نئے میدان جنگ کا انتخاب - سید منظور الحسن

نئے میدان جنگ کا انتخاب

 [جناب جاوید احمد غامدی کی ایک گفتگو سے ماخوذ]

گذشتہ دو صدیوں میں ہماری ہزیمت کی داستان بار بار دہرائی گئی ہے۔ میسور، پلاسی، بالاکوٹ، دہلی، افغانستان اور عراق کے جنگی میدانوں میں ہماری شکست اب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس شکست کے اسباب و عواقب کے بارے میں ہمارے ارباب علم و دانش مختلف الخیال ہیں ۔ بعض اسے اللہ کی آزمایش سے تعبیر کر کے عزیمت و استقامت کا درس دیتے ہیں۔ بعض قومی انتشار کا نتیجہ تصور کر کے اتحاد و یک جہتی کی تلقین کر تے ہیں اور بعض سپر پاورکی عسکری برتری کا مظہر قرار دے کر عسکری قوت کے حصول کا لائحۂ عمل تجویز کر تے ہیں۔ یہ سب تجزیے اور تجاویز درست ہو سکتی ہیں ، مگر ایک حقیقت ان کے ماسوا بھی ہے جس سے ہماری فکری اور سیاسی قیادت مسلسل صرف نظر کر رہی ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری قوم نے جنگ کے لیے غلط میدان کا انتخاب کر رکھا ہے۔ ایک ایسا میدان جنگ جس میں ہم پے در پے شکست کھا رہے ہیں۔ یہ مادی قوت کا میدان ہے ۔ اس قوت کا مظہراگر دولت ہے تو ہمارے ہاتھ میں کاسۂ گدائی ہے، اگر علم و فن ہے تو ہمارا جہل مسلم ہے، اگر اسلحہ ہے تو ہم بے دست و پاہیں اور اگر اقتدار ہے توہم محکوم محض ہیں۔ مادی قوت کے ان تمام مظاہر سے ہمارا وجود بالکل خالی ہے ۔ اس حقیقت کے تلخ نتائج کا مسلسل شکار ہونے کے باوجود ہم مسلسل اسی میدان میں جان کی بازی لگا رہے ہیں۔ یہ عمل اگرسوچا سمجھا ہوتا تو سوچ کے زاویوں کو نیا رخ دے کر ہزیمت کی گردش سے نکلا جا سکتا تھا، مگر المیہ یہ ہے کہ یہ سرتاسر بے شعوری پر مبنی ہے۔ ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ہم مادی قوت کے جس میدان میں برسر جنگ ہیں ، اس میں فتح و کامرانی کے اسباب علوم و فنون ، زراعت و معدنیات اور صنعت و تجارت ہیں۔انھیں بعض اقوام نے جمع کر کے مادی قوت کے میدان میں اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ جذباتی نعروں، موہوم تمناؤں اور بے بنیاد دعووں کے ذریعے سے ہم یہ اجارہ داری ختم کرسکتے ہیں۔
بہرحال، صداقت صرف اور صرف یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مادی قوت کا میدان ہماری ہزیمت کا میدان ہے ۔ ہم اگر اسی کمزور حیثیت سے اس میدان میں برسر پیکار رہے تو خدانخواستہ بربادی کی عبرت انگیز داستانیں رقم ہوتی رہیں گی اور قانون الٰہی کے عین مطابق شکست ہی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔ اس میدان میں اگر ہم کوئی کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ پہلے اس میدان سے نکل کر مادی قوت کے وہ تمام اسباب و وسائل حاصل کریں جو کامیابی کے لیے ناگزیر ہیں۔ ان کے حصول کے لیے ایک طویل جدوجہد درکار ہے ۔ آج اگر ہم اس جدوجہد کا آغاز کریں تو ممکن ہے کہ ایک مدت بعد انھیں حاصل کر لیں ۔
تاہم ، ایک میدان جنگ ایسا ہے جس میں فتح یابی کے اسباب و و سائل اس وقت بھی ہمارے پاس موجود ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرہم اس میں سرگرم عمل ہوں تو دنیا کی سب اقوام مل کر بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اس میدان میں ہماری فتح یقینی ہے۔ یہ مادی قوت کا نہیں، بلکہ فکری قوت کا میدان ہے۔ ہمارے پاس پروردگار عالم کی آخری ہدایت کی صورت میں لافانی فکری قوت موجود ہے۔یہودیت ہو یا عیسائیت،بدھ مت ہو یا ہندو مت، تمام مذاہب پر اس کی فضیلت مسلم ہے۔ تصوف، لادینیت، اشتراکیت،سرمایہ داری اور دیگر سیاسی، معاشی اور عمرانی افکار میں سے کوئی فکر بھی اسے چیلنج کرنے کا اہل نہیں ہے۔چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ اگر اس میدان میں مغرب سقراط و فلاطوں سے لے کر فرائڈ اور مارکس تک فلاسفہ کی تمام فکری قوت کو بھی مجتمع کر لے تب بھی اس کی رسائی محمد عربی کے افکار تک نہیں ہو سکتی ۔
یہ مقدمہ اگر درست ہے تو پھر ہمیں یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ اب ہمیں اقوام عالم کی علاقائی سرحدوں کو نہیں ، بلکہ نظریاتی سرحدوں کو ہدف بنانا ہے؛ ہمیں ان کے ملکوں پر نہیں، بلکہ ان کے افکارپر تاخت کرنی ہے اور ہمیں ان کے جسموں کو نہیں، بلکہ دل و دماغ کوتسخیر کرنا ہے۔چنانچہ اس نئے میدان میں ہمیں تعلیم و تعلم ، اصلاح و دعوت اور اخلاق و کردار کے زور پر دنیا کو یہ بتاناہے کہ پیغمبر اسلام کی رسالت ایک ثابت شدہ تاریخی حقیقت ہے۔ یہودیت اور نصرانیت جیسے الہامی ادیان کا اثبات بھی اس رسالت کے اثبات پر منحصر ہے۔ یہ واضح کرنا ہے کہ زمین پر اللہ کی ہدایت کا آخری اور حتمی منبع قرآن مجید ہے ۔ اس کی حفاظت کے انتظام، اس کی شان کلام اور ا س کی خالص عقلی و فطری تعلیمات کی بنا پر اس کی حاکمیت دیگر الہامی صحائف اور افکار فلاسفہ پرہر لحاظ سے قائم ہے ۔چنانچہ عقیدہ و ایمان اور فلسفہ و اخلاق کے تمام مباحث میں رہتی دنیا تک اسے میزان اور فرقان کی حیثیت حاصل ہے۔ ہر نظریے اور ہر عمل کو اب اس کی ترازو میں تلنا اور اس کی کسوٹی پر پرکھا جانا ہے۔ اس میدان میں ہمیں یہ بھی تسلیم کرانا ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کوصحیح خطوط پر قائم کرنے کا وا حد راستہ اسلامی شریعت ہے ۔ اس ضمن میں یہ ان مسئلوں کو بھی حل کرتی ہے ، جنھیں انسانی عقل اپنی محدودیتوں کی وجہ سے حل نہیں کر سکتی۔ اس کی روشنی میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جس میں حیا کو بنیادی قدر کی حیثیت حاصل ہو اور معاشرے کی اکائی خاندان کو اس قدر استحکام حاصل ہو کہ انسان بچپن اور بڑھاپے کی ناتواں زندگی بھی خوش و خرم گزار سکے ۔ ایک ایسا نظم معیشت وجود میں آسکتا ہے جو لالچ،جھوٹ اور استحصال سے پاک ہو۔ ایک ایسی ریاست وجود میں آسکتی ہے جس کا نظام شہریوں کی فلاح کا ضامن اور عدل و انصاف کا عکاس ہو۔ اس کی برکت سے دنیا میں ایک ایسے ماحول کا وجود پذیر ہونا ممکن ہے جس میں انسان کا اصل ہدف دنیا نہیں ، بلکہ آخرت ہو۔ انسان اپنی دنیوی ذمہ داریاں مسابقت کے پورے جذبے کے ساتھ انجام دے ، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کی نظر اخروی کامیابی پر ہو۔ اس بنا پر یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ شریعت کی روشنی جس خطۂ ارضی کو منور کر دے ، اس میں دہشت، درندگی، ظلم اور اخلاق باختگی کے مظاہر شاذ ہو جاتے ہیں۔
فکری قوت کے اس میدان میں پیش قدمی کو حالات زمانہ نے بہت سازگار بنا دیا ہے ۔کچھ عرصہ پہلے تک افراد ، اقوام اور حکمران جنگ کی نفسیات میں جیتے تھے ۔ جس کے پاس مادی قوت ہو ،اس کا یہ حق تسلیم شدہ تھا کہ وہ اگر چاہے تو اخلاقی جواز کے بغیر بھی کمزور کوتر نوالا بنا لے۔ چنگیز، ہلاکو، ہٹلر اور میسولینی جیسے حکمران قوموں کی تباہی کو اپنا حق سمجھتے تھے ۔ خوف و دہشت کو بین الاقوامی قانون کی حیثیت حاصل تھی۔ یہ فضا اب تبدیل ہو گئی ہے۔ دنیا کا اجتماعی ضمیر جنگ کی نفسیات سے نکل آیا ہے۔ جنگ سے نفرت اور امن سے محبت کا چلن ہے ۔ انسان دوسرے انسانوں کے اور اقوام دوسری قوموں کے حق خود ارادی کو تسلیم کرنے لگی ہیں۔ خوف و دہشت کے مظاہر عظمت کے بجاے ذلت کی علامت قرار پا گئے ہیں ۔ پھر میڈیا کی عظیم وسعت نے دنیا کے ہرشخص تک رسائی کا دروازہ کھول دیا ہے ۔ اس صورت حال میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اسلام کی دعوت کے لیے میدان بالکل صاف ہے اور یہ آج جس قدر موثر ہو سکتی ہے، گذشتہ زمانے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ چنانچہ اس وقت ہمارے لیے واحد لائحۂ عمل یہ ہے کہ جب تک ہم مادی اعتبار سے ضروری قوت بہم نہیں پہنچا لیتے، اس وقت تک اپنی تمام تر توانائیاں فکری قوت کے میدان میں بروے کار لائیں۔ یہی ہماری فتح یابی کا میدان ہے۔ ایک ایسا میدان جس میں شکست کا کوئی تصور نہیں ہے ۔

____________

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2005
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Apr 06, 2017
2550 View