روایات میں رفع تعارض کا حنفی منہج - عمار خان ناصر

روایات میں رفع تعارض کا حنفی منہج

 حنفی اصول فقہ کی کتب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر روایات باہم متعارض ہوں تو رفع تعارض کے لیے سب سے پہلے نسخ کا اصول استعمال کیا جائے گا۔ اس پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ عقلی طور پر تطبیق کا اصول پہلے لاگو ہونا چاہیے، جبکہ نسخ کے احتمال کو اسی صورت میں قابل غور سمجھنا چاہیے جب تطبیق کی کوئی معقول صورت نہ نکلتی ہو۔ اس اشکال کے حوالے سے حنفی اہل علم نے مختلف توجیہات پیش کی ہیں۔

برادرم ڈاکٹر مشتاق احمد کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ اصول میں ’’تعارض‘‘ سے مراد ، دراصل ظاہری نہیں بلکہ اصطلاحی تعارض ہے جو دو شرعی دلیلوں کے مابین صرف اس وقت متحقق ہوتا ہے جب دونوں دلیلیں قوت کے اعتبار سے مساوی ہوں اور دونوں بالکل متضاد امور پر دلالت کر رہی ہوں۔ اگر دونوں دلیلیں باعتبار قوت مساوی نہ ہوں یا ان کے مابین توفیق وتطبیق ممکن ہو تو اس صورت کو ’’تعارض‘‘ نہیں کہا جا سکتا۔ اس توجیہ کے مطابق مذکورہ اصول کے انطباق کا مرحلہ اس وقت آتا ہے جب اس سے پہلے دلائل کے مابین جمع وتوفیق کے امکان پر غور کیا جا چکا ہو اور یہ واضح ہو چکا ہے کہ تطبیق ممکن نہیں۔

تاہم یہ توجیہ اس اشکال کا جواب نہیں دیتی کہ اگر مذکورہ اصول میں تعارض سے اصطلاحی تعارض مراد ہو جس میں دلائل کے مابین جمع وتطبیق کا عدم امکان پیشگی طور پر ثابت ہو چکا ہو تو پھر رفع تعارض کے اگلے مراحل میں جمع کے امکان کا ذکر نہیں ہونا چاہیے، جبکہ حنفی اصولیین مذکورہ اصول بیان کرتے ہوئے نسخ کے فوراً بعد رفع تعارض کا اگلا طریقہ یہ ذکر کرتے ہیں کہ دونوں دلائل میں تطبیق کی کوشش کی جائے۔ اگر یہاں اصطلاحی تعارض زیر بحث ہے تو پھر جمع کے امکان کا ذکر contradiction in terms کی نوعیت کا معاملہ بن جاتا ہے۔ اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ مذکورہ اصول میں تعارض کا لفظ، ظاہری تعارض کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جس میں رفع تعارض کے لیے جمع وتطبیق، ترجیح اور نسخ کے سارے امکانات کی گنجائش ہوتی ہے۔

علامہ انور شاہ کشمیری نے اس حوالے سے یہ توجیہ پیش کی ہے کہ یہ اصول ان صورتوں کے ساتھ متعلق ہے جب خود احادیث میں صراحتاً کسی حکم کے منسوخ ہونے کا ذکر مل جائے۔ ایسی صورت میں چونکہ نسخ متعین ہوتا ہے، اس لیے تطبیق کی صورتیں تلاش کرنا ایک بے کار سرگرمی ہے۔ شاہ صاحب نے اس کی مثال کے طور پر جماع بلا انزال کا مسئلہ ذکر کیا ہے جس میں روایات ہی میں اس بات کی بھی تصریح مل جاتی ہے کہ غسل کے عدم وجوب کا حکم ابتدائے اسلام میں تھا، جبکہ بعد میں محض شرم گاہوں کے ملنے سے بھی غسل کو واجب قرار دیا گیا۔ (فیض الباری 1/48)

ہمارے نزدیک شاہ صاحب کی یہ توجیہ معقول اور وزنی ہے۔ اس کی روشنی میں مذکورہ اصول کا مطلب یہ بنتا ہے کہ جہاں بھی دو شرعی دلیلوں کے مابین تعارض نظر آئے تو رفع تعارض کا کوئی بھی دوسرا طریقہ بروئے کار لانے سے پہلے اس پہلو سے مسئلے کا جائزہ لے لینا ضروری ہے کہ کہیں یہ حکم ان امور میں سے تو نہیں جن میں احکام شریعت کے ورود اور استقرار میں زمانی ارتقاء پایا جاتا ہے؟ چونکہ تدریجی ورود واستقرار کا پہلو شریعت کے بیشتر احکام میں نمایاں ہے، اس لیے جمع وتطبیق یا ترجیح سے بھی پہلے اس امر کا اطمینان حاصل کرنا کہ زیر بحث متعارض دلائل کا تعلق مختلف تدریجی مراحل سے نہیں، عقلی ومنطقی طور پر فقہ واجتہاد کا ایک بدیہی تقاضا قرار پاتا ہے۔

البتہ شاہ صاحب کا یہ کہنا کہ نسخ کے اصول کو اسی صورت میں رو بہ عمل کیا جائے گا جب نسخ کی صریح دلیل خود نصوص میں موجود ہو، خود ان کا ذاتی علمی رجحان ہے۔ جہاں تک متقدمین حنفی فقہاء کا تعلق ہے تو ان کے اجتہادات کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اس کو ضروری نہیں سمجھتے اور بعض مسائل میں قیاسی قرائن کی قوت کی بنیاد پر نسخ غیر صریح یا نسخ استنباطی کو بھی جمع وتوفیق کے طریقے پر ترجیح دیتے ہیں-

واللہ اعلم

بشکریہ مکالمہ ڈاٹ کام، تحریر/اشاعت 17 ستمبر 2017
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Sep 18, 2017
1536 View