’’ایمان والو، اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدم اچھی طرح جمائے گا۔ ‘‘ (محمد۴۷: ۷۔۸)

مگر واقعہ یہ ہے کہ ان مسلمانوں کے قدم ہر میدانِ جنگ سے اکھڑ رہے ہیں ۔ وہ پسپا ہو رہے ہیں اور اس حال میں بھی ان کی آنکھیں آسمان کی طرف لگی ہوئی ہیں اور ان میں یہ سوال گردش کر رہے ہیں کہ کیا خدا نے مسلمانوں پر سے اپنا دستِ نصرت اٹھا لیا ہے؟کیا اس کی رحمتیں غیر مسلموں کے لیے خاص ہو گئی ہیں؟کیا اس کی تائید اب اہلِ یورپ کے ساتھ ہے؟
ان کے جواب میں عرشِ سماوی سے تو کوئی صدا نہیں آتی ، مگر زمین پر موجود کلامِ الٰہی پر کان دھرا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک کے سب مسلمان مل کر بھی یورپ کی بادشاہی کے خلاف برسرِ پیکار ہو جائیں اور اپنی شہادتوں سے کرۂ ارض کے ذرے ذرے کو رنگین کر دیں،تب بھی خدا کی طرف سے محض اس بنا پر کوئی امداد نہیں آئے گی۔ کیونکہ نصرتِ الہٰی کا معاملہ الل ٹپ نہیں ہے۔ اس کا ایک باقاعدہ قانون ہے۔ اس قانون کے تقاضے حرف بہ حرف پورے ہو جانے کے بعد ہی آسمانی امداد کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ ارشاد ہے:

’’اے نبی ، مسلمانوں کو جہاد پر ابھارو۔ اگر تمھارے بیس ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غلبہ پا لیں گے اور اگر سو ایسے ہوں گے تو ان کافروں کے ہزار پر بھاری رہیں گے ، اس لیے کہ یہ بصیرت نہیں رکھتے ۔ اچھا ، اب اللہ نے تمھارا بوجھ ہلکا کر دیا ہے اور جان لیا ہے کہ تم میں کمزوری آ گئی ہے ۔ لہٰذا اگر تمھارے سو ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غلبہ پائیں گے اور اگر ہزار ایسے ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر بھاری رہیں گے ، اور( حقیقت یہ ہے کہ ) اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو (اس کی راہ میں ) ثابت قدم رہیں ۔‘‘ (الانفال ۸ : ۶۵۔۶۶)

اس فرمانِ خداوندی کا مطلب یہ ہے کہ :

’’جنگ میں نصرت الہٰی کا معاملہ الل ٹپ نہیں ہے کہ جس طرح لوگوں کی خواہش ہو ، اللہ کی مدد بھی اسی طرح آ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ایک قاعدہ مقرر کر رکھا ہے اور وہ اسی کے مطابق اپنے بندوں کی مدد فرماتے ہیں ۔ آیات پر تدبر کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ نصرتِ الہٰی کا یہ ضابطہ درج ذیل تین نکات پر مبنی ہے :
اول یہ کہ اللہ کی مدد کے لیے سب سے بنیادی چیز صبر و ثبات ہے ۔ مسلمانوں کی کسی جماعت کو اس کا استحقاق اس وقت تک حاصل نہیں ہوتا ، جب تک وہ یہ صفت اپنے اندر پیدا نہ کرلے ۔ اس سے محروم کوئی جماعت اگر میدان جہاد میں اترتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے کسی مدد کی توقع نہیں کرنی چاہیے ۔ ۔۔۔
دوم یہ کہ جنگ میں اترنے کے لیے مادی قوت کا حصول ناگزیر ہے ۔ اس میں تو شبہ نہیں کہ جو کچھ ہوتا ہے ، اللہ کے حکم سے ہوتا ہے اور آدمی کا اصل بھروسا اللہ پروردگار عالم ہی پر ہونا چاہیے ، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا عالم اسباب کے طور پر بنائی ہے ۔دنیا کی یہ اسکیم تقاضا کرتی ہے کہ نیکی اور خیر کے لیے بھی کوئی اقدام اگر پیش نظر ہے تو اس کے لیے ضروری وسائل ہر حال میں فراہم کیے جائیں ۔ یہ اسباب و وسائل کیا ہونے چاہییں ؟ دشمن کی قوت سے ان کی ایک نسبت اللہ تعالیٰ نے انفال کی ان آیتوں میں قائم کر دی ہے ۔ یہ اگر حاصل نہ ہو تو مسلمانوں کو اس کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے ۔ جہاد کے شوق میں یا جذبات سے مغلوب ہو کر اس سے پہلے اگر وہ کوئی اقدام کرتے ہیں تو اس کی ذمہ داری انھی پر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس صورت میں ان کے لیے کسی مدد کا ہر گز کوئی وعدہ نہیں ہے ۔
سوم یہ کہ مادی قوت کی کمی کو جو چیز پورا کرتی ہے ، وہ ایمان کی قوت ہے ۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ اب یہ نسبت ایک اور دو کی ہے ، مسلمانوں کے اگر سو ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر اور ہزار ثابت قدم ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غلبہ پا لیں گے ۔
نصرت الٰہی کا یہ ضابطہ قدسیوں کی اس جماعت کے لیے بیا ن ہوا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں اور براہِ راست اللہ کے حکم سے میدانِ جہاد میں اتری ۔ بعد کے زمانوں میں ، اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی ایمانی حالت کے پیش نظر یہ نسبت کس حد تک کم یا زیادہ ہو سکتی ہے ۔ ‘‘ (جاوید احمد غامدی ، میزا ن ،۲۷۱)

اس سے واضح ہوا کہ نصرتِ الہٰی کی آس پر جنگ کا خطرہ مول لینے والے مسلمانوں کو یہ جان رکھنا چاہیے کہ :
۱۔نصرتِ الٰہی کا معاملہ الل ٹپ نہیں ہے، بلکہ اس کا ایک باقاعدہ ضابطہ ہے۔
۲۔ اس ضابطے کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی کوئی جماعت اس وقت تک نصرت کی مستحق نہیں قرار پاتی ، جب تک اس کے اندر ثابت قدمی نہ ہو۔
۳۔ اس ضابطے کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جنگ کے لیے ضروری اسباب و وسائل ہر حال میں فراہم کیے جائیں اور محض جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی اقدام نہ کیا جائے۔
۴۔ اس ضابطے کا تیسرا نکتہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی قوت دشمن کے مقابلے میں کم سے کم ایک نسبت دو کی ہونی چاہیے۔
۵۔قوت کے لحاظ سے ایک اور دو کا تناسب اصلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کی جماعت کے لیے بیان ہوا ہے ۔ اس کے پورا ہو جانے کے بعد ان کے لیے نصرت الہٰی کی حیثیت وعدۂ خداوندی کی ہے جسے ہر حال میں پورا ہونا تھا ،مگر بعد کے مسلمانوں کے لیے اس کی حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک اور دو کا تناسب حاصل کر لینے کے بعد اللہ سے یہ توقع قائم کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی نصرت کے دروازے ان پر کھول دے گا۔
یہ نصرتِ الہٰی کا ضابطہ ہے ، مگر المیہ یہ ہے کہ مسلمان اس سے بالکل ناواقف ہیں۔ وہ نصرتِ الٰہی کے معاملے کو بالکل الل ٹپ سمجھتے ہیں۔ ان کا تصور ہے کہ اگر وہ اپنی جانیں اللہ کی راہ میں لٹانے کے لیے پیش کر دیں تواللہ تعالیٰ اسباب و علل سے ماورا ہو کر پردۂ غیب سے ان کی مدد فرمائیں گے۔ اس ضمن میں قوت کے کسی تناسب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اصل اہمیت جذبۂ ایمانی اور شوقِ شہادت کی ہے۔ یہ اثاثہ اگر میسر ہے تو پھر تیر و تفنگ اور گولا بارود کی کچھ خاص ضرورت نہیں ہے۔
کاش کوئی انھیں بتلائے کہ یہ اندازِ فکر اللہ کے قانون سے ناواقفیت پر مبنی ہے ،جب تک یہ ناواقفیت قائم رہے گی ، مسلمان یونہی بے موت مارے جاتے رہیں گے!

-----------------------------

 

بشکریہ سید منظور الحسن

تحریر/اشاعت جنوری 2002