ڈپریشن اور حقیقی مسلمان

ڈپریشن اور حقیقی مسلمان

 

افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں ڈپریشن کا مرض بہت عام ہوتا جا رہا ہے ۔ تنگ دست ، خوش حال ، ان پڑھ ، تعلیم یافتہ حتیٰ کہ دینی فہم اور مزاج رکھنے والے بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں ۔ڈپریشن ہی کی وجہ سے دنیا میں روزانہ کئی افراد خودکشی اور خود سوزی جیسی حرکت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ایک مطالعے کے مطابق ۲۰۱۰ء تک ڈپریشن دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے گا ۔
ڈپریشن کیا ہے ؟
زندگی سے بے زار رہنا ، علیحدگی پسند ہو جانا ، دیکھنے میں بیمار لگنا ، مستقل بے چین اور افسردہ رہنا ، ڈپریشن کے مریض کی علامات ہیں ۔ ایسا مریض حسد ، خوف ، بزدلی ، قنوطیت ، سہل انگاری اور بے اعتمادی کا شکار ہو جاتا ہے ۔
عام اصطلاح میں ڈپریشن کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم کیمیائی ہے اور دوسری سماجی۔ کیمیائی قسم میں انسان کے اندر کیمیائی عناصر کا توازن بگڑ جاتا ہے ۔ ایسے لوگوں کو سائیکاٹرسٹ کے پاس لے جانا پڑتا ہے ، جو اس کا علاج دوا سے کرتا ہے ۔ اور سماجی قسم میں انسان کے گھریلو ، کاروباری اور معاشرتی حالات میں کوئی خرابی واقع ہو جاتی ہے یعنی یہ ڈپریشن کسی پریشانی ، غم یا ناکامی کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو سائیکالوجسٹ کے پاس لے جایا جاتا ہے ،جو اس کا علاج گفتگو سے کرتا ہے ۔
سماجی قسم کے پہلو سے یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ حقیقی مسلمان کبھی ڈپریشن کا شکار نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ مسلمان کا ایمان ہے کہ اس کی زندگی اللہ کی طرف سے ایک آزمایش ہے ،ا س کا مقصدِ حیات اللہ کی پرستش اور اطاعت ہے اور اس کی زندگی میں پریشانیاں اس کی آزمایش کے لیے آتی ہیں ۔
فرمانِ خداوندی ہے :

’’اور ہم تمھیں دکھ اور سکھ سے آزما رہے ہیں ، پرکھنے کے لیے اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘(الانبیا۲۱: ۳۵)

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے مصائب کی شدت کبھی انسان کے تحمل کی حد سے باہر نہیں ہوتی ۔ قانونِ الہٰی ہے:

’’ہم کسی جان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے ۔‘‘ (الانعام ۶: ۱۵۲)

چنانچہ ، مسلمان مصائب کو زندگی کا لازمی حصہ سمجھتا ہے اور مصائب سے گھبرا کر زندگی سے بیزار ہونے کے بجائے ان سے نجات پانے کے لیے پوری اور مسلسل کوشش کرتا ہے ۔ مسلمان جانتا ہے کہ اس کی دنیوی زندگی کی پریشانیاں عارضی ہیں اگر وہ ناساز گار حالات میں بھی اپنے ایمان اور اعمالِ صالحہ پر قائم رہے گا تو مرنے کے بعد ہر غم سے پاک انتہائی پرمسرت اُس ابدی زندگی کا حق دار ہو گا جس کی بشارت عالم کے پروردگار نے دی ہے :

’’بے شک ہم تمھارا امتحان کریں گے کسی قدر ، خوف ، بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور ان ثابت قدموں کو خوش خبری سنا دو جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی عنایتیں ہیں اور حمت ، اور یہی لوگ راہ یاب ہونے والے ہیں ۔‘‘ (البقرۃ : ۱۵۵ تا ۱۵۷)

’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے ، اس میں شبہ نہیں کہ وہ بہترین خلائق ہیں ۔ ان کا صلہ ، ان کے پروردگار کے پاس ، ابد کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی ۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے ۔ یہ صلہ ہے ان کے لیے ، جو اپنے پروردگار سے (بن دیکھے) ڈرے ۔‘‘(البینہ ۹۸: ۷۔۸)

حضرت ایوب علیہ السلام مال ، اولاد اور خدام سے محروم ہونے کے علاوہ ایک بہت تکلیف دہ جسمانی آزار میں بھی مبتلا ہوگئے ۔ بائبل (ایوب) میں ہے کہ ایوب علیہ السلام کے تلوے سے سر تک سارے جسم میں جلتے ہوئے پھوڑے نکل آئے ۔ وہ ایک ٹھیکرا لے کر اپنا جسم کھجاتے اور راکھ پر بیٹھے رہتے تھے ۔ لیکن اس کے باوجود آپ ایمان کی چٹان ثابت ہوئے ۔ خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کو مشرکینِ مکہ نے آگ کے انگاروں پر لٹایا ، یہاں تک ان کی چربی پگھلنے سے آگ بجھ گئی ، لیکن وہ ایمان پر جمے رہے ۔ بلال رضی اللہ عنہ کو لوہے کی زرہ پہنا کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا کر دیا گیا ، پھر تپتی ریت پر لٹا کر گھسیٹا گیا ،مگر وہ احد احد ہی کرتے رہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو سختیء ایام کو عبادتِ الہٰی کا ذریعہ بنا لیتے تھے۔
حدیثِ نبوی ہے :

’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا : ’’تمھارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے ؟‘‘ میں نے کہا : ’’نہیں‘‘تو آپ نے فرمایا : ’’پھر میں روزے سے ہوں۔،،‘‘(مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب الصوم)

مسلمان کی زندگی میں کیسی ہی ناکامیاں کیوں نہ آئیں اور ظاہری اسباب کیسے ہی نامساعد کیوں نہ ہوں ، وہ کبھی ناامید نہیں ہوتا ۔ وہ اجاڑ موسم میں بہار دیکھتا ہے ،تپتے صحرا میں آبشار دیکھتا ہے ،سوکھی ہوئی شاخ میں شجرِ سایہ دار دیکھتا ہے ، اس لیے کہ اس کا ایمان ہے کہ :

’’اللہ کی رحمت سے مایوس تو بس کافر ہی ہوتے ہیں ۔‘‘ (یوسف ۱۲: ۸۷)

مسلمان پر کیسی ہی آفت کیوں نہ ٹوٹے ، اس پر کبھی دیوانگی طاری نہیں ہوتی ۔ اس لیے کہ اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

’’جو شخص اپنے گالوں پر تھپڑمارے، گریبان پھاڑے اورکفر کی باتیں بکے ،وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔‘‘(بخاری ، کتاب الجنائز)

مسلمان اس رمز سے آشنا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں سب کچھ اللہ ہی کے اذن اور ارادے سے ہوتا ہے اور اللہ کا کوئی ارادہ خیر اور حکمت سے خالی نہیں ہوتا ۔ اس لیے مسلمان ہر زحمت میں رحمت دیکھتا ہے اور ہر زخم میں مرہم پالیتا ہے ۔ اگراس کی کشتی کا تختہ ٹوٹ جاتا ہے اور وہ عیب دار ہو جاتی ہے تو وہ یہ سوچ کر پریشان نہیں ہوتا کہ ممکن ہے یہ واقعہ اس کی پوری کشتی کو بچانے کے لیے رونما ہوا ہو ۔ اگر وہ اپنے جوان بیٹے کی موت کے صدمے سے دوچار ہوتا ہے تو یہ سوچ کر اعصابی تناؤ کا شکار نہیں ہوتا کہ ممکن ہے اگر یہ لڑکا زندہ رہتا تو اس کے لیے موت سے شدید تر صدمات کا باعث بنتا ۔ اگر اس کے سامنے اہلِ باطل کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے تووہ یہ سوچ کر شکستہ دل نہیں ہوتا کہ ممکن ہے کل اس میں اہلِ حق ہی کا کوئی فائدہ نکل آئے ۔
اب اس مسئلے کے حوالے سے نماز پر غور کیجیے ۔مسلمان، چونکہ ، نماز کا پابند ہوتا ہے ، اس لیے وہ ہر وقت پرسکون رہتا ہے ۔رنج و غم دراصل اللہ سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ اگر اللہ کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کیا جائے تو پریشانی آ تو سکتی ہے مگر اس کے اعصاب پر سوار نہیں ہو سکتی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غارِ ثور میں ایک خطرناک صورتِ حال میں اپنے پریشان ساتھی سے فرمایا تھا :

’’تم غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘ (التوبہ ۹: ۴۰)

غور کیجیے ، اہلِ جنت کو خدا کا قرب حاصل ہو گا ۔ جنت میں ان کی کیفیت یہ ہو گی :

’’ان کے لیے نہ کوئی غم ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔‘‘ (یونس ۱۰: ۶۲)

دنیا میں خدا سے قربت کیسے حاصل ہو ؟ اس کا ذریعہ نماز ہے ۔ سورۂ علق میں ہے :

’’اور سجدہ کر اور قریب ہوجا۔‘‘ (۹۶ :۱۹)

سورۂ بقرہ سے معلوم ہوتا ہے :

’’ثابت قدم رہو اور نماز سے مدد چاہو۔‘‘ (البقرہ۲: ۱۵۳)

اور سورۂ اعراف سے واضح ہوتا ہے :

’’اللہ سے مدد چاہو اور ثابت قدم رہو ۔‘‘ (۷ : ۱۲۸)

بقرہ اور اعراف کی ان دونوں آیتوں پر تدبر کیجیے : پہلی آیت میں ’صلوٰۃ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور دوسری آیت میں بالکل اسی جگہ پر ’اللہ‘ کا لفظ آیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے نماز خدا سے اس قدر قریب ہے کہ وہ دنیا میں گویا ہمارے لیے خدا کی قائم مقام ہے ۔ جب ہم ہر بات اور ہر کام سے الگ ہو کر نماز میں کھڑے ہو جاتے ہیں تو گویا اپنے اس رب کی پناہ میں چلے جاتے ہیں ، اس کا قرب حاصل کر لیتے ہیں ، جس کا نام سلام (سُکھ)ہے۔ اسی پہلو سے سورۂ مزمل کی حسبِ ذیل آیت پر غور کیجیے جو اس بات کی تائید کرتی ہے :

’’اور اپنے رب کے نام کا ذکر کر اور اس کی طرف گوشہ گیر ہو جا۔‘‘ ( ۷۳ :۸)

اسی وجہ سے حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں فرمایا گیا ہے کہ :

’’تم میں سے جب کوئی نماز پڑھتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے ۔‘‘(بخاری ، کتاب مواقیت الصلوٰۃ )

اب اطمینانِ قلب کی جہت سے نماز کے بارے میں اِن فرامینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیے:

’’اے بلال ،نماز کے لیے تکبیر کہو اور ہم کو اس کے ذریعے سے راحت دو ۔‘‘(سنن ابی داؤد ، کتاب الادب )

’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے ۔‘‘ (سنن النسائی ، کتاب عشرۃ النسا)

اس زاویے سے سوچیے تو معلوم ہوتا ہے کہ نماز ، ذکرِ الہٰی اور ذکرِ الہٰیاطمینانِقلب کا ذریعہ ہے ۔ دیکھ لیجیے ، سورۂ رعد میں ہے :

’’سن لو کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو طمانیت حاصل ہوتی ہے ۔‘‘ (۱۳ : ۲۸)

نماز پر ایک اور پہلو سے غور کریں تو اسے ’’مشکل کشا ہے ‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے ۔ مکہ کی پرمصائب زندگی میں جب مخالفینِ اسلام کی دل آزاریوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم افسردہ ہوتے تو آپ کو صبر و استقامت کی تلقین کی جاتی اور صبرو استقامت حاصل کرنے کے لیے نماز کا حکم دیا جاتا ۔
سورۂ ق میں ہے :

’’تو جو کچھ یہ کہتے ہیں کہ اس پر صبر کرو اور اپنے رب کی تسبیح کرتے رہو ، اس کی حمد کے ساتھ ، سورج کے طلوع اور اس کے غروب سے پہلے اور رات میں بھی اس کی تسبیح کرو اور ستاروں کے ڈھلنے کے بعد بھی ۔ ‘‘( ۵۰: ۳۹، ۴۰)

سورۂ معارج میں ہے :

’’انسان بے صبرا پیدا کیا گیا ہے ۔ جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ گھبرا جانے والا ہے اور جب اس کو کشادگی حاصل ہوتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے ۔ صرف نمازی اس سے مستثنیٰ ہیں ۔ وہ جو نمازوں کا التزام رکھتے ہیں ۔‘‘( ۷۰: ۱۹ ۔ ۲۳)

چونکہ حقیقی مسلمان زندگی کے فلسفے سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے ۔ وہ آزمایش کی خدائی اسکیم سے پوری طرح واقف ہوتا ہے ۔ اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دکھ اس زندگی کا لازمی حصہ ہیں ۔ وہ اس سے اچھی طرح باخبر ہوتا ہے کہ ان عارضی دکھوں پر صبر و استقامت کے نتیجے میں اس کے لیے ابدی راحت کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ لہٰذا وہ مشکل ترین اور حوصلہ شکن حالات میں بھی خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا ۔ اس لیے یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر کوئی مسلمان سماجی حالات کی خرابی کے باعث ڈپریشن میں مبتلا ہے ، زندگی سے بیزار ہے ، مستقل افسردہ رہتا ہے ، دیکھنے میں ہر وقت بیمار لگتا ہے ، حسد ، خوف اور بزدلی کا شکار ہے ، قنوطیت ، سہل انگاری اور بے اعتمادی میں مبتلا ہے تو یقینااس کی مسلمانیت میں کوئی کھوٹ ہے ،ورنہ یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص مسلمان ہو اور ڈپریشن کا شکار ہو جائے ۔ مسلمان کا معاملہ تو یہ ہے کہ:

 

 

خزاں کی پشت پہ لکھے بہار کا قصہ
وہ غم زدہ ہے ،مگر خوش قیاس کتنا ہے

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت مارچ 2001
Uploaded on : Sep 22, 2016
3004 View