مسئلۂ شر اور انکارِ خدا - ساجد حمید

مسئلۂ شر اور انکارِ خدا

[ماہنامہ اشراق کے جولائی ۲۰۱۷ء کے شمارے میں طبع شدہ میرا مضمون ’’الحادِ جدید اور ہم‘‘ ایک سمپوزیم (منعقدہ ۲۰۱۳ء) میں پڑھا گیا تھا۔ اس مقالے میں مسئلۂ شر کو اٹھایا گیا تھا، مگر اس کا جواب مقالے میں موجود نہیں تھا، اس لیے وہ مقالہ پڑھے جانے کے بعد سمپوزیم کے شرکا کے مطالبہ پر یہ مضمون، جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے، لکھا گیا اور اگلے ہی ہفتہ اسے ان کے سامنے پڑھا گیا۔ مصنف]

مسئلۂ شر

مسئلہ شر یہ ہے کہ یہ دنیا اگر حکیم و علیم، رحمن و رحیم اور قادرِ مطلق رب کی بنائی ہوئی ہے تو اس میں بدی اور مصیبت نہیں ہونی چاہیے۔بدی اور مصیبت کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا موجود ہی نہیں ہے، اس لیے کہ خدا کامل ترین ہستی کا نام ہے، جب کہ یہ کائنات ان دو چیزوں کی موجودگی کی وجہ سے ناقص معلوم ہوتی ہے۔اس لیے یہ ماننا پڑتا ہے کہ یہ دنیا مادے کی اندھی صفات کا اظہار اور کارفرمائی ہے ، اسے کسی عاقل و مہربان ہستی نے وجود پذیر نہیں کیا ہے۔ ذیل میں اس نکتے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
مادی نگاہ سے دیکھیں تو یہ کائنات اپنے چلنے اور زمین پر موجودات و حیات کے سلسلہ کے طور پر مکمل نظر آتی ہے۔ مذہبی لوگ بھی خدا کی کاملیت کے احساس کے تحت اسے ہر پہلو سے مکمل سمجھتے ہیں۔۱؂ واقعہ بھی یہی ہے کہ ایک مکمل نظامِ طبعی ہے جو مادے کی دونوں اقسام۲؂ کے ظاہری و مخفی اوصاف سے جنھیں طبیعاتی اصول (physical laws) کہا جاتا ہے کے زیر اثر بہ خوبی چلتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ ڈے کارٹ (Descartes) کے ما بعد عہد کے کارتیسی اصول کے مطابق ایک شان دار مشین ہے، جو اپنے فرائض بہ طریق احسن انجام دے رہی ہے۔ لیکن جب مذہب خدا کی بات کرتا ہے تو اس لحاظ سے فلسفیوں اور بعض فلسفہ ساز سائنس دانوں کو یہ دنیا ناقص دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً اگر خدا ہے تو آیا ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ چینی صرف مومنین کی چائے میٹھی کیا کرے،اور کافروں کی چائے بدمزہ کردیا کرے!لیکن یہاں کچھ اور ہی سلسلہ دکھائی دیتا ہے کہ چینی دونوں کے ساتھ ایک سا سلوک کرتی ہے، بلکہ شاہوں، ظالموں اور لٹیروں کے گھر میں آسانی سے دستیاب ہے۔ان کی ہر چائے کی پیالی کو میٹھا کرنے کے لیے ہر وقت دست بستہ حاضر ہے۔
ایک ظالم چودھری، سارے گاؤں والوں پر ظلم کرتا ہے، ان سے زمینیں، باج، مزدوری، عورتیں نہ جانے کیا کیا لوٹتا اور بٹورتا ہے، مگر اس کی ساٹھ ستر سالہ زندگی میں ایک دن بھی پریشانی نہیں آتی، اگر آتی ہے تو ایسی پریشانیاں تو شرفا و صلحا پر بھی آتی ہیں؟ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا کہاں ہے؟ یقیناًخدا موجود نہیں ہے، بلکہ یہ سب بھی طبعی اصولوں پر ہے یا تاریخ اور وقت کی دھارا ہے جو لوگوں پر اتار چڑھاؤ لاتی ہے، جس کی زد میں صالحین بھی آتے ہیں اور ظالمین بھی۔ خداے بابرکت کا فیض تو کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔۳؂ 
ماضی میں اس کا جواب یہ دیا گیا تھا کہ خدا یہ کائنات بنا کر سو چکا ہے، اب اسے اس کے سیاہ و سفید سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ایرانیوں نے دنیا کو اہرمن و یزداں کی جولان گاہ قرار دے دیا تھا کہ یہ شیطان و رحمن کا ’’پانی پت‘‘ ہے جہاں دونوں نبرد آزما ہوتے ہیں۔ یونانیوں نے دیوتاؤں کی رزم گاہ سمجھا اور ہندوؤں نے رام کی لِیلا (theater)۔ گوتم بدھ کی راہبانہ زندگی کا سبب یہی احساس ہی بنا تھا کہ یہ دنیا دُکھا (دکھ)سے بھری ہے آؤ، ترکِ تمنا سے اس سے مکتی حاصل کریں۔ اسی اصول پر جدیدیت نے بالخصوص مارکس کے بعد یہ جواب دیا کہ خدا ہے ہی نہیں ،آؤ نظام بدل کر اس ظلم سے نجات حاصل کریں۔ مارکس کی برژوا اور پرولتاریہ کی تقریر یہ بتاتی ہے کہ یہ آجر کا ظلم ہے نہ کہ خدا کی بانٹ ہے۔

ادیانِ براہیمی کا جواب

مسئلۂ شر کے اس سوال کے جواب میں ابراہیمی مذاہب۴؂ نے یہ بات کہی ہے کہ خدا نے خیر و شر کی ستیزہ کاری اس دنیا میں ہمیں آزمانے کے لیے جاری کر رکھی ہے۔۵؂ خیر و شر، دونوں خدا کے اذن و تخلیق سے ہیں۔ یہ دنیا امتحان گاہ ہے، اس لیے اس میں شر کی موجودگی لازم ہے۔ یہ امتحان ایک جامع الجہات امتحان ہے۔یہ امتحان ایک سوچنے سمجھنے والی مخلوق سے لیا جانا ہے، اور اس مخلوق سے لیا جانا ہے جسے نہ صرف خیر و شر کے انتخاب کا اختیار دیا گیا ہے، بلکہ اس دنیا کے وسائل پر بھی اس کو کنٹرول دیا گیا ہے۔وہ اس کی مٹی کا کیمیا گر ہے۔ بقول اقبال(سیاق وسباق سے کاٹ کر):

تو شب آفریدی چراغ آفریدم     سفال آفریدی ایاغ آفریدم۶؂ 
بیابان و کہسار و راغ آفریدی     خیابان و گلزار و باغ آفریدم۷؂ 
من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم     من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم۸؂ 

انسان سے پہلے بہت سی مخلوقات پیدا ہوئیں، ان کو یہ قدرت نہیں ملی، لہٰذا نہ ان میں فلسفی ہوئے، نہ سائنس دان، نہ موجد اور نہ عمارت گر۔ اس مخلوق کی صلاحیتوں کے لحاظ سے امتحان یا دوسرے لفظوں میں کہیے کہ امتحان کے لحاظ سے مخلوق تیار کی گئی تھی۔جو مخلوق ذرے کے پیچھے جھانکنے کی صلاحیت رکھتی ہو، اس کے لیے امتحان بھی ایسا ہی بنایا جانا چاہیے تھا کہ وہ ذروں کو جھانک کر بھی خدا کو نہ دیکھ سکے۔ لیکن جس طرح اَن دیکھی چیزوں کو وہ نتائج فکر (inference) کے طریقے پر دریافت کرلیتا ہے، بس ویسے ہی وہ خدا کو دریافت کرسکے، اور ایسا کرنا سب کے لیے ممکن ہو۔اس کی تائید مزید یہ کی گئی کہ تمام انسانوں کو پیدایشی طور پر خدا کے ہونے کا سبق پڑھا دیا گیا اور رسولوں کے ذریعے سے اس کی تحکیم و تصویب کی گئی ۔ لیکن خدا کا اپنے آپ کو حسی سطح پر غیب میں رکھنا اس امتحان کے لیے ضروری قرار پایا، کیونکہ اگر خدا سامنے آجائے تو آزادی ختم ہو جائے گی اور امتحان ہو ہی نہیں سکے گا ۔ یہ امتحان ہے ہی یہ کہ اس حالت میں کہ خدا کا ہونا محسوس تک نہ ہو اور آدمی اس کی خاطر امتحان دے رہا ہو۔
امتحان ہے ہی یہی کہ انسان بن دیکھے خدا کو مانے اور مان کر اس کے لحاظ سے زندگی گزارے۔ ہمارا مطلب یہ ہے کہ امتحان صرف اچھے اعمال کرنے کا نام نہیں ہے،بلکہ امتحان دوہرا ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ خدا کو مانا جائے جو اَن دیکھا ہے ، لیکن کائنات کے مشاہدے اور برتنے سے حاصل معلومات سے قابل دریافت ہے اور پھر اس خدا کو ماننے کے تقاضے کے مطابق زندگی گزاری جائے(دینی اصطلاح میں یہی ایمان اور عمل صالح کہلاتے ہیں)۔ آج تو ہم عقلی طور پر بات کریں گے، لیکن کبھی موقع ملا تو قرآن کے چند مقامات کی آپ لوگوں کے سامنے وضاحت کرنا چاہوں گا، جس سے اس کائنات کی تخلیق میں امتحان کی غرض و غایت کو کس حسنِ خوبی سے بیان کیا گیا ہے ۔۹؂ 
لیکن جیسا ہم نے پچھلے مقالے میں دیکھا کہ مسئلۂ شرکے بعض پہلو حل طلب ہیں، مثلاً:
۱۔ بچوں پر سخت بیماریاں اور تکالیف کیوں آتی ہیں؟
۲۔ خدا اگر ہے، اور قادر ومالک اور علیم و حکیم بھی ہے تو براہ راست مداخلت کرکے امور کو درست کیوں نہیں کرتا؟
۳۔ دنیا کو برائی سے بھرا دیکھ کر ، یہ تصور بنتا ہے کہ خدا برا ۱۰؂ ہے، جب کہ خدا کو اچھا ہونا چاہیے۔
۴۔ اگر واقعی اللہ ہے، یہ دنیا اس نے بنائی ہے تو اس نے آزمانے کا کوئی بہتر طریقہ کیوں نہیں بنا لیا، یہ برا طریقہ ہی اسے کیوں سوجھا؟اس لیے یہی صحیح بات ہے کہ خدا کو نہ مانا جائے ۔ صرف مادے کوخالق و آمر (creater & controller) مان لیں تو سب اشکالات رفع ہو جاتے ہیں۔
آئیے اب مذہب کی بات کوسمجھتے ہیں۔

خدا کی اسکیم کا زاویۂ نگاہ

پہلے ایک تمثیل میں بات کو بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں ایک کلینک کے لیے ایک ڈاکٹر صاحب کو بھرتی کرنا چاہتا تھا ۔ اس مقصد کے لیے میرے گھر میں ایک ڈاکٹر صاحب آئے اور میں نے انھیں اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ جب میں چائے لے کر آیا تو انھوں نے میرے کمرے کے نقائص بیان کرنے شروع کیے۔ یہ کمرہ تو آپ نے صحیح ترتیب نہیں دیا، میں اپنے آلاتِ طب کہاں رکھوں گا؟ مریض کہاں بیٹھے گا ؟ میری میز کہاں ہوگی؟ اسٹریچر کہاں رکھا جائے گا؟ تم نے تو گھریلو قسم کے سامان سے ہی سارا کمرا بھر دیا ہے؟ لگتا ہے تم نے صحیح پلان نہیں کیا! تم نہایت ناسمجھ ہو!
ذرا بتائیے ،اس میں میرا کیا قصور ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ غلطی خود ڈاکٹر کی ہے کہ اس نے میرے ڈرائنگ روم کو اپنامطب (clinic) سمجھ لیا ہے ۔ڈرائنگ روم کو مطب کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ تمام اعتراضات درست ہیں۔ لیکن اس کے سارے اعتراضات دراصل اس وقت بے معنی ہو جائیں گے جب میں اسے کہوں کہ یہ تمھارا مطب نہیں، بلکہ میرا ڈرائنگ روم ہے۔ بالکل یہی معاملہ اس دنیا کا ہے۔ جس جس نے اسے رہنے کی دنیا کے طور پر دیکھا ہے، اس کو اعتراضات ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔تمام اعتراضات اس دنیا کی اسکیم نہ سمجھنے سے پیدا ہوئے ہیں۔ خداے رحمن کی اس امتحان گاہ کو اس کی صفات کے مطابق دار الرحمہ یا دار العدل سمجھ لیاگیا ہے، اور اس کی امتحانی اسکیم کو فراموش کر دیاگیا ہے۔
اس دنیا کا ایک ہی وصف ہے کہ یہ دار العدل نہیں، بلکہ دارالامتحان ہے۔صرف یہی وہ پہلو ہے جس کے لحاظ سے یہ دنیا مکمل ترین ہے۔ اس کا دار الامتحان ہونا اتنا کامل ترین ہے کہ خود بنانے والے ہی کا انکار کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ بعضوں نے پرچے پھاڑ دیے ہیں، بعضے پوچھے گئے سوالات کا مذاق اڑا رہے ہیں۔اوپر بچوں والا سوال ہی اٹھا کر دیکھیں کہ اس نے الحاد کے لیے راہ ہموار کردی ہے۔ اس سے آپ امتحان کے لیے اس دنیا کے کامل ہونے کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس قدر صریح سوال، اور اس قدر کھلی آزادی! اس طرح کے اشکالات پر قرآن کا تبصرہ بہت بڑھیا ہے۔ وہ یہ کہتا ہے کہ ’یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّیَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا‘۔ یہ وہ سوالات ہیں جس کو خدائی اسکیم کو فراموش کرکے دیکھیں تو گمراہی کا سبب ہیں اور خدائی اسکیم کے لحاظ سے دیکھیں تو ہدایت کا نہایت مفیدذریعہ ہیں۔ 
لہٰذا الحاد کی غلطی یہ ہے کہ وہ ڈرائنگ روم کو مطب سمجھے بیٹھا ہے۔ 
زاویۂ نگاہ یا اپروچ کا بدلنا، ساری حقیقتوں کو الٹ پلٹ دیتا ہے۔ زاویۂ نگاہ کے بدلتے ہی نور ظلمات اور ظلمات نور بن جاتے ہیں۔الحاد کی پہلی غلطی یہی ہے کہ اس امتحان گاہ کی آزادی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ خدائی اسکیم کو فراموش کرنے کے قابل ہوا ہے ۔اس قابل بھی ہواہے کہ اپنے لیے نیا اور جدا زاویۂ نگاہ بنا سکے۔ لہٰذا اب وہ اپنے خود ساختہ زاویۂ نگاہ سے اسے دیکھتا ہے تو — مطب کے لیے میرے ڈرائنگ روم کی طرح — یہ دنیا اس نئے زاویۂ نگاہ سے مطابقت رکھتی نظر نہیں آتی، لہٰذا سب کچھ غلط لگ رہا ہے۔یہ ایسا ہی ہے کہ میں آم کے درخت پر مالٹے ڈھونڈنے لگ جاؤں، اور مالٹے نہ ملنے پر آم کا پیڑ بنانے والے کا انکار کردوں ۔ یاہسپتال کی بلڈنگ میں بیڈروم یا ڈرائنگ روم نہ ہونے پر ہسپتال کا نقشہ بنانے والے کو کوسنے لگوں۔ تو ہر سمجھ دار آدمی یہی کہے گا کہ آم کے پیڑ پر آم ہی لگتے ہیں ، اور ہسپتال گھر نہیں ہوتا، جس طرح ڈرائنگ روم مطب نہیں ہوتا۔
میری بات کا مطلب یہ ہے کہ یہ امتحان گاہ ہے اور اس اعتبار سے یہ ہر لحاظ سے کامل ترین ہے۔ اس میں ملحدین کی موجودگی، خدا کا انکار، خدا کا مذاق اڑانا، وغیرہ سب کے سب اس کے کامل امتحان گاہ ہونے کے ثبوت ہیں کہ یہاں ہر طرح کی سوچ، عمل اور رویوں کی آزادی ہے۔ کھل کر کھیلو۔کسی راے، فکر، خیال، اور عمل پر کوئی قدغن نہیں ہے، لیکن یاد رہے کل جواب دہی ہو گی۔
اس دارالامتحان کا دوسرا وصف یہ ہے کہ اس کا نتیجہ اس دنیا میں نہیں نکلنا،اس لیے کہ اگر اس دنیا میں ہرنیکی اور ہر بدی کا نتیجہ نکلنے لگے تو بہت عجیب و غریب مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ ایک مسئلہ یہ پیدا ہو گا کہ یہ دنیا دارالامتحان ہی نہیں رہے گی۔اس بات کو سمجھنے کے لیے اب بچوں والے سوال ہی کو دوبارہ لیتے ہیں۔ امتحان گاہ کے امتحان گاہ بننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہاں خدائی عدل نظر نہ آئے، کیونکہ اگر بے گناہوں پر برے حالات نہ آئیں تو یہ بات دارالامتحان کے امتحان کو ختم کر دیتی ہے، یعنی برائی نہ کرو تو برے حالات نہیں آئیں گے۔تو سب کو پتا چل جائے گا کہ خدا ہے، کہ وہ اچھوں پر برے حالات نہیں آنے دیتا۔امتحان کا امتحان ہونا باقی ہی اس وقت رہتا ہے کہ جب برے حالات سب پر آئیں۔ اس لیے کہ یہ دنیا دارالعدل نہیں ہے کہ یہاں معصوموں پرمصیبت نہ آئے،صرف بروں پر آئے۔امتحان گاہ کے وصفِ امتحان گاہ کو قائم رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ یہاں بعض معصوم جانوں پر بھی کبھی کبھار مصیبت آئے۔ بچے پر مصیبت نہ آنا بھی اسی بات کا نشان بن جاتا کہ یہ معصوم ہیں، اس لیے جب گناہ گاری کی عمر میں آئیں گے تو تب ہی مصیبت کا شکار ہوں گے۔یہ بات بھی اس اسکیم کو ختم کردیتی ہے جسے ہم امتحان کہہ رہے ہیں۔
لہٰذا درست رویہ یہ ہے کہ اس اسکیم والے زاویۂ نگاہ سے اس کائنات کو دیکھیں نہ کہ اپنے زاویۂ نگاہ سے۔ سٹفن کووی۱۱؂ نے اپنی ایک کتاب میں زاویۂ نگاہ کی غلطی کو سمجھانے کے لیے ایک عمدہ مثال دی ہے۔ا س نے لکھا ہے کہ ایک بحری جہاز کا کپتان سمندر میں جارہا تھا، رات کا اندھیرا تھا، چلتے چلتے اسے سامنے ایک چھوٹا جہاز نظر آیا، جس میں بس ایک ہی لائٹ دور سے دکھائی دے رہی تھی۔اس نے اس جہاز کے کپتان سے وائرلیس پر رابطہ کیا اور جیسے ہی رابطہ ہو گیا تو اس نے چھوٹے جہاز کے کپتان کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ میں بڑے جہاز میں ہوں جو تمھارے سامنے تیزی سے بڑھ رہا ہے ، میرے سامنے سے ہٹ جاؤ اور مجھے راستہ دو۔ دوسری طرف سے آواز آئی سر، میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا ، آپ کو جہاز کا رخ موڑنا ہوگا۔ بڑے جہاز کا کپتان غصہ سے بھڑک اٹھا ، اس نے کہا: تمھیں معلوم نہیں، میں عہدے میں تم سے بڑا ہوں، میرا راستہ چھوڑ دو پیچھے ہٹ جاؤ، ورنہ تمھاری کشتی پاش پاش ہو جائے گی۔ دوسری طرف سے آوا ز آئی: سر، میں کشتی نہیں، بلکہ ایک چٹان پر بیٹھا ہوں اور اس بیکن ہاؤس کا نگران ہوں۔ باوجود آپ ایک بڑے عہدے پر ہیں، لیکن مجھے نہیں، آپ ہی کو رخ موڑنا ہوگا۔ کپتان کے لیے ایک دم حقیقت بدل گئی، وہ کشتی سے نہیں چٹان سے ٹکرانے کی طرف بڑھ رہا تھا ۔اب اس کو اپنے عہدے کے باوجوداپنے جہاز کا رخ موڑنا تھا، اب وہ سیدھا چلتے رہنے پر اصرار نہیں کرسکتا تھا۔ ہماری عقل بھی اس جہاز کے کپتان جیسی ہے۔غیب کے اندھیرے میں خدا دکھائی نہیں دے رہا، لیکن کیا اس سے حقیقت بدلنے والی ہے؟ ہر گز نہیں ،حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس دنیا کو اس کے بنانے والے کے زاویے سے دیکھیں نہ کہ اس جہاز کے کپتان کی طرح اپنے خیال سے۔

خدا ظلم کو آ کر کیوں نہیں روکتا؟

رہا یہ پہلو کہ خدا کی رحمت دنیا میں مظلوموں پر ظاہر کیوں نہیں ہوتی؟ تو اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ پھر دارالامتحان دو پہلوؤں سے مزید ناقص ہو جائے گا:
ایک اس پہلو سے کہ خدا کی ہمیشہ آنے والی مدد آزادی کو ختم کردے گی، اور جبر پیدا ہوجائے گا۔ اور دوسرے اس پہلو سے کہ خدا کے ظہور کا اس سے بڑا مظہر اور کیا ہوگا۔اوپر ہم لکھ چکے ہیں کہ خدا کا ظہور خود امتحان میں رکاوٹ ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس امتحان گاہ کی روحِ امتحان کو قائم رکھنے کے لیے خدا نے مظلوموں کی مدد کے لیے ایک مخفی نظام بنا رکھا ہے۔ لیکن یہ مخفی نظام بھی سو فیصدمعاملات کو نتائج تک نہیں پہنچاتا، اس لیے کہ اس کا سوفیصد کام کرنا بھی امتحان کے نظام کو خراب کرے گا۔ وہ مخفی نظام یہ ہے کہ خدا نے تمام انسانوں کو عقل و شعور دیا ہے، ان کے اندر دفاع و کوشش کا داعیہ رکھا ہے، ان کے جتھوں کو قوت عطا کی ہے، ان کے دلوں میں عدل و انصاف کا رعب رکھا ہے، ان میں سیاسی سوجھ بوجھ رکھی ہے،پھر حکمرانی عطا کی ہے کہ انصاف قائم ہو، عدل کا داعیہ اتنا قوی رکھا ہے کہ شاید ہی کوئی تہذیب ہو جس نے عدالت یا پنچایت نہ بنائی ہو۔ قوم، قبیلے اور افراد کی ہمدردی دلوں میں رکھی ہے، ایثار اور قربانی کا جذبہ رکھا ہے، حق چھننے پر غم و غصہ دلوں میں پیدا کیا اور انتقام کی آگ کا ایندھن سینوں میں رکھا ہے۔ قوموں اور قبیلوں کا ایک دوسرے پر سزا دینے کو چڑھ دوڑنے کا خوف رکھا ہے۔معاشرے میں اگر ظالم ہیں تو عدل پسند بھی پیدا کیے ہیں تاکہ لوگ لوگوں پر ظلم کی راہ میں رکاوٹ بنتے اور عدل و انصاف قائم کرتے رہیں۔ اس سب کی نگرانی کے لیے ضمیر کا غیر متبدل زاجراور نگران رکھا ہے، جو آخرت اور دنیا، دونوں کے نتائج سے ڈراتا ہے۔ اس کے علاوہ تکوینی پہلو بھی ہیں ، جو آپ لوگوں کی مجلس میں کسی اگلی نشست میں بیان ہونے چاہییں، یہاں صرف اشارہ کیے دیتا ہوں کہ سورۂ کہف کے واقعۂ خضر میں بیان ہوئے ہیں۔یعنی فرشتے اس دنیا میں مداخلت کرکے بناؤ بگاڑ کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں، اس لیے مظلوموں کی داد رسی کے لیے خدا کا ہاتھ ان کے سروں پر مخفی طور پر سایہ فگن رہتا ہے۔
تیسر ی وجہ یہ ہے کہ شربمعنی مصیبت موجب جزا ہے۔اس دنیا میں نہیں، آخر ت میں اجر کی وجہ سے اس دنیا میں تنگی لاحق ہونے دی جاتی ہے۔ظالم اپنے ظلم کی اور مظلوم اپنے دکھ کی پوری پوری جزا و سزا پائیں گے۔ مثلاً ساٹھ ستر سال کی مشقت بھری زندگی کے بعد دائمی راحت والے نقشۂ حیات میں مصیبت محنت کے قائم مقام معلوم ہوتی ہے جس کے بعد اس کا ثمرہ مل جاتاہے ۔وہ معصوم بچہ جو اس مصیبت میں ڈال کر امتحان کا ذریعہ بنایا گیا، آخرت میں اس مشقت اٹھانے کی وجہ سے بڑے انعام کا مستحق ہو گا۔
چوتھی وجہ شر کے ثمرات ہیں، جو بچہ بیماری اور مصیبت سے گزرتا ہے، وہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ سمجھ دار اور مضبوط ہوتا ہے، اس لیے مصائب کو فوراً نہیں روکا جاتا تاکہ وہ اپنے اثرات ڈال سکیں۔ رمضان کے روزوں کی مثال سے سمجھیے کہ امتحان تو ہفتہ بھر کے روزوں سے بھی ہو سکتا تھا، مگر اس نے جو تقویٰ تیس دنوں میں پیدا کرنا ہے، وہ ہفتہ بھر کے روزوں سے نہیں ہو سکتا۔

امتحان کی مکلفین سے مناسبت

امتحان میں شرکا کا امتحان متعدی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ مجرم و غیر مجرم، دونوں کا امتحان، صرف مصیبت زدہ کا امتحان نہیں ہے،بلکہ اس کا تو ہے ہی اس کے ارد گرد رہنے والوں کے لیے بھی ہر آزمایش ایک ذریعۂ امتحان و عبرت ہے۔ مثلاً ننھے بچوں کی تکلیف بعض ماں باپ کے لیے نہایت مناسب امتحان ہوتا ہے۔ شاید بعض لوگوں کے لیے اپنی مصیبت سے بڑھ کر ان کے بچوں پر آنے والی تکلیف زیادہ مناسب (suitable) امتحان بنتی ہو۔مثلاً میں اپنے اوپر قیاس کرسکتا ہوں کہ گردے کی پتھری کا بچپن سے مریض ہوں۔ بچپن سے اب تک بعض دن اور ہفتے ایسے آئے ہیں کہ تکلیف کی شدت سے ایک لمحے کے لیے بیٹھنا محال ہوتا ہے، اپنی طبیعت کے مطابق بھائیوں کو تنگ نہ کرتے ہوئے رات کے ایک ایک بجے اکیلا ہی اٹھ کر درد کا انجکشن لگوانے کے لیے چل پڑتا تھا۔ اس ساری تکلیف پر کراہا بھی ہوں، تڑپا بھی ہوں، کئی کئی راتیں جاگا بھی ہوں ، دعائیں بھی کی ہیں، ہسپتالوں کی خاک بھی چھانی ہے۔ لیکن جب میرا پہلوٹا بیٹا پہلی دفعہ شدید بیمار ہوا تو میری نفسیاتی کیفیت اپنی اس تکلیف سے یکسر مختلف تھی۔میں اس امتحان میں مختلف طرح سے ڈالا گیا تھا۔میرے لیے یہ زیادہ صریح (acute and accurate)امتحان تھا۔میں پہلے ایسا نہیں جانچا گیا تھا۔
اسی طرح کسی کو مالی، کسی کو جانی، کسی کو جنسی اور کسی کو عزت و جاہ کے امتحان میں ڈالا جاتا ہے۔یہ ہمارے مزاج اور صلاحیتوں سے مناسبت رکھنے والے امتحان ہوتے ہیں۔ مثلاً بچوں کی بیماری یاان کی موت بعض اشخاص کے لیے اتنا آسان امتحان ہوگا، جیسے کچھ روپے گم ہو جانا ۔ کسی کے لیے اس کی انا کا ٹوٹنا اتنا بڑا امتحان ہو گا کہ جیسے عزیزترین اولاد کا مرجانا یا کسی کے لیے دس روپے گم ہونا ایسا امتحان ہو گا کہ جیسے لاکھوں کھو گئے ہوں وغیرہ۔
اگر مختلف مزاج اور صلاحیت کے لوگوں پر ایک ہی طرح کا امتحان جاری کردیا جائے تو یہ نا انصافی ہوگی۔ مثلاً افلاطون کے معیار کا سوال اگر ہر یونانی سے پوچھا جائے تو یہ ناانصافی ہوگی۔سقراط کی گفتگوؤں کا نتیجہ کیا نکلتا تھا کہ بڑے بڑے دانش ور اس کے سامنے دھول چاٹتے دکھائی دیتے تھے۔ یہ ان کی خامی نہیں تھی، سقراط کی خامی تھی کہ اس نے ہر باصلاحیت اور بے صلاحیت سے بلند سطح کے سوال کرڈالے۔ہم شاید خدا سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں۔
اس ناانصافی سے بچنے کے لیے مکلف کی مناسبت سے امتحان رکھے گئے ہیں۔ بچوں پر آنے والی تنگیاں، یقیناًمعصومیت پر ظلم لگتا ہے، لیکن یہ تب ظلم ہے کہ اس کا اجر کبھی ملنے والا ہی نہیں ہے۔خدا کی ہر مشکل کو صبر سے سہنے والا اجر عظیم پائے گا اور دنیا میں اس کے ثمرات سے فیض یاب بھی ہو گا۔

شر دلیل انکار نہیں

اب شر کے مسئلے کو ایک اور زاویۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ملحدین کہہ رہے ہیں۔ تو اس سے خدا کا انکار کیسے لازم آتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ جو بات ثابت ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ — نعوذ باللہ — خدا اچھا نہیں ہے۔ اس کو شر اچھا لگتا ہے۔تب تو یہ ملحدین کے لیے اور بھی بری صورت حال ہے کہ وہ ہو سکتا ہے، خدا کے انکار اور اس کے مذاق اڑائے جانے پر ، کسی وقت اور شدید صورت حال کا شکار کردیے جائیں۔ یہ بالکل ویسی ہی غلطی ہے جیسے عہد حاضر کے ملحدین سے بگ بینگ کے نظریے کی رو سے ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ جب ہم نے کائنات کے بننے کا عمل جان لیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نہیں ہے۔ اس کو اگر میں یوں کہوں کہ جیسے ہی مجھے کمپیوٹر بننے کا طریقہ معلوم ہو جائے تو اس کے موجد کا انکار کردوں ۔ سوچیے کیا یہ درست ہو گا؟ موجد کا انکار صرف اس وقت کیا جاسکتا ہے کہ جب موجد کے وجود کی ضرروت ثابت نہ ہو، صرف بننے کا طریقہ معلوم ہوجائے تو موجد کا انکار درست نہیں ہے۔ ذرا غور کیجیے، بگ بینگ جس ذرے یا مادے میں ہوا ، اس کا خودبخود موجود ہونا ویسا ہی ہے جیسا ہم مذہبی لوگوں کا خداکے خودبخود ہونے کو ماننا۔اگر خدا کو خودبخود ماننا بے وقوفی ہے تو مادے کو خود بخود ماننا بھی ویسی ہی بے وقوفی ہے ۔یہ اشکال تو کم از کم ختم ہو جاتا ہے کہ مادے کا خودبخود ماننا اگر ممکن ہے تو خدا کو ماننا کیوں ممکن نہیں ہے؟ اس کے جواب میں بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ مادے کا وجودآج ہمارے سامنے موجود ہے ۔اس لیے صبح ازل اس کا خودبخود ہونا مان لینا ہمارے لیے آسان ہے، لیکن خدا کا کوئی وجود ہمارے سامنے موجود نہیں ہے، اس لیے اس کا ماننا ہمارے لیے آسان نہیں ہے۔
یہی دراصل وہ فرق ہے جو ملحدین اور مذہبی لوگوں کے بیچ میں ہے۔مذہبی لوگ مادے کو بے ارادہ اور بے عقل سمجھتے ہوئے اسے خالق ماننا غیر منطقی اور بے عقلی سمجھتے ہیں،اس لیے اسے بنا ہوا (created) مانتے ہیں۔ ان کے لیے کائنات کرسی اور میز کی طرح ہے،جسے دیکھ کر بنانے والے کومانے بغیر چارہ نہیں ہے۔ مادہ اور اس کی مختلف حالتیں دراصل خالق کی نشانی ہیں۔لیکن ملحدین اس مادے سے آگے جانے کو تیار نہیں ہیں، اس لیے کہ یہاں وہ اس استنتاج (inference) کے لیے تیار نہیں ہیں جس کا وہ سائنسی دریافتوں میں بے محابا استعمال کرتے ہیں ۔مثلاً بگ بینگ کسی نے ہوتے نہیں دیکھا ، سائنس دان اس اَن دیکھے حادثے کو کائنات میں موجود آثار کی بنیاد پر infer کر کے مان رہے ہیں، اور زندگی کے آغازکے بارے کوئی شاہد اور آثار نہ ہونے کے باوجود کچھ نظریات گھڑ لیے ہوئے ہیں۔ زندگی کے نسلیاتی ارتقا کو کسی نے ہوتے نہیں دیکھا ،لیکن ایک پوری تھیوری بنا لی گئی ہے ۔لیکن یہی اربابِ استنتاج خداکے بارے میں اس استنتاج (inference) کو حرام سمجھتے ہیں! حالاں کہ مادے کی موجودہ صورت میں موجودگی خدا تک لے جانے کے تمام آثار و شواہد رکھتی ہے۔
انسان نے کائنات کے وجود کے دو ہی نظریے آج تک دیے ہیں: ایک یہ کہ اسے کسی نے تخلیق کیا ہے۔اکثر مذاہب، اور انسانوں کی اکثریت اسی کو مانتی ہے۔ دوسرا یہ نظریہ دیا گیا ہے کہ کائنات تو ہے ہی ،اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ بنی کیسے ہے ؟ اس دوسرے نظریے کے مطابق ، یہ کائنات اور جو کچھ اس میں ہے، ان کی حقیقت ایک ہے۔اس ایک حقیقی وجود نے کائنات کا روپ دھارا ہے۔ یونانی فلاسفہ کاعدد، پانی، مٹی، آگ، ہوا اور ایٹم وغیرہ کے نظریات اسی حقیقتِ واحدہ کے مختلف نام ہیں، جو خود کو کائنات میں ڈھال کر کائنات بن گئے۔ فلاطینوس (plotinus) نے کسی مادی شے کے بجاے محض وجود کو مانا اور کہا کہ دنیا الواحد (the one) سے بنی ہے۔ پھر مسلمان صوفیہ نے اسی نظریے کو عربی رنگ دے دیا اور ذاتِ محض(بَحت)سے کائنات کا آغاز مانا، یہ ذات ہر طرح کی صفات و خصائص سے مجرد محض وجود رکھتی تھی، پھر کسی وقت اس ذات میں شعور اور صفات پیدا ہوئیں اور یہ مختلف حالات سے گزرتا ہوا انسان کی اعلیٰ ترین صورت میں ظاہر ہوا۔ ذرا غور کریں تو بگ بینگ کا نظریہ بھی کچھ اسی سے ملتا جلتا ہے:
مادے کی ایک اکائی (singularity) یا مادۂ محض ازل سے موجودہے، اس میں کسی وقت کسی نامعلوم سبب سے یا شاید شدید درجۂ حرارت کے سبب سے ایک تبدیلی آنی شروع ہوئی جس سے بگ بینگ ہوا اور مادہ مختلف شکلیں بدلتا ہوا پہلے کائنات اور پھرزندگی کے روپ میں ظاہر ہوا اور زندگی بالآخر اورتاحال انسان کی بلند ترین ہستی کی صورت میں وجود پذیر ہوئی۔ یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مسلمان صوفیہ کا نظریہ ہی سائنسی زبان میں بیان کردیا گیا ہے۔ وحدت الوجود میں ذاتِ محض کے مدارج محض rational ہیں، لیکن بگ بینگ میں ذاتِ محض (مادے) کے مدارج سائنسی (empirical) ہیں۔ اس فرق کے سوا وحدت الوجود اور بگ بینگ کے نظریات میں کچھ فرق نہیں ہے۔ شاید خدا کو فراموش کرکے یہی ایک نظریہ انسان کے ذہن میں پیدا ہوسکتا ہے۔
معافی چاہتا ہوں ، بات سمجھانے کے لیے موضوع کے دوسرے پہلو کی طرف چلا گیا تھا، نظریۂ شر کی طرف دوبارہ لوٹتے ہیں۔ میں یہ عرض کررہا تھا کہ شر کا پایا جانا خدا کے نہ ہونے کو ثابت نہیں کرتا۔ بس اتنا ہی ثابت کرتا ہے کہ اگر خدا نے یہ راستہ اپنایا ہے تو یہ ہمیں غلط لگتا ہے۔لیکن یہ سٹفن کووی کے کپتان کی روش ہے۔جس نے اپنے خیال کو حقیقت تصور کرلیا ہے۔ اب میں ایک sweeping statement دینے لگا ہوں، جس کی تردید ممکن نہیں، جس طرح اس خیال کی تردید ممکن نہیں ہے کہ ہماری دنیا میں موجود تمام اجسام جگہ گھیرتے ہیں۔ ذرا توجہ سے سنیے گا، انسان کے دریافت کردہ سارے علم کی حقیقت سٹفن کووی کے کپتان کی سوچ جیسی ہے۔جب تک حقیقت کھل کر سامنے نہیں آجاتی ، اسے اپنی دریافت درست لگتی ہے۔ وہ اپنی بات کے غلط ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔ اس لیے کہ انسان اپنے جسمانی (biological) اور بالخصوص ذہنی (mental) حدود سے باہر نہیں نکل سکتا۔ وہ سب چیزوں کو اسی محدودیت میں دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ خواہ کتنی ہی دوربینیں اور خورد بینیں استعمال کرکے اپنی جسمانی صلاحیتوں کو بڑھا لے۔ مثلاً جو رنگ اس کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی، وہ کبھی نہیں دیکھ سکتا۔ اسی طرح جس انداز کا اس کو ملکۂ استنتاج (ability to infer) مبدء فطرت سے عطا ہوا، اس نے ویسے ہی سوچنا ہے۔ اس کو بدل نہیں سکتا۔ اوپر بگ بینگ اور وحدت الوجود کی یکسانیت کو بطور مثال سمجھیں، اور میرے اس نظریے پر غورکریں۔ان شاء اللہ فائدہ ہوگا، (از راہ تفنن)۔

شر کی دو قسمیں

ایک شر وہ ہے جو تخلیق میں دکھائی دیتا ہے، اس شر کو ہم خدا کی تخلیق کا حصہ مان سکتے ہیں۔ مثلاً موت کی موجودگی، کسی کا معذور پیدا ہونا، بیماریوں کا ہونا، سب کے لیے یکساں رزق اور مواقع کا نہ ہونا،یہ سب خلق کا حصہ ہیں۔ لیکن فرعون کا بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنا، چودھری کا ظالم ہونا، حکمرانوں کا ظالمانہ رویہ، ہالو کاسٹ وغیرہ دوسری قسم کا شر ہے۔ جو ہم انسانوں کی آزادی کے ناجائز فائدہ اٹھانے سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ دونوں بالآخر خدا کی دنیا میں ہوتے ہیں، اس لیے خدا کو ماننے والے دونوں کا جواب دینے کے ذمہ دارہیں۔ 
میں نے اپنے عہد طالب علمی میں ایک کتاب لکھی تھی: ’’ہم پر مشکلیں کیوں آتی ہیں؟‘‘۔ میں نے اس کتاب میں دنیا میں شر کی موجودگی کا ایک جواب دیا تھا۔ اس بحث میں بہت سے نکات کے ساتھ ساتھ ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ خداے بابرکت نے شر کو ذریعۂ خیر بنایا ہوا ہے۔دونوں قسم کا شر خدا نے آزمایش اور زندگی کے نظام کے چلنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ مثلاً شر کی موجودگی خیر کو سمجھنے کا ذریعہ ہے، میرے ساتھ ہونے والا شر میرے شعور کو دوسروں کے ساتھ ہونے والے شر سے پیدا تکلیف کو محسوس کرنے کے قابل کرتا ہے، اس سے انسانی ہمدردی کا وہ شعور پنپتا ہے جو شاید شر سے پاک زندگی میں پیدا ہی نہ ہوتا۔ ملحدین کا نوتراشیدہ مذہب Humanism اسی شعور پر کھڑا ہے۔ گویا:

میر کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب 
اُسی عطّار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں۱۲؂ 

شر مرض ہے، مگریہی تریاقی (علاج) کرتا ہے۔ آج کی میڈیسن کی تمام تر ترقی کا انحصار امراض کی موجودگی کی وجہ سے ہے۔ بڑی بڑی عمارتیں غریب مزدوروں کے کندھوں پر کھڑی ہیں۔میری آپ کی فریج میں پھل سبزی کسانوں کی مشقت کا ثمر ہے۔مِلوں کی کلوں (machines) میں غریبوں کا خون دوڑتا ہے۔ یہ زندگی کا نقشہ بہت ذہانت سے بنایا گیا ہے، جس کو قرآن مجید نے ایک جملے میں سمو دیا ہے، ہم نے متاع ہاے زندگی کو انسان میں فرق کے ساتھ بانٹا ہے، کچھ کو زیادہ دیااور بعض کوکم تاکہ وہ ایک دوسرے کے کام آئیں۱۳؂ اور زندگی کا پہیہ چلتا رہے۔ مثلاً اگر سب ایک ہی درجے کے لوگ ہوتے توکون ڈاکٹری سیکھتا اور کون کھیتی؟ کون گھر بنواتا اور کون مزدوری کرتا؟ کون مسئلۂ شر کا سوال اٹھاتا اور کون اس کا جواب دیتا؟ اس زندگی کو آزمایش گاہ بنانے کے لیے یہ ایک شان دار نقشہ ہے۔ یہاں مال، مواقع اور صلاحیتیں یوں بانٹ دی گئی ہیں کہ ہر شخص سماج کا ایک کارآمد پرزہ ہے۔میں آپ کا خدمت گار ہوں آپ میرے خدمت گار ہیں۔ مریض ڈاکٹر کا گاہک ہے اور ڈاکٹر مریض کا خدمت گار ہے، وغیرہ۔
دوسرا شر جو انسان اپنے ظلم و جبر سے پیدا کرتے ہیں۔وہ قرآن کے مطابق اس لیے ہے کہ انسان کو خلیفہ بنایا گیا ہے۔۱۴؂ خلیفہ کے ایک معنی یہ ہیں کسی کی عدم موجودگی میں نگران و مالک ہونا۔مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غیب میں ہیں اور اس غیب میں رہتے ہوئے انسان کو اللہ تعالیٰ نے زمین اور اس پر موجود چیزوں کا مالک بنا دیا ہے۔۱۵؂ وہ ایک دائرے میں اس کے سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ یہ علم اور یہ ایجادات اسی خلافت کے مرہون منت ہیں۔ خلافت کا یہ احساس انسان کے رگ و پے میں ہے۔جب کسی کے پاس اقتدار آجاتا ہے، تو خلافت کا اختیار پورے کا پورا اسے مل جاتا ہے۔ یہ احساس اسے فرعون و نمرود بنا سکتا ہے۔صرف خدا خوفی ہی ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو اس کے ہاتھ اور پاؤں کو ظلم سے روکتی ہے، جو اسے ذوالقرنین، یوشع اور ابو بکرو عمر بنا دیتی ہے۔ 
یہ قوت اگر انسان کو علم میں مل جائے تو وہ اس میدان میں بھی موسیٰ و فرعون پیدا کرتی ہے۔خدا نے اگرانسان کو خلافت کے داعیات و صلاحیتیں نہ دی ہوتیں تو سقراط و فلاطون،ابن الہیثم ،ابن سینا، ابن رشد، آئن اسٹائن اور نیوٹن وغیرہ نہ ہوتے ۔بلکہ ہم بندروں کی طرح غاروں اور درختوں پر بسیرا کیے ہوتے۔اقتدار نے بھی موسیٰ و فرعون پیدا کیے اور علم نے بھی۔ نہ اقتدار اپنی اصل میں شر تھا اور نہ علم۔ اس لیے یہ علم انکار خدا کی طرف بھی لے جاتا ہے اور اقرار خدا کی طرف بھی۔ تقریباً یہی جواب اللہ نے فرشتوں کو دیا تھا، جب خلافتِ آدم پر انھوں نے سوال اٹھا دیا تھا کہ خلافت پا کر آدم تو خون ریزی کرے گا، تو اللہ نے بتایا تھا کہ نہیں صرف خون ریزی نہیں کرے گا، یہاں موسیٰ و عیسیٰ بھی ہوں گے اور فرعون و شداد بھی ہوں گے۔یہ خلافت ملنے کا لازمی اقتضا تھا، جو آدم کی امتحان گاہ کا لازمی وصف بننے جا رہا تھا۔
میری اس وضاحت کے بعد یہ سوال پھر بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ اگر ایسا ہی ہے کہ شر اس کائنات میں آزمایش کے لیے رکھا گیا ہے تو آیا خدا کو اپنی عقل کامل سے کوئی اور طریقہ کیوں نہیں سوجھا؟ وہ آزماتا ہی نہ، اور اگر آزماتا تو شر کے بغیر آزما لیتا؟
اس سوال کا اصل جواب تو یہی ہے کہ جب خدا سے ملیں گے تو یہ خود خدا سے پوچھیں گے۔ اس لیے کہ دنیا میں فکری آزادی دی گئی ہے۔ اچھے سے اچھے کام پر یہ تبصرہ ہو سکتا ہے کہ یوں کیوں نہیں کیا؟ یہ نہ ہوتا تو کیا بہتر نہیں تھا؟ وغیرہ۔ خاص طور سے جس چیز سے انسان کو تنگی محسوس ہو، اس کے بارے میں وہ یہ فوراً تبصرہ کردیتا ہے۔
یقیناًآزمانے کے بے شمار طریقے ہو سکتے تھے، لیکن جیسا کہ ہم نے شر کی خصوصیات کا ذکر کیا، انسانوں کی تخلیق جس ڈھنگ سے کی گئی ہے، اس کے لیے یہی امتحان بہترین ہے۔ دوسری مخلوقات کو اگر امتحان میں ڈالا گیا ہے تو ان کے لیے ان کے مناسبِ حال طریقہ ہوگا۔میرا مطلب یہ ہے کہ گدھے کو اس کی کھریوں کے ساتھ خلیفہ بنا دیا جاتا تو ذہین ہونے کے باوجود ایک آلہ بھی ایجاد نہ کر سکتا، کیونکہ آلات کی ایجاد کے لیے انگلیوں والے مینا کاری کرسکنے والے ہاتھوں کا ہونا ضروری ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جان دار کو اس کے ماحول کے مطابق وموافق بنایا گیا ہے۔شیر گوشت خور ہے تو اس کے دانت پنجے وغیرہ ایسے ہی بنے ہیں، بکری سبزی خور ہے تو اس کا منہ اور کُھراسی مناسبت سے بنے ہیں۔ ہمیں امتحان کے لیے بنایا گیا ہے تو ہمیں اسی کے موافق ذہن و قویٰ دیے گئے ہیں۔چنانچہ اگر شیر، چیتے اور دیگر جانوروں کے لیے جنگل کی مشکلات ان کی حیات کے سامان ہیں، تو ایسے ہی انسان کی حیات کی مشکلات اس کی زندگی کا سامان ہیں۔انسان انھی حالات میں پھلتا پھولتا اور ترقی کرتاہے۔وہ معاملہ ہے جو کسی شاعر نے بیان کیا ہے کہ:

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا، اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

انسان کی تین قوتوں پر قرآن نے آزمایش کے لحاظ سے توجہ دلائی ہے۔ ایک حبِ مال، دوسرے انا اور تیسرے جنس۔ پھر اس کے ضمیر اور اس کے مزاج کا ذکر کیا ہے، پھر بتایا ہے کہ اللہ نے اسے راہ حیات کا سبق سکھاکربھیجا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا ہے۔مشکلیں آئیں تو اس نے ان سے کیسے نبرد آزما ہونا ہے۔ مصائب سے نبٹنے کی یہ صلاحیت اتنی زیادہ ہے کہ عہد حاضر کی سہولتوں کی فراہمی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ درد کُش (pain killer) ادویہ سے لے کر معالجے والی اعلیٰ مشینری تک، پاؤں کی چپل سے لے کر فضاؤں میں اڑتے جہازوں تک، گھر کے پکے فرشوں سے لے کر نرم و گرم صوفوں اور غالیچوں تک ، پنکھوں سے لے کر اے سی اور فریجوں تک کی ایجادات کیا یہ نہیں بتاتیں اگر زندگی میں مشکلات رکھی گئی ہیں تو

— شیر کو شکار کے لیے پنجے اور جبڑے عطا کرنے کی طرح — انسان کو یہ ہنرِ ایجاد دیا گیا ہے۔ خود انسان جس ظلم کو وجود پذیر کرتے ہیں، اس کا معاملہ بھی یونہی ہے۔ کیا اس نے قبیلے کی پنچایت سے آج کی عدالتیں ، مجرموں کو پکڑنے کے لیے ڈی این اے تک کا سفر نہیں کرلیا ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر مشکلات و مصائب دنیا میں نہ ہوتے، تو ترقی کا یہ سفر شروع ہی نہ ہوتا، جو پتھر کا چاقو بنانے سے لے کر ڈیجیٹل دور تک ہوا ہے۔ غالب کے مصرع کو بدلتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں :

ان مشکلوں پہ کو ن نہ مرجائے اے خدا!

شر کو بس مارکس کی نظر سے نہ دیکھیں، آزمایش اور نظریۂ حیات کے طور پر دیکھیں تو یہ ایک شان دار لائحۂ عمل ہے۔ یہی طریقۂ آزمایش ہی انسان جیسی مخلوق کے شایان شان تھا، اگر اس سے ہلکا کوئی طریقۂ آزمایش بنایا جاتا تو یہ انسان کی توہین تھی۔
خدا نے شاید اسی لیے کہا ہے:

’’ہم نے انسان کو بہت سی مخلوقات کے مقابلے میں عزت بخشی ہے۔‘‘۱۶؂

لیکن وہ اپنی صلاحیتوں کے برعکس جب ’’تھڑدلا بنتا ہے تو آزمایشوں پر چیختا ہے کہ خدا نے مجھے رسوا کردیا، جب خوش حالی آتی ہے تو اٹھلاتا ہے دیکھو خدا نے مجھے کیا شان دی ہے۔‘‘۱۷؂ 
بس یہی وہ تھڑدلا پن ہے جس کی وجہ سے انسان تنگی کو متاع حیات سمجھنے کے بجاے سامانِ رسوائی سمجھنے لگتا ہے۔ اور یہیں سے وہ تنگی کی حکمت سمجھنے کے بجاے خدا سے بدگمان ہونے لگتا ہے۔
_____
۱؂ غالباً سورۂ ملک کی ابتدائی آیات کی روشنی میں ۔
۲؂ Organic & inorganic۔
۳؂ نقل کفر ، کفر نہ باشد۔
۴؂ ادیانِ براہیمی کی اصطلاح اس مجلس کی مناسبت سے اختیار کی گئی تھی جس میں یہ مقالہ پڑھا گیا تھا، مراد اللہ کا اتارا ہوا دین اسلام ہے،جو آدم سے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہم وسلم تک سب نبیوں پر اترا۔
۵؂ الملک ۶۷: ۲۔
۶؂ اے خدا تونے رات بنائی میں نے چراغ بنایا، تو نے مٹی بنائی میں نے پیالہ بنا ڈالا۔
۷؂ تو نے جنگل، پہاڑ اور وادیاں بنائیں، میں نے شاہ راہیں، گلشن اور باغات بنائے ۔
۸؂ میں وہ ہوں کہ میں پتھر سے شیشہ بنا لیتا ہوں، میں وہ ہوں کہ زہر سے صحت افزا مشروب بنا لیتا ہوں۔
۹؂ اس موضوع پر بھی نوجوانوں کے اسی حلقے میں ایک مختصر مضمون پڑھا گیا تھا، جو اگلے کسی شمارے میں نظر قارئین کیا جائے گا۔
۱۰؂ أعوذ باللّٰہ من ذلک۔
۱۱؂ Seven Habits کا مصنف۔
۱۲؂ یعنی جس شر کی بنیاد پر ملحدین روایتی مذہب کے منکر ہوئے اسی شر پر انھوں نے بے خیالی میں نئے مذہب کو تعمیر کیا ہے۔
۱۳؂ الزخرف۴۳: ۳۲۔
۱۴؂ البقرہ ۲: ۳۰۔
۱۵؂ یٰسٓ ۳۶: ۷۱۔۷۲۔
۱۶؂ بنی اسرائیل ۱۷: ۷۰۔
۱۷؂ الفجر ۸۹: ۱۵۔۱۶۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اکست 2017
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Apr 23, 2018
3201 View