خدا ترسی اور خشیت الٰہی کے بارے میں روایات - امین احسن اصلاحی

خدا ترسی اور خشیت الٰہی کے بارے میں روایات

  ترتیب و تدوین: خالد مسعود۔ سعید احمد

(مَا جَاءَ فِی التُّقٰی)

وَحَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ اِسْحٰقَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ اَبِیْ طَلْحَۃَ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَابِ وَ خَرَجْتُ مَعَہُ حَتّٰی دَخَلَ حَاءِطًا فَسَمِعْتُہُ وَھُوَ یَقُوْلُ وَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَہُ جِدَارٌ وَھُوَ فِیْ جَوْفِ الْحَاءِطِ: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ بَخٍ بَخٍ وَاللّٰہِ لَتَتَّقِیَنَّ اللّٰہَ اَوْ لَیُعَذِّبَنَّکَ قَالَ مَالِکٌ: وَبَلَغَنِیْ اَنَّ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ کَانَ یَقُوْلُ: اَدْرَکْتُ النَّاسَ وَمَا یَعْجَبُوْنَ بِالْقَوْلِ. قَالَ مَالِکٌ: یُرِیْدُ بِذٰلِکَ الْعَمَلَ اِنَّمَا یُنْظَرُ اِلٰی عَمَلِہِ، وَلَا یُنْظَرُ اِلٰی قَوْلِہِ.
’’حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے سنا۔ میں ان کے ساتھ نکلا تھا یہاں تک کہ وہ ایک باغ میں داخل ہو گئے تو اس حال میں کہ میرے اور ان کے درمیان دیوار حائل تھی اور وہ باغ کے بیچ میں تھے، میں نے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ اے عمر بن الخطاب، اے امیر المومنین، کیا کہنے ہیں امیرالمومنین کے! اللہ کی قسم، اللہ سے ڈرتے رہو، ورنہ وہ تمھیں بہت سخت عذاب دے گا۔ امام مالک کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ قاسم بن محمد کہا کرتے تھے کہ میں نے جن لوگوں کو پایا ہے، وہ بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ امام مالک کہتے ہیں کہ اس سے ان کی مراد عمل تھا، یعنی یہ کہ آدمی کے قول کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی تھی، بلکہ اس کے عمل کو اہمیت دی جاتی تھی۔‘‘

وضاحت

بَخٍ‘ تحسین کے لیے آتا ہے، لیکن طنز کے موقع پر بھی آ سکتا ہے۔ یعنی کیا کہنے امیر المومنین کے! حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ اپنے آپ سے کہہ رہے تھے۔ یہ خود احتسابی کی بہت اعلیٰ مثال ہے۔ اصل تقویٰ کی علامت یہی ہوتی ہے۔ وہ باغ میں گئے۔ جب علیحدہ ہو کر بیٹھے تب انھوں نے اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہا کہ عمر بن الخطاب امیرالمومنین، ماشاء اللہ، بڑا امیرالمومنین بنا پھرتا ہے، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو گے تو خیر ہے، ورنہ وہ تمھیں عذاب دے گا کہ تمھارا کچومر نکال کر رکھ دے گا۔ تم بڑے ہی سخت عذاب میں پڑو گے۔
قاسم بن محمد کا قول امام مالک کی بلاغات میں سے ہے۔ ان کی بلاغات شہادت دیتی ہیں کہ وہ جس بات کو اچھا سمجھتے ہیں، اس کو لے لیتے ہیں۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ حدیث ہے یا نہیں اور اس کی سند کیا ہے۔ میرے نزدیک ایسا کرنے میں بہت سے خطرات ہیں۔

(تدبرحدیث ۵۲۰۔۵۲۱)

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اکتوبر 2014
مصنف : امین احسن اصلاحی
Uploaded on : Mar 03, 2016
2666 View