حدیث و سنت کی حجیت: مدرسۂ فراہی کے موقف کا تقابلی جائزہ (۲) - سید منظور الحسن

حدیث و سنت کی حجیت: مدرسۂ فراہی کے موقف کا تقابلی جائزہ (۲)

 

(گذشتہ سے پیوستہ)

[یہ مضمون راقم کے ایم فل علوم اسلامیہ کے تحقیقی مقالے سے ماخوذ ہے۔’’حدیث و سنت کی حجیت پر مکتب فراہی کے افکار کا تنقیدی جائزہ‘‘
کے زیر عنوان یہ مقالہ جی سی یونیورسٹی لاہور کے شعبۂ عربی و علوم اسلامیہ کے تحت ۲۰۱۲ء۔ ۲۰۱۴ء کے تعلیمی سیشن میں مکمل ہوا۔]

حدیث و سنت کی حجیت کے حوالے سے یہ مدرسۂ فراہی کے علما کا فکر و عمل ہے اور اِس کی بنا پر یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ حقیقت کے لحاظ سے اِن کے اور ائمۂ سلف کے موقف میں سرمو کوئی فرق نہیں ہے۔ جس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو ابدی طور پر مطاع تسلیم کرتے ہیں، اُسی طرح یہ بھی آپ کے قول و فعل اور تقریر وتصویب کو قیامت تک کے لیے واجب الاطاعت قرار دیتے ہیں، جس طرح اُن کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دین کے شارع اور شارح کا مقام حاصل ہے، اُسی طرح اِن کے نزدیک بھی شریعت کا اجرا اور دین کی شرح و وضاحت آپ کا منصبی فریضہ ہے اور جیسے وہ حدیث و سنت کو دین میں حجت کے طور پر قبول کرتے ہیں، ویسے ہی یہ بھی اِنھیں عین دین سمجھتے ، اِن کی حجیت کو تسلیم کرتے اور اِن سے انحراف کو ایمان و اسلام کے منافی قرار دیتے ہیں ۔ درج بالا اقتباسات اِس معاملے میں قطعی شہادت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم ، اِس کے باوجود بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مکتب فکر اور اِس کے حاملین حدیث و سنت کے انکار کے حوالے سے اُنھی مکاتب اور اُنھی افراد کا تسلسل ہیں کہ جو نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی اور تشریحی حیثیت کو اصولی لحاظ سے تسلیم کرتے ہیں اور نہ حدیث وسنت کی صورت میں آپ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی حجیت کو ابدی طور پر قبول کرتے ہیں اور جن میں دور اول سے معتز لہ اور خوارج اور دور جدید سے سرسید احمد خان ، رشید رضا مصری، مولوی چراغ علی، اسلم جیراج پوری اور غلام احمد پرویز کے نام شامل کیے جاتے ہیں۔ مدرسۂ فراہی کے بارے میں اِس موقف کا اظہار بالعموم اہل حدیث علما اور اُن کے زیر اثر بعض دیگر اہل علم کی طرف سے سامنے آیا ہے۔
چنانچہ ایک اہل حدیث عالم مولانا عبدالمنان سلفی ’’حدیث کی تشریعی اہمیت‘‘ کے زیر عنوان اپنے ایک مضمون میں انکار حدیث کے آغاز کو خوارج، معتزلہ اورجہمیہ سے منسوب کرتے ہیں اور بعض حنفی علما کے ساتھ مدرسۂ فراہی کے اہل علم کو بھی اِس صف میں شامل کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’...پھر دوسری صدی ہجری میں خوار ج نے اہل بیت کے فضائل سے متعلق اور شیعوں نے صحابہ کے فضائل سے متعلق حدیثوں کا انکار کیا ، معتزلہ اور جہمیہ جیسے گمراہ فرقوں نے ان احادیث کو رد کر دیا جن سے صفات الٰہی کا اثبات ہو تا تھا ۔ اور پھر قاضی عیسیٰ بن ابان اور ان کے متبعین اور بعض متاخرین فقہاء نے ان روایتوں کو قابل اعتناء نہ سمجھا جو ان کے بقول غیر فقیہ صحابہ سے مروی تھیں پھر پانچویں صدی ہجری میں معتزلہ و متکلمین کے ساتھ بعض متاخرین فقہا کی ایک جماعت نے اصول و فرع دونوں میں خبر آحاد کا انکار کیا اور یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ چودھویں صدی ہجری میں مولوی چراغ علی اور سر سید احمد خان جیسے لوگ جو مغربی تہذیب سے مرعوب اور احادیث کے فنون سے قطعی ناواقف تھے مجموعہ احادیث کو تاریخ کا ذخیرہ قرار دیا اور نیچر کو معیار بنا کر سینکڑوں صحیح حدیثوں کو قلم زد کر دیا۔ اس کے بعد مولوی عبد اﷲ چکڑالوی اور ان کے چیلے غلام احمد پرویز ، مولوی احمد دین اور مولانا اسلم جیرا جپوری وغیرہ نے بالکلیہ حدیثوں کا انکار کر دیا اس کے بعد علماء کی ایک جماعت پیدا ہوئی جس نے احادیث کا صراحتاً انکار نہ کیا، لیکن ان کے انداز تحریر سے حدیث کا استخفاف اور استحقار کا پہلو ظاہر ہوا اور ان کے طرز گفتگو سے انکار حدیث کے چور دروازے کھل گئے۔ اس جماعت کے سرخیل لوگوں میں برصغیر کے علماء مولانا شبلی نعمانی ، مولانا حمید الدین فراہی، مولانا ابوالا علی مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی اور عرب دنیا کے محمد عبدہ، قاسم امین ، محمود ابوریہ، احمد امین ، حسین ہیکل، محمد الغزالی ، محمد الخضری ، حسن ترابی ، محمد زاہد کوثری ، عبدالفتاح ابو غدہ اور سعید رمضان البوطی وغیرہ ممتاز ہیں، ان حضرات نے درایت، ظن ، فقہ راوی اور خبر آحاد وغیرہ کا سہارا لے کر بعض ثابت شدہ حدیثوں میں تشکیک کی کوششیں کی ہیں۔‘‘ ۵۹؂

اہل حدیث مکتب فکر کے ایک اور عالم مولاناحافظ صلاح الدین یوسف نے مکتب فراہی کے تینوں نمایندہ علماکے بارے میں یہ الزام عائد کیا ہے کہ اُن کے افکار کا سفر حدیث کے استخفاف سے شروع ہوتا اور انکار حدیث سے ہوتا ہوا قرآنی مسلمات کے انکار پر منتج ہوتا ہے:

’’ مولانا اصلاحی صاحب کے تلامذہ میں سے سب سے نمایاں ،ممتاز اور قریب جناب جاوید احمد غامدی کو دیکھ لیجئے، جو مولانا اصلاحی کو’’امام ‘‘ لکھتے ہیں۔ یوں اس گروہ کے امام اول مولانا حمیدالدین فراہی، امام ثانی مولانا امین احسن اصلاحی قرار پاتے ہیں اور بمصداق ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، امام ثالث یہی غامدی صاحب ہیں۔ یہ کوئی استہزاء نہیں ہے۔ اگر اول الذکر دونوں بزرگ امام ہیں تو تیسرے امام یقیناًغا مدی صاحب ہی ہیں۔
بہرحال مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ امام اول( مولانا فراہی) نے حدیث کے استخفاف اور اس سے بے اعتنائی کی جو بنیاد رکھی تھی، دوسرے امام (مولانا اصلاحی) کے رویے نے اسے انکار حدیث تک پہنچا دیا اور انہوں نے رجم کی احادیث اور دیگر بعض صحیح احادیث کو رد اور ’’مبادی تدبر حدیث‘‘ کے ذریعے تمام ذخیرہ احادیث کو مشکوک قرار دے دیا اور اب تیسرے امام نے قرآنی مسلمات کا بھی انکار کر دیا ہے۔ ‘‘۶۰؂

حافظ صلاح الدین یوسف نے اپنے ایک مضمون میں یہ نقطۂ نظر بھی اختیا کیا ہے کہ غامدی صاحب نے ائمۂ سلف کے موقف کے علی الرغم حدیث اور سنت کی اصطلاحات میں فرق کیا ہے جس کا مقصد حدیث و سنت کے ایک حصے کو غیر معتبر کرنا ہے۔ مزید برآں اُن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فقط اعمال مستمرہ کو قابل عمل قرار دینا اور دین کو صرف دین ابراہیمی کی روایت تک محدود کر دینا حدیث کے ایک بڑے ذخیرے کے انکار کے مترادف ہے۔ لکھتے ہیں:

’’اس دور کے جن لوگوں نے حدیث رسول کی تشریعی حیثیت کودل سے تسلیم نہیں کیا اور وہ اس کے ماخذ شریعت ہونے کو مشکوک ٹھہرانے کی مذموم سعی کر رہے ہیں، انھوں نے حدیث و سنت کے مفہوم میں فرق کیا ہے۔... واقعہ یہ ہے کہ ائمۂ سلف اور محدثین نے سنت اور حدیث کے مفہوم کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ وہ سنت اور حدیث، وونوں کو مترادف اور ہم معنی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح سنت سے صرف عادات و اطوار مراد لے کر ان کی شرعی حجیت سے انکار بھی غلط ہے اور انکار حدیث کا ایک چور دروازہ۔ یا صرف اعمال مستمرہ کو قابل عمل کہنا یا دین کو صرف دین ابراہیمی کی موہومہ یا مزعومہ روایت تک محدود کر دینا، احادیث کے ایک بہت بڑے ذخیرے کا انکار ہے۔‘‘۶۱؂
... اگر ان کے اور ائمۂ سلف کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے تو وہ واضح کریں کہ انھوں نے بھی حدیث اور سنت کے درمیان فرق کیا ہے۔ یہ فرق سلف نے کہاں بیان کیا ہے؟ائمہ سلف میں کس نے کہا ہے کہ ’’حدیث سے عقیدہ و عمل کا اثبات نہیں ہوتا؟‘‘... علاوہ ازیں یہ گروہ ’’سنت ، سنت‘‘ کی بڑی رٹ لگاتا ہے جس سے اس کا مقصود یہ تاثر دینا ہوتا ہے کہ حدیث گو ان کے نزدیک غیر معتبر ہے، لیکن سنت کی ان کے ہاں بڑی اہمیت ہے۔ لیکن اول تو حدیث و سنت میں یہ فرق ہی خانہ ساز ہے۔ کسی امام محدث یا فقیہ نے ایسا نہیں کہا ہے۔ ان کے نزدیک حدیث اور سنت مترادف اور ہم معنی ہے۔ جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، عمل اور تقریر سے ثابت ہے وہ دین میں حجت ہے۔ اسے حدیث کہہ لیں یا سنت، ایک ہی بات ہے۔‘‘ ۶۲؂

پروفیسر مولانا محمد رفیق نے ’’ جاوید احمد غامدی اور انکار حدیث‘‘ کے زیر عنوان اپنی ایک کتاب میں اُن وجوہات کو درج کیا ہے جو اُن کے تاثر کے مطابق غامدی صاحب پر انکار حدیث کے الزام کو ثابت کرتی ہیں۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے بعض احادیث و سنن کی تاویل میں غامدی صاحب کے منفرد موقف کو بنیاد بنایا ہے ۔ اِسی طرح غامدی صاحب کے سنت کے ثبوت کے لیے اجماع و تواتر کی شرط قائم کرنے اور خبر واحد سے عقیدہ و عمل کے ثبوت کو تسلیم نہ کرنے کے موقف کو بھی بطور دلیل پیش کیا ہے۔ اُنھوں نے لکھا ہے:

’’...درج ذیل وجوہات کی بنا پر ہمارے نزدیک غامدی صاحب منکر حدیث قرار پاتے ہیں: انھوں نے سنت کا اصطلاحی مفہوم بدل ڈالا ہے۔ وہ نبی کریم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کو سنت نہیں مانتے۔وہ سنت کے ثبوت کے لیے اجماع و تواتر کی شرط لگاتے ہیں۔ وہ سنت کو ۲۷ اعمال میں محصور سمجھتے ہیں۔وہ تمام احادیث کو اخبار آحاد قرار دیتے ہیں۔ وہ حدیث کو دین کا ماخذ تسلیم نہیں کرتے اور اس سے ثابت شدہ کسی عقیدے، عمل یا حکم کو نہیں مانتے۔وہ مرتد کے لیے سزائے قتل کو نہیں مانتے۔وہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی حد تسلیم نہیں کرتے۔وہ قتل خطا میں دیت کے مستقل شرعی حکم کو عارضی اور وقتی مانتے ہیں۔ وہ زکوٰۃ کے نصاب کو منصوص اور مقرر نہیں مانتے، بلکہ ریاست کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ جب چاہے زکوٰۃ کی مقداروں میں کمی بیشی کر دے۔... یہ ہیں غامدی صاحب کے عقائد و نظریات اور ہمارے نزدیک وہ اپنے انہی عقائد ونظریات کے سبب سے منکرین حدیث میں شمار ہوتے ہیں۔‘‘۶۳؂

ایک صاحب علم ڈاکٹر محمد امین نے مولانا اصلاحی کے اِس موقف پر تنقید کی ہے کہ سنت عملی تواتر سے منتقل ہوئی ہے۔ اُن کے نزدیک تواتر عملی کا تصور محض ایک نظری بات ہے، کیونکہ سنت تک رسائی کا ذریعہ وہ احادیث ہیں جو اخبار آحاد کے طریقے پر منتقل ہوئی ہیں:

’’مولانا اصلاحی نے حدیث و سنت میں فرق کرتے ہوئے یہ جدت پیدا کی ہے کہ سنت کو ’تواتر عملی‘ سے ثابت شدہ کہہ کر انھوں نے سر پر بٹھا لیا ہے اور احادیث کے سارے ذخیرے کو خبر واحد ، ظنی الثبوت اور مجموعۂ رطب و یابس کہہ کر پیچھے پھینک دیا۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ سنت محض ’تواتر عملی‘ سے ثابت ہی نہیں ہوتی۔ لہٰذا جس چیز کو مولانا سنت کہہ رہے ہیں وہ ایک نظری بات ہے اور نظری لحاظ سے سنت کی حجیت پر ساری امت متفق ہے کہ اس پر تو مدار ایمان ہے کہ خود قرآن کی رو سے حضور کی اطاعت واجب ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال فرما جانے کے بعد آپ کی وہ سنت کہاں ہے جس کی اطاعت کی جائے؟ اس بارے میں جمہور امت کا موقف یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو جاننے کا ذریعہ وہ صحیح احادیث ہیں جو ثقہ راویوں سے مروی ہیں ، اسی لیے وہ انھیں تقدس کا درجہ دیتی ہے، جبکہ منکرین حدیث اور اصلاحی صاحب ایسا نہیں سمجھتے۔ مولانا اصلاحی حدیث کو خبر واحد، ظنی الثبوت اور مجموعۂ رطب و یابس کہہ کر اسے اہمیت نہیں دیتے اور جس سنت کو وہ سر کا تاج اور مثل قرآن کہتے ہیں، وہ عملاً کہیں موجود ہی نہیں۔ مولانا اصلاحی کی اس ’فطانت‘ کا فائدہ یہ ہے کہ جب ان کے تلامذہ عام مسلمانوں سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم تو قرآن کے ساتھ سنت کو بھی حجت مانتے ہیں، ہم کوئی منکرین سنت تھوڑی ہیں‘‘ حالانکہ سنت سے ان کی مراد وہ نہیں ہوتی جو جمہور مسلمانوں کی ہوتی ہے۔ اس طرح یہ لوگ عام مسلمانوں کو ایک غلط تاثر دیتے ہیں۔‘‘ ۶۴؂

کم و بیش اِسی موقف کا اظہار ایک اور صاحب علم ڈاکٹر حافظ محمد زبیر نے اپنی کتاب ’’فکر غامدی ۔ ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ‘‘ میں کیا ہے۔ اُن کے نزدیک جناب جاوید احمد غامدی کے نظریات اہل سنت کے نظریات سے یکسر مختلف ہیں اور اِس ضمن میں بنیادی بات یہ ہے کہ اہل سنت قطعی و ظنی خبر کو سنت کے ثبوت کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جبکہ غامدی صاحب کے مطابق سنت صحابہ کے اجماع اور عملی تواتر سے ثابت ہوتی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’...اہل سنت کے نزدیک دین یعنی قرآن و سنت کے ثبوت کا بنیادی ذریعہ قطعی و ظنی خبر ہے، جبکہ غامدی صاحب قرآن و سنت کے ثبوت کا بنیادی ذریعہ اجماع صحابہ اور قولی و عملی تواتر کو قرار دیتے ہیں۔‘‘۶۵؂

مولانا غازی عزیرنے ’’انکارِ حدیث کا نیا روپ‘‘ کے زیر عنوان اپنی ایک مفصل تصنیف میں مولانا اصلاحی کی کتاب ’’مبادیِ تدبر حدیث‘‘ کو ہدف تنقید بنایا ہے اوربیش تر مقامات پر حدیث و سنت کے فرق، اجماع و تواتر سے سنت کے ثبوت اور اخبار آحاد کی ظنیت کے ساتھ اُن کے اِس موقف کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ لکھتے ہیں:

’’جناب اصلاحی صاحب بھی ’’صحیح البخاری‘‘ (کتاب الایمان) کی ایک حدیث کا انکار کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:’’یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ عقائد کی بنیاد لازماً قرآن پر ہونی چاہیے۔ کوئی عقیدہ خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتا۔ یہاں خبر واحد کا عقیدہ چونکہ قرآن کے بیانات سے متناقض ہے لہٰذا اس معاملے میں قرآن ہی کے بیان کو حاکم سمجھا جائے گا۔‘‘لیکن یہ رائے علی الاطلاق مسلم نہیں ہے۔ امام ابن حزم اندلسیؒ نے اپنی معروف کتاب ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں ، حافظ ابن قیمؒ نے ’’مختصر الصواعق المرسلہ‘‘ میں اور محدث عصر محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اﷲ نے اپنے رسالہ ’’الحدیث حجۃ بنفسہ فی العقائد والا حکام‘‘ میں اس ،منفرد رائے کے رد میں کافی تفصیل سے بحث کی ہے اور اس کے مغالطات و شبہات کا خوب جائزہ لیا ہے۔‘‘۶۶؂

یہ چند نمایندہ تنقیدات ہیں۔ مدرسۂ فراہی پرحدیث و سنت کی حجیت کے انکار کا الزام اِنھی میں مذکور استدلال پر مبنی ہے۔اِس ضمن میں جو تنقیدی مضامین ان کے علاوہ لکھے گئے ہیں، اُن میں بھی اسی طرز استدلال کا اعادہ ہے۔جملہ تنقیدات کے غلط بیانی پر مبنی مندرجات اور غیر محققانہ اور تاثراتی اسالیب سے قطع نظر کر کے اگر اُن سے علمی استدلال کا استخراج کیا جائے تو درج ذیل تین نکات متعین ہوتے ہیں:

ایک یہ کہ مدرسۂ فراہی کے اہل علم حدیث و سنت کے جملہ مشمولات میں ذرائع انتقال کے فرق کی بنا پر تفریق کے قائل ہیں۔وہ اجماع و تواتر سے ملنے والے حصے کو قطعی الثبوت اور اخبار آحاد سے ملنے والے حصے کو ظنی الثبوت قرار دیتے ہیں اور اِس بنا پر یہ راے رکھتے ہیں کہ خبر واحد سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔
دوسرے یہ کہ وہ حدیث و سنت کی اصطلاحات اور اِن کے مفہوم و مصداق میں فرق قائم کرتے ہیں۔مزید براں اُن میں سے بالخصوص غامدی صاحب سنت کو دین ابراہیمی کی نسبت سے اعمال مستمرہ تک محدود کرتے ہیں جس کے نتیجے میں احادیث کا ذخیرہ سنت کے دائرۂ اطلاق سے خارج ہو جاتا ہے۔
تیسرے یہ کہ اُنھوں نے درایت، ظن ، فقاہتِ راوی اور اِس طرح دیگر اصولوں کو دلیل بنا کر بعض صحیح اور ثابت شدہ روایتوں کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔
یہ وہ دلائل ہیں جنھیں بنیاد بنا کر مدرسۂ فراہی پرحدیث و سنت کی حجیت کے انکار کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ مدرسۂ فراہی کے بارے میں یہ تینوں باتیں فی الجملہ درست ہیں، مگر اِن سے حدیث و سنت کی حجیت کے انکار کا نتیجہ برآمد کرنا سراسر غلط ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ تینوں نکات مدرسۂ فراہی کا امتیازنہیں ہیں، سلف و خلف کے جلیل القدر علما بھی اصولی لحاظ سے اِنھی نکات کے موید ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی شخص اِنھیں دلیل بنا کر فراہی اور اصلاحی و غامدی پرحدیث و سنت کی حجیت کے انکار کا الزام عائد کرتا ہے تو پھر لازم ہے کہ اُسے اِن کے ساتھ ساتھ امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی ، امام احمد بن حنبل اور جمہور فقہاے احناف، مالکیہ اور شوافع؛ اور امام بخاری اور امام مسلم سمیت جملہ محدثین؛ اور خطیب بغدادی، ابو بکرسرخسی، ابن عبدالبر، ابو اسحاق شاطبی، شاہ ولی اللہ،سید سلیمان ندوی اورابوالاعلیٰ مودودی جیسے جلیل القدر علمائے امت کو بھی شامل کرنا چاہیے، کیونکہ مذکورہ نکات کلی یا جزوی طور پر اِن میں سے ہر ایک کے فکر و عمل پر صادق آتے ہیں۔۶۷؂
[باقی] 

________

۵۹؂ سلفی، عبدالمنان، مولانا، علوم الحدیث، مرتب سلفی ،رفیق احمد،لاہور،دارالکتب السلفیہ،۲۰۱۰ء، ص۹۴۔
۶۰؂ غازی عزیر، انکار حدیث کا نیا روپ، لاہور،مکتبہ قدوسیہ،۲۰۰۹ء،ج ۱ ، ص۲۰۔
۶۱؂ یوسف، صلاح الدین، حافظ، ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ، فروری۲۰۱۵ء ، ص۳۶۔۳۷۔
۶۲؂ یوسف، صلاح الدین، حافظ، ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ، مارچ ۲۰۱۵ ء، ص۳۶۔۳۷۔
۶۳؂ محمد رفیق، پروفیسر، جاوید احمد غامدی اور انکار حدیث، مکتبۂ قرآنیات، لاہور، ص۵۔
۶۴؂ محمد امین، ڈاکٹر، حافظ، محدث، ماہنامہ،لاہور،اگست ۲۰۰۱ء، ص۴۱۔
۶۵؂ حافظ محمد زبیر، ڈاکٹر، فکر غامدی ۔ایک تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ، مکتبہ رحمۃ للعالمین لاہور، ۲۰۱۲ء،ص۱۸۷۔۱۸۹۔
۶۶؂ غازی عزیر، انکار حدیث کا نیا روپ،لاہور،مکتبہ قدوسیہ،۲۰۰۹ء،ج ۱ ، ص۶۶۔
۶۷؂ یہاںیہ واضح رہے کہ امت کی علمی روایت میں حدیث و سنت کی حجیت کے انکار کا ذمہ دار اُن لوگوں کو قرار دیا گیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی اور تشریحی حیثیت کو اصولی لحاظ سے تسلیم نہیں کرتے اور حدیث وسنت کی صورت میں آپ کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی حجیت کو ابدی طور پر قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ جیسا کہ دورِ جدید کے بعض اہل علم نے اسی موقف کا اظہار کیا ہے۔ مثلاً مولانا اسلم جیراج پوری لکھتے ہیں:

’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دو حیثیتیں تھیں۔(۱) پیغمبری: یعنی پیغامات الٰہی کو لوگوں کے پاس بے کم وکاست پہنچادینا۔ اس حیثیت سے آپ کی تصدیق کرنا اور آپؐ کے اوپر ایمان لانا فرض کیا گیا۔ یہ پیغمبری آپؐ کی ذات پر ختم ہو گئی۔ (۲) امامت: یعنی امت کا انتظام ، اس کو قرآن کے مطابق چلانا۔ اس کی شیرازہ بندی ، ان کے باہمی قضایا کے فیصلے، تدبیر مہمات اور جنگ وصلح جیسے اجتماعی امور پر ان کی قیادت اور قائم مقامی وغیرہ۔اس حیثیت سے آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری لازم کی گئی۔یہ امامت کبریٰ جو آپؐ کی ذات سے بنی نوعِ انسان کی صلاح و فلاح کے لئے قائم ہوئی قیامت تک مستمر ہے جو آپؐ کے زندہ جانشینوں کے ذریعے سے ہمیشہ رہنی چاہیے۔ قرآن میں اطاعت رسولؐ کے جو احکام ہیں آپ کی ذات اور زندگی تک محدود نہیں ہیں، بلکہ منصب امامت کے لیے ہیں جس میں آپؐ کے آنے والے تمام خلفاء داخل ہیں۔ ان کی اطاعت رسولؐ کی اطاعت ہے اور رسولؐ کی اطاعت اﷲ کی اطاعت ہے۔ قرآن میں جہاں جہاں اﷲ ورسولؐ کی اطاعت کا حکم دیاگیا ہے ، اس سے مراد ا مامِ وقت یعنی مرکزِ ملت کی اطاعت ہے۔ جب تک محمد صلی اﷲ علیہ وسلم امت میں موجود تھے۔ ان کی اطاعت اﷲ و رسولؐ کی اطاعت تھی (اور یہ اُمت ہمیشہ آپؐ ہی کی اُمت رہے گی۔ کیونکہ آپؐ کے اوپر ایمان لائی ہے) اور آپؐکے بعد آپؐ کے زندہ جانشینوں کی اطاعت اﷲ ورسولؐ کی اطاعت ہو گی۔...الغرض حدیث کا صحیح مقام دینی تاریخ کا ہے اس سے تاریخی فائدے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن دین میں حجت کے طور پر وہ نہیں پیش کی جاسکتی۔ اس کو دین بنا لینے سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ قرآن کریم جو سراسر زندگی ہے، حجاب میں آگیا ہے۔‘‘ (مقام حدیث ۸۳)

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت ستمبر2016
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Mar 12, 2018
3883 View