عام اور خاص - جاوید احمد غامدی

عام اور خاص

 دنیا کی کسی زبان میں بھی یہ طریقہ نہیں ہے کہ ہر لفظ ایک معنی اور ہر اسلوب ایک ہی مدعا کے لیے وضع کیا گیا ہو۔ یہ بالعموم متعدد معانی پر دلالت کرتے ہیں۔ چنانچہ یہ فیصلہ کہ کسی کلام میں یہ کس مفہوم کے لیے استعمال ہوئے ہیں، ہمیشہ اِسی بنیاد پر کیا جاتا ہے کہ جملے کی تالیف، متکلم کا عرف، نظم کلام ، سیاق و سباق اور اِس نوعیت کے بعض دوسرے قرائن کیا حکم لگاتے ہیں۔ اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ذہن تمام احتمالات کو سامنے رکھ کر کبھی فکر و تدبر کے بعد اور کبھی بادنیٰ تامل اپنا فیصلہ صادر کر دیتا ہے۔ زبان سے متعلق یہی حقیقت ہے جس کی بنا پر امام شافعی نے اپنی کتاب ’’الرسالہ‘‘ میں قرآن کے خاص و عام سے متعلق فرمایا ہے کہ زبان محتمل المعانی ہوتی ہے۔ اُس کے خاص و عام بھی جب کسی کلام کا جزو بن کر آتے ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ ہر حال میں اُسی معنی کے لیے آئیں جس کے لیے وہ اصلاً وضع کیے گئے ہیں۔ اللہ کی کتاب اِس طرح نازل ہوئی ہے کہ اُس میں لفظ عام ہوتا ہے، مگر اُس سے خاص مراد لیا جاتا ہے اور خاص ہوتا ہے، مگر اُس سے عام مراد لیا جاتا ہے*۔لہٰذا نہ خاص کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے مدلول کے لیے قطعی ہے اور نہ عام کے بارے میں کہ وہ اپنے تحت تمام افراد پر لازماً دلالت کرے گا۔ ائمۂ اصول کے ایک گروہ کو اِس سے اختلاف ہے۔ لیکن حق یہ ہے کہ اِس معاملے میں امام شافعی کا نقطۂ نظر ہی صحیح ہے، اِس لیے کہ یہ مجرد لفظ نہیں، بلکہ اُس کا موقع استعمال ہے جو سامع یا قاری کو اُس کے مفہوم سے متعلق کسی حتمی نتیجے تک پہنچاتا ہے۔ ہم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کے مقدمہ ’’اصول و مبادی‘‘ میں لکھا ہے:

’’...قرآن میں یہ اسلوب جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہر الفاظ عام ہیں،لیکن سیاق و سباق کی دلالت پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ اُن سے مراد عام نہیں ہے ۔ قرآن ’النَّاس‘کہتا ہے ،لیکن ساری دنیا کا تو کیا ذکر ،بارہا اِس سے عرب کے سب لوگ بھی اُس کے پیش نظر نہیں ہوتے ۔وہ ’عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘کی تعبیر اختیار کرتا ہے ،لیکن اِس سے دنیا کے سب ادیان مراد نہیں لیتا ۔ وہ ’ الْمُشْرِکُوْنَ‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے، لیکن اِسے سب شرک کرنے والوں کے معنی میں استعمال نہیں کرتا ۔ وہ ’ اِنَّ مِنْ اَہْلِ الْکِتَابِ‘ کے الفاظ لاتا ہے، لیکن اِس سے پورے عالم کے اہل کتاب مراد نہیں ہوتے ۔ وہ ’الْاِنْسَان‘کے لفظ سے اپنا مدعا بیان کرتا ہے ،لیکن اِس سے ساری اولادآدم کا ذکر مقصود نہیں ہوتا ۔یہ قرآن کا عام اسلوب ہے، جس کی رعایت اگر ملحوظ نہ رہے تو قرآن کی شرح و وضاحت میں متکلم کا منشا بالکل باطل ہو کر رہ جاتا ہے اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے، لہٰذا ناگزیر ہے کہ اِس معاملے میں قرآن کے عرف اور اُس کے سیاق و سباق کی حکومت اُس کے الفاظ پر ہرحال میں قائم ر کھی جائے۔‘‘(۲۳)

زبان کی یہی نوعیت ہے جس کے پیش نظر قرآن کے علما و محققین تقاضا کرتے ہیں کہ متکلم کے منشا تک پہنچنا ہو تو محض ظاہر الفاظ کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اُن کے باطن کو سمجھ کر حکم لگانا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب الٰہی کی یہی خدمت انجام دی ہے اور اپنے ارشادات سے اُن مضمرات و تضمنات کو واضح کر دیا ہے جن تک رسائی اُن لوگوں کے لیے مشکل ہو سکتی تھی جو لفظ و معنی کی اِن نزاکتوں کو سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔امام شافعی بجا طور پر اصرار کرتے ہیں کہ ظاہر الفاظ کی بنیاد پر آپ کی اِس تفہیم و تبیین سے صرف نظر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ قرآن کا بیان ہے، اِس میں کوئی چیز قرآن کے خلاف نہیں ہوتی۔ خدا کا پیغمبر کتاب الٰہی کا تابع ہے۔ وہ اُس کے مدعا کی تبیین کرتا ہے، اُس میں کبھی تغیر و تبدل نہیں کرتا۔ امام اپنی کتاب میں اِس کی مثالیں دیتے اور بار بار متنبہ کرتے ہیں کہ قرآن کے احکام سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے، وہ بیان اور صرف بیان ہے۔ اُسے نہیں مانا جائے گا تو یہ قرآن کی پیروی نہیں، اُس کے حکم سے انحراف ہو گا، اِس لیے کہ اُس کا متکلم وہی چاہتا ہے جو پیغمبر کی تفہیم و تبیین سے واضح ہو رہا ہے، اُس کا منشا اُس سے مختلف نہیں ہے۔
امام شافعی کی اِس بات سے زیادہ سچی بات کیا ہو سکتی ہے! لیکن امام کے استدلال کی کمزوری یہ ہے کہ بیش تر موقعوں پروہ مبرہن نہیں کر سکے کہ لفظ اور معنی کے جس تعلق کو وہ بیان سے تعبیر کرتے ہیں، وہ اُن میں پیدا کس طرح ہوتا ہے؟ چنانچہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم و عمل کی چند ایسی روایتوں پر بھی مطمئن ہو گئے ہیں جنھیں کسی طرح بیان قرار نہیں دیا جا سکتا ، دراں حالیکہ اُن کے بارے میں یہ بحث ہو سکتی تھی کہ اُن کے راویوں نے آپ کا مدعا ٹھیک طریقے سے سمجھا اور بیان بھی کیا ہے یا نہیں؟ امام شافعی کے نقطۂ نظر سے جو لوگ اختلاف کرتے ہیں، اُن کی اصلی الجھن یہی ہے۔
ہم نے ’’میزان‘‘ میں کوشش کی ہے کہ امام کے موقف کو پوری طرح مبرہن کر دیں، اِس لیے کہ اصولاً وہ بالکل صحیح ہے۔ اہل نظر ’’میزان‘‘ کے مقدمہ ’’اصول و مبادی‘‘ میں ’’میزان اور فرقان‘‘ کے زیر عنوان یہ مباحث دیکھ سکتے ہیں۔ اِس سے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ قرآن مجید کے احکام سے متعلق روایتوں میں جو کچھ بیان ہوا ہے، وہ اُس کے الفاظ کا مضمر ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تشریحات سے ظاہر کر دیا ہے۔ قرآن کے طالب علموں کو اِس سے لفظ کے باطن میں اتر کر اُس کو سمجھنے کی تربیت حاصل کرنی چاہیے، اِسے رد کر دینے یا اِس سے قرآن کے نسخ پر استدلال کی جسارت نہیں کرنی چاہیے۔

* الرسالہ، الشافعی۲۳۰۔ یہی وہ بات ہے جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ امام شافعی بھی الفاظ کی دلالت کو اُن کے معانی پر ظنی مانتے ہیں۔ دراں حالیکہ وہ صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ زبان میں ایک سے زیادہ مفاہیم کا احتمال ہوتاہے، اِس لیے کسی ایک احتمال کو سامنے رکھ کر فیصلہ سنانے کے لیے مبادرت نہیں کرنی چاہیے، بلکہ تدبر کے ساتھ دیکھنا چاہیے کہ کسی خاص موقع پر کون سا مفہوم ہے جسے متکلم کا منشا قرار دیا جا سکتا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت ستمبر 2011
مصنف : جاوید احمد غامدی