توقیر کی صورت مجسم - ڈاکٹر شہزاد سلیم

توقیر کی صورت مجسم

 ۲۱ ؍ اپریل کو عبدالستار غوری صاحب کو دل کا دورہ پڑا۔ برادر عزیز عظیم ایوب نے ہسپتال سے ٹیلی فون پر ان کی حالت بیان کی تو محسوس ہوا:

 

اے چارہ شناس کار بہ مرہم نیست
ایں  صید  بسینہ  زخم کاری  دارد

اور پھر اگلے ہی دن ’’المودر‘‘ کے یہ سب سے سینئر ریسرچ فیلو تہجد کے وقت اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ خداوند تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور انھیں جنت میں سابقون کا درجہ عطا فرمائے۔ وہ ’’المورد‘‘ سے کم و بیش بیس سال وابستہ رہے اور تقریباً اسی (۸۰) سال اس دارفانی میں قیام پذیر رہے۔ ادارے کے ہر فرد کے ساتھ سے وہ پدرانہ شفقت سے پیش آتے اور ہر فرد ان کی ایک باپ ہی کی طرح عزت کرتا۔ اگر ہمارا معاشرہ اعلیٰ محققین کی قدر کرنے والا ہوتا تو یقیناً ان کی زندگی میں ان پر پھول نچھاور کرتا اور انھیں تمغوں سے نوازتا۔ تاہم، ان کے بعد ان کا نام ان کی گراں پایہ تصنیفات سے زندہ رہے گا۔ وفات سے چند روز پیش تر جب وہ ادارے میں تشریف لائے تو ایک کارکن سے کہنے لگے کہ یہ شاید ان کی آخری حاضری ہے۔ پیشین گوئیوں کو حل کرنے والے اس مرد حق کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔
وہ صحف سماوی کے جلیل القدر محقق تھے اور انھوں نے اپنی زندگی کا بیش تر حصہ اس شعبہ کی خدمت میں صرف کیا۔ علم سے لگاؤ اور تلاش حق کا جذبہ ان میں حیرت انگیز تھا۔ بیماری اور بڑھاپے میں بھی ان کا اپنے کام میں انہماک قابل رشک تھا۔ ان کے پرزور مصافحے اور جان دار معانقے سے ہر شخص محظوظ ہوتا۔ ان کا قہقہہ کانوں میں رس گھولتا اور ان کا دبدبہ خوف کے بجاے محبت سے پھوٹتا معلوم ہوتا۔ ان کی پیشانی اور چہرے پر نور اور معصومیت جلوہ فگن رہتے۔
غوری صاحب ایک بہت شفیق اور رحم دل انسان تھے۔ کسی کی تکلیف اور مشکل ان کو بے چین کردیتی اور وہ سرگرمی کے ساتھ اس کی مدد میں لگ جاتے۔ اگر مدد ان کے بس سے باہر ہوتی تو اوروں کو توجہ دلاتے۔ ان کی شخصیت کو شبلی کے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے: 

اس کے اخلاق کھٹک جاتے ہیں دل میں ہر بار
وہ  شکر ریز  تبسم ،  وہ  متانت ،  وہ  وقار
وہ  وفا  کیشی  احباب ،  وہ  مردانہ  شعار
وہ  دل  آویزی  خو ،  وہ نگہ  الفت  بار

’’المورد‘‘ میں برسوں چائے کا وقفہ ان کے کمرے میں ہوتا جہاں ہر قسم کے سنجیدہ اور بعض اوقات غیر سنجیدہ مباحث زیر بحث آتے۔ چنانچہ مذہب و فلسفہ ، تاریخ و ادب ، سائنس و سیاست کے عقدے کھولنے کی ہر شخص کوشش کرتا ۔ جب کسی کو آنے میں تاخیر ہوجاتی تو غوری صاحب اسے یاددہانی کا پیغام بھجواتے۔ ادھر ہم سب صبح ہی سے چائے کے وقفہ کے انتظار میں رہتے۔ ادارے میں نماز کی امامت بھی ان کے سپرد تھی۔ قرآن پڑھنے کا ان کا ایک مخصوص انداز تھا جو سننے والے کے لہو کو گرما دیتا۔ نماز سے قبل و بعد کے نوافل بہت اہتمام سے ادا کرتے۔
علم و فضل سے آراستہ ہونے کے باوجود غوری صاحب میں علم کے معاملے میں عاجزی پائی جاتی تھی۔ ایک مرتبہ ایک مجلس میں ایک بنیادی دینی مسئلہ زیر بحث تھا۔ لوگ اپنی آرا دے رہے تھے، جب غوری صاحب سے ان کی راے مانگی گئی تو انھوں نے بہت سادگی سے کہا کہ ان کو اس مسئلہ پر غور کرنے کا موقع نہیں ملا۔ لہٰذا اس بارے میں ان کی کوئی راے نہیں ہے۔ انھیں کتابیں جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ ان کی ذاتی لائبریری میں بعض نایاب کتابیں موجود تھیں۔ ان کی وہ کڑی نگرانی کرتے اور انھیں بہت عمدہ جلد سے مزین کرتے۔
ان کی دو کتابیں: ’’Muhammad Foretold in The Bible by Name‘‘ اور ’’The Only Son Offered for Sacrifice: Isaac or Ismael‘‘ اپنے موضوعات پر بے مثال اضافہ ہیں۔ ان میں سے پہلی کتاب میں انھوں نے بائیبل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی پیشین گوئیوں کو بے نقاب کیا ہے اور بالخصوص حضرت سلیمان علیہ السلام کی پیشین گوئی کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ دوسری کتاب میں انھوں نے امام حمید الدین فراہی کی گراں قدر کتاب ’’ذبیح کون ہے؟‘‘ پر بہت سے قیمتی اضافے کیے ہیں۔مولانا فراہی نے یہ کتاب یہود کے اس دعوے کی تردید میں لکھی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جس فرزند کو قربانی کے لیے پیش کیا، وہ اسحاق تھے۔ غوری صاحب نے اپنی کتاب میں یہود ہی کے لٹریچر سے اپنے موقف کے حق میں حوالوں کے انبار لگا دیے ہیں۔ ان دونوں کتابوں کا اردو میں ترجمہ خود ان کے اور ان کے صاحب زادے ڈاکٹر احسان الرحمن غوری کے قلم سے ہوچکا ہے۔ ان کتابوں کے علاوہ آپ نے بہت سے اہم مضامین لکھے اور بعض کتب کی ایڈیٹنگ بھی کی۔
غوری صاحب کی نگارشات میں جو چیز بہت نمایاں ہے، وہ ان کی غیر معمولی محنت ہے۔ ان کے استدلال سے تو بعض جگہوں پر اختلاف کیا جاسکتا ہے، مگر موضوع سے متعلق ان کی عرق ریزی سے کم ہی اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ وہ موضوع کے بارے میں تمام متعلقہ کتب اور حوالوں کی خوب چھان پھٹک کرتے اور بعض دفعہ کئی کئی دن ایک چھوٹے سے جزو پر صرف کر دیتے گویا زبان حال سے یہ کہتے: 

صد نالۂ شب گیرے ، صد صبح بلا خیزے
صد  آہ شرر ریزے ،  یک شعر دلآ ویزے

جس چیز نے یقیناً غوری صاحب کا کلیجہ ٹھنڈا کیا ہوگا اور جو ان کے لیے بہت قابل اطمینان ہوگی، وہ ان کے بیٹے ڈاکٹر احسان الرحمن غوری کی ان کے کام میں شرکت اور معاونت ہے۔ ڈاکٹر احسان سے ہم سب کو بہت توقعات وابستہ ہیں کہ وہ اپنے والد کے کام کو آگے بڑھائیں گے اور اس کے بعض حصوں کی تکمیل کریں گے۔ غوری صاحب ہر چند ماہ کے بعد دوستوں اور ادارے کے احباب کی دعوت کرتے رہتے۔ اپنے رفقا سے یہ ان کی شفقت اور محبت کا خاص انداز ہوتا۔ انھوں نے ’’المورد‘‘ کے بعض طلبا کو انگریزی زبان پڑھائی اور بہت جاں فشانی سے اس ذمہ داری کو سرانجام دیا۔ اسی طرح انھوں نے فارسی ادب کی بھی ’’المورد‘‘ میں تدریس کی۔ میں ان خوش قسمت افراد میں سے ہوں جنھوں نے ان سے سعدی کی ’’گلستان‘‘ کے بعض حصے پڑھے۔ فارسی زبان پر ان کو مکمل عبور حاصل تھا۔ غوری صاحب اپنے احباب کے لیے بہت پرخلوص انداز میں دعا گو رہتے۔ وہ مجھے اکثر ملتے تو کہتے کہ میں نے رات کی نماز میں تمھارے لیے بہت دعا کی ہے، بلکہ تمھاری بیوی اور بیٹے کی صحت و عافیت کے لیے بھی۔ یہ الفاظ سن کر مجھے روحانی خوشی ہوتی اور حیرانی بھی کہ اتنی مصروفیات کے باوجود انھوں نے یاد رکھا۔
آج ہم غوری صاحب کو الوداع کہہ رہے ہیں۔ وہ ہم میں نہیں رہے۔ مگر علم و اخلاق کی متاع عزیز کو وہ اگلی نسل کے لیے چھوڑے جارہے ہیں۔ وہ جن اقدار کے حامل تھے اور جن روایات کے امین تھے، ان کی شمع ان کے بعد ہمیشہ جلتی رہے گی اور ان کے نام کو امر کردے گی۔ وہ وادیِ عشق کے مسافر تھے اور انھوں نے بڑی شان سے اپنا سفر طے کیا: 

ہر گز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت  است  بر  جریدۂ  عالم  دوامِ  ما
 

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جون 2014
مصنف : ڈاکٹر شہزاد سلیم
Uploaded on : Jan 18, 2016
3203 View