ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ (3) - ڈاکٹر وسیم مفتی

ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ (3)

 

یعقوبی کے بیان کے مطابق مہاجرین میں سے عباس بن عبدالمطلب، فضل بن عباس، زبیر بن عوام، خالد بن سعید، مقداد بن عمرو،سلمان فار سی،ابو ذرغفاری ، عمار بن یاسر،برا بن عازب اور ابی بن کعب نے ابوبکر کی بیعت نہ کی۔ ایک روایت کے مطابق حضرت علی نے چالیس روز بعد اور دوسری کے مطابق چھ ماہ بعد بیعت کی جب فاطمۃ الزہرا نے وفات پائی۔ اہل سنت علما کا اصرار ہے کہ علی اور زبیر سمیت تمام صحابہ ابو بکر کی بیعت پر متفق ہو گئے تھے۔ ابن کثیر کا کہنا ہے کہ زبیر بن عوام اور علی بن ابو طالب نے فوراً اسی دن یا دوسرے دن بیعت کر لی۔ وہ ابو بکر کی اقتدا میں نماز پڑھتے، ان کے مشوروں اور ان کی مہمات میں شامل ہوتے۔ علی کا چھ ماہ گزرنے کے بعد بیعت کرنے کا جو ذکر آتا ہے، وہ ان کی بیعت ثانیہ ہے جو میراث کے مسئلہ پر ابو بکر اور فاطمہ میں ہونے والی شکر رنجی دور کرنے کے لیے کی گئی۔سعید بن زید سے پوچھا گیا کہ کیا کسی شخص نے ابو بکر کی بیعت کی مخالفت بھی کی ؟ان کا جواب تھا: ’’مرتدین کے علاوہ کسی نے نہیں یا وہ جومرتد ہونے لگے تھے اگر اﷲ ان کو انصار سے نہ بچا لیتا ۔‘‘ان سے اگلا سوال کیا گیا کہ کیا مہاجرین میں سے کوئی (بیعت کیے بغیر) بیٹھا بھی رہا؟ انھوں نے جواب دیا:’’کوئی نہیں۔‘‘
اگلے روز مسجد نبوی میں بیعت عامہ کے بعد ابوبکر نے لوگوں سے خطاب کیا۔حمد وثنا کے بعد انھوں نے فرمایا:
’’لوگو، میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کام کروں توتم میری مدد کرو اور اگر برا کام کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تم میں سے کم زور میرے نزدیک طاقت والاہے حتیٰ کہ میں اسے اس کا حق دلا دوں ۔ تم میں سے طاقت ور کم زور ہو گا حتیٰ کہ میں اس سے حق لے لوں۔کوئی قوم اﷲ کی راہ میں جہاد نہیں چھوڑتی، مگر اﷲ اسے ذلت میں بے یار و مدد گار چھوڑ دیتا ہے ۔کسی قوم میں بے حیائی عام نہیں ہوتی، مگر اﷲ ان میں مصیبتیں عام کر دیتا ہے۔ تب تک میری بات مانو جب تک میں اﷲ اور رسول کی اطاعت کروں۔ اور جب میں اﷲ اور رسول کی نا فرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہ ہو گی۔ اب نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ اﷲ تم پر رحم فرمائے گا۔‘‘
اسامہ پیغمبر اکرم کے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ کے بیٹے تھے ،انھیں جنگ احد میں صغر سنی کی وجہ سے واپس کر دیا گیا تھا البتہ، جنگ حنین میں انھوں نے داد شجاعت دی تھی۔جب غزوۂ موتہ میں رومیوں کے ہاتھوں زید کی شہادت ہوئی تو آپ نے اسامہ کو رومیوں کی سرکوبی کے لیے بھیجے جانے والے لشکر کا امیر مقرر فرمایا۔۸ ربیع الاول ۱۱ھ کو آپ نے اپنے دست مبارک سے ان کے ہاتھ میں علم دیا۔ کچھ لوگ ایک بیس سالہ بچے کی سپہ سالاری پر مطمئن نہ تھے،ان کی چہ میگوئیوں کی خبر آں حضور کو مرض الموت میں ملی چنانچہ جس روز آپ کا بخار اترا ،آپ نے منبر پر چڑھ کر فرمایا: ’’اسامہ امارت کا اہل ہے اور اس کا باپ بھی امارت کے لائق تھا۔‘‘ آپ کی وفات کے روز اسامہ نے کوچ کی اجازت مانگی ،آپ کو شدید ضعف تھا پھر بھی آپ نے اجازت دے دی او ر دعا بھی فرمائی۔پھر جب جرف کے مقام پر اسامہ کو سانحۂ وفات کی خبر ملی تو وہ لوٹ آئے اور آپ کوغسل دینے میں شریک ہوئے۔ بیعت مکمل ہونے کے بعد ابو بکر نے پہلا حکم یہ جاری کیا کہ اسامہ کا لشکر روانہ کیا جائے تو معترضین پھر حرکت میں آ گئے ۔انھوں نے ابو بکر سے کہا کہ ہر طرف بغاوت کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور یہ حالات مسلمانوں کے لیے پر خطر ہیں۔لشکر روانہ نہ کریں یا اسامہ کی بجائے ایسے شخص کو سپہ سالار مقرر کریں جو عمر میں بڑاہو۔ابو بکر نے ثابت قدمی سے فرمایا: ’’اگر شکاری پرندے مجھے اٹھا کر لے جائیں ،تمام عرب مجھ پر پل پڑے تو بھی میں رسو ل اﷲ کا حکم پورا کرنے سے پہلے کوئی کام نہ کروں گا۔‘‘ عمر نے اس سلسلے میں بات کی تو ان کو جواب دیا: ’’اے ابن خطاب، اسامہ کو رسول اﷲ نے امیر مقرر فرمایا ہے اور تم کہتے ہو،میں اسے اس کے عہدے سے ہٹا دوں۔‘‘پھر انھوں نے حکم دیا کہ مدینہ کا جو شخص بھی اس لشکر میں شامل تھا پیچھے نہ رہے ،وہ جرف جا کر لشکر میں مل جائے۔‘‘وہ خود وہاں پہنچے اور لشکر کو روانہ کیا۔اسامہ گھوڑے پر تھے اور ابو بکر پیدل چل رہے تھے۔انھوں نے کہا کہ اے خلیفۂ رسول اﷲ، آپ بھی سوار ہو جائیے۔ابو بکر نے جواب دیا: کیا ہوا اگر ایک گھڑی میں نے اپنے پاؤں اﷲ کی راہ میں غبار آلود کر لیے ؟‘‘انھوں نے اسامہ سے درخواست کی کہ اپنے ایک سپاہی عمر کو میری معاونت کے لیے چھوڑ جاؤ۔آخر میں فوج کو یہ نصیحتیں فرمائیں: خیانت نہ کرنا،چوری اور بد عہدی نہ کرنا، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا ،مقتولوں کے اعضا نہ کاٹنا، کھجور اور پھل والے درخت نہ کاٹنا،کھانا اﷲ کا نام لے کر کھانا۔ اﷲ تمھیں شکست اور وباسے محفوظ رکھے ۔‘‘ اسامہ نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور ابو بکر کی ہدایات پر پوری طرح عمل کیا۔ آہل اور قضاعہ قبائل پر حملوں میں بے شمار رومی مارے گئے اور بہت سا مال غنیمت ہاتھ آیا۔ اسامہ نے سرحدی جھڑپوں پر اکتفا کیا اوروہ اندرون روم میں گھسے بغیر واپس آگئے، اس لیے کہ موجودہ زمانے کی اصطلاح کے مطابق یہ مہم چڑھائی نہیں، بلکہ ایک تادیبی کارروائی تھی ۔لشکر واپس آیاتو ابو بکر اور کبار صحابہ نے مدینہ سے باہر نکل کر اس کا استقبال کیا۔ جیش اسامہ کے رعب اور دبدبے کا یہ اثر ہوا کہ مرتدین مدینہ پر فوری حملہ کرنے سے باز رہے۔
پیغمبر علیہ السلام کی وفات کے بعد عربوں کی بدوی فطرت بیدار ہو گئی۔ وہ مرکز مدینہ سے آزاد ہو کر ارتداد کی تیاریاں کرنے لگے۔زیادہ دن نہ گزرے کہ ابو بکرکو امرا کی طرف سے اطلاعات ملنے لگیں کہ باغیوں کے ہاتھوں سلطنت کا امن خطرے میں ہے ۔بعض قبائل تو صریح مرتد ہو گئے، جبکہ دوسروں نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ مدینہ کے نواح میں بسنے والے قبیلوں عبس، ذبیان، بنو کنانہ، غطفان اور فزارہ نے موقف اختیار کیاکہ زکوٰۃ جزیہ کے مانند ہے۔ یہ خاص نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے تھی ،اہل مدینہ اسے طلب کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ وہ خلافت ابو بکر کو بھی نہ مانتے تھے۔ ان کاکہنا تھا کہ جیسے رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبول اسلام کے بعد یمن کے عامل بازان کو اس کے عہدے پر برقرار رکھا تھا، ہم کو بھی اپنے علاقے میں خود مختاری دی جائے۔ ان حالات میں جبکہ مدینہ کے بیش تر افراد جیش اسامہ کے ساتھ جا چکے تھے ،ابو بکر کی شوریٰ میںیہ رائے اکثریت اختیار کر گئی کہ منکرین زکوٰۃ سے جنگ نہ کی جائے۔عمر نے کہا: ’’ہم ان لوگوں سے کیسے لڑ سکتے ہیں جو کلمہ گو ہیں؟‘‘ابو بکر نے کہا: ’’بخدا، میں صلوٰۃ اور زکوٰۃ میں فرق کرنے والوں سے ضرور لڑوں گا۔اگر یہ مجھے ایک رسی بھی دینے سے انکار کریں جو وہ رسول اﷲ کے زمانے میں ادا کیا کرتے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔‘‘تب عمر کو یقین ہو گیا کہ ابو بکر کو جو شرح صدر عطا ہوا ہے، وہی حق ہے۔ ان پڑوسی قبائل نے فوجیں اکٹھی کر کے ابرق اور ذو القصہ کے مقامات پر پڑاؤ ڈال دیا۔وہ وفود کی شکل میں مدینہ آئے اوراداے زکوٰۃ سے مستثنیٰ کرنے کا مطالبہ کیا ، ان کی آمدکا مقصد مدینہ کی جاسوسی کرنا بھی تھا۔ابو بکر نے ان کے ارادوں کو بھانپ لیا۔ چنانچہ انھوں نے اہل مدینہ کو جمع کر کے فرمایا: ’’دشمن کو تمھاری کمزوریوں کا علم ہے ۔وہ تم سے ایک منزل۱؂ کے فاصلے پر خیمہ زن ہے۔ ہم نے اس کے شرائط ماننے سے انکار کیا ہے، اس لیے وہ تم پر ضرور حملہ کرے گا۔‘‘ تین ہی روز گزرے کہ منکرین زکوٰۃ نے مدینہ پر چڑھائی کر دی۔ مدینہ کے ناکوں پر ابو بکر کی طرف سے متعین کردہ علی،زبیر،طلحہ اور ابن مسعودنے فوراً ان کو خبر کی۔جب ان حملہ آوروں پر مسلمانوں کی جانب سے اچانک جوابی یلغار ہوئی تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے ۔مسلمان ان کے پیچھے ذو حسا تک پہنچے تووہاں موجود منکرین کے ساتھی مقابلے پر اتر آئے۔ رات بھر لڑائی کے بعد جب انھوں نے مسلمان سواروں کے اونٹوں پر کمندیں پھینکنی شروع کیں تو اونٹ بھاگ کھڑے ہوئے اور مدینہ جا کر دم لیا۔منکرین کی یہ فتح عارضی ثابت ہوئی، کیونکہ رات کے پچھلے پہرابو بکر مدینہ سے تازہ دم سپاہی لے کر میدان کارزارآن پہنچے اور سورج طلوع ہونے سے پہلے ان کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ جنگ ذو القصہ جنگ بدر سے بہت مشابہت رکھتی ہے ،اس میں بھی قلیل التعداد مسلمانوں نے بھاری اکثریت رکھنے والے دشمن کو شکست دی۔ابو بکر نے عزم وایقان کا جو مظاہرہ کیا، انھی کے شایان شان تھا، کیونکہ انھوں نے آغاز اسلام ہی سے رسول اﷲ کی کامل پیروی کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔وہ منکرین کو دو باتوں کی پیش کش کرتے ،ذلت وخواری قبول کر لویا جنگ اور جلا وطنی کے لیے تیار ہو جاؤ ۔جیش اسامہ کی واپسی کے بعدابوبکر اس لشکر کی خود قیادت کرتے ہوئے ابرق پہنچے، جہاں بنو عبس، بنو بکراور ذبیان کے ساتھ ان کا آخری معرکہ ہوا۔انھوں نے ذبیان کو ہمیشہ کے لیے ابرق سے نکالنے کا اعلان کیا اور وہاں کی اراضی اور چراگاہیں مسلمانوں میں تقسیم کر دیں ۔مذکورہ منکر زکوٰۃ قبیلے شکست کے بعد بھی باز نہ آئے ،ان کی قبائلی عصبیت نے انھیں حقائق ماننے سے باز رکھا۔ انھوں نے اپنی شرم ناک شکست کا بدلہ اپنے زیر دسترس مسلمانوں کو قتل کر کے لیا اور خود بنو اسد کے مدعی نبوت طلیحہ بن خویلد سے جا ملے۔ منکرین زکوٰۃ کی شکست کے بعد لوگ زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے جوق در جوق مدینہ آنے لگے۔ سب سے پہلے صفو ان تمیمی اور عدی بن حاتم طائی آئے۔
بنو اسد میں طلیحہ ،بنو تمیم میں سجاح اور بنو یمامہ میں مسیلمہ کذاب نے دعواے نبوت کیا۔ لقیط بن مالک عمان میں اور اسود عنسی یمن میں شورش کے ذمہ دار تھے۔اسود نامی کاہن جنوبی یمن میں رہتا تھا،شعبدہ بازی کرتے کرتے ا س نے نبوت کا دعویٰ کردیا اور اپنا لقب رحمان الیمن رکھا۔وہ یمن ،حضرموت ،بحرین اور عد ن پرقابض ہو گیا۔ اس کا نعرہ تھا:’یمن یمنیوں کا ہے ، اجنبیوں کو نکال دو‘۔ تب رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم حیات تھے اور رومیوں کے خلاف لشکر اسامہ کی تیا ری میں مصروف تھے،آپ نے اسود کے خلاف کارروائی کو موخر فرمایا ،اسی دوران میں آپ کا انتقال ہوا اور اسود کو اس کے قریبی ساتھیوں ہی نے قتل کر دیا۔یہ پہلی خوش خبری تھی جو خلیفۂ اول ابو بکر کو ملی۔مسیلمہ نے آں حضرت کو خط بھیجا تھاکہ نصف زمین ہماری ہے اور نصف قریش کی۔یہ لوگ اسلام میں رسوخ نہ رکھتے تھے،شام وایران سے متصل ہونے کی وجہ سے ان میں بت پرستی اور آتش پرستی کے اثرات تھے پھرانھیں خود مختاری کا شوق بھی تھا، اہل یمن تو حجازیوں سے پہلے سے نفرت کرتے تھے ۔ مکہ کے عامل عتاب بن اسید لوگوں کے اسلام سے منحرف ہونے کا اندیشہ کرتے ہوئے روپوش ہو گئے، جبکہ وہاں کے باشندوں کو سہیل بن عمرو نے مرتد ہونے سے روکا۔ اسی طرح طائف کا قبیلہ بنو ثقیف مرتد ہوناچاہتا تھا ، وہاں کے گورنر عثمان بن ابو العاص نے ان کو باز رکھا۔
مرتدین سے جنگ کرنے سے پہلے ابو بکر نے ان کو خطوط ارسال کیے ۔انھوں نے لکھا: ’’رسول اﷲبشارت و انذار کا کام مکمل کر چکے تو انھیں اﷲ نے اپنے پاس بلا لیا۔اب تم میں سے جو لوگ جہالت کے باعث اسلام سے پھر گئے ہیں، اگر وہ اپنی دین مخالف سر گرمیوں سے باز آگئے تو ان کی جان بخشی کر دی جائے گی۔جو آماد�ۂ فساد ہوں گے، ان سے جنگ کی جائے گی، ان کو بری طرح قتل کر کے ان کی عورتوں اور بچوں کوقیدی بنا لیا جائے گا۔ان کا اذان دیناان کے اسلام کی علامت سمجھا جائے گا۔‘‘بہت سے مرتدین نے اسلام کی طرف رجوع کر لیا۔ اب ارتداد پر قائم سرکشوں کی سرکوبی کا مرحلہ آیا۔اسامہ کا لشکر اچھی طرح آرام کر چکاتو ابوبکر اسے لے کرمدینہ سے نکلے ۔ذوالقصہ پہنچ کر انھوں نے لشکر کو گیارہ حصوں میں تقسیم کیا ،ہر حصے کوالگ پرچم دے کر الگ ا میر مقرر کیا۔ ابو بکر نے بنو اسد کے طلیحہ بن خویلد کی طرف خالد بن ولید کو،بنو حنیفہ کے مسیلمہ کی طرف عکرمہ بن ابو جہل کو،یمامہ او رقضاعہ کی طرف شرجیل بن حسنہ کو، اسود عنسی ‘عمرو بن معدی کرب اور قیس بن مکشوح کی طرف مہاجر بن ابو امیہ کو ، تہامہ کی طرف سوید بن مقرون کو،حطم بن ضبیعہ اور قیس بن ثعلبہ کی طرف علا بن حضرمی کو،عمان کے لقیط بن مالک کی طرف حذیفہ بن محصن کو ،مہرہ کی طرف عرفجہ بن ہرثمہ کو،قضاعہ کی طرف عمرو بن عاص کو، بنو سلیم اور بنو ہوازن کی طرف معن بن حاجز کواور شام کی سرحدوں کی طرف خالد بن سعید کو بھیجا۔ انھوں نے دستوں کو ہدایت کی کہ جن قبیلوں پر ان کا گزر ہو ،وہاں کے مسلمانوں کو لشکر میں شامل کرتے جائیں ،کوئی سپہ سالار فتح حاصل کرنے کے بعد مرکز مدینہ کے حکم کے بغیر اپنی پوزیشن نہ چھوڑے۔
عبس ،ذبیان،بنو بکر ،بنوطی، غطفان اور بنو سلیم مدعی نبوت طلیحہ سے جا ملے تھے ،یہ سب بزاخہ میں اکٹھے ہو گئے۔ طلیحہ نے دعویٰ کیا کہ محمد کی طرح مجھ پر بھی وحی آتی ہے ۔اس نے کچھ مقفیٰ عبارتیں بنا کر لوگوں کو سنائیں اور لوگوں کو رکوع وسجود سے منع کر دیا۔ادھر عدی بن حاتم طائی زکوٰۃ ادا کر کے مدینہ سے لوٹے اور اپنے قبیلے طے کو اسلام کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا ۔قبیلہ والے مان گئے تو عدی نے سنح پہنچ کر خالد بن ولید کو تین دن کے لیے بزاخہ پر حملہ کرنے سے روکا۔اس دوران میں عدی نے طلیحہ کے لشکر میں موجود اپنے پانچ سو آدمیوں کو واپس بلا لیا۔خدا کی قدرت کہ طلیحہ کو شبہ تک نہ ہوااور یہ آدمی لشکر خالد کے سپاہی بن گئے۔اب خالد کا ارادہ انسر جا کر قبیلۂ جدیلہ سے جنگ کرنے کا تھا۔عدی نے کہا: اگر طی قبیلہ پرندہ ہوتا توجدیلہ ا س کا پر بنتا۔کچھ روز مہلت دے کر مجھے جدیلہ جانے دیں، شایداﷲاس قبیلے کو بھی ارتداد سے بچا لے۔ چنانچہ ایسا ہی ہواور جدیلہ کے ایک ہزار سوار مرتدین کے جتھے سے ٹوٹ کر جیش خالد میں شامل ہو گئے۔ادھر بزاخہ میں موجود طلیحہ اب بھی مقابلے پر تیار تھا، کیونکہ ابو بکر کا جانی دشمن عیینہ بن حصن سات سو فزاری لیے اس کے ساتھ تھا۔ اس نے سپہ سالاری سنبھالی جب کہ طلیحہ خیمے میں کمبل اوڑھے وحی کا انتظار کرتا رہا۔ اسلامی لشکر کا دباؤ بڑھا اور جھوٹے نبی کی وحی میں تاخیر ہوئی توعیینہ نے اپنی قوم کو پکارا: اے بنو فزارہ! طلیحہ کذاب ہے ،بھاگ کر اپنی جانیں بچاؤ۔باقی لشکر طلیحہ کے گرد اکٹھا ہو گیا،اس نے اپنے لیے ایک گھوڑے اور اپنی بیوی نوارکے لیے اونٹ کا انتظام کیا ہوا تھا۔یہ کہہ کر وہ بھاگ کھڑا ہوا کہ تم بھی اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جانیں بچاؤ۔وہ شام پہنچا اور بنو کلب میں سکونت اختیار کر لی۔ اس کے اکثر ساتھی مسلمان ہو گئے تو وہ بھی اسلام لے آیا، عمر کی خلافت میں اسے بیعت کا موقع ملا۔خالد بن ولید ایک ماہ بزاخہ میں مقیم رہے ۔انھوں نے مسلمانوں کا قتل کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایااور قرہ بن ہبیرہ، فجاہ سلمیٰ اور ابو شجرہ جیسے مرتدوں کو بیڑیاں پہنا کر مدینہ بھیج دیا۔ابو بکر نے فجاہ کو جلانے کا حکم دیا، کیونکہ اس نے افواج اسلامی کے ہتھیار مسلمانوں ہی کے خلاف استعمال کیے تھے،باقی لوگوں کو انھوں نے معاف کر دیا۔ بزاخہ کے ہم سایہ میں رہنے والے بنو عامر بھی مسلمان ہو گئے جبکہ طلیحہ کا ساتھ دینے والے غطفان، طی، ہوازن اور سلیم کے کچھ لوگ ام زمل سلمیٰ بنت مالک کے پاس جا پہنچے۔یہ بنو فزارہ کے سردار عیینہ کی چچی ام قرفہ فاطمہ بنت بدر کی بیٹی تھی۔ام قرفہ کو خود آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قتل کرایا تھا ،یہ لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتی تھی۔ام زمل لونڈی بن کر عائشہ کے حصے میں آئی جنھوں نے اسے آزاد کردیا۔آزادی کے بعد اس نے اپنی ماں کے قتل کا بدلہ لینا اپنا مقصد بنا لیا۔مسلمانوں کی فوج کا ام زمل کی فوج سے ٹکراؤ ہوا،پورے سو آدمیوں کو جہنم واصل کرنے کے بعد وہ ام زمل تک پہنچے ۔اس کے خاتمے کے بعد اس کی فوج بھی تتر بتر ہو گئی۔
شمال مشرقی عرب کی بغاوتوں کو فرو کرنے کے بعد ابو بکر جنوبی عرب کی طرف متوجہ ہوئے جہاں بنو تمیم مقیم تھے۔ یہ لوگ قبر پرست تھے ،ان میں سے کچھ عیسائی ہو چکے تھے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں اسی قبیلے نے سب سے پہلے جزیہ دینے سے انکار کیا۔آپ نے عیینہ بن حصن کو ان کے پاس بھیجا،وہ ان کو مطیع کر کے مدینہ لے آئے۔اس موقع پر بنو تمیم مسلمان ہو گئے،آپ نے اس قبیلے کی مختلف شاخوں کے لیے الگ الگ امیر مقرر فرمائے۔ مالک بن نویرہ بنو یر بوع کاسردار تھا،آپ کی وفات کے بعداس نے ابو بکر کی خلافت ماننے او رآپ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔سجاح بنت حارث بھی بنو یربوع سے تعلق رکھتی تھی ،اس کی شادی اپنے ننھیال تغلب میں ہوئی تھی۔یہ بہت ذہین تھی ،کہانت کے ساتھ اسے لوگوں کی رہبری کرنا آتا تھا۔اسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی تو اس نے نواحی قبائل کا دورہ کیا اور انھیں مدینہ پر ہلا بولنے کے لیے آمادہ کرنے لگی ۔اس کا خیال تھا، وہ نبوت کا دعویٰ کرے گی تو تمام بنو تمیم اس پر ایمان لے آئیں گے اور وہ مدینہ پر دھاوا بول دے گی ۔کہا جاتا ہے کہ ایرانی عمال اس کی پشت پر تھے۔ ان کی منصوبہ بندی کے مطابق یہ عرب میں فتنہ وفساد کی آگ بھڑک اٹھنے تک مقیم رہی اور مقصد پورا ہونے کے بعدعراق واپس چلی آئی ۔ مالک بن نویرہ نے اسے مدینہ پر حملہ کرنے سے باز کیا۔ پھر وکیع بھی سجاح سے مل گیا اور ان تینوں نے اپنے ہی قبیلے بنو تمیم کے دوسرے سرداروں پر حملہ کر دیا۔جلد ان دونوں کومحسوس ہوا کہ انھوں نے اس عورت کا ساتھ دے کر بڑی غلطی کی ہے۔سجاح تمیم سے نا مراد پلٹی،مدینہ کو جاتے ہوئے نباج پہنچ کر اوس بن خزیمہ سے شکست کھائی تو یمامہ آن پہنچی۔یہاں کے نبی مسیلمہ کو اپنی نبوت کی فکر پڑ گئی تواس نے دونوں نبوتوں کو جمع کرنے کے لیے سجاح کو دام میں پھنسایا او راس سے شادی کر لی۔مہر مسیلمہ کی زرعی آمدن کا نصف مقرر ہوا، سجاح کے لیے عشا اور فجر کی نمازوں میں تخفیف کر دی گئی۔ادھر مالک بن نویرہ اکیلا رہ گیا تھا، کیونکہ اس کا دست راست وکیع مسلمان ہوکر زکوٰۃ ادا کر چکا تھا۔خالد بن ولید بنو اسد و غطفان کی سرکوبی سے فارغ ہو چکے تھے ،انھوں نے تمیم کا رخ کرنے کا ارادہ کیا ۔انصار پہلے تو بزاخہ میں رہ گئے پھر خالد کے ساتھ آن ملے۔مالک نے اپنی کم زور پوزیشن کا جائزہ لیا تو اپنی قوم کو منتشر کر دیااور خود روپوش ہو گیا۔ خالد کا بھیجا ہوا ایک دستہ مالک کو گرفتار کر لایا۔مالک نے اسلام کا اقرار کیا اور مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھی، لیکن زکوٰۃ دینے سے انکار کیا، چنانچہ خالد نے ا س کو قتل کرا دیا۔ان کا مالک کو قتل کرانا بہت نزاع کا باعث بنا ۔ابو قتادہ انصاری جو مالک کو گرفتار کرنے والوں میں شامل تھے، کہتے ہیں کہ اس نے زکوٰۃ کا اقرار بھی کیا تھا،دوسرے راوی اس اقرار کو نہیں مانتے ۔پھر جب خالد نے اسلامی احکام اور مروج جاہلی رسوم، دونوں کے علی الرغم مالک کی بیوہ لیلیٰ سے اس کی عدت گزرنے سے پہلے ہی شادی کر لی تو ان پر الزام لگا کہ انھوں نے اس خوب رو عورت سے شادی کی خاطر اس کے شوہر کو مروایا۔ابو قتادہ تو ا س قدر ناراض ہوئے کہ یہ قسم کھا کر مدینہ لوٹ گئے کہ آیندہ کبھی خالد کے جھنڈے تلے نہ لڑیں گے۔انھوں نے ابوبکر کو یہ واقعہ سنایا تو انھوں نے توجہ نہ دی پھر وہ عمر کے پاس گئے۔ عمر نے ابو بکر کومشورہ دیا ، اس الزام کی بنا پر خالد کو معزول کر دیا جائے۔ان کو گوارا نہ ہوا کہ ایک لغزش کی وجہ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقرر کردہ قائد کو معزول کر دیں، چنانچہ ان کا جواب تھا: ’’میں اس تلوار کو نیام میں نہیں ڈال سکتا جسے اﷲ نے کافروں پر مسلط کیا ہو۔‘‘خالد مدینہ پہنچ کر ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس واقعے کی تفصیلات ان کے گوش گزار کیں۔ابوبکر نے مالک کے قتل کے متعلق ان کی معذرت قبول کی، لیکن اس کی بیوی سے شادی پر ناراضی کا اظہار کیا اور اسے طلاق دینے کا حکم دیا۔ابو بکر کا طرز عمل خود نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس عمل کی پیروی تھا جب خالد نے بنو خزیمہ کے قیدیوں کو قتل کرنے میں جلدی کی تھی۔آپ نے مقتولوں کی دیت ادا فرمائی، بنو خزیمہ کا ایک ایک برتن واپس کیا ،اﷲ کے حضور خالد کے عمل کی برأتپیش کی، لیکن خالد کو معزول نہ فرمایا۔ مالک بن نویرہ کے قتل کا معاملہ طے کرنے کے بعدابوبکر نے خالد کو یمامہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا جہاں مسیلمہ بنو حنیفہ کے چالیس ہزارجنگ جو اشخاص کے ساتھ مقیم تھا،وہ بطاح پہنچے اور ابوبکر کی کمک کا انتظار کرنے لگے۔
مطالعۂ مزید:الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)،الامامہ والسیاسہ(ابن قتیبہ)،تاریخ الامم والملوک(طبری)، البدایہ والنہایہ(ابن کثیر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)،اردو دائرۂ معارف اسلامیہ(پنجاب یونیورسٹی) ، الصدیق ابو بکر (محمد حسین ہیکل) ، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام(جواد علی)،عبقرےۃ الصدیق (عباس محمود العقاد)۔
[باقی]

۱؂ روایتی ذرائع سفر کے ذ ریعے سے ایک دن کا سفر۔

-----------------------------

 

بشکریہ ڈاکٹر وسیم مفتی

تحریر/اشاعت مئی 2006
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Sep 19, 2016
3361 View