حضرت سکران بن عمرو رضی اللہ عنہ - ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت سکران بن عمرو رضی اللہ عنہ

 

حضرت سکران بن عمرو کے داداکا نام عبدشمس اور پڑدادا کا عبدود تھا۔ان کا قبیلہ ان کے ساتویں جد عامر بن لؤی کے نام سے موسوم ہے، غالب بن فہر ان کے نویں جد تھے۔ لؤی بن غالب پر ان کا سلسلۂ نسب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرہ سے ملتا ہے۔ لؤی آپ کے نویں اور حضرت سکران کے آٹھویں جد تھے۔ قرشی اور عامری حضرت سکران کی نسبتیں ہیں۔ ان کی والدہ حبّی بنت قیس بنوخزاعہ سے تعلق رکھتی تھیں۔
ابن ہشام کی ترتیب شدہ ’اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ‘* کی فہرست میں حضرت سکران کا نام شامل نہیں، تاہم چونکہ ان کے بھائیوں حضرت سلیط بن عمرو اور حضرت حاطب بن عمرونے دین حق کی طرف سبقت کی ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت سکران نے ایمان قبول کرنے میں دیر نہ لگائی ہو گی۔ ان کا ہجرت حبشہ(۵؍ نبوی) سے پہلے مومنین کی صف میں شامل ہونا یقینی ہے۔
حضرت سکران بن عمرو کو حبشہ و مدینہ، دونوں ہجرتوں کا شرف حاصل ہوا۔ رجب ۵ ؍ نبوی (۶۱۵ء) میں جب کمزور اہل ایمان اور اسلام کی طرف لپکنے والے غلاموں پر قریش کا ظلم و تشدد حد سے بڑھ گیا، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: تم یہاں سے ہجرت کیوں نہیں کرجاتے ؟صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ، کہاں جائیں تو آپ نے حبشہ (Ethiopia) کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: وہاں ایسا بادشاہ،نجاشی حکمران ہے جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت عثمان بن مظعون کی قیادت میں سولہ یا سترہ اصحاب رسول حبشہ روانہ ہوئے۔ چند ماہ کے بعدحضرت جعفر بن ابو طالب کی قیادت میں دو کشتیوں پر سوارہو کر سڑسٹھ اہل ایمان کا دوسرا قافلہ سوے حبشہ روانہ ہوا۔ حبشہ کی طرف دونوں ہجرتوں میں شریک صحابہ کی مجموعی تعداد تراسی (:ابن ہشام۔ ایک سو نو: ابن جوزی) بنتی ہے۔ حضرت سکران بن عمرو اور ان کی اہلیہ حضرت سودہ بنت زمعہ اس دوسرے گروپ میں شامل تھے۔ حضرت سکران کے بھائی حضرت حاطب بن عمرو، حضرت سلیط بن عمرو،ان کے قبیلہ بنو عامر بن لؤی کے حضرت ابوسبرہ بن ابورہم، ان کی اہلیہ حضرت ام کلثوم بنت سہیل، حضرت عبداللہ بن مخرمہ، حضرت عبداللہ بن سہیل، حضرت مالک بن زمعہ، ان کی اہلیہ حضرت عمرہ بنت سعدی اور بنوعامر کے حلیف حضرت سعد بن خولہ سفر ہجرت میں ان کے شریک تھے۔
ابن اسحاق، ابن ہشام، واقدی، ابن سعد اور بلاذری کہتے ہیں کہ حضرت سکران بن عمرو اور ان کی اہلیہ حضرت سودہ بنت زمعہ ان تینتیس اصحاب میں شامل تھے جو شوال ۵؍نبوی میں قریش کے ایمان لانے کی افواہ سن کر مکہ لوٹ آئے۔ ان کے قبیلہ بنوعامر بن لؤی سے تعلق رکھنے والے حضرت عبداللہ بن مخرمہ، حضرت عبداللہ بن سہیل، حضرت ابوسبرہ بن ابورہم، ان کی اہلیہ حضرت ام کلثوم بنت سہیل اوربنو عامرکے حلیف حضرت سعد بن خولہ بھی ان کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے۔مذکورہ سیرت نگاروں کے مطابق حضرت سکران نے ۱۰ ؍نبوی میں ہجرت مدینہ سے قبل مکہ میں وفات پائی، جب کہ موسیٰ بن عقبہ، ابومعشر اورطبری کی روایت کے مطابق وہ شہر مکہ نہ آئے اور حبشہ ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔
حضرت سکران بن عمرو سے حضرت سودہ کے ہاں عبداللہ پیدا ہوئے۔ 
سیدہ خدیجہ کی وفات کو تین سال گزرے تھے کہ عثمان بن مظعون کی اہلیہ حضرت خولہ بنت حکیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: یا رسول اللہ، کیا آپ شادی نہیں کریں گے؟سوال فرمایا: کس سے؟ حضرت خولہ نے کہا: آپ چاہیں تو کنواری سے اور چاہیں تو بیوہ سے رشتہ ہو سکتا ہے۔ پوچھا: کنواری کون؟ بتایا: آپ کے سب سے محبوب رفیق ابوبکر کی بیٹی عائشہ۔ استفسار فرمایا: بیوہ کون ہے؟ بتایا: سودہ بنت زمعہ جوآپ پر ایمان لا چکی ہیں۔ آپ کے ہامی بھرنے پر حضرت خولہ حضرت ابوبکر کے گھر گئیں اور ان کی اہلیہ حضرت ام رومان سے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ کا رشتہ مانگنے کے لیے بھیجا ہے۔ حضرت ابوبکر نے پوچھا: کیا عائشہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے موزوں ہے؟ یہ سوال آپ کے سامنے آیا تو فرمایا: ابوبکر میرے اسلامی بھائی ہیں اوران کی بیٹی کی مجھ سے شادی ہو سکتی ہے۔حضرت عائشہ کا آپ سے نکاح مکہ ہی میں ہو گیا، رخصتی البتہ ہجرت کے بعد مدینہ میں ہوئی (موسوعہ مسند احمد، رقم ۲۵۷۶۹)۔
۱۰؍ نبوی میں سیدہ سودہ کی عدت ختم ہوئی توحضرت خولہ بنت حکیم رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وسلم کا سندیسہ لے کر ان کے پاس پہنچیں۔ انھوں نے کہا: میری مرضی تو ہے، لیکن آپ میرے والد کو بتائیں۔ حضرت سودہ کے والد زمعہ بن قیس نے بھی مثبت جواب دیا تو آپ کا نکاح سیدہ سودہ سے ہو گیا (مسند احمد، رقم ۲۵۷۶۹)۔ اور ان کی رخصتی مکہ ہی میں ہو گئی۔ حضر ت سودہ کے بھائی عبد بن زمعہ اس وقت ایمان نہ لائے تھے، اس لیے یہ رشتہ پسند نہ کیا۔
مطالعۂ مزید:السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، تاریخ الامم والملوک (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، المنتظم فی تواریخ الملوک و الامم (ابن جو زی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (ابن اثیر)، البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)، الاصابہ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)۔
_____
* التوبہ ۹: ۱۰۰۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اپریل 2017
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Feb 21, 2018
1977 View