حضرت سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ (1) - ڈاکٹر وسیم مفتی

حضرت سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ (1)

 حضرت سہیل کے والد کا نام عمرو، دادا کا عبدشمس اور پڑداداکا عبدود تھا۔عامر بن لؤی ان کے ساتویں اور غالب بن فہر نویں جد تھے۔ عامر بن لؤی کے نام پر ان کا قبیلہ بنو عامر بن لؤی کہلاتا ہے۔لؤی بن غالب پر ان کاسلسلۂ نسب نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے شجرہ سے ملتا ہے۔ عامر کے بھائی کعب آپ کے آٹھویں اور لؤی نویں جد تھے۔ حضرت سہیل کی والدہ کانام حبی(یا ام حبی) بنت قیس تھا ،وہ بنو خزاعہ سے تعلق رکھتی تھیں۔حضرت سکران بن عمرو ان کے سگے، جب کہ حضرت سلیط بن عمرو سوتیلے بھائی تھے۔ حضرت سہیل عامری قرشی کہلاتے ہیں، کیونکہ بنو عامر بن لؤی قریش ہی کی ایک شاخ تھی۔ ابویزید ان کی کنیت تھی۔ حضرت سہیل کا نچلا ہونٹ کٹا ہوا تھا۔ ذوالانیاب ان کا لقب تھا۔زمانۂ جاہلیت کے شاہ یمن قیس بن معدی کرب کندی کو بھی اس لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ناب کے معنی ہیں: کچلی دانت ، قوم کا سردار، انیاب اس کی جمع ہے۔

نوفل بن عبد مناف کی پوتی فاختہ بنت عامر سہیل بن عمرو کی اہلیہ تھیں۔حضرت عبدﷲ بن سہیل ،حضرت ابوجندل بن سہیل ،حضرت عتبہ بن سہیل ان کے بیٹے تھے،حضرت سہیل کی بیٹی حضرت سہلہ بنت سہیل کی والدہ کا نام فاطمہ بنت عبدالعزیٰ بتایاجاتا ہے۔ ان کی ایک بیٹی حضرت ام کلثوم بنت سہیل حضرت ابوسبرہ بن ابورہم سے بیاہی ہوئی تھیں۔ یہ حضرت عبداللہ کی سگی بہن تھیں۔

زمانۂ جاہلیت میں سہیل بن عمروکا شمارقریش کے بڑے اوردانش مند سرداروں میں ہوتا تھا۔عتبہ بن ربیعہ، حارث بن عامر، ابوالبختری بن ہشام، نضر بن حارث، ابوجہل، امیہ بن خلف، نبیہ بن حجاج ، منبہ بن حجاج اور سہیل بن عمرو حاجیوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔خطاب کا ملکہ رکھنے کی و جہ سے سہیل کو خطیب قریش کہا جاتا تھا،اسود بن عبدالمطلب دوسرے بڑے خطیب تھے۔بعثت نبوی کے بعد سہیل دین حق کی مخالفت اور دشمنی میں سرگرم ہو گئے، اسلام کی مخالفت میں اپنی خطابت کے جوہر دکھانے میں پیش پیش رہے۔

۲۷ ؍ شوال۱۰ ؍ نبوی (جنوری ۶۲۰ء) :ابوطالب کی وفات کے بعد قریش مکہ کی نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کو ایذارسانیاں بڑھ گئیں تو آپ نے دین حق کے لیے نصرت و تائید حاصل کرنے کے لیے طائف کا سفر کیا۔ طائف میں آباد بنو ثقیف نے الٹا اپنے غلاموں اور غنڈوں کو آپ کے پیچھے لگا دیاجو آپ پر طرح طرح کی آوازیں کسنے اور پتھر برسانے لگے۔ دس روز(یا ایک ماہ)طائف میں گزارنے کے بعدآپ نے مکہ لوٹنے کا ارادہ کیا، لیکن اب کسی کی پناہ لیے بغیر مکہ میں داخل ہونا ممکن نہ تھا، اس لیے آپ نے غارحرا پہنچ کرعبدﷲ بن اریقط کو اس مقصد کے لیے اخنس بن شریق کے پاس بھیجا۔ اس نے کہا: میں خود قریش کی شاخ بنوزہرہ کا حلیف ہوں ۔ حلیف اپنے معاہدے کے پابند ہوتے ہیں،کسی کو پناہ نہیں دے سکتے۔ آپ نے سہیل بن عمرو کو یہی پیغام بھیجا تو انھوں نے جواب دیا: بنوعامر بنو کعب کو پناہ نہیں دیتے۔ کعب بن لؤی اور عامر بن لؤی دو بھائی تھے، نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کعب کی اولاد تھے، جب کہ سہیل کا نسب عامر سے ملتا تھا۔ پھر آپ نے مطعم بن عدی سے پناہ مانگی تو انھوں نے مثبت جواب دیا۔ وہ رات آپ نے مطعم کے ہاں گزاری، صبح سویرے وہ آپ کو اپنے سات بیٹوں کے ساتھ لے کر تلوار یں حمائل کیے کعبہ پہنچے تو ابوسفیان (دوسری روایت: ابوجہل) نے دیکھ کر پوچھا: برے ارادے سے آئے ہو یا کسی کو پناہ دینا مقصود ہے؟ مطعم نے کہا: پناہ دینے آیا ہوں۔ ابوسفیان نے جواب دیا: جسے تم نے پناہ دی، اسے ہم نے بھی پناہ دی۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے کعبہ کا طواف کیا، نماز پڑھی اور گھر واپس آ گئے۔

۱۳ ؍ نبوی(۶۲۲ء)کو یثرب سے اوس و خزرج قبائل کے لوگ حج کے لیے مکہ آئے۔ان میں سے ستر مردوں اور دو عورتوں نے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے دست مبارک پر قبول حق اور نصرت اسلام کی بیعت کی جسے بیعت عقبۂ ثانیہ کہا جاتا ہے۔آپ نے بنوخزرج کے نو اور قبیلۂ اوس کے تین سرداروں کو نقیب مقرر فرمایا۔قریش کو خبر ہوئی تو انھوں نے منیٰ سے یثرب لوٹنے والے نو مسلم حاجیوں کا پیچھا کیا۔قافلہ آگے جا چکا تھا، تاہم انھوں نے دو نقیبوں حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت منذر بن عمروکو اذاخر کے مقام پر جا لیا۔حضرت منذر بچ کر نکل گئے، تاہم حضرت سعد کو مشرکوں نے پکڑ لیا،ان کے ہاتھ گردن سے باندھ دیے اور مارتے پیٹتے،ان کے بڑے بڑے بال کھینچتے مکہ لے گئے۔ یکایک ایک سرخ و سپید خوب صورت شخص آیا اور ان کے منہ پر زور سے طمانچہ دے مارا، یہ سہیل بن عمرو تھے۔ انھی مشرکوں میں موجود ابوالبختری بن ہشام نے جبیر بن مطعم اور حارث بن ہشام کواطلاع دی جنھیں حضرت سعد بن عبادہ یثرب سے تجارتی قافلے لے جاتے ہوئے پناہ مہیا کرتے تھے ۔ان دونوں نے آکرحضرت سعد کو سہیل بن عمرو اور دوسرے مشرکین کی گرفت سے بچایا۔

۱۷ ؍ رمضان ۲ھ (۱۳ ؍ مارچ ۶۲۴ء)کو دور اسلامی کا عظیم الشان معرکۂ بدر ہوا۔سہیل بن عمرو نے بڑے جوش و خروش سے مشرکین کا دفاع کیا۔مکہ سے ان کی فوج چلی تو ہر پڑاؤ پرقریش کے ایک سردار نے نو یا دس اونٹوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ابوجہل،امیہ بن خلف ،شیبہ بن ربیعہ ، عتبہ بن ربیعہ،نبیہ بن حجاج ،منبہ بن حجاج ، حارث بن عامر اور مقیس جمحی کی طرح سہیل بن عمرونے بھی سپاہیوں کے راشن میں اپنا حصہ ڈالا۔مشرک فوج مکہ سے باہر نکل کر قدید کے مقام پر پہنچی تو انھوں نے دس اونٹ ذبح کیے۔

غزوۂ بدرکی رات رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی ،حضرت زبیر بن عوام ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور کچھ اور صحابہ کو بدر کے چشمہ کی طرف بھیجا تاکہ قریش کی تیاریوں کا کھوج لگا سکیں ۔یہ حضرات پانی بھرنے والے دو غلاموں اسلم اور عریض کو پکڑ لائے۔ آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: قریش کے کون کون سے سردار جنگ میں شامل ہونے کے لیے آئے ہیں؟ انھوں نے بتایا: عتبہ بن ربیعہ ،شیبہ بن ربیعہ ،ابوالبختری بن ہشام ،حکیم بن حزام، نوفل بن خویلد، حارث بن عامر،طعیمہ بن عدی،نضر بن حارث،زمعہ بن اسود،ابوجہل بن ہشام،امیہ بن خلف، نبیہ بن حجاج، منبہ بن حجاج، سہیل بن عمرواور عمرو بن عبدود۔ تو آپ نے فرمایا: یہ مکہ ہے جس نے اپنے جگر گوشے تمھارے آگے ڈال دیے ہیں۔

غزوۂ بدر جس میں اہل ایمان کو تعداد و وسائل کی کمی کے باوجود فتح فرقان حاصل ہوئی، ستر مشرک جہنم واصل ہوئے اورستر ہی اہل ایمان کی قیدمیں آئے۔ سہیل بن عمرو بتاتے ہیں کہ میں نے اس روز چتکبرے گھوڑوں پر بیٹھے امتیازی علامات لگائے ہوئے چٹے سفید لوگوں کو دیکھا جو ہمارے ساتھیوں کو قتل اور قید کر رہے تھے۔جنگ کا بازارگرم ہوا تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے خوب تیر اندازی کی ۔واقدی کی روایت ہے کہ ان کا ایک تیر سہیل کے کولہے (نساء) پر لگا۔اس اثنا میں حضرت مالک بن دخشم خزرجی آئے اور سہیل کو اسیر کر لیا، لیکن فوجیں ابھی میدان بدر میں تھیں کہ وہ قید سے بھاگ نکلے۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم خود انھیں تلاش کرنے نکلے اور اعلان فرمایا کہ جو سہیل کو پکڑے، قتل کر دے ۔ آپ نے ان کو کیکرکے درختوں میں چھپا ہوا پایا تو ہاتھ گردن سے باندھ کر اپنی اونٹنی سے باندھنے کا حکم دیا، اسی طرح انھیں مدینہ لایا گیا۔ سید ہ سودہ شہداے بدر حضرت عوف بن عفرا اورحضرت معوذ بن عفرا کے اہل خانہ سے تعزیت کر کے آئیں تواپنے عزیز سہیل بن عمرو کو حجرے کے کونے میں پڑا پایا،ان کے ہاتھ گردن سے بندھے ہوئے تھے (ابوداؤد، رقم ۲۶۸۰)۔ بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا: تم نے قیدی بننا قبول کر لیا ،عزت کی موت کیوں نہ مر گئے؟رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فوراً سرزنش فرمائی: سودہ، کیا تم ﷲ و رسول کے خلاف اکسا رہی ہو؟ انھوں نے معذرت کی کہ یارسول ﷲ، ابویزید کی حالت دیکھ کر بے قصد میرے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے ۔آپ میرے لیے استغفار کر دیں تب آپ نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے آزاد کردہ حضرت اسامہ بن زید نے کہا: یارسول ﷲ، یہ ہے جو مکہ میں (حاجیوں کو) کھانے کھلایا کرتا تھا۔ فرمایا: ہاں، یہی ہے، لیکن جب اس نے ﷲ کے نور کو بجھانے کی کوشش کی تو ﷲ نے اسے پکڑ لیا۔حضرت عمر نے کہا: یارسول ﷲ، مجھے اجازت دیجیے ، میں سہیل بن عمرو کے دونوں اگلے ، نچلے دانت (lower incisors) نکال دوں،(ہونٹ کٹا ہونے کی وجہ سے) اس کی زبان ڈھیلی ہو کر باہر نکل آئے گی تو کسی موقع پر بھی آپ کے خلاف زبان درازی نہ کر سکے گا۔آپ نے فرمایا: میں اس کا مثلہ نہ کروں گا، کہیں ﷲ میرا مثلہ نہ کر دے، اگرچہ میں نبی ہوں۔ پھر فرمایا: ہو سکتا ہے کہ یہ ایسا مقام حاصل کر لے جو تمھارے لیے باعث مسرت ہو۔بنوعامر بن لؤی کا مکرزبن حفص سہیل کو چھڑانے آیا تواس کی یہ پیش کش قبول کر لی گئی کہ سہیل کو چھوڑ دیا جائے اور ان کا فدیہ،چار ہزار درہم آنے تک میرے پاؤں میں بیڑی ڈال دی جائے (مسند احمد، رقم ۲۳۸۶۴)۔

سہیل بن عمرو کے بیٹے حضرت عبدﷲ بہت جلد ایمان لے آئے تھے۔انھوں نے حبشہ کو ہجرت بھی کی ،وہ ان تینتیس مسلمانوں میں شامل تھے جو قریش کے قبول اسلام کی افواہ سن کر مکہ میں داخل ہو گئے، مگر سہیل نے انھیں مشکیں کس کر قیدکر دیا اور باردگر حبشہ جانے نہ دیا۔ جب جنگ بدر کا موقع آیا تو انھیں اپنے ساتھ مشرکوں کے لشکر میں گھسیٹ لیا۔بدر کے میدان میں جب اہل ایمان اور اہل شرک کی فوجیں آمنے سامنے ہوئیں تو حضرت عبدﷲ بن سہیل کفار کی فوج سے بھاگ نکلے اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے ساتھ آن ملے ۔انھوں نے جیش اسلامی میں رہ کر اپنے والد کے جتھے کا مقابلہ کیا۔

غزوۂ احد کے بعد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم فجر کی نماز میں دوسری رکعت پڑھانے کے بعد رکوع سے سر اٹھاتے تو ’سمع ﷲ لمن حمدہ‘ کہنے کے بعد بددعا فرماتے: اے ﷲ، صفوان بن امیہ،سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام پر لعنت بھیج۔ تب ﷲ کی طرف سے حکم نازل ہوا: ’لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْیَتُوْبَ عَلَیْھِمْ اَوْ یُعَذِّبَھُمْ فَاِنَّھُمْ ظٰلِمُوْنَ‘، ۱؂ ’’آپ کا (مشرکوں ا ور منافقوں کے انجام کے) معاملے میں کوئی اختیار نہیں، ﷲ ان کی توبہ قبول کرے (اگر یہ توبہ کریں) یاانھیں عذاب سے دوچار کرے(جو ان کا حق ہے)اس لیے کہ یہ یقیناً ظالم لوگ ہیں‘‘ (بخاری، رقم ۴۰۶۹، ۴۰۷۰۔ مسند احمد، رقم ۵۶۷۴)۔ یہ تینوں اصحاب فتح مکہ کے بعد ایمان لے آئے۔ دوسری روایت میں لحیان،رعل ،ذکوان اور عصیہ کے نام آئے (بخاری، رقم ۴۰۹۰۔ مسلم، رقم ۱۴۸۵)، ترمذی کی روایت ۳۰۰۴میں عمرو بن سہیل کے بجاے ابو سفیان کا ذکر ہے۔ اس ارشاد ربانی کے صادر ہونے سے پہلے آپ دعا فرما چکے تھے: اے میرے رب، میری قوم کو معاف کر دے، کیونکہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے۔

جنگ احد کے اختتام پر ابوسفیان نے جاتے جاتے پکار کر کہا تھا: آیندہ سال پھر بدر میں تم سے جنگ ہو گی۔نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے بھی ایک صحابی کے ذریعے جواب بھجوایا کہ ہاں، اس جگہ پھر مقابلہ ہو گا۔ﷲ کا کرنا ایسا ہوا کہ اگلے سال بار ش نہ ہوئی ،جانوروں کا چارا ملنا مشکل ہو گیا۔ابوسفیان اور دوسرے مشرک سردار جنگ سے کترانے لگے۔ نجد کے قبیلہ غطفان سے تعلق رکھنے والے نعیم بن مسعودجو اس وقت تک ایمان نہ لائے تھے، عمرہ کرنے مکہ آئے تو ابوسفیان نے کہا کہ یثرب جا کر مسلمانوں کو بدر آنے سے روکو۔تمھارے دس حصے میں سہیل بن عمرو کے پاس رکھوا دوں گا، وہ اس کے ضامن ہوں گے۔نعیم نے سہیل سے تصدیق چاہی کہ ابویزید، تم اس رقم کی ضمانت دیتے ہو؟ انھوں نے ہاں کہا تو نعیم نے مدینہ جا کرمشرکین کی عددی برتری کاپراپیگنڈا کیا ۔کچھ مسلمان اس کی باتوں میں آ گئے، تاہم نبی صلی ﷲعلیہ وسلم نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر کوئی میرے ساتھ نہ گیا تو میں تنہا جاؤں گا۔ تب سب چلے، لیکن قریش میدان بدر میں نہ پہنچے ۔ جنگ نہ ہوئی، تاہم مسلمانوں نے بدر میں لگنے والے بازار میں تجارت کی اور خوب نفع کمایا ۔

ذی قعد ۶ھ (مارچ ۶۲۸ء) میں صلح حدیبیہ ہوئی۔آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے مکہ پہنچ کرحضرت عثمان کو ابوسفیان اور قریش کے دوسرے سرداروں کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ہم جنگ کی غرض سے نہیں، بلکہ بیت ﷲ کی زیارت کے لیے آئے ہیں۔حضرت عثمان کو واپس آنے میں تاخیر ہوئی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ مشرکوں نے انھیں شہید کر دیا ہے۔ تب آپ نے اپنے ساتھ آنے والے چودہ (یاسولہ) سوصحابہ سے حضرت عثمان کی شہادت کا بدلہ لینے اور جنگ میں ثابت قدم رہنے کی بیعت لی۔قریش کو اس بیعت کی، جسے بیعت رضوان کہا جاتا ہے،خبر ملی تو وہ خوف زدہ ہو گئے۔ انھوں نے حضرت عثمان کو تین دن روکنے کے بعد واپس بھیج دیا اور صلح کی بات شروع کرنے کے لیے حلیس بن علقمہ کوآپ کے پاس بھیجا۔ وہ ہدی کے اونٹ دیکھ کر آپ سے ملے بغیر پلٹ گیا ۔پھران کی طرف سے مکرز بن حفص آیا۔اسے دیکھ کر آپ نے فرمایا: یہ شخص شر پسندہے۔وہ آپ سے گفتگو کر ہی رہا تھا کہ سہیل بن عمرو آتے دکھائی دیے۔ آپ نے فرمایا: تمھارا معاملہ آسان ہو گیا ہے۔ قریش نے صلح کا ارادہ کر لیا ہے تبھی سہیل کو بھیجا ہے۔ حویطب بن عبدالعزیٰ سہیل کے ساتھ تھا ۔عروہ بن زبیر کی روایت کے مطابق معاہدہ تحریر کرنے سے پہلے ایک موقع پر کسی شخص نے تیر پھینک دیا۔تب جنگ کی کیفیت پیدا ہو گئی ،مسلمانوں نے سہیل اوران کے ساتھ آنے والے مشرکوں کو روک لیا اور مشرکین مکہ نے حضرت عثمان اور ان کے ساتھ جانے والے اصحاب کو یرغمال بنا لیا۔

قریش نے سہیل کو تاکید کر رکھی تھی کہ اس شرط پر مصالحت کرنا کہ مدینہ سے عمرہ کے لیے آنے والے زائرین اس سال واپس چلے جائیں تاکہ عربوں کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ مسلمان طاقت کے زور سے مکہ میں داخل ہوئے۔ معاہدہ تحریر کرنے کا وقت آیا،رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اس درخت کے نیچے تشریف فرماتھے جس کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے، درخت کی ٹہنیاں آپ کے کندھوں کے پیچھے لٹک رہی تھیں،حضرت علی اور سہیل بن عمرو آپ کے آگے بیٹھے تھے۔ آپ نے انصاری صحابی حضرت اوس بن خولی کو معاہدہ تحریر کرنے کے لیے بلایا تو سہیل نے کہا: آپ کے چچا زاد علی یا عثمان بن عفان لکھیں گے تب آپ نے حضرت علی کو حکم دیا، لکھو: ’بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم‘۔ سہیل بن عمرو نے کہا: ہم یمامہ کے مسیلمہ (رحمٰن الیمامۃ) کے علاوہ کسی رحمان کو نہیں جانتے، ’باسمک اللّٰہم‘ لکھو جس طرح پہلے لکھا کرتے تھے۔پھر آپ نے فرمایا: لکھو ،یہ وہ شرائط ہیں جن پر محمد رسول ﷲ نے سہیل بن عمرو سے صلح کی۔ سہیل نے کہا: میں آپ کو ﷲ کا رسول مان رہا ہوتا تو آپ سے جنگ ہی کیوں کرتا ۔ اپنا اور اپنے والد کا نام لکھوائیے تب محمد بن عبد ﷲ لکھا گیا۔آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: لکھو،ہمارے بیت ﷲ کے طواف میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے گی۔سہیل نے کہا: آیندہ سال کے تین دنوں کی شرط درج کرو۔پھر کہا: یہ شامل کرو کہ اگر قریش کا کوئی فرد اگرچہ مسلمان ہو چکا ہو ،آپ کے پاس آئے تو آپ واپس بھیج دیں گے۔اگر آپ کا کوئی ساتھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر ہمارے پاس آ گیا تو ہم واپس نہ کریں گے (مسلم، رقم ۴۶۵۵۔ مسند احمد، رقم ۱۶۸۰۰)۔ معاہدے کی اصل رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس رہی، جب کہ ایک نسخہ سہیل بن عمرو کو دیا گیا۔

رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اور سہیل بن عمرو دس سالہ جنگ بندی کا معاہدہ لکھوارہے تھے کہ سہیل کے مسلمان بیٹے حضرت ابو جندل زیریں مکہ سے بیڑیوں میں جکڑے ہوئے گھسٹتے ہوئے آئے اور مسلمانوں کے آگے گر گئے ۔سہیل اپنے بیٹے کو دیکھتے ہی اٹھے ،زور سے تھپڑ مارا اوران کا گریبان پکڑ کر بولے: یامحمد، یہ پہلا فرد ہے جسے لوٹانے کی شرط میں نے منوائی ہے ۔آپ نے فرمایا: ابھی ہم نے معاہدہ مکمل نہیں کیا۔ سہیل نے کہا: تب ہم کوئی صلح نہ کریں گے۔ آپ نے کہا: تم ابوجندل کو میری خاطر پناہ دے دو ۔سہیل نے ماننے سے انکار کر دیا، تاہم مکرز نے کہا: ہم نے پناہ دی۔ پھر سہیل نے حضرت ابوجندل کو گریبان سے کھینچتے ہوئے گھسیٹ کر قریش کو واپس کر دیا۔ وہ بلند آواز سے پکارتے رہے: اے مسلمانو، کیا مجھے مشرکوں کو واپس کر دیا جائے گاتاکہ وہ مجھے ایذائیں دے کر ا پنا دین چھوڑنے پر مجبور کرتے رہیں۔ رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوجندل، صبر کر و اور ﷲ سے ثواب کی امید رکھو ، یقینﷲ تعالیٰ تمھارے اور تمھارے کمزور ساتھیوں کے لیے کشادگی پیداکرے گا اور نکلنے کی راہیں کھول دے گا۔ہم نے قریش سے صلح کا جومعاہدہ کیا ہے، اس کی خلاف ورزی نہ کریں گے۔ سہیل بن عمرو کے رویے کو قرآن مجید نے ’حمےۃ جاہلےۃ‘ کے نام سے تعبیر کیاہے۔ ڈاکٹر جواد علی کہتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم اور اہل ایمان کے دلوں میں جو ’سَکِےْنَۃ‘ (تحمل و سکون ) نازل فرمائی، وہ اس حمیت کا بدل اور متضاد تھی:

اِذْ جَعَلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْحَمِیَّۃَ حَمِیَّۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوْٓا اَحَقَّ بِھَا وَاَھْلَھَا. (الفتح ۴۸: ۲۶)

’’جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلانہ حمیت بٹھا لی تو ﷲ نے اپنے رسول اور مومنوں پر سکینت نازل فرمائی اور مومنوں کو تقویٰ کی بات کا پابند رکھاکہ وہی اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے۔‘‘

سہیل بن عمرو کے دوسرے مسلمان بدری بیٹے حضرت عبدﷲ بن سہیل نے عہد نامے پراہل ایمان کی طرف سے بطور گواہ دستخط کیے (مسند احمد، رقم ۱۸۹۱۰)۔

صلح حدیبیہ کے بعد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو آپ کے پیچھے پیچھے حضرت ابوبصیر عتبہ بن اسید مشرکوں کی قید سے بھاگ کر مدینہ آ گئے۔ مشرک سرداروں ازہر بن عبد عوف اور اخنس بن شریق کا خط بھی آپ کو ملا جس میں حضرت ابوبصیر کو واپس بھیجنے کوکہا گیا تھا۔حضرت ابوبصیر نے کہا کہ کیا آپ مجھے مشرکوں کو لوٹا دیں گے تاکہ وہ دین سے ہٹانے کے لیے طرح طرح کی آزمایشوں میں مبتلا کریں؟آپ نے فرمایا: ہمارے دین میں بدعہدی کی کوئی راہ نہیں۔ ازہر اور اخنس کے بھیجے ہوئے دوآدمی حضرت ابوبصیر کو لے کر مکہ چلے،مدینہ سے چھ میل کی مسافت طے کرنے کے بعد ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچے تھے کہ حضرت ابوبصیر نے دومشرکوں میں سے ایک کو جو سہیل بن عمرو کے قبیلہ بنوعامر سے تعلق رکھتا تھا،اسی کی تلوار لے کر قتل کردیا۔ دوسرا نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس حاضر ہوا اور آپ کو خبر کی۔اس کے پیچھے حضرت ابوبصیر بھی تلوارحمائل کیے ہوئے پہنچ گئے اور کہا: آپ نے مجھے اپنی مشرک قوم کے سپرد کر کے عہد نبھا دیا، لیکن میں نے اپنے دین کو فتنہ میں پڑنے سے بچا لیا۔آپ نے فرمایا: اس کی ماں کا برا ہو! اگر اس کے ساتھ کچھ لوگ ہوتے تو یہ جنگ ہی بھڑکا دیتا۔ سہیل بن عمرو کو معلوم ہوا تو کعبہ سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے اور کہا: وﷲ! میں یہاں سے نہ ٹلوں گا جب تک میرے عامری بھائی کا خون بہا نہیں مل جاتا۔ ابوسفیان نے منع کیا اور کہا: یہ نادانی ہے ،اس کا خون بہا نہ ملے گا،اس کا خون بہا ہر گز نہیں ملے گا (بخاری، رقم ۲۷۳۱، ۲۷۳۲۔ مسند احمد، رقم ۱۸۹۲۸)۔

صلح حدیبیہ کے ایک سال گزرنے کے بعد ذی قعدہ ۷ھ(فروری ۶۲۹ء) میں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم دو ہزار صحابہ کے جلو میں،قربانی کے ساٹھ اونٹ لیے عمرۂ قضا(یا عمرۂ قصاص) ادا فرمانے کے لیے مکہ روانہ ہوئے ۔مکہ سے آٹھ میل اِدھر واقع مقام یاجج پر پہنچ کر آپ نے حضرت جعفر بن ابوطالب کو نکاح کا پیغام دے کر ان کی سالی حضرت میمونہ بنت حارث کے پاس مکہ بھیجا۔ سیدہ میمونہ کی بہن حضرت ام فضل نے اپنے شوہرحضرت عباس بن عبدالمطلب کو والی مقرر کیا، جنھوں نے چار سو درہم (پانسو:ابن سعد،ابن حجر) مہر کے عوض حضرت میمونہ کا آپ سے نکاح کر دیا۔ عمرہ ادا کرنے کے بعد رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم بیت ﷲ میں داخل ہو گئے اور حضرت بلال کو حکم دیا کہ بیت ﷲ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں۔اس موقع پرعکرمہ بن ابوجہل نے کہا: ﷲ نے میرے والد ابو الحکم کو عزت دی کہ وہ اس غلام کو اذان کہتے سننے کے لیے موجود نہیں ہیں۔صفوان بن امیہ نے یہ کہہ کر ہاں میں ہاں ملائی،ﷲ کا شکر ہے کہ اس نے میرے ابا کو یہ کچھ دیکھنے سے پہلے اٹھا لیا۔ خالد بن اسید نے بھی ایسے ہی کلمات کہے۔سہیل بن عمرو اور ان کے ساتھیوں نے اذان شروع ہوتے ہی اپنے چہرے ڈھانپ لیے۔

عمرۂ قضا کے بعد آں حضور صلی ﷲ علیہ وسلم نے تین روز مکہ میں قیام فرمایا۔ اس دوران میں شہر کے زعما اپنا حسد و بغض لیے ہوئے مکہ سے باہر کوہ خندمہ کے دامن میں چلے گئے۔ چوتھے روز قریش نے سہیل بن عمرو اور حویطب بن عبدالعزیٰ کو آپ کے پاس بھیجا۔ آپ سعد بن عبادہ کے ساتھ مصروف گفتگو تھے کہ حویطب پکارا: مکہ میں آپ کی مدت قیام پوری ہو چکی ہے، اس لیے واپس چلے جائیں۔ آپ نے سہیل اور حویطب کو مخاطب فرمایا: کیا حرج ہے کہ میں آپ کے ہاں اپنا ولیمہ کر لوں؟ہم کھانا بنائیں گے جسے آپ بھی تناول کر لیں۔ دونوں نے کہا: ہم آپ کو ﷲ اور نکاح کا واسطہ دیتے ہیں، مکہ چھوڑ دیں۔ تب آپ نے چلنے کا حکم دیا اور مکہ سے چھ (یا دس) میل باہر، تنعیم سے آگے واقع وادئ سرف میں قیام فرما لیا۔ بعد میں حضرت ابورافع حضرت میمونہ کو وہاں لے آئے۔

[باقی]

۱ ؂ آل عمران ۳: ۱۲۸۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مئی 2017
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی
Uploaded on : Sep 26, 2017
3142 View