ضرر رساں ’’حب الوطنی‘‘

ضرر رساں ’’حب الوطنی‘‘

 

آگرہ میں پاکستان اور بھارت کے مذاکرات کے ضمن میں صدر پرویز مشرف کی اہلیہ بھی بھارت گئی ہوئی تھیں۔ وہاں ایک فنکشن میں انھوں نے بھارت کی ایک فن کارہ کو بیٹا کہہ کر پکارا، اس پر اس فن کارہ نے بہت خوشی اور پاکستان کے بارے میں بڑے مثبت جذبات کا اظہار کیا۔
جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو ہمارے ایک وزیر نے اپنی ’’حب الوطنی‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے یہ بم دراز میں رکھنے کے لیے نہیں بنائے، یہ ہم اپنے دشمن ملک پر پھینک دیں گے۔ اس پر بھارت کے ایک سیاست دان نے کہا کہ جب وہ ہم پر بم گرائیں گے تو ہم اس کے بدلے میں ان پر پھول نہیں برسائیں گے، ہم بھی ان پر بم ہی برسائیں گے۔
یہ ہے انسان ۔ انسان کے ساتھ محبت کی جائے تو وہ بھی جواب میں محبت کرتا ہے ۔ اگر اس سے نفرت کی جائے تو وہ بھی جواب میں نفرت کرتا ہے ۔ اسی طرح اگر ’’قومی سوچ‘‘ کو اخلاقی اصولوں پر ترجیح دی جائے تو جواب میں دوسرے لوگ بھی یہی رویہ اختیار کرتے ہیں ۔ افسوس ہے کہ ہمارے ہاں بسا اوقات قومی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے دین و اخلاق کے تقاضوں کا خیال نہیں رکھا جاتا، بلکہ انھیں بڑی بے دردی کے ساتھ پامال کر دیا جاتا ہے۔
ایک پاکستانی نوجوان ایک غیر ملکی ریڈیو میں اردو میں خبریں پڑھتا تھا ۔ ایک دفعہ جنگی مشقوں کے لیے بھارت کا بحری بیڑا بحرالکاہل آیا ہوا تھا۔ اس کے بارے میں نوجوان کو پڑھنے کے لیے خبر دی گئی۔ بھارت کے خلاف نفرت کی وجہ سے وہ یہ خبر پڑھنا نہیں چاہتا تھا، مگر ظاہر ہے کہ وہ یہ خبر روک نہیں سکتا تھا۔ چنانچہ اس نے ’’حب الوطنی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ خبر بنا دی کہ بھارت کا ایک بحری ’’بٹیرا‘‘ مشقوں کے لیے آیا ہوا ہے۔ اس خبر پر بھارتی سفارت خانے نے بہت واویلا مچایا، مگر خبر تو نشر ہو چکی تھی۔
اگر یہ واقعہ اہل پاکستان کو سنایا جائے تو بڑا امکان ہے کہ اکثر و بیشتر پاکستانی اس پر خوش ہوں گے اور اس نوجوان کی تحسین کریں گے۔ حالانکہ اس واقعہ سے واضح طو رپر معلوم ہو رہا ہے کہ ایک پاکستانی نے جھوٹ بولا ہے، صحیح بات کو چھپایا ہے، لیکن بھارت کے خلاف ہمارے ہاں جو بے زاری اور نفرت پائی جاتی ہے، اس کی وجہ سے اس جھوٹ کو ،اس زیادتی کو، اس بداخلاقی کو ،اس خلافِ اسلام بات کو، خدا کو ناراض کرنے والی اس حرکت کو گوارا کر لیا جائے گا، بلکہ اس پر خوشی کا اظہار کیا جائے گا اور اس نوجوان کو چھوٹا سا ’’قومی ہیرو‘‘ قرار دے دیا جائے گا۔ غور کیجیے ، یہ وطن کو خدا پر فوقیت دینا ہے ، یہ وطن کو خدا بنانا ہے ۔ اسی رویے پر تنقید کرتے ہوئے شاعرِ مشرق نے کہا تھا : 

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

پچھلے دنوں آگرہ میں مذاکرات کے سلسلے پر پاکستانی اور بھارتی ذرائع ابلاغ پر بہت تبصرے ہوئے ۔ ان تبصروں پر حسبِ معمول دونوں ممالک کے تبصرہ نگاروں نے ’’حب الوطنی‘‘ کی وجہ سے اپنے اپنے ملک کو فرشتہ اور دوسرے ملک کو شیطان سمجھ کرمعاملات کو دیکھا، ان کا تجزیہ کیا اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
بھارت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ’’تم لوگ کشمیر میں بدمعاشی چھوڑ دو۔‘‘ پاکستان کی طرف سے جواب دیا گیا کہ : ’’تم کشمیر سے نکل جاؤ ہم بدمعاشی فوراً چھوڑ دیں گے ۔‘‘ بھارت کی طرف سے پاکستان پر کارگل اور کشمیر میں پاکستانی ’’جہادی‘‘ گروہوں کی کارروائیوں کے حوالے سے تنقید ہوئی تو پاکستان کی طرف سے مشرقی پاکستان میں بھارت کی مداخلت اور سیاچن پر قبضے کے مسئلے کو اٹھا دیا گیا ۔ ایسا نہیں ہوا کہ بھارتیوں نے یہ تسلیم کیا ہو کہ انھوں نے مشرقی پاکستان میں علیحدگی پسند تحریک کو قوت دی ، مکتی با ہنی کے ارکان کو تربیت دی اور سیاچن پر قبضہ کر کے غلطی کی، جس کی وجہ سے پاکستانیوں میں انتقامی جذبات پیدا ہوئے اور انھوں نے معرکۂ کارگل اور ’’جہادی‘‘ گروہوں کے ذریعے سے مقبوضہ کشمیر میں کارروائی کی۔ اور نہ پاکستانیوں نے اس کا اعتراف کیا کہ انھوں نے معرکۂ کارگل برپا کر کے اور پاکستانیوں کی کشمیر میں ’’جہادی‘‘ کارروائی کو نہ روک کر غلطی کی، باہمی معاہدوں کی خلاف ورزی کی، جس سے دونوں ملکوں میں نفرت، بدگمانی اور بداعتمادی میں اضافہ ہوا، پھر سرحدوں پر تناؤ بڑھا ، دفاعی اخراجات کا بوجھ بڑھا ، غیر ملکی قرضوں کا نیا سلسلہ چلا، بے روزگاری کا جن بے قابو ہوا ، جس سے مہنگائی بڑھی، معاشی بدحالی بڑھی ، خودکشیوں کی شرح بڑھی اور عام آدمی کی زندگی مزید تلخ ہوئی ۔
بھارتی اگر اس طرح کی ’’حب الوطنی‘‘ کا مظاہرہ کریں تو حیرت نہیں ہوتی، مگر جب پاکستانی مسلمان ایسی ’’حب الوطنی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے ۔ حیرت اس لیے کہ مسلمان کی زندگی کا تو سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا کی رضا حاصل کرے اور اس کی ناراضی سے بچے۔ اور جب لوگوں کی رضا حاصل کرنے میں خدا کی ناراضی کا امکان ہو تو وہ بلاتوقف خدا کو لوگوں پر فوقیت دے ۔ مسلمان کے تو ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ ہرقسم کے حالات میں سچی، صحیح اور عدل پر مبنی بات کرے، خواہ اس سے اس کے رشتے دار ناراض ہو جائیں، خواہ اس سے اس کی برادری کے لوگ ناراض ہو جائیں، خواہ اس سے اس کے ہم وطن ناراض ہو جائیں۔
عالم کے پروردگار کا فرمان ہے:

’’ایمان والو ،انصاف پر قائم رہنے والے بنو ، اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے، اگرچہ اس کی زد خود تمھاری اپنی ذات ، تمھارے والدین اور تمھارے اقربا ہی پر پڑے ۔کوئی امیر ہو یا غریب ، اللہ ہی دونوں کے لیے احق ہے ۔اس لیے تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کرو کہ حق سے ہٹ جاؤ اور اگر اسے بگاڑو گے یا اعراض کرو گے تو یاد رکھو کہ اللہ تمھارے ہر عمل سے باخبر ہے۔‘‘ (النساء۴: ۱۳۵)

’’ایمان والو، عدل پر قائم رہنے والے بنو۔ اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے، اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس طرح نہ ابھارے کہ تم عدل سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک، اللہ تمھارے ہر عمل سے باخبر ہے ۔‘‘ ( المائدہ ۵: ۸)

ایمان کا یہی تقاضا ہے جس کے پیشِ نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے اس بات پربیعت لیاکرتے تھے کہ:

’’ہم جہاں ہوں گے ، ہمیشہ حق کہیں گے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کوئی پروا نہ کریں گے۔‘‘ (مسلم ، رقم ۳۴۲۶)

اسی ضمن میں ایک دوسرے پہلو سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’حق و انصاف کی بات ایک بڑا جہاد ہے ، جب وہ ظالم حکمران کے سامنے کہی جائے۔‘‘ ( ابن ماجہ ، رقم ۴۰۱۱)

انھی آیات و احادیث کے حوالے سے استاذِ گرامی جناب جاوید احمد غامدی نے لکھا :

’’اس عالم میں انسان کے جذبات، تعصبات، مفادات اور خواہشیں اگر دین و دنیا کے کسی معاملے میں اسے انصاف کی راہ سے ہٹا دینا چاہیں تو یہی ایمان تقاضا کرتا ہے کہ بندۂ مومن نہ صرف یہ کہ حق و انصاف پر قائم رہے ، بلکہ یہ اگر گواہی کا مطالبہ کریں تو جان کی بازی لگا کر ان کا یہ مطالبہ پورا کرے۔ حق کہے، حق کے سامنے سرِ تسلیم خم کرے۔ انصاف کرے، انصاف کی شہادت دے اور اپنے عقیدہ و عمل میں حق و انصاف کے سوا کبھی کوئی چیز اختیار نہ کرے۔ ‘‘ (میزان ۹۰۔۹۱)

حالیہ مذاکرات کے حوالے سے پاکستانیوں کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوئے۔ اس ناکامی کا ذمہ دار بھارت ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان مذاکرات میں پاکستان اور بھارت دونوں ناکام ہوئے ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان اپنا موقف اس حکمت اور دلیل کے ساتھ کیوں نہ پیش کر سکا کہ اس کی بات مان لی جاتی۔ ظاہر ہے کہ اس میں پاکستانیوں کی بھی ناکامی ہے، مگر ’’محبِ وطن‘‘ لوگ ،پاکستانی وفد کو فرشتہ قرار دینے ہی پر اصرار کر رہے ہیں۔ حالانکہ ہمارے ہاں جس قسم کی ’’حب الوطنی‘‘ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اس کا حقیقت میں وطن اور اہل وطن کو کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اس لیے کہ اس کے مقابلے میں ویسی ہی ’’حب الوطنی‘‘ دوسری طرف سے بھی اختیار کر لی جاتی ہے۔ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس طرح انھوں نے اپنے ملک کو کوئی فائدہ پہنچایا ہے ، حالانکہ درحقیقت انھوں نے ملک کو ضرر پہنچایا ہوتا ہے۔ یہ ضرر بھی مختلف سطحوں اور مختلف شکلوں میں پہنچتا ہے۔
ایک ضرر تو واضح ہے کہ اس سے باہمی نفرتوں، رنجشوں اور عداوتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ فضا میں جنگ کے بادل ہر وقت منڈلاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ حالیہ مذاکرات کے حوالے سے دیکھیں، مذاکرات کی ناکامی کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی کہ: ’’پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی ناکامی نے اسٹاک مارکیٹ میں زبردست مندا کر دیا جس سے مارکیٹ کی سرمایہ کاری میں ساڑھے چھ ارب روپے کی کمی ہو گئی۔ کراچی مارکیٹ کا انڈیکس ۱۳۰۰ پوائنٹس کی نفسیاتی حد سے نیچے آ گیا۔ مذاکرات شروع ہونے سے قبل معاملات طے ہونے کی توقع کی جا رہی تھی، لیکن مذاکرات کی ناکامی نے سرمایہ کاروں کو مایوس کر دیا اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس ناکامی سے بارڈر پر تناؤ بڑھے گا۔ سرحدی جھڑپوں میں اضافہ ہو گا ۔ اس کے باعث سرمایہ کاروں نے نئی سرمایہ کاری سے گریز کیا ،بلکہ اپنے حصص آف لوڈ کر لیے۔ اسٹاک مارکیٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں مارکیٹ میں مزید کمی ہو سکتی ہے۔ سرمایہ کاروں نے ان مذاکرات سے بڑی اُمیدیں وابستہ کر رکھی تھیں ۱؂۔‘‘ اسٹاک مارکیٹ کسی بھی ملک کی معیشت کی حالت کا بیرومیٹر ہوتی ہے، اس ایک خبر سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ باہمی تناؤ کے امکان ہی نے ملک کو کتنا نقصان پہنچایا۔
دوسرا ضرر جو ہم سمجھتے ہیں کہ سب سے بڑا ضرر ہے ،یہ ہے کہ اس سے خدا ناراض ہوتا ہے۔ اس بات کا انفرادی طور پر آخرت میں ضرر تو پہنچے ہی گا، دنیا میں بھی قومی سطح پر خداکی رحمت سے محرومی کی شکل میں غیر معمولی ضرر پہنچتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر کسی قوم کی کوئی بدبختی نہیں ہو سکتی کہ وہ چھوٹے چھوٹے سیاسی فائدوں—- جو دراصل ضرر ہوتے ہیں—- کی خاطر خدا جیسی عظیم ہستی کی ناراضی مول لے لے۔ شاید ان ’’محب وطن ‘‘ لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ اگر مسلمان بحیثیتِ قوم تقویٰ کی روش اختیار کریں ، صحیح منصوبہ بندی اور محنت کریں ، تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ انھیں وسائلِ معیشت کی بے پناہ فراوانی حاصل ہو گی ۔ جس خوش حالی کا خواب اہلِ پاکستان نصف صدی سے دیکھ رہے ہیں اور مسلسل مایوس ہو رہے ہیں ،وہ حیرت انگیز طریقے سے پورا ہو جائے گا ۔ خدا کا یہ وعدہ سورۂ اعراف میں بیان ہوا ہے:

’’اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔ مگر ہوا یہ کہ انھوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کے کرتوتوں کی پاداش میں ان کو پکڑ لیا۔‘‘(۷: ۹۶)

خدا کے اس وعدے کا ذکر تورات میں کچھ اس طرح ہوا ہے:

’’اور اگر تو خداوند اپنے خداکی بات کو جاں فشانی سے مان کر اس کے ان سب حکموں پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں، احتیاط سے عمل کرے اور تو خداوند تیرا خدا دنیا کی سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کرے گا ۔ اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو ملیں گی ۔ شہر میں بھی تو مبارک ہو گا اور کھیت میں بھی مبارک ہو گا ۔ ۔۔۔ خداوند تیرے دشمنوں کو جو تجھ پر حملہ کریں ، تیرے روبرو شکست دلائے گا ۔ وہ تیرے مقابلہ کو تو ایک ہی راستہ سے آئیں گے ، پر سات راستوں سے ہو کر تیرے آگے سے بھاگیں گے ۔ ۔۔۔ اور دنیا کی سب قومیں یہ دیکھ کر کہ تو خداوند کے نام سے کہلاتا ہے ، تجھ سے ڈر جائیں گی ۔ ۔۔۔ خداوند ، آسمان کو ، جو اس کا اچھا خزانہ ہے ، تیرے لیے کھول دے گا کہ تیرے ملک میں وقت پر مینہ برسائے اور وہ تیرے سب کاموں میں جن میں تو ہاتھ لگائے ، برکت دے گا ، اور تو بہت سی قوموں کو قرض دے گا ، پر خود قرض نہیں لے گا ۔ اور خداوند تجھ کو دم نہیں ، بلکہ سر ٹھیرائے گا ، اور تو پست نہیں ، بلکہ سرفراز ہی رہے گا۔‘‘(استثنا ۲۸: ۱۔۱۳)

مگر خدا ناشناس تہذیب کے غلبے نے مسلمانوں کو فکر و نظر کے افلاس میں مبتلا کر دیا ہے، انھیں اعلیٰ حقائق سے بہت دور کر دیا ہے، وہ خدا کی تخلیق کی ہوئی زندگی سے خدا کو خارج کرنے کی جسارت کر چکے ہیں، وہ خدا کی زمین پر رہ کر خدا ہی کے خلاف میدان میں اتر چکے ہیں، اس لیے جو پاکستانی سچا ، پکا اور کھرا مسلمان ہو گا ، وہی اس ’’حب الوطنی‘‘ پر اظہارِ افسوس کرے گا ، بلکہ اس کی مذمت کرے گا۔ اوراسی کا اس پر پختہ ایمان ہو گا کہ وہ ’’قومی غیرت‘‘ جو کسی کو جھوٹ بولنے ، بداخلاقی کا ارتکاب کرنے، خلافِ اسلام بات کرنے ، خدا کو ناراض کرنے اور قوم کو رحمتِ الہٰی سے محروم کرنے پر آمادہ کر لے، وہ ’’قومی غیرت‘‘ دراصل قومی جہالت ، بلکہ قومی ضلالت ہوتی ہے۔
سچا ، پکا اور کھرامسلمان تو درویشِ خدا مست ہوتا ہے ۔و ہ اپنوں میں ’’زہرِ ہلاہل‘‘ پائے تو اسے ’’زہرِ ہلاہل‘‘ ہی کہتا ہے اور دوسروں میں ’’قند‘‘ پائے تو اسے ’’قند‘‘ ہی کہتا ہے ۔ بقولِ اقبال : 

درویش خدامست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

 

۱؂ روزنامہ ’’پاکستان‘‘۱۸ جولائی ۲۰۰۱۔  

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت ستمبر 2001
Uploaded on : Jan 22, 2018
1647 View