حضرت عبد ﷲ بن مظعون رضی ﷲ عنہ - ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت عبد ﷲ بن مظعون رضی ﷲ عنہ

 حضرت عبدﷲ بن مظعون قبیلۂ قریش سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے دادا کا نام حبیب بن وہب تھا۔ اپنے پانچویں جد جمح بن عمرو کی نسبت سے وہ جمحی کہلاتے ہیں۔ کعب بن لؤی پران کا شجرۂ نسب نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے نسب مبارک سے جا ملتا ہے۔آپ مرہ بن کعب، جب کہ عبدﷲ ہصیص بن کعب کی اولاد میں سے تھے۔ ہصیص جمح کے دادا اورحضرت عبدﷲ بن مظعون کے ساتویں جد تھے۔حضرت عبدﷲ کی والدہ سخیلہ بنت عنبس بھی بنو جمح سے تعلق رکھتی تھیں۔حضرت عثمان بن مظعون ان کے سگے اور حضرت قدامہ بن مظعون سوتیلے بھائی تھے۔ حذافہ بن جمح حضرت عبدﷲ کے لکڑدادا(دادا کے دادا) ہونے کے ساتھ ان کے لکڑ نانا(نانا کے دادا) بھی تھے۔حضرت عبدﷲ کے چچا معمر بن حبیب زمانۂ جاہلیت میں ہونے والی جنگ فجار کے ایک کمانڈر تھے۔ ام المومنین سیدہ حفصہ بنت عمر حضرت عبدﷲ کی بھانجی تھیں، ان کی والدہ کا نام حضرت زینب بنت مظعون تھا۔ابو محمد حضرت عبدﷲ بن مظعون کی کنیت تھی۔

مکہ کی گھاٹیوں میں رسول آخر الزمان کی بعثت سے آفتاب اسلام چمکاتو کچھ نیک فطرت اصحاب اس کی روشنی پانے کے لیے لپکے۔ ﷲ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں انھیں ’اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘* کا نام دیا ہے۔ ’’السیرۃ النبویۃ‘‘ میں ابن ہشام نے ابن اسحاق کے حوالے سے ان کی فہرست دی ہے۔ اس ترتیب میں جو بادی النظر میں زمانی (chronological) لگتی ہے ،حضرت عبدﷲ بن مظعون کا پندرھواں نمبرہے۔ حضرت عبدﷲ کے بھائی حضرت عثمان بن مظعون،حضرت قدامہ بن مظعون اور بھتیجے حضرت سائب بن عثمان بھی ان کے ساتھ نعمت اسلام سے سرفراز ہوئے، رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ابھی دار ارقم میں تبلیغ و دعوت کا سلسلہ شروع نہ کیا تھا۔ 

حضرت عبدﷲ بن مظعون کو حبشہ و مدینہ، دونوں ہجرتوں کا شرف حاصل ہوا۔رجب ۵؍ نبوی (۶۱۵ء) میں جب کمزور اہل ایمان پر قریش مکہ کا ظلم و ستم عروج پر تھا،نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے اپنے ا صحاب سے فرمایا: تم اس سرزمین جور و ستم سے ہجرت کیوں نہیں کر جاتے؟ انھوں نے پوچھا: کہاں جائیں؟ آپ نے حبشہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: وہاں ایسے بادشاہ کی حکمرانی ہے جو اپنی سلطنت میں ظلم روا نہیں رکھتا۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت عثمان بن مظعون کی قیادت میں پندرہ اہل ایمان حبشہ روانہ ہوئے، پھر حضرت جعفر بن ابوطالب کی سربراہی میں دو کشتیوں پر سوار سڑسٹھ اہل ایمان کا دوسرا گروپ نکلا ۔حضرت عبدﷲ بن مظعون اسی گروپ میں شامل تھے۔یہ پہلی ہجرت حبشہ تھی۔ دونوں گروپوں کے مہاجرین کی مجموعی تعداد تراسی (ایک سو نو:ابن جوزی)تھی۔

شوال ۵؍ نبوی میں قریش کے قبول اسلام کی افواہ حبشہ میں موجود مسلمانوں تک پہنچی توان میں سے کچھ کشتی پر سوار ہو کر مکہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ جب یہ خبر غلط ثابت ہوئی تو ان میں سے چندحبشہ لوٹ گئے، تاہم حضرت عثمان بن عفان،حضرت زبیر بن عوام ،حضرت مصعب بن عمیر،حضرت ابوعبیدہ بن جراح، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت عبدﷲ بن مسعود،حضرت عبدﷲ بن مظعون،ان کے دو بھائی حضرت عثمان بن مظعون ،حضرت قدامہ بن مظعون اوران کے بھتیجے حضرت سائب بن عثمان ان تینتیس اصحاب میں شامل تھے جنھوں نے دوسری ہجرت حبشہ میں حصہ نہ لیا اور مکہ ہی مقیم ہو گئے۔

ہجرت حبشہ سے لوٹنے کے بعد کئی برس گزر گئے، مگرمکہ میں رہنے والے اہل ایمان کی کلفتیں ختم نہ ہوئیں۔ مسلمانوں کا جینا دوبھر ہو گیاتو نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: مجھے تمھارا دار ہجرت دکھا دیا گیا ہے،میں نے دیکھا کہ یہ کھجوروں والی زمین شور ہے جو دوسیاہ سنگلاخ سرزمینوں میں گھری ہوئی ہے (بخاری، رقم ۲۲۹۷)۔ آپ نے وضاحت فرمائی کہ خواب میں کھجوروں والی سرزمین دیکھ کر مجھے خیال ہوا کہ یہ نجد کا شہر یمامہ یایمن یا بحرین کا مقام ہجر ہو گا، لیکن یہ یثرب نکلا (بخاری، رقم ۳۶۲۲)۔

۱۳؍ نبوی (۶۲۲ء) میں بیعت عقبۂ ثانیہ ہوئی۔ یثرب سے حج پر آنے والے اوس و خزرج کے ستر مردوں اور دو عورتوں نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے دست مبارک پر قبول حق اور نصرت اسلام کی بیعت کی۔اب مدینہ کا دارہجرت ہونا متعین ہو گیا، اس لیے آپ نے صحابہ سے فرمایا: ﷲ نے تمھارے لیے بھائی بند اورگھرمہیا کر دیاہے جہاں تم اطمینان سے رہ سکتے ہو۔ تم میں جووہاں جانا چاہتا ہے، چلا جائے۔صحابہ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی صورت میں مکہ سے نکلنے لگے۔ سب سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر اورحضرت عمرو بن ام مکتوم مدینہ پہنچے، پھرحضرت عمار بن یاسر ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبدﷲ بن مسعود اورحضرت بلال نے ہجر ت کی (بخاری، رقم ۳۹۲۵)۔ ان کے بعد حضرت ابوسلمہ، ان کی اہلیہ، حضرت عامر بن ربیعہ،ان کی اہلیہ حضرت ام عبدﷲ ، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت ابوحذیفہ اور حضرت عبدﷲ بن جحش نے شہر ہجرت کا رخ کیا۔ حضرت عمر بیس افراد کے قافلہ کے ساتھ مدینہ آئے، پھر نبی صلی ﷲ علیہ وسلم اورحضرت ابوبکر کی آمد ہوئی۔حضرت عبدﷲ بن مظعون نے مکہ کے گھر کو تالا لگا کر پورے کنبے سمیت ہجرت کی۔

حضرت عبدﷲ بن مظعون ،ان کے بھائی حضرت عثمان بن مظعون ،حضرت قدامہ بن مظعون اورحضرت معمر بن حارث مدینہ میں حضرت عبدﷲ بن سلمہ عجلانی کے مہمان ہوئے۔ حضرت عثمان بن مظعون بعد میں حضرت ام علا انصاریہ کے گھر منتقل ہو گئے اور وہیں ان کی وفات ہوئی (بخار ی، رقم ۷۰۰۳)۔

مدینہ تشریف آوری کے پانچ ماہ بعد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم حضرت انس بن مالک کے گھر تشریف لے گئے اور مہاجرین و انصار میں مواخات قائم فرمائی ۔آپ نے کل پینتالیس مہاجر ین کو اتنے ہی انصار کا بھائی بند قرار دیا۔یہ بھائی چارہ محدود نہ تھا ،مدنی زندگی کے ابتدائی دو سال میں مہاجر و انصار بھائی ایک دوسرے کی وراثت بھی پاتے رہے۔ اس موقع پر آپ نے حضرت سہل بن عبید(یا سہل بن عبیدﷲ) کو حضرت عبدﷲ بن مظعون کا انصاری بھائی قرار دیا۔ دوسری روایت کے مطابق حضرت عبدا ﷲ بن مظعون کی مواخات حضرت قطبہ بن عامرسے قرار پائی۔

آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کی مکہ کی زندگی میں ستر سے زیادہ آیات نازل ہوئیں جن میں مسلمانوں کوقتال سے روکا کیاگیا۔ اہل ایمان کو مدینہ ہجرت کیے دوسرا سال تھا کہ ﷲ کا فرمان اترا:

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ نِ الَّذِِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ.(الحج ۲۲: ۳۹۔ ۴۰) 
’’(قتال کی )اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور ﷲ یقیناًان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے نا حق نکال دیے گئے ،صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب ﷲ ہے۔‘‘

اس اذن خداوندی کے بعد غزوات و سرایا کا سلسلہ شروع ہوا۔اسی سال ماہ رجب (۶۲۳ء)میں سرےۂ عبدﷲ بن جحش ہواجس میں قریش کا عمرو بن حضرمی مارا گیا۔ رمضان ۲ھ میں قریش ابن حضرمی کا بدلہ لینے اور شام سے آنے والے ابوسفیان کے تجارتی قافلے کی حفاظت کے لیے آمادہ بہ جنگ ہوئے۔یہ معرکۂ فرقان ۱۷؍ رمضان ۲ھ (۱۳؍ مارچ ۶۲۴ء) میں مدینہ سے ایک سو ساٹھ میل دور میدان بدرمیں برپا ہوا۔ حضرت عبدﷲ بن مظعون اور ان کے بھائیوں حضرت عثمان بن مظعون اور حضرت قدامہ بن مظعون نے اس میں بھرپور حصہ لیا۔

ہجرت مدینہ کے اڑھائی سال بعد حضرت عثمان بن مظعون بیمار پڑ کر فوت ہوئے تو آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کی نمازجنازہ پڑھائی ۔آپ کے حکم پرانھیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا،وہ اس تاریخی قبرستان میں ابدی نیند سونے والے پہلے یا دوسرے مسلمان تھے۔حضرت عبدﷲ بن مظعون،حضرت قدامہ بن مظعون ،حضرت سائب بن عثمان اورحضرت معمر بن حارث قبر میں اترے، جب کہ رسالت مآب صلی ﷲ علیہ وسلم قبر کے کنارے پر کھڑے رہے۔

۱۵؍ شوال ۳ھ (جنوری ۶۲۵ء): ابوسفیان نے جنگ بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے اپنا اور اپنے شرکاے تجارت کا تمام نفع صرف کیا ،مکہ کی عورتوں نے اپنے زیور ڈالے ۔اس طرح تین ہزار کی فوج کھڑی کر کے مشرکین مکہ نے شہر نبی کا رخ کیا۔آں حضرت صلی ﷲ علیہ وسلم مدینہ میں رہ کرمدافعت کرنا چاہتے تھے، لیکن اکثرصحابہ کی راے تھی کہ شہر سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کیاجائے ۔منافقین چھٹ کر الگ ہو گئے اور نبی صلی ﷲ علیہ وسلم اور آپ کے مخلص صحابہ نے جبل احد کے دامن میں ڈیرا ڈالا۔حضرت عبدﷲ بن مظعون اس کارزارکفر و دیں میں آپ کے ساتھ تھے۔

۴ھ میں یہودی قبیلہ بنونضیر نے پتھر گرا کر نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی جان لینے کی ناپاک کوشش کی تو انھیں مدینہ سے نکال دیا گیا۔ابوسفیان نے بنو نضیر سے اتحاد کیا ،مسلمانوں کے حلیف قبیلۂ یہود بنوقریظہ کو ساتھ ملایا،بنوغطفان، بنوسلیم، بنوسعد ،بنوفزارہ اور کچھ اور قبائل سے گٹھ جوڑ کر کے شوال ۵ھ(مارچ ۶۲۷ء) میں دس ہزار کی فوج جمع کر کے مدینہ پر حملہ کردیا۔آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے مشورہ پر مدینہ کی کھلی طرف پانچ گز چوڑی اور پانچ گز گہری خندق کھدوائی۔پچھلی طرف پہاڑیاں اور ایک طرف مکانات تھے۔اس طرح مدینہ نے قلعہ کی صورت اختیار کر لی۔ اس غزوہ کو غزوۂ احزاب کہا جاتا ہے، کیونکہ کئی گروہ ملت اسلامیہ کے خلاف اکٹھے ہو گئے تھے، اسے جنگ خندق کا نام بھی دیا جاتا ہے، کیونکہ اس میں خندق کھود کر مدینہ کا دفاع کیا گیا تھا۔ حضرت عبدﷲ بن مظعون اس ستائیس دن طویل کڑے معرکے میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جب خوراک کی رسد نہ ہونے کی وجہ سے اہل مدینہ پر بھوک غالب آنے لگی تھی ۔

حضرت عبدﷲ بن مظعون بقیہ غزوات میں بھی پیغمبر صلی ﷲ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے۔

حضرت عبدﷲ بن مظعون کا ایک قبطی غلام تھا جو عہد رسالت میں مسلمان ہوا، لیکن عہد فاروقی میں مرتد ہو گیا۔ اسے جرم ارتداد میں قتل کر دیا گیا۔

حضرت عبدﷲ بن مظعون نے ۳۰ھ میں خلیفۂ سوم حضرت عثمان کے عہدخلافت میں وفات پائی۔ان کی عمر ساٹھ برس(اسی سال:ابن جوزی) ہوئی۔

حضرت عبدﷲ بن مظعون سے کوئی حدیث روایت نہیں کی گئی۔


مطالعۂ مزید:السیرۃ النبوےۃ(ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، الدرر فی اختصارالمغازی والسیر (ابن عبد البر)، المنتظم فی تواریخ الملوک و الامم (ابن جوزی)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، البداےۃ والنہاےۃ (ابن کثیر)، سیر اعلام النبلاء (ذہبی)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، محمد رسول ﷲ(محمد رضا)، تاریخ اسلام (اکبر شاہ نجیب آبادی)۔

_______________

* التوبہ۹: ۱۰۰۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اگست 2017
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Sep 23, 2017
1613 View