قیامت تو روزانہ آ رہی ہے!

قیامت تو روزانہ آ رہی ہے!

 ۲۱ دسمبر ۲۰۱۲ کو جمعہ کے دن ایک سیارہ زمین کی سطح کے ساتھ ٹکرائے گا،جس سے انتہائی بھیانک آواز پیدا ہو گی، پھر ایسی تباہی وبربادی شروع ہوگی کہ زمین سے انسانی زندگی کا وجود ختم ہوجائے گا۔انٹرنیٹ پر اس خبر پر مبنی Animations کو کروڑوں کی تعداد میں لوگوں نے دیکھا او ر پریشانی کا اظہار کیا۔اہل مغرب کا اعصابی تناؤ سب سے بڑھ کر رہا ۔ ہالی وڈ نے اس موضوع پر خطیر سرمایے سے ایک فلم بنا ڈالی جو پوری دنیا میں بڑی دلچسپی کے ساتھ دیکھی گئی جس کی پاکستان میں بھی نمائش ہوئی تھی اور جسے اردو میں ڈب کر کے ایک ٹی وی چینل نے بھی نشر کر دیا تھا۔ اس طرح لوگوں میں یہ بحث پوری سنجیدگی کے ساتھ چھڑ گئی کہ کیا قیامت اس طرح کے کسی حادثے کے نتیجے میں آئے گی ؟ صورت حال اس حد تک سنگین ہوگئی کہ اس معاملے میں امریکی خلائی ادارے ناسا کو مداخلت کرنی پڑی او راس نے اس خبر او رفلم کو ایک افسانہ قرار دے کر مستر د کر دیا۔
۲۱ دسمبر ۲۰۱۲ کو دنیا کا خاتمہ ۔ یہ عقیدہ ایک قدیم تہذیب مایا کے ماننے والوں کا ہے۔یہ تہذیب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدایش سے بہت پہلے اس دنیا میں موجو تھی ۔یہ لوگ زبان، حساب اور ستاروں کے علم میں بہت ترقی یافتہ تھے۔ ان کی تہذیبی برتری نے گرووپیش کی اقوام کو بھی متاثر کیا تھا۔
مایا تہذیب کا عقیدہ ایک طرف رکھتے ہیں۔مگر اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا عارضی طور پر بنائی ہے اور ایک دن قیامت برپا ہو گی ، جزا و سزا کے بعدابدی زندگی شروع ہوگی جو کہ اس زمین و آسمان کے تباہ ہونے کے بعد شروع ہو گی۔یہ عقل اور عدل پر مبنی تصور قرآن مجید میں مختلف مقامات پر بیان ہواہے:

’’(یہ اس دن کو یاد رکھیں )جب زمین ہلا دی جائے گی،جس طرح اسے ہلانا ہے ،اور زمین اپنے سب بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی۔اور انسان کہے گا :اس کوکیاہوا۔ ‘‘(الزلزال۹۹:۱۔۳)

’’(اُس دن کو یاد رکھو)، جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی۔ اور سب اللہ، واحد و قہار کے حضور میں پیش ہوں گے۔‘‘ (ابراہیم ۱۴: ۴۸)

وہ منظر مایاتہذیب کے اندازے سے کہیں زیادہ ہولنا ک ہوگا۔اس وقت آسمان پھٹ جائے گا۔سورج اور چاند اکٹھے کر دیے جائیں گے۔ تارے بکھر جائیں گے۔سمندر پھوٹ بہیں گے۔پہاڑ اڑادیئے جائیں گے۔قبریں کھول دی جائیں گی۔صرف تباہی ہی نہیں ہوگی،احتساب بھی ہوگا۔کڑا احتساب۔ تمام مرے ہوئے انسانوں کی ہڈیوں کو جمع کر کے اور ان کی پور پور کو درست کر دیا جائے گا۔ جب کوئی سفارش چلے گی اور نہ رشوت۔ جھوٹی گواہی کا کوئی امکان ہوگا اور نہ تعلقات ہی کام آئیں گے۔

’’کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ یونہی چھوڑ دیا جائے گا۔‘‘ (القیامہ:۳۶)

’’نہ کسی کی دوستی کام آئے گی اور نہ کسی کی سفارش نفع پہنچائے گی۔‘‘ (البقرہ:۲۵۴)

قرآن وحدیث میں مذکور قرب قیامت کی بہت سی نشانیاں ظاہر ہوچکی ہیں۔اور کچھ کا ظہور ابھی باقی ہے۔معلوم ہوتاہے کہ قیامت کا معاملہ اتنا قریب بھی نہیں ہے۔لیکن ایک حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتاہے کہ موت کی آمد کاسلسلہ تو شب وروز جاری ہے۔ وہ آنے سے پہلے اجازت نہیں لیتی۔وہ تو اچانک آجاتی ہے ۔وہ سب کے بوڑھا ہونے کا انتظار نہیں کرتی۔وہ نوجوانوں کوبھی اچانک دبوچ لیتی ہے حتیٰ کہ ماں کے پیٹ کے اندر نشوونما پانے والے بچے کو دنیا میں آنکھ کھولنے سے قبل ہی آلیتی ہے۔روزانہ ہماری نیند اور پھرنیند سے بیداری بھی تو موت اور موت کے بعد اٹھائے جانے کی تذکیر کر رہی ہے۔سورۂ زمر میں ہے:

’’اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی، انھیں نیند کے وقت سوتے میں، پھر جن پر موت کا حکم کر چکتا ہے، ان کو روک رکھتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر تک کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔‘‘ (آیت: ۴۲)

سونے اور جاگنے کی دعا ہی پرغو رکریں:

’’اے اللہ میں آپ کا نام لے کر مرتا(سوتا)ہوں اور زندہ ہوتا(جاگتا) ہوں۔‘‘

’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہمیں مار کر زندگی بخشی اور ہم کو اسی کی طرف قبروں سے اٹھ کر جانا ہے۔‘‘

سچ تو یہ ہے کہ:

سرخ لوہے پر قطرہ پانی کا
یہ حقیقت ہے زندگانی کی

اس حقیقت کو سبھی مانتے ہیں۔مگر مان کر بھول جاتے ہیں۔وہ اپنے دل ویران کر لیتے ہیں۔اور دھو کہ دہی ،عہد شکنی، سود خوری، امانت میں خیانت،تکبر ،غیبت، کرپشن،قتل وغارت گری ،غرض یہ کہ ہر برے کام میں ملوث ہو جاتے ہیں۔کاش اعلیٰ حقائق سے بے اعتنائی برتنے والے ہمارے پرانے اور نئے ابھرنے والے لیڈروں کو بھی کوئی سمجھائے کہ ملکی حالات کے مسئلے کی جڑبنیاد کیا ہے۔مسائل کا اصل منبع کہاں ہے۔مسئلہ وہ دلائل ہیں جن کی بنیاد پر لوگ اپنے ضمیر کے روبرو شرارت کرتے ہیں۔ مسئلہ نظام کی تبدیلی نہیں ، دلوں کی تبدیلی کا ہے۔مسئلہ ہماری جلد پر ابھرنے والے نشانات نہیں،دل کی بیماری ہے۔علاج بیماری کا کریں ، مرض کی علامات کا نہیں۔اور دلوں میں تبدیلی کیسے آتی ہے، اس کا جواب بھی دلوں کے حال کو جاننے والے نے دے رکھا ہے۔اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا رخ ادھر کر کے بھی دیکھیں۔
یارب:

پیدا دل ویراں میں پھر شورش محشر کر
اس شہر کے خوگر کوپھر وسعت صحرا دے
 

قیامت کب آئے گی، اس کا علم اللہ کے پاس ہے،لیکن جس کی موت واقع ہوتی ہے ،اس کی قیامت توآ جاتی ہے۔اس کے سامنے سے تو غیب کے پردے ہٹ جاتے ہیں۔اس کی جزا او رسزا کا معاملہ تو ایک خاص انداز میں شروع ہوجاتا ہے۔قرآن کی رو سے:

’’تو اس وقت کیا ہو گا جب فرشتے ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے ان کی روحیں قبض کریں گے۔‘‘(سورۂ محمد: ۲۷)

’’ان کو جن کو فرشتے پاکیزہ حالت میں وفات دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں آپ لوگوں پر سلامتی ہو! داخل ہوجائیے جنت میں، اپنے اعمال کے صلہ میں۔‘‘ (النحل ۳۲)

موت کو یاد رکھنے میں زندگی ہے ۔فر د کی بھی ، قوم کی بھی۔دنیا کی بھی، آخر ت کی بھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی موت کو یاد رکھنے کی نصیحت فرمائی اور قبرستان میں تواتر سے جانے کی ہدایت فرمائی ہے۔
موت روزانہ آرہی ہے ، توانفرادی سطح پر قیامت بھی روزانہ برپا ہورہی ہے۔حضرت انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اسے آج بتایا جائے کہ اگلے ہفتے تم امریکا جانے والے ہوتو وہ بڑی سرگرمی کے ساتھ اس ملک کے لحاظ سے تیار ی شروع کر دیتاہے ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے جہاں میں جانے والا ہے ،اور اس سفر کا آغاز کسی وقت بھی ہوسکتا ہے مگر اسے اس کی تیاری کی کوئی فکر نہیں!
افسوس: 

اس سراب رنگ وبو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ!اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2013
Uploaded on : Dec 28, 2016
2476 View