(مَا جَاءَ فِی حُسْنِ الْخُلُقِ)

حَدَّثَنِی عَنْ مَالِکٍ اَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَالَ آخِرُ مَا اَوْصَانِی بِہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ وَضَعْتُ رِجْلِی فِی الْغَرْزِ اَنْ قَالَ اَحْسِنْ خُلْقَکَ لِلنَّاسِ یَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ.
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آخری بات، جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس وقت نصیحت فرمائی جس وقت میں نے رکاب میں اپنا پاؤں رکھا، یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک رکھنا، اے معاذ بن جبل!

وضاحت

اس روایت میں انقطاع ہے۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ امام مالک کو اصل مطلب بات سے ہے۔ سند کو وہ زیادہ اہمیت نہیں دے رہے ہیں اور یہ بات بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے الفاظ میں معلوم ہوتی ہے۔
یہ بات ظاہر ہے کہ اس موقع کی ہے جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا گیا۔ چونکہ ان کو وہاں گورنری کے عہدہ پر بھیجا گیا تھا تو سب سے اہم نصیحت ان کو اس موقع پر یہی کی جا سکتی تھی کہ لوگوں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آئیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تمھارے سامنے کوئی معاملہ آئے تو کیسے فیصلہ کرو گے؟ انھوں نے کہا کہ کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کروں گا۔ اگر کتاب اللہ سے رہنمائی نہ ملی تو سنت رسول سے مدد لوں گا۔ اگر وہاں بھی کچھ نہ پایا تو اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھوں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جواب پر معاذ کی تحسین فرمائی اور وہ آخری ہدایت دی جو اس روایت میں ہے۔
یہ ہدایت بہت اہم ہے، اس لیے کہ اعلیٰ اخلاق یوں تو سب کے لیے بے حد ضروری ہے، لیکن خاص کر حکمرانوں کا اخلاق تو بہت اچھا اور بے حد شریفانہ ہونا چاہیے تاکہ عوام اپنے مسائل ان کے آگے بلاخوف پیش کر سکیں اور انصاف حاصل کر سکیں۔ لیکن بالعموم ہوتا یہ ہے کہ حکمران عرش پر چڑھ جاتے ہیں اور کسی کو خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت حکمرانوں کے لیے نہایت برمحل ہے۔

حَدَّثَنِی عَنْ مَالِکٍ عَنِ ابْنِ شِھَابٍ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ عَنْ عَاءِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّھَا قَالَتْ مَا خُیِّرَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أَ مْرَینِ قَطُّ اِلَّا اَخَذَ اَیْسَرَھُمَا مَالَمْ یَکُنْ اِثْمًا فَاِنْ کَانَ اِثْمًا کَانَ اَبْعَدَ النَّاسِ مِنہُ وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِہِ اِلَّا اَنْ تُنْتَھَکَ حُرْمَۃُ اللّٰہِ فَیَنْتَقِمُ لِلّٰہِ بِھَا.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب ایسی صورت آتی کہ جس میں دو پہلو ہوتے تو آپ اس پہلو کو اختیار کرتے جو دونوں میں سے آسان تر ہوتا، بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہوتا۔ اگر وہ گناہ ہوتا تو آپ لوگوں میں سب سے زیادہ گناہ سے دور تر رہتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا۔ ہاں اگر دین کی بے حرمتی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کی خاطر اس کا انتقام لیتے تھے۔

وضاحت

اگر کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جس میں آپ کو فیصلہ کرنا ہو اور اس میں دو پہلو ہوں جن میں سے کسی بھی پہلو کو اختیار کرنے میں آپ آزاد ہوں تو وہ پہلو اختیار کرنا چاہیے جو سہل تر ہو۔ دین کے ہر معاملہ میں صحیح بات یہی ہے کہ وہ پہلو اختیار کریں جو آسان ہو، اس لیے کہ اگر آپ شیخی میں آ کر یہ کریں کہ میں تو سخت پہلو ہی اختیار کروں گا تو مار کھا جائیں گے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص دین کے ساتھ دھینگا مشتی کرے گا تو دین اس کو پچھاڑ دے گا اور وہ شخص اپنے ارادے کو پورا کرنے میں ناکام ہو جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ جب کسی معاملہ میں دو پہلو ممکن ہوتے تو آپ اس میں سے وہ پہلو اختیار کر لیتے جو سہل تر ہوتا، بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔ اگر گناہ کا شائبہ تک بھی ہوتا تو آپ اسے اختیار نہیں کرتے تھے۔
دوسری بات یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہ لیتے۔ آپ کو گالی دی گئی اور توہین کی گئی۔ آپ نے یہ سب کچھ برداشت کر لیا، کیونکہ یہ آپ کی ذات کا معاملہ تھا۔ لیکن اللہ کے دین کی حرمت کو جن لوگوں نے نقصان پہنچایا تو ان سے آخر آپ نے جنگ بھی کی۔ اسی طرح اگر کسی نے دین کی بے حرمتی کی تو اس کو آپ نے سزا بھی دی۔ کسی نے کوئی حق تلفی کی تب بھی آپ نے مظلوم کو اس کا حق دلایا۔ لیکن اپنی ذات کے معاملہ میں آپ لوگوں کے لیے بے حد فیاض، کریم النفس اور درگزر فرمانے والے تھے۔

حَدَّثَنِی عَنْ مَالِکٍ عَنِ ابْنِ شِھَابٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنِ بْنِ عَلِیِّ بْنِ اَبِی طَالِبٍ اَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مِنْ حُسْنِ اِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَالَا یَعْنِیْہِ.
علی بن حسین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کے اسلام کی خوبیوں میں سے یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جو اس کے متعلق نہ ہو۔

وضاحت

مطلب یہ ہے کہ جیسے آپ کہتے ہیں کہ اس چیز سے میرا کیا واسطہ، یہ میرا Concern نہیں، تو یہ اسلام کی خوبیوں میں سے ہے۔ اسلام کے بہت سے درجے ہیں۔ اسلام کو اگر کوئی شخص بہترین طریقے پر اختیار کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مقصد زندگی سے غیر متعلق باتوں میں نہ پڑے۔ یہاں منہیات کا سوال نہیں ہے۔ ان سے بچنا تو واجبات دین میں سے ہے۔ یہاں مراد وہ چیزیں ہیں جو جائز ہیں، لیکن مقصد زندگی کے لحاظ سے کچھ اہمیت نہیں رکھتیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بہت بڑی حکمت کی بات ہے۔ اس حدیث کے متعلق لوگوں نے کہا ہے کہ یہ ان تین بڑی حدیثوں میں سے ایک ہے جو اصولی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کی حکمت بیان نہیں ہو سکتی۔
جو چیزیں زندگی میں جائز ہیں، ان میں سے ہر چیز کو تو اختیار کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ آپ اپنی زندگی کے لیے کوئی ایک لائن اختیار کریں گے تو اس لائن سے جو چیزیں موافقت رکھتی ہیں، جو چیزیں مقصد میں مددگار ہو سکتی ہیں اور آپ کے لیے بابرکت ہو سکتی ہیں، صرف وہی آپ کو اختیار کرنی چاہییں۔ باقی دوسری چیزوں میں خواہ مخواہ میں چونچیں لڑانا اور ہر میدان کا غازی بننے کی کوشش کرنا ایک غیر مفید کام ہوتا ہے۔ یہ اصول سیاست میں، مذہب میں، تحقیق میں، غرض سب چیزوں میں کارآمد ہے۔ دنیا میں جتنے بھی قابل ذکر لوگ گزرے ہیں، ان کی یہ حالت نہیں تھی کہ خدائی فوج دار کی طرح ہر چیز میں ٹانگ اڑاتے پھریں، بلکہ انھوں نے ایک لائن اختیار کی اور مضبوطی سے اس پر جمے رہے اور تمام غیر متعلق چیزوں کو انھوں نے نظرانداز کیا۔
اس بات کو یوں بھی سمجھ لیں کہ اپنی زندگی کو صحیح رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کے جو فرائض متعین کیے ہیں، وہ بجا لائیں۔ مثلاً یہ فرمایا کہ ’کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ‘ ’’تم میں سے ہر ایک راعی بنایا گیا ہے اور اس سے اس کے گلے کے متعلق پوچھا جائے گا۔‘‘ تو اپنے گلے کی فکر کریں۔ اگر اپنے گلے کو چھوڑ کر دوسروں کے گلوں کی چرواہی کرتے پھریں تو یہ حماقت ہے۔ فرض کریں کہ ایک شخص ہے۔ اس کا مقدم فریضہ ہے کہ اپنے خاندان کو، اپنے بچوں کو سنبھالے۔ یہ جواب اس کے لیے ٹھیک نہ ہو گا کہ میں تو خلق خدا کی تربیت پر لگا رہا۔ میرے بچے گمراہ ہو گئے تو میں کیا کرتا۔ یہ جواب آپ کو بچا نہ سکے گا۔ علیٰ ہذا القیاس آپ کے پڑوس سے متعلق آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ اس کی فکر کریں۔ آپ ساری دنیا کی فکر تو نہیں کر سکتے۔ اسی طرح یہ ذمہ داری بھی ہے کہ جو کوئی برائی دیکھے تو اس کی اصلاح کرے۔ اگر طاقت رکھتا ہو تو ہاتھ سے ورنہ زبان سے روکے، اور یہ بھی نہ ہو تو دل میں برا جانے۔ یہ کمزور ترین ایمان ہے۔ اصلاح کا یہ کام آپ کی زندگی کی مہمات میں سے ہے۔ اس سے زیادہ کے لیے آپ کے پاس فرصت ہے تو کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر غیرضروری معاملات میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ زندگی کے جو اصل فرائض ہیں، انسان اگر ان کو ہی صحیح طور پر ادا کرنا چاہے تو یہ واقعہ ہے کہ ان کو بھی صحیح طور پر ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جب انھی کو انجام دینا مشکل ہے تو غیر ضروری پرائے جھگڑے آپ اپنے سر پر کیوں لیں۔
اگر آپ کو خدمت خلق کا شوق ہے، لیکن گھر کی خبر نہیں اور باہر کے تمام لوگوں کے لیے بھاگے پھرتے ہیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ معاشرہ تباہ ہو کے رہ جائے گا۔ اچھے لوگ، قابل لوگ، ذمہ دار لوگ اور قوم و ملت کی خدمت کرنے والے وہی لوگ ہوں گے جو اپنی زندگی اس اصول کے تحت گزاریں کہ میں ایک مسلم ہوں۔ مسلم کی حیثیت سے مجھے اپنی زندگی کا نصب العین مقرر کر لینا ہے۔ اور جو چیزیں اس سے لگا کھاتی ہیں، صرف ان کو لینا ہے اور جو ان سے بے جوڑ ہیں، ان سے احتراز کرنا ہے۔ آپ لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ نہ معلوم کتنا وقت کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے میں گزار دیتے ہیں۔ جو بات اپنے سروکار کی نہ ہو، اس میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ ہر وقت اپنے نصب العین کو نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ یہ روایت بہت شان دار ہے۔

حَدَّثَنِی عَنْ مَالِکٍ اَنَّہُ بَلَغَہُ عَنْ عَاءِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّھَا قَالَتْ اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ عَاءِشَۃُ وَ اَنَا مَعَہُ فِی الْبَیْتِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِءْسَ ابْنُ الْعَشِیْرَۃِ ثُمَّ اَذِنَ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ عَاءِشَۃُ فَلَمْ اَنْشَبْ اَنْ سَمِعْتُ ضَحِکَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَہُ فَلَمَّا خَرَجَ الرَّجُلُ قُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قُلْتَ فِیہِ مَا قُلتَ ثُمَّ لَمْ تَنْشَبْ اَنْ ضَحِکْتَ مَعَہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنِ اتَّقَاہُ النَّاسُ لِشَرِّہِ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آنے کی اجازت مانگی۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں گھر میں آپ کے ساتھ تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ قبیلے کا برا آدمی ہے۔ پھر اس کو اجازت دے دی۔ زیادہ دیر نہ گزری کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ ہنس رہے ہیں۔ جب وہ شخص نکل گیا تو میں نے کہا یا رسول اللہ! آپ نے اس کے بارے میں جو بات کہی وہ تو کہی اور پھر میں نے آپ کو دیکھا کہ زیادہ دیر نہیں گزری کہ آپ اس کے ساتھ ہنس کر باتیں کر رہے ہیں، (یہ کیا؟)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدترین آدمی وہ ہے کہ جس کے شر کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا جلنا ترک کر دیں۔

وضاحت

آدمی سے ملاقات کے دوران میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہنس ہنس کر باتیں کیں تو یہ حقیقت میں آداب گفتگو اور آداب ملاقات میں سے ہے۔ ملنے والا دوست ہو یا دشمن، آدمی کو ملاقات اور گفتگو کے معاملے میں سیاسی ہونا چاہیے۔ یہ مناسب نہیں ہوتا کہ آپ ہر وقت لٹھ لیے بات کریں کہ تو کافر ہے، مرتد ہے، جاہل ہے، میں تجھ سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ جو بھی آئے، اس سے بات قرینے سے کریں، دلیل سے کریں، مہذب اور شائستہ طریقے سے کریں۔ یہ آداب گفتگو میں سے ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے متعلق جو یہ فرمایا کہ ’بئس ابن العشیرۃ‘ اس پر لوگ بحث کرتے ہیں کہ آپ نے یہ غیبت کیوں کر جائز کر لی۔ میرے نزدیک نہ یہ غیبت تھی اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کو جائز کر لیا۔ غیبت وہ ہوتی ہے جس میں کسی کو بدنام کرنا مقصود ہو اور آدمی یہ کام اس کی غیرحاضری سے فائدہ اٹھا کر کر رہا ہو۔ رستہ چلتے کسی کے بارے میں رائے دینا اس ذیل میں نہیں آتا۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ جو لوگ پبلک زندگی گزارنے کے مدعی ہیں، وہ ہمارے لیڈر اور امام بن کر سامنے آتے ہیں، لوگوں سے وفاداری اور سمع و طاعت کا اقرار لینے کی جدوجہد کرتے ہیں تو ان کی زندگی پبلک ہوتی ہے۔ آپ ان پر ہر جگہ تنقید کر سکتے ہیں، بحث کر سکتے ہیں، اخباروں میں لکھ سکتے ہیں، ان کی ایک ایک چیز پر ان کے لتے لے سکتے ہیں، اس لیے کہ وہ اپنے آپ کو نمونے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے متعلق کچھ کہنا غیبت نہیں۔ جن لوگوں نے اس کو غیبت سمجھا ہے، میں نہیں جانتا کہ انھوں نے غیبت کا مفہوم کیا سمجھا ہے۔ جو لوگ پبلک میں نہیں جاتے، کوئی دعویٰ نہیں کرتے اور اپنی توفیق کے مطابق جو خدمت بن آئے، وہ کرتے ہیں، اس قسم کے لوگوں کے متعلق اگر کوئی شخص پس پردہ بات کرے اور وہ بات ایسی ہو کہ اس کی خواہش یہ ہو کہ وہ متعلقہ آدمی نہ جاننے پائے تو یہ غیبت ہے، چاہے بات بجائے خود صحیح ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو دوسرے کے منہ پر کہنے کا تو حق حاصل ہے تاکہ اس کو نصیحت ہو، لیکن پس پردہ کہنے کا کیا فائدہ! اس نے اپنے آپ کو پبلک میں تو پیش نہیں کیا ہے۔ لہٰذا میرے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو غیبت کہنا غلط ہے۔

حَدَّثَنِیْ عَنْ مَالِکٍ عَنْ عَمِّہِ اَبِی سُھَیْلِ بْنِ مَالِکٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ کَعْبِ الْاَحْبَارِ اَنَّہُ قَالَ اِذَا أحْبَبْتُمْ اَنْ تَعْلَمُوا مَا لِلْعَبْدِ عِندَ رَبِّہِ فَانْظُرُوا مَاذَا یَتْبَعُہُ مِنْ حُسْنِ الثَّنَاءِ.
ابو سہیل بن مالک اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ کعب احبار نے کہا کہ جب تم یہ جاننا چاہو کہ اس بندے کا اللہ کے ہاں کیا مرتبہ ہے تو اس بات کو دیکھو کہ لوگ اس کے پیچھے کیا تعریف کرتے ہیں۔

وضاحت

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں، بلکہ کعب احبار کی بات ہے۔ میرے خیال میں یہ بات انھوں نے اپنے اس علم کے مطابق کہی ہو گی جو ان کو یہود سے ملا تھا۔ ہمارے ہاں یہ مضمون اس سے قدرے مختلف آتا ہے۔ مثلاً یہ کہ ایک شخص کا جنازہ جا رہا تھا تو لوگوں نے کہا کہ مرنے والا بہت صالح اور متقی بندہ تھا، شاید اس نے جنت پالی۔ اسی طریقے سے ایک دوسرے آدمی کا جنازہ اٹھا تو لوگوں نے مرنے والے کو برا آدمی کہا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ دونوں آدمیوں کے ساتھ معاملہ لوگوں کی رائے کے مطابق ہو گا، کیونکہ تم لوگ ’شہداء اللّٰہ فی الارض‘ (روئے زمین پر اللہ کے گواہ) ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ جب تک یہ امت ’شہداء اللّٰہ فی الارض‘ کے مقام پر فائز رہی، اس وقت تک اس کی شہادت کا یہی درجہ تھا کہ جس کے متعلق اس نے کہا کہ خیر ہے، خدا کے ہاں بھی وہ خیر ہی قرار پایا۔ لیکن جب امت اس مرتبہ سے گر گئی تب ان کی شہادت کا کچھ وزن نہیں۔ اس وقت عالم اسلام کے چوٹی کے لیڈروں کا جو پوری قوم کے ماں باپ سمجھے جاتے ہیں، حال یہ ہے کہ ان کی زندگیوں کا اسلام سے کوئی تعلق جوڑنا چاہے تو مشکل سے بھی آپ کو اس کا کوئی سراغ نہیں ملے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ’شہداء اللّٰہ فی الارض‘ نہیں رہے۔
حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی بات ان لوگوں کے متعلق درست ہے جو اپنے صحیح مقام پر ہیں۔ یہ صالحین و ابرار کے تعلق سے درست ہے، ہمارے اول دور کے متعلق درست ہے، لیکن اس زمانے میں یہ بات غلط ہے کہ جس کے پیچھے جتنے زیادہ لوگ ہیں، وہ اتنا ہی بڑا جنتی ہے۔ ہمارے معاشرہ میں آج کل جتنا ہی کوئی بڑا ممدوح ہے، وہ اتنا ہی دین کے اعتبار سے ناقص نظر آتا ہے۔ لیکن لوگ اس کے شیدائی ہوتے ہیں۔

حَدَّثَنِی عَنْ مَالِکٍ عَنْ یَحْیٰی بْنِ سَعِیدٍ اَنَّہُ قَالَ بَلَغَنِی اَنَّ المَرْءَ لَیُدْرِکُ بِحُسْنِ خُلُقِہِ دَرَجَۃَ الْقَاءِمِ بِاللَّیْلِ الظَّامِیِء بِالْھَوَاجِرِ.
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آدمی اپنے حسن اخلاق کی وجہ سے رات میں نماز کے لیے کھڑے ہونے والے اور سخت دھوپ میں روزہ رکھنے والے کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔

وضاحت

حسن اخلاق سے مراد دانت نکال کر بات کرنا نہیں، بلکہ لوگوں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آنا، لوگوں کی خدمت کرنا، ان سے ہمدردی کرنا، ان کی صحیح رہنمائی کرنا اور ان کی غلطیوں کو معاف کرنا ہے۔ یہ تمام کام جو شخص کرتا ہے، وہ قائم باللیل اور صائم بالنہار کا ثواب حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نماز چھوڑ دیں، روزہ نہ رکھیں اور پھر بھی وہ مرتبہ آپ کو مل جائے۔ نہیں، آپ نماز پڑھتے رہیں گے، روزہ رکھیں گے اور حسن اخلاق سے پیش آئیں گے تو اگرچہ آپ نے زیادہ نمازیں نہیں پڑھیں، زیادہ روزے نہیں رکھے تو حسن خلق کی وجہ سے ان کی قدرے تلافی ہو جائے گی۔ مقصود آپ کو باکردار آدمی بنانا ہے۔
حدیث میں دوسری جگہ یہ بات بھی آئی ہے کہ ایک خاتون نمازیں تو زیادہ نہیں پڑھتی تھی، لیکن دوسرے اس کی اذیت سے محفوظ رہتے اور وہ کچھ خیرات بھی کرتی تھی، تو آپ نے فرمایا کہ وہ جنتی ہے۔ عبادات میں جتنا فرض اور واجب ہے، وہ کرنا ضروری ہے۔ اگر نماز روزہ چھوڑ دیں گے اور دن رات لوگوں کی خدمت کرتے رہیں گے تو آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔ لیکن اگر آپ نماز روزہ واجب طریقے سے کرتے ہیں اور خدمت خلق بھی کرتے ہیں تو بلاشبہ آپ کا جتنا خلق اچھا ہو گا اس سے عبادات میں کمی کی تلافی ہوتی رہے گی۔

حَدَّثَنِی عَنْ مَالِکٍ عَنْ یَحْیٰی بْنِ سَعِیدٍ اَنَّہُ قَالَ سَمِعْتُ سَعِیْدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ یَقُولُ اَلَا أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرٍ مِنْ کَثِیْرٍ مِنَ الصَّلَاۃِ وَالصَّدَقَۃِ قَالُوا بَلٰی قَالَ اِصْلَاحُ ذَاتِ الْبَیْنِ وَاِیَّاکُمْ وَالبُغْضَۃَ فَاِنَّھَا ھِیَ الحَالِقَۃُ.
یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ میں نے سعید بن مسیّب سے سنا۔ وہ لوگوں سے پوچھ رہے تھے کہ کیا میں تم کو بتاؤں کہ زیادہ نماز اور زیادہ صدقہ سے بہتر کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں۔ تو کہنے لگے کہ دو آدمیوں کے درمیان معاملہ کی اصلاح کر دینا اور بغض اور عناد سے بچنا کہ یہ چیز مونڈ دینے والی ہے۔

وضاحت

مونڈ دینے کا مطلب یہ ہے کہ پھر اس کے بعد آدمی کے اندر دین کا کوئی شائبہ رہ ہی نہیں جاتا۔ جس طرح سے حجام سر مونڈ دیتا ہے، اسی طریقے سے باہمی بغض و عناد سارے دین کا تیاپانچہ کر دیتا ہے۔ یہ صالح مسلمانوں کے لحاظ سے درست بات ہے۔ لیکن جو شخص دین کا دشمن ہو گیا ہو، اس سے بغض رکھنا ایمان کی علامت ہے۔
اس روایت کا مطلب بھی اوپر والی روایت کا ہی ہے کہ زیادہ نماز اور زیادہ صدقہ سے بڑھ کر اصلاح ذات البین کا مقام ہے۔ یعنی اگر آپ کے علم میں ہے کہ دو اچھے بھائیوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا ہے تو اس اختلاف کو دور کرنا اور ان میں صلح کرا دینا بہت بڑی نیکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان باہم مل کر ایک دیوار کی طرح ہیں جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔ اگر ایک اینٹ بھی کھسک جائے تو پوری دیوار میں رخنہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس وحدت کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اختلافات دور کیے جائیں۔ یہاں بھی یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اگر دین کے معاملے میں اختلاف ہے تو اس میں خدا کے واسطے سے صلح کرانے کی کوشش نہ کریں۔ اگر آپ کو پورا علم نہیں ہے تو خواہ مخواہ اس میں دخل نہ دیں۔

حَدَّثَنِی عَنْ مَالِکٍ اَنَّہُ قَدْ بَلَغَہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ حُسْنَ الْأَخْلَاقِ.
امام مالک کو یہ بات پہنچی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھیجا گیا ہوں کہ حسن اخلاق کی تکمیل کروں۔

وضاحت

بعض روایتوں میں حسن اخلاق کی جگہ مکارم الاخلاق ہے۔ روایت کے معنی کے لحاظ سے میں اس کو ترجیح دیتا ہوں۔ یہ فرق روایت بالمعنی ہونے کی وجہ سے ہے۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دین مکمل کرنے کے لیے مبعوث ہوئے تو مکارم اخلاق کی تکمیل بھی آپ کے فرائض منصبی میں شامل تھی۔ تمام اعلیٰ اخلاق، اعلیٰ کردار جس کو آپ کیرکٹر کہتے ہیں، اور اس میں قومی کردار بھی شامل ہے اور انفرادی کردار بھی، ان سب میں نقطہ کمال سے آپ نے امت کو آگاہ فرمایا تاکہ کوئی خلا باقی نہ رہ جائے۔ اور آپ نے اس کا حق ادا کر دیا۔