تحقیقات ہونی چاہییں کہ ۔۔۔

تحقیقات ہونی چاہییں کہ ۔۔۔

 

۳۱ مارچ ۲۰۰۱ کو پاک پتن میں بابا فرید گنج شکر کے عرس کے پہلے دن زائرین دربار کے شمالی دروازے کی سیڑھیوں پر بہشتی دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے ۔ اچانک پیچھے سے سیکڑوں افراد کا ریلا آیا جس سے ایسی بھگڈر مچی کہ شدید گرمی ، حبس اور پیروں تلے کچلے جانے کے باعث ۶۰ افراد ہلاک اور ۱۰۰ سے زائد زخمی ہو گئے ۔ زخمیوں کی چیخ پکار کے باوجود دروازہ نہ کھولا گیا اور لوگوں نے تڑپ تڑپ کر جانیں دے دیں ۔
چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف ، گورنر پنجاب جنرل (ر) محمد صفدر نے اپنے بیانات میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین سے تعزیت کی اور دلی رنج و غم کا اظہار کیا ۔ گورنر پنجاب نے حادثے کی اطلاع ملتے ہی ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی پاک پتن کو ہدایت کی وہ موقع پر پہنچ کر امدادی کارروائیوں کی ذاتی طور پر نگرانی کریں اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچا کر علاج معالجہ کی بہترین سہولیات کی بلامعاوضہ فراہمی کو یقینی بنائیں ۔
پاک پتن کے شہریوں کی بڑی تعداد اور انجمنِ تاجران نے اس موقع پر احتجاجی جلوس نکالا ، مظاہرین نے ٹائر جلائے ، انتظامیہ اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی ۔ پورے شہر میں دکانیں بند کر ا دی گئیں ۔ یوں شہر میں مکمل ہڑتال رہی ۔ جلوس انتہائی مشتعل تھا ۔ حالات کنٹرول سے باہر ہونے ہی والے تھے کہ اچانک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج خود موقع پر پہنچ گئے اور مظاہرین کو سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی جس سے جلوس منتشر ہو گیا ۔ گورنر پنجاب نے واقعہ کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس الم ناک واقعہ کی منصفانہ تحقیقات کے بعد ذمہ دار عناصر کو قرار واقعی سزا دی جائے گی ۔
واقعی اس حادثے کی تحقیقات ہونی چاہییں ۔ انسانی پہلو سے دیکھیں تو یہ بڑا غیر معمولی حادثہ ہے ۔ تحقیقات کے نتیجے میں جو عناصر اس کے ذمہ دار نکلیں ، ان کی گرفت ہونی چاہیے اور جو اسباب اس حادثے کی بنیاد قرار پائیں ، ان کا سدِ باب ہونا چاہیے ، مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک اور پہلو سے بھی اس حادثے کی تحقیقات ہونی چاہییں ۔ اور اس پہلو سے جو عناصر اس کے ذمہ دار نکلیں ، ان کی بھی گرفت ہونی چاہیے اور جو اسباب اس کی بنیاد قرار پائیں ،ان کا بھی سد باب ہونا چاہیے ۔
جی ہاں ، تحقیقات ہونی چاہییں کہ دین تو یہ کہتا ہے کہ :انسان کو اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خدا کی عبادت کرے ۔ اس پر مکمل بھروسا کرے ۔ اس کی ہر بات کے آگے دل سے سرِ تسلیم خم کرے ۔ اُس کے سامنے رکوع و سجدہ کرے ، اُس کی حمدو ثنا کرے ، دعا و مناجات کرے ۔ روزہ رکھے ۔ زکوٰۃ دے ، انفاق کرے۔ قرضِ حسنہ دے ۔ عاجزی اختیار کرے ۔ احسان کرے ۔ توبہ کرتا رہے ۔ زحمت ملے تو صبر کرے ۔ نعمت ملے تو شکر کرے ۔ بھلائی کی نصیحت کرے ۔ بھلائی کے کاموں میں تعاون کرے ۔ ہر شخص کی خیر خواہی کرے ۔دین تقاضا کرے تو ہجرت کرے۔ تن من دھن سے نصرتِ دین کرے ۔ گھر والوں ، رشتے داروں ، ہم وطنوں کی ملامت کی پروا کیے بغیر سچ بولے ۔ ہمیشہ حق و انصاف کا ساتھ دے ۔ والدین ، بیوی بچوں ، ہمسایوں ، حکمرانوں ، یتیموں ، حاجت مندوں، بیماروں اور مہمانوں کے حقوق ادا کرے ۔ سب سے بڑھ کر خدا ورسول سے محبت کرے ۔ عہد کی پاس داری کرے ۔عفو و درگزر سے کام لے۔ اعتدال اپنائے ۔ ایثار کرے ۔ زنا ، بدکاری ، بے حیائی ، بدگمانی ، فضول خرچی ، فحش کلامی ، جھوٹ ، خیانت ، غیبت ، بدعت ، منافقت ، رشوت ، بخل ، بہتان ، شراب ، سود ، حسد اور غرور سے بچے ۔
اور یہ تمام اعمال اس وقت اہمیت اختیار کریں گے جب وہ خدا پر اس کے صحیح تصور کے ساتھ ایمان رکھے ۔ اس کے حقوق اور اس کی صفات کا صحیح شعور حاصل کرے ۔ فرشتوں ، الہامی کتابوں ، آخرت اور تقدیر پر ایمان رکھے ۔ تب خدا کہتا ہے کہ تم ’’بہشتی‘‘ قرار پاؤ گے۔
جی ہاں ، تحقیقات ہونی چاہییں کہ وہ کون سے عناصر ہیں جنھوں نے دین کے تقاضوں کو پامال کر کے ، قرآن کے تقاضوں کو پامال کر کے ، سنت کے تقاضوں کو پامال کر کے لوگوں میں یہ عقیدہ پھیلا دیا کہ وہ محض ایک دروازے سے گزریں اور ’’بہشتی‘‘ بن جائیں۔
جی ہاں ، تحقیقات ہونی چاہییں کہ درسِ قرآن کی مجالس میں ، درسِ حدیث کی مجالس میں ، علماے دین کی مجالس میں ایسا ہجوم کیوں نہیں ہوتا جیسا ہجوم اس ’’بہشتی‘‘ دروازے سے گزرنے کے لیے ہو جاتا ہے ۔ آخر دین پر ، قرآن پر، سنت پر یہ ’’بہشتی ‘‘ دروازہ کیسے فضیلت پا گیا ۔
جی ہاں ، تحقیقات ہونی چاہییں کہ اگر محض ایک دروازے سے گزرنے ہی سے بہشت مل جانی ہے تو پیغمبر کیوں بھیجے گئے؟ پیغمبروں نے کیوں جانیں دیں ؟ پیغمبروں نے کیوں تکلیفیں اٹھائیں ؟ پیغمبروں نے کیوں اپنے جسم پر آرے چلوا لیے ؟ پیغمبروں نے کیوں اپنے سر کٹوا لیے ؟
ان امور کی روشنی میں غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ پیغمبروں اور الہامی کتابوں پر ایمان رکھنے والوں کے ہاں ’’بہشتی‘‘ دروازے کا تصور اور اس دروازے پر لوگوں کا ہجوم بھی بڑا الم ناک حادثہ ہے ۔ اس پر بھی دلی رنج و غم کا اظہار ہونا چاہیے ۔ اس پر بھی احتجاج ہونا چاہیے ۔ اس پر بھی ہڑتال ہونی چاہیے ۔ اس پر بھی اہلِ اقتدار کو پریشان ہونا چاہیے ۔ اس پر بھی تحقیقات کا حکم دیا جانا چاہیے ۔
اور اگر یہ ’’بہشتی‘‘ دروازے کا عقیدہ عامۃ الناس میں غلط طور پر پھیل گیا ہے تو تحقیقات ہونی چاہییں کہ اس دربار میں جبہ و دستار پہنے بیٹھے ہوئے لوگ عامۃ الناس کو بہشت کی اس راہ سے کیوں آگاہ نہیں کرتے جو خدا اور رسول نے دکھائی اور جس پر صحابہء کرام نے چل کر دنیا ہی میں آسمان سے ’’بہشتی‘‘ ہونے کی صدا سنی ۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت مئی 2001
Uploaded on : Sep 22, 2016
1660 View