تقدیر کا لکھا ہونا - طالب محسن

تقدیر کا لکھا ہونا

 عن عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : کتب اﷲ مقادیر الخلائق قبل أن یخلق السموات و الارض بخمسین الف سنۃ ۔ قال : کان عرشہ علی الماء ۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی تقدیریں زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دی تھیں۔ آپ نے فرمایا : اس وقت عرش پانی پر تھا۔‘‘

لغوی مباحث

مقادیر: یہ ’مقدار‘ کی جمع ہے۔ ’مقدار‘ کا مطلب پیمانہ ہے ۔ قرآنِ مجید میں آیا ہے: ’وکل شیء عندہ بمقدار‘۱ ؂۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر چیز کے لگے بندھے ضابطے ، معین پیمانے اور مقرر اوقات ہیں۔ یعنی لوگوں کی خواہشات پر ان میں تغیر واقع نہیں ہوتا ۔
عرش: قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کے لیے ’عرش‘ کا لفظ اقتدار کے معنی میں بھی آیا ہے اور اس تخت کے لیے بھی جس پر بیٹھا جاتا ہے ۔ لیکن اس کی کیفیت یا ماہیت متعین کرنا ہمارے دائرۂ علم سے باہر ہے ۔
الماء: پانی ۔ مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے میں اس جملے میں زمین کے اس دورکا ذکر ہوا ہے ۔ جب ہر طرف پانی ہی پانی تھا اور کہیں بعد میں برِاعظم نمودار ہوئے ۔

متون

اس روایت کے متون میں کچھ فرق محض لفظی ہیں ۔ مثلاً ، بعض روایا ت میں ’مقادیرالخلائق‘ کے بجائے ’مقادیر الخلق کلھم‘ یا ’مقادیر الخلائق کلھم‘ درج ہے ۔ اسی طرح کچھ راویوں نے ’کتب اﷲ مقادیر الخلائق‘ کی جگہ صرف ’قدر اﷲ المقادیر‘ سے یہ مضمون ادا کر دیا ہے۔
اس روایت میں ایک آیت کا حوالہ بھی دیا گیا ہے ۔ پورا جملہ ’کان عرشہ علی الماء‘ ہے کئی روایات میں اس کا حوالہ ’کان‘ کے بغیر دیا گیا ہے۔
البتہ ،مسلم کی تصریح ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ انھوں نے بیان کیا ہے کہ بعض روایات میں اس آیت کا حوالہ ہی نہیں ہے۔ آیت کے معنی پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ آیت اس روایت سے غیر متعلق ہے ۔ لہٰذا قرینِ قیاس یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حوالہ نہ دیا ہو۔

معنی

اس روایت کے محلِ غور نکات تین ہیں ۔ ایک یہ کہ مقادیر سے کیا مراد ہے ؟ دوسرے یہ کہ پچاس ہزار سال کی مدت کے بیان سے کیا چیز معلوم ہوتی ہے ۔ تیسرے یہ کہ ’کان عرشہ علی الماء‘ کا کیا مفہوم ہے اور کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سب سے پہلی تخلیق کی گئی چیز پانی ہے۔
سب سے پہلے روایت کے پہلے جملے کو دیکھیے ۔ اس میں جو چیز بیان ہوئی ہے ،وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے بہت پہلے تمام منصوبہ پوری تفصیل کے ساتھ لکھ دیا تھا ۔اس تفصیل کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ قرآنِ مجید میں ایک ایک پتے ،ایک ایک ذرے اور ہر خشک و تر کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ رجسٹر میں درج ہے ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَا إلاَّ ھُوَ وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَۃٍ إِلاَّ یَعْلَمُھَا وَحَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمَاتِ الْاَرْضِ وَّلاَ رَطْبٍ وَ لاَ یَابِسٍ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِیْنٍ۔ (الانعام ۶ : ۵۹)
’’ اور اس کے پاس غیب کی چابیاں ہیں ۔ اسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ وہ جانتا ہے جو خشکی اور تری میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا ،مگر وہ اس سے واقف ہوتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں کوئی بیج نہیں اور نہ کوئی خشک وتر ایسا ہے جو ایک کتابِ مبین میں نہ ہو۔‘‘

جو بات اس روایت میں بیان ہوئی ہے ، وہ بطورِ اصول قرآنِ مجید میں بھی مذکور ہے ۔ سورۂ قمر میں ہے :

إِنَّا کُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ۔ (۵۴ : ۴۹)
’’ لاریب ، ہم نے ہر چیز کو ایک مقرر پیمانے پر پیدا کیا ہے ۔ ‘‘

ان آیات اور زیرِ بحث روایت کے الفاظ کو سامنے رکھیں تو یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ مدعاے کلام صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی تخلیق سے بہت پہلے اس کی تمام اشیا کے بارے میں تفصیلات لکھ دی تھیں ۔ یہ تفصیلات ظاہر ہے کہ ہر پہلو سے تھیں ۔ یعنی ان کی ساخت ، خصوصیات ، ان سے متعلق واقعات ، ان کے وجود میں آنے اور معدوم ہونے کا وقت وغیرہ ۔ غرض یہ کہ جو کچھ ظہور میں آنا ہے اور جو کچھ وجود میں لایا جائے گا ، لکھ دیا گیا ہے ۔اس بات کے بیان سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت اذہان میں راسخ ہو اور وہ علمِ الہٰی کے بارے میں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں ۔
اس سے ہمارے لیے یہ عظیم حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ ہماری زندگی کا ایک ایک پہلو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے ۔ہم آج کیا کر رہے ہیں ،یہ بات اللہ تعالیٰ کے علم میں آج ہی نہیں آرہی ہے ، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے علم میں بہت پہلے سے ہے اور زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دی گئی تھی ۔جب یہ بات ہم پر واضح ہوتی ہے تو ہمارا اللہ تعالیٰ پر یقین و اعتماد مزید قوی ہو جاتا ہے ۔ جب ہمیں معلوم ہے کہ زمین و آسمان کا کوئی معاملہ اللہ تعالیٰ کے لیے نیا نہیں ہے ، ہمارے ساتھ ہونے والا کوئی معاملہ اس کی بے خبری میں نہیں ہوتا ، اس کائنات کا کوئی گوشہ اس سے چھپا ہوا نہیں ہے ،جو کچھ وقوع پزیر ہو رہا ہے ، اس کے ہاں لکھا ہوا ہے توہم کسی اندیشے میں کیوں مبتلا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے یقیناًاپنے ازلی علم کی بنیاد پر ہماری دستگیری کا سامان بھی کر رکھا ہے ۔
اس جملے میں بیان کی گئی دوسری چیز پچاس ہزار سال کی مدت ہے ۔یہ ایک خبر ہے اور اگر روایت بیان کرنے میں یا سمجھنے میں راوی سے غلطی نہیں ہوئی تو اس خبر کے درست ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا ۔یعنی جب تک کسی قوی دلیل سے یہ بات واضح نہیں ہو جاتی کہ یہ اطلاع درست نہیں ہے ،ہم اسے صحیح سمجھیں گے ۔قرآنِ مجید میں مقادیر کے ایک کتابِ مبین میں لکھے جانے کا ذکر تو متعدد مرتبہ ہوا ہے ، لیکن اس کے لکھے جانے کا زمانہ بیان نہیں ہوا ۔
اس اطلاع کا معنوی پہلو ہم اوپر واضح کر چکے ہیں ۔ بعض شارحین نے یہاں یہ کلامی نکتہ پیدا کیا ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ پچاس ہزار سال پہلے آئی تھیں یا ہمیشہ سے تھیں اور یہاں صرف لکھنے کا زمانہ بتایاگیا ہے ۔ ہمارے نزدیک ، اللہ تعالیٰ کی ذات وقت اور جگہ یعنی زمان و مکان کے پیمانوں سے ماورا ہے ۔ ہم چونکہ زمان و مکان کے اسیر ہیں اور انھی پیمانوں سے سوچنے کے عادی ہیں ،لہٰذا ہمارے فہم کی تقریب کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا جاتا ہے ۔ لہٰذا ان الفاظ سے اس کی حقیقت سمجھنے کی کوشش کرنا اپنی حدود سے تجاوز ہے ۔
تیسراا ہم نکتہ ’کان عرشہ علی الماء‘ سے متعلق ہے ۔سب سے پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قرآنِ مجید میں یہ کس مفہوم میں آیا ہے ۔چنانچہ قرآنِ مجید کا وہ مقام، یہ جملہ جس کا حصہ ہے اس طرح سے ہے :

وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ عَلَی اﷲِ رِزْقُھَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّھَا وَ مُسْتَوْدَعَھَا، کُلٌ فِی کِتَابٍ مُبِیْنٍ۔ وَ ھُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَ کَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً، وَ لَءِنْ قُلْتَ اِنَّکُمْ مَبْعُوْثُوْنَ مِنْ بَعْدِ الْمَوْتِ لَیَقُوْلَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنْ ھَذَا اِلاَّ سِحْرٌ مُبِیْنٌ۔ (ہود ۱۱ : ۶ ۔ ۷)
’’ اور زمین کے ہر جان دار کا رزق اللہ ہی کے ذمہ ہے ۔ اور وہ جانتا ہے اس کے ٹھکانے اور مدفن کو ۔ ہر چیز ایک واضح کتاب میں درج ہے ۔اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمیں کوچھ دن میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا ، تاکہ تمھیں جانچے کہ کون اچھے عمل کرنے والا ہے ۔ اور اگر تم کہتے ہو کہ مرنے کے بعد تم لوگ اٹھائے جاؤ گے تو یہ کافر یہ کہتے ہیں کہ یہ تو بس ایک کھلا ہوا جادو ہے ۔ ‘‘

ان آیات میں زمین و آسمان سے پہلے کے معاملات زیرِ بحث ہی نہیں ہیں ۔یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے معاملات کو کس طرح سے چلاتے چلے آرہے ہیں ۔چنانچہ مولانا امین احسن اصلاحی نے اسے زمین ہی کے اوپر گزرنے والا ایک دور قرار دیا ہے :

’’ ’و کان عرشہ علی الماء‘۔ ’عرش‘ خدا کی حکومت کی تعبیر ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس کرۂ ارض کی خشکی نمودار ہونے سے پہلے پہلے یہ سارا کرہ مائی تھا اور اللہ کی حکومت اس پر تھی ۔ پھر پانی سے خشکی نمودار ہوئی اور زندگی کی مختلف النوع انواع وجود میں آئیں اور درجہ بدرجہ پورا عالمِ ہستی آباد ہوا۔ یہی بات تورات میں بیان ہوئی ہے ، اگرچہ اس کے مترجموں نے مطلب خبط کر دیا ہے ۔ کتابِ پیدایش کی پہلی ہی آیت میں یہ الفاظ ہیں: اور گہراؤ کے اوپر اندھیرا اور خدا کی روح پانی کی سطح پر گردش کرتی تھی ۔‘‘(تدبرِ قرآن ، ج ۴ ، ص ۱۰۹)

مولانا امین احسن اصلاحی مرحوم کی اس تصریح سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرآنِ مجید کے اس جملے کا زیرِ بحث روایت کے موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔یہ اضافہ ،قرینِ قیاس یہی ہے کہ کسی راوی نے کیا ہے اورخیال ہوتا ہے کہ اس کا سبب جمعِ حدیث کے زمانے میں اس تفسیری رائے کا مقبول ہونا بنا ہے ۔غرض یہ کہ ہمارے نزدیک ، اس روایت کے وہ متون ہی صحیح ہیں جن میں یہ جملہ روایت نہیں ہوا ۔

کتابیات

ابنِ کثیر ج ۲ ، ص ۲۶۹۔ اعتقاد اہل السنہ ، ج ۴ ، ص ۵۷۹ ۔ القدر ، ج ۱ ، ص ۱۰۱ ۔تحفۃ الاحوذی ، ج ۶ ، ص ۳۰۷۔ مسلم ، کتاب القدر ، باب ۶ ۔ سننِ ترمذی ، کتاب القدر ، باب ۱۴۔ مسندِ احمد ، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص ۔

۱؂ الرعد ۱۳ : ۸۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جون 2001
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Jan 12, 2017
3765 View