اہل دنیا کو یہ معلوم نہیں کہ امین احسن...

اہل دنیا کو یہ معلوم نہیں کہ امین احسن...

 ممتاز صحافی اور دانش ور ارشاد احمد حقانی مرحوم نے اپنے ایک کالم ’’آہ! الطاف گوہر‘‘ میں گوہر صاحب کی وفات کے حوالے سے لکھا تھا:

’’آخری سے پہلی ملاقات میں جب ابھی ان کے اندر قدرے طویل گفتگو کرنے کی توانائی موجود تھی ،مجھے کہنے لگے: سورۂ بقرہ کی دوسری آیت میں ’ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ‘ میں ’ذٰلِکَ‘ کے مفہوم پر میرا ذہن پوری طرح صاف نہیں تھا۔ میں نے مختلف تفاسیر دیکھیں، لیکن جو رہنمائی مجھے مولانا امین اصلاحی کی ’’تدبر قرآن‘‘ سے ملی، اس کا جواب نہیں۔‘‘

حقانی صاحب مزید لکھتے ہیں:

’’تد بر قرآن ‘‘ کا مطالعہ کرنے کا مشورہ میں نے انھیں دیا تھا۔ افسوس کہ اپنی صحت کی حالت کی وجہ سے وہ قرآنی علوم کے اس خزانے سے حسب خواہش استفادہ نہ کر سکے، لیکن انھیں اس کی قدرو قیمت کا اچھی طرح احساس ہوگیا تھا۔‘‘(جنگ ۱۶ نومبر ۲۰۰۰)

الطاف گوہر مرحوم نے انتہائی بھرپور طویل عوامی اور سرکاری زندگی گزاری تھی۔ آپ صدر ایوب خان کے سیکرٹری انفارمیشن رہے۔ مشہور دانش ور، شاعر، ادیب، صحافی، مترجم، براڈ کاسٹر اور متجسس طالب علم تھے ، دینی علوم کی طرف خاص رجحان تھا،دین پر لیکچرز دیا کرتے تھے، لیکن افسوس وہ اصل امین احسن اصلاحی سے ناواقف تھے ۔جب امین احسن کے بارے میں اخص الخواص کی بے خبری کایہ عالم ہوتو خواص اورعوام کی ناواقفیت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

علم و شعور و آگہی کی آبرو کہاں
سب مٹ گئی ہے کشمکشِ انقلاب میں

۱۹۲۵ء میں امام حمیدالدین فراہی کی شاگردی میں آنے کے بعداصلاحی صاحب کا یہ معمول رہا کہ صبح ۳ بجے بیدار ہوتے، نماز تہجد ادا کرتے اور پھرقرآن مجید پر تدبر کیا کرتے تھے ...... تین برس سخت بیمار رہنے کے بعد ۱۵ دسمبر ۱۹۹۷ء کی صبح تین بجے ہی وہ اپنے محبوب حقیقی سے جا ملے تھے۔
صاحب ’’تدبر قرآن‘‘ ہماری قوم بلکہ بنی نوع انسان کے عظیم محسن تھے۔لیکن پچھلے دنوں ۱۵ دسمبر آیا اور خاموشی سے گزر گیا۔افسوس کھلاڑیوں اور اداکاروں کے سحر میں مبتلا اورسیاست دانوں کے غیر مہذب مباحثوں کی شکار اور اپنے عارضی اور ابدی مستقبل سے بے گانہ کس قدر سطح بین ہے یہ دنیا۔
قرآن کو ایصال ثواب او رحصول ثواب تک محدود کرنے والے اہل دنیا کو شاید یہ معلوم نہیں کہ قرآن کو اگر حصول ہدایت کا ذریعہ بنانا ہے تو تفسیرِ امین احسن ’’تدبر قرآن‘‘ پر تدبر کرنا ہوگا۔ دین کو اگر دلیل اور تہذیب کے ساتھ لوگوں کے عقل و قلب میں اتارنا ہے تو تالیف امین احسن ’’دعوت دین او راس کا طریق کار‘‘ کا معالعہ کرنا ہوگا۔ دین کو محض ریاست کا نظام سمجھنے والے اہل ظاہر نے اگر دین کو اس کی حقیقت اور وسعت کے ساتھ سیکھنا ہے تو تحقیق امین احسن ’’تزکیۂ نفس‘‘ پر غور کرنا ہوگا۔
شاید اہل دنیا کو یہ معلوم نہیں کہ امین احسن سے ناواقفیت درحقیقت ،فہم اسلام کے صحیح ترراستے، نبیوں کے اک سچے جانشیں اوردنیاے علم کے ایک امام سے ناواقفیت ہے۔امین احسن نے دینی علوم وفنو ن میں تحقیق و جستجو،تعلیم و تربیت، تصنیف و تالیف اور تحریر و تقریر کاکا م جس جرأت و بے باکی ، صبر و ثبات ، انا و خودداری او رلطافت و نفاست کے ساتھ کیا ہے اس کی مثال تلاش کرنا مشکل ہے۔وہ اپنی کارکردگی میں انتہائی کامیاب رہے ہیں مگر معلوم ہوتاہے کہ ان کی بدقسمت قوم ان سے پوری طرح فائدہ اٹھانے میں تاحال ناکام ہی رہی ہے۔وہ تو قوم کو اللہ کے کلام کے ساتھ ہم کلام کرنا چاہتے ہیں، اس کا تعلق اللہ کے ساتھ براہ راست قائم کر کے اسے غیر اللہ کی غلامی سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔ وہ توتقلید وجمود کی کال کوٹھری میں جکڑی ہوئی قوم کو دلیل و برہان کی روشن، وسیع او رخوش گوارر فضا میں لانا چاہتے ہیں۔ لیکن معلوم ہوتاہے جب امین احسن بقید حیات تھے وہ یہ شکروشکایت ضرور کرتے ہوں گے: 

تاثیر ہے یہ میرے نفس کی کہ خزاں میں    مرغانِ سحر خواں میری صحبت میں ہیں خورسند
لیکن مجھے پیدا کیا اس دیس میں تو نے    جس دیس کے بند ے ہیں غلامی پہ رضا مند!

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2013
Uploaded on : Apr 09, 2018
1477 View