگیں ہوئیں۔نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے کے بعد ان کی کشمکش ختم ہوئی اور وہ مسلمان بھائی بن گئے۔
اوس وخزرج میں بڑے دلیر سردار پیدا ہوئے،اوس کے سعد بن معاذ، عمرو بن معاذاور سعد بن خیثمہ بدر ،احد اور خندق کی جنگوں میں شہید ہوگئے۔ خزرج کے سرداروں میں سے سعد بن عبادہ ، رافع بن مالک،مرداس بن مروان، ابو قتادہ بن ربعی اور مالک بن عجلان مشہور ہوئے۔ حسان بن ثابت خزرج کے اور قیس بن خطیم اوس کے شاعر تھے۔
اپنی اس تاریخی حیثیت کی بنا پر اور مشکل وقت میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو پناہ دینے کی وجہ سے ان کے دلوں میں یہ خیال پختہ ہو چکا تھا کہ اچھے وقت کے ثمرات حاصل کرنے کے زیادہ حق دار بھی وہی ہیں۔ حنین و طائف کے معرکوں کے وقت ان کے اس دعوے کا اظہار ہواجب آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مال غنیمت کی تقسیم میں نو مسلم قریشیوں کو ترجیح دی تو انھوں نے اعتراض کیا: ’’خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال مکہ والے لے گئے۔‘‘تب آپ نے انھیں جمع کر کے فرمایا: ’’میں نے وہ مال قریش کو محض تالیف قلب کے لیے دیاتاکہ وہ اسلام پر پختہ ہو جائیں ۔تمھیں تالیف قلب کے لیے دینے کی ضرورت نہ تھی۔اے انصار، کیا تم اس پر راضی نہیں کہ دوسرے لوگ اونٹ او ربکریاں لے جائیں اور تم اپنے ساتھ رسول اﷲ کو لے جاؤ۔‘‘انصار بہت شرمندہ ہوئے، اتنا روئے کہ ڈاڑھیاں آنسووں سے تر ہوگئیں اور انھوں نے بہ یک زبان کہا: ’’ہم رسول اﷲ کی تقسیم اور بخشش پر دل و جان سے راضی ہیں۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کا احساس تفوق استحقاق خلافت کے دعوے میں بدل گیا،وہ آپ کی تجہیز و تکفین سے پہلے ہی سقیفۂ بنی ساعدہ میں ا کٹھے ہوگئے ۔سقیفہ اس چبوترے کو کہتے ہیں جس کی چھت بھی ہو، بنی ساعدہ خزرج قبیلے کی ایک شاخ تھی، ان کی چوپال سقیفۂ بنی ساعدہ کے نام سے مشہور ہے ۔خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو جو اس وقت بیمار تھے ، بلایا گیا۔وہ بات کرتے اور ان کا بیٹا بلند آواز میں دہراتا۔انھوں نے کہا: ’’اے انصار، تمھاری تلواروں نے اسلام کی فتح کا دن قریب کیا ،رسول اﷲ عمر بھر تم سے راضی رہے ۔اب تم خلافت اپنے ہاتھ میں لو، کیونکہ تمھارے سوا خلافت کا کوئی مستحق نہیں۔‘‘قبل اس کے کہ سب سعد کی بیعت کے لیے ٹوٹ پڑتے ،ایک انصاری نے کہا کہ اگر مہاجرین نے ہماری بیعت سے انکار کیاتو کیا ہو گا؟ ادھر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے قریبی صحابہ آپ کی تجہیز و تکفین کی فکر میں تھے کہ انھیں انصار کے اجتماع کی خبر ملی ۔خلیفۂ رسول کا انتخاب اس قدر اہم مسئلہ تھا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی تدفین سے پہلے طے کرنا پڑا۔ ابو بکر،عمر اور ابو عبیدہ سقیفۂ بنی ساعدہ پہنچے۔ انصار کی گفتگو جاری تھی کہ یہ حضرات ان کے بیچ آ کر بیٹھ گئے۔حضرت عمر کچھ کہنا چاہتے تھے کہ ابو بکر نے روک دیا اور خود تقریر شروع کی۔انھوں نے فرمایا: ’’اے لوگو، ہم مہاجرین اسلام لانے میں اول ہیں ،حسب ونسب کے علاوہ ہمیں رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار ہونے کا فخر حاصل ہے ۔اﷲ کافرمان ہے: ’السابقون الاولون من المہاجرین و الانصار‘۔ (توبہ۹: ۱۰۰) ’’ وہ جنھوں نے سبقت کی، سب سے پہلے ایمان لائے ، مہاجرین و انصار میں سے ۔‘‘ تم نے اپنی فضیلت کا جو ذکرکیا ہے، ہمیں اس سے انکار نہیں۔ اگر اوس کو خلافت دی گئی تو خزرج والے حسد کر یں گے اور اگر یہ خزرج کو سونپی گئی تو اوس والے برداشت نہ کریں گے ۔ عرب یہ بات کبھی نہیں مانیں گے کہ سلطنت قریش کے سو ا کسی اور قبیلے کے ہاتھ میں رہے، اس لیے تم امارت ہمارے سپرد کر دو اور وزارت خود سنبھال لو۔ حباب بن منذر نے اس پیش کش سے انکار کرتے ہوئے تجویز پیش کی: ’’ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے۔‘‘ عمر نے کہا: ’’ایک میان میں دو تلواریں جمع نہیں ہو سکتیں۔‘‘ حباب کا تعلق اوس سے تھااور سعد کا خزرج سے ،اس مرحلے پر ان کی پرانی چشمک نے رنگ دکھایا۔ سعدنے کہا : تم (اوس والوں)نے دو خلافتوں کی پیش کش کر کے ابتدا ہی میں کم زوری کا مظاہرہ کر دیا۔ قبل اس کے کہ منافقین اس جھگڑے سے فائدہ اٹھاتے ،ابو عبیدہ نے کہا : ’’اے انصار، تم پہلے تھے جنھوں نے نصرت کی اور پناہ دی، لہٰذا اس دین کوبدلنے اور تباہ کرنے میں پہل نہ کرو۔‘‘ ان کی بات کا اثر ہوا ، خزرج کے بشیر بن سعد نے کھڑے ہو کر کہا: ’’ اے انصار، اﷲ کا تقویٰ اختیار کرو اور مہاجرین سے مت جھگڑا کرو۔‘‘ ابو بکرکو معاملہ سدھرنے کا یقین ہو گیاتو انھوں نے انصارکو اتحاد کی تلقین کی اور فرمایا: ’’یہ عمر اور ابو عبیدہ بیٹھے ہیں ،جس کی چاہو بیعت کر لو۔‘‘اس لمحے شور وشغب بڑھ گیا اور سب انتخاب کے شش وپنج میں پڑ گئے ،کوئی ناروا بات ہونے سے پہلے عمر نے بلند آواز میں کہا: ’’ابو بکر، اپنا ہاتھ بڑھائیے۔‘‘ ان کے ہاتھ آگے کرنے پر عمر نے فوراً بیعت کر لی، ان کے بعد ابو عبیدہ اور بشیربن سعد نے بیعت کرنے میں جلد ی کی ۔حباب بن منذر سے ضبط نہ ہوا، انھوں نے کہا: ’’اے بشیر ،تمھیں ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ تو نے اپنے چچیرے کی امارت سے حسد کیا ۔‘‘اوس کے رئیس اسید بن خضیرنے اپنے قبیلے کی طرف رخ کیا اور کہا: ’’اﷲ کی قسم، اگر سعدبن عبادہ ایک بار بھی خلافت پر قابض ہو گئے تو خزرج کو تم پر ہمیشہ کے لیے فضیلت حاصل ہو جائے گی،اٹھواور ابو بکر کی بیعت کرو۔‘‘ چنانچہ ان کے کہنے پر اوس بھی بیعت کرنے والوں میں شامل ہو گئے۔ سعد بن عباد ہ نے بیعت نہ کی،وہ ہجوم میں روندے جانے والے تھے کہ ان کے ساتھی ان کو اٹھا کرلے گئے۔ ابو بکر نے ان سے بیعت لینے کا ارادہ کیا توبشیر بن سعد نے منع کردیا ۔انھوں نے کہا: قتل و غارت کیے بغیر آپ ان سے بیعت نہیں لے سکتے، لہٰذا اس ایک شخص سے تعرض نہ کریں۔وہ ابو بکر کے ساتھ نماز میں شامل ہوتے نہ ان کے اجتماعات میں شریک ہوتے ، زندگی کے باقی ایام انھوں نے خاموشی سے تنہائی میں گزار دیے۔جب عمر خلیفہ بنے تو سعد نے ان کی بیعت بھی نہ کی۔ پھر وہ شام چلے گئے اورحوران میں وفات پائی۔ شہر مدینہ کی حد تک انصار کا ادعاے خلافت درست ہوتا، لیکن یہ خلافت تو جزیرہ نماے عرب کو محیط ہو چکی تھی اور عجم کے دروازوں پر دستک دے رہی تھی۔ اتنی وسیع سلطنت کو صرف عمائد قریش ہی متحد رکھ سکتے تھے، چنانچہ سقیفہ کا دن گزرا کہ انصار نے خلافت کی خواہش کبھی نہ کی اور وہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق قریش کی قیادت پر مطمئن ہو گئے۔
[باقی]

-----------------------------

 

بشکریہ ڈاکٹر وسیم مفتی

تحریر/اشاعت اپریل 2006
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Sep 19, 2016
2197 View