میرا نام - جاوید احمد غامدی

میرا نام

 میرے نام کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ والدہ کو ’’جاوید‘‘ پسند تھا۔ پیدایش کے بعد والد اپنے شیخ سے دعا کرانے کے لیے لے کر گئے تو انھوں نے فرمایا: اس کا نام ہم درویشوں کے طریقے پر ہونا چاہیے۔ اسے ’’کاکو شاہ‘‘ کہا کرو۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ بادشاہ اس کے پاس نیاز مندانہ حاضر ہوں گے۔ میری چھوٹی خالہ برسوں والدہ کے پاس رہی تھیں۔ والد اور والدہ، دونوں ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کے ایک بیٹے مجھ سے تین سال بڑے تھے جن کا نام انھوں نے ’’رفیق‘‘ رکھا تھا۔ اس کی مناسبت سے انھیں اصرار تھا کہ میرا نام ’’شفیق‘‘ رکھا جائے۔ وہ اس کے سوا کوئی دوسرا نام قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھیں۔ اس کے کچھ دنوں بعد بڑی خالہ دیکھنے کے لیے آئیں تو انھوں نے فرمایا: میں نے تو پہلے سے ا س کا نام’’کاکا محمد‘‘ رکھا ہوا ہے۔ اب کیا کیا جائے؟ میرے گھر والوں نے اس کا آسان حل یہ تلاش کیا کہ تمام نام قبول کر لیے۔ چنانچہ یہ بزرگ جب تک زندہ رہے، مجھے اپنی پسند کے ناموں سے پکارتے رہے۔
مدرسہ میں داخلے کا وقت آیا تو والد موجود نہ تھے۔ اس زمانے میں بعض اوقات وہ مہینوں کے لیے اپنے شیخ کی خانقاہ کوٹلی مغلاں چلے جاتے تھے۔ ان کے ایک عزیز دوست تھے جنھیں ہم چچا کہتے تھے۔ والد کی عدم موجودگی میں وہ مجھے داخل کرانے گئے۔ میرے لیے اسی اسکول کا انتخاب کیا گیا جس میں میرے خالہ زاد بھائی رفیق پڑھتے تھے۔ نام لکھاتے وقت چچا نے مجھ سے پوچھا تو میں نے سارے نام بتا دیے۔ وہ سخت پریشان ہوئے کہ اب فیصلہ کس طرح کیا جائے۔ انھوں نے رفیق کی طرف دیکھا تو اس نے کہا: ہمارے گھر میں تو اسے ’’شفیق‘‘ ہی کہتے ہیں۔ چچا نے چند لمحوں کے لیے توقف کیا اور پھر یہی نام اسکول کے رجسٹر میں درج کرا دیا۔
میں جب شعور کی عمر کو پہنچا تو مجھے والدہ کا رکھا ہوا نام زیادہ پسند آیا۔ لیکن اب اسکول کے رجسٹر کا کیا کیا جائے؟ اپنے ایک استاد محمد صادق صاحب سے بات کی تو انھوں نے فرمایا: اس مرحلے پر نام تبدیل کرنا تو مشکل ہو گا۔ تمھیں شعر کہنے کا شوق ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ جاوید تخلص کر لو۔ میں تمھارا نام ’’شفیق احمد جاوید‘‘ لکھ دیتا ہوں۔ تمھیں ’’شفیق‘‘ پسند نہیں تو اپنا قلمی نام ’’جاوید احمد‘‘ بھی رکھ سکتے ہو۔ مجھے یہ تجویز پسند آئی۔ دوست احباب پہلے ہی ’’جاوید‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ چنانچہ کالج کے زمانے سے اسی نام کی شہرت ہو گئی۔ بعد میں شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ بنانے کا موقع آیا تو سب جگہ یہی نام لکھا گیا۔
میں غالباً نویں جماعت میں تھا کہ اپنے ایک پھوپھی زاد بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے لاہور آیا۔ یہاں مجھے پہلی مرتبہ دس پندرہ دن تک بڑے چچا محمد لطیف خان صاحب کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔ انھیں اپنے والد اور میرے دادا نور الٰہی صاحب سے عشق کی حد تک محبت تھی۔ رات دن وہ مجھے ان کے قصے سناتے اور بتاتے تھے کہ گاؤں میں تمھارے دادا ایک مصلح کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ ان کی نیکی ، خدا ترسی اور دانائی کی وجہ سے لوگ اپنے جھگڑے چکانے کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے اور ان کا ہر فیصلہ مان لیتے تھے۔ ان کی باتوں نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ یہ تاثر اتنا شدید تھا کہ میں ہر وقت دادا کے بارے میں سوچتا، یہاں تک کہ کئی دن تک سوتا تو خواب میں بھی انھی کو دیکھتا تھا۔
اس موقع پر خاندان کے ایک دوسرے بزرگ اور بچوں کے لیے دینی کتابوں کے مصنف مقبول انور صاحب داؤدی سے ملاقات ہوئی۔ ان کی یہ نسبت ہمارے گاؤں ’’داؤد‘‘ کی وجہ سے تھی۔ میرے والد کا پورا نام بھی اگرچہ محمدطفیل جنیدی تھا، لیکن بعض اوقات کوئی چیز اچانک متوجہ کر لیتی ہے۔داؤدی صاحب سے ملنے کے بعد پہلی مرتبہ مجھے خیال ہوا کہ میرے نام کے ساتھ بھی اس طرح کا کوئی اضافہ ہونا چاہیے۔ لڑکپن میں ایسی خواہشیں بعض اوقات آدمی کے ذہن پر سوار ہو جاتی ہیں۔ میں بھی دن رات یہی سوچتا۔ ایک دن والد صاحب سے اس موضوع پر بات ہوئی تو انھوں نے مقبول صاحب کی اتباع میں ’’داؤدی‘‘ کا اضافہ کر لینے کی تجویز دی۔ پھر فرمایا: ہمارے شیخ سے بیعت کر لیتے تو ’’جنیدی‘‘ بھی ہو سکتے تھے۔ ادھر میری خواہش تھی کہ یہ نسبت دادا سے ہو۔ چچا سے جو کچھ سن چکا تھا، اس کی بنا پر اب میرے لیے وہی آئیڈیل تھے۔ میں ان سے نسبت کے لیے سوچتا تو ’’نوری‘‘ اور مصلحی‘‘ کے الفاظ ذہن میں آتے تھے، لیکن ذوق انھیں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تھا۔ اسی حیص بیص میں تھا کہ دو بزرگ ہمارے ہاں مہمان ہوئے۔ والد کا معمول تھا کہ بارہا مہینوں کے لیے سیلانی فقیروں، اطبا اور سنیاسیوں کو اپنے ہاں مہمان ٹھیرالیتے تھے۔ یہ لوگ بھی اسی طرح آئے۔ ان میں سے ایک والد کے پیر بھائی غلام رسول وحشی اور دوسرے کوئی عالم اور سنیاسی تھے جن کا نام عبداللہ تھا۔ وحشی بہت اچھے کاتب تھے۔ انھوں نے اپنے شیخ کی کتاب ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ اپنے ہاتھ سے لکھی تھی۔ وہ اسے سناتے اور اس کی شرح و وضاحت میں تصوف کے اسرارو رموز بیان کرتے تھے۔ عبداللہ صاحب کی دل چسپی عرب جاہلی کی تاریخ سے تھی۔ وہ اس کے واقعات والد کو سناتے تھے۔ میں ان بزرگوں کی مجلس میں گھنٹوں بیٹھتا اور بڑی دل چسپی کے ساتھ ان کی باتیں سنتا تھا۔ عبداللہ صاحب نے انھی مجلسوں میں کوئی قصہ سناتے ہوئے بیان کیا کہ بنو غامد کے ابوالآبا نے صدیوں پہلے کسی معاملے پر پردہ ڈالا اور اس طرح اصلاح احوال کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ اسی بنا پر انھیں ’’غامد‘‘ کا لقب دیا گیا اور ’غمد الامر‘ کے الفاظ اس کے بعد عربی زبان میں ’اصلح الامر‘ کے معنی میں استعمال ہونے لگے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ قبیلہ جزیرہ نماے عرب میں اسی نسبت سے غامدی کہلاتا ہے۔* مجھے فوراً خیال ہوا کہ یہی کام تو میرے دادا کرتے تھے۔ اس کے لیے یہ نئی تعبیر علم میںآئی تو بے حد مسرت ہوئی۔والد سے ذکر ہوا تو انھوں نے بھی پسند کیا۔ میں ضلع ساہیوال کے جس دیہاتی ماحول میں رہتا تھا، وہاں اس طرح کا نام مذاق بن جاتا۔ اس لیے میں نے اسے لکھنا تو بہت بعد میں شروع کیا، لیکن اسی دن فیصلہ کر لیا کہ یہ لفظ اب میرے نام کا حصہ بن جائے گا۔
بچپن ، لڑکپن اور اوائل شباب کی خوشیاں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ بعد میں سوچتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کس چیز نے علم و عمل اور فکر و خیال میں کیا اہمیت حاصل کر لی تھی۔ دادا کے ساتھ نسبت کے لیے یہ لفظ مل جانے سے جو خوشی مجھے اس وقت ہوئی، اسے میں آج بھی لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ وقت کس طرح بدلتا ہے، اب بڑی سے بڑی بات بھی دل و دماغ میں اس طرح کا کوئی اہتزاز پیدا نہیں کرتی۔ ایسی سب چیزیں عمر کے ساتھ کس قدر بے معنی ہو جاتی ہیں: 

ہر روز ایک تازہ جہاں کی حکایتیں
اب رہ گئی ہیں قصۂ عہد شباب میں

[۲۰۰۷ء]

 

* اس کے بعد لغت کی کتابیں دیکھیں تو اس کی تصدیق ہوئی۔ چنانچہ ’’اقرب الموارد‘‘ میں ہے: (غامدۃ) ابو قبیلۃ ینسب الیھا الغامدیون، وقیل: ھو غامد واسمہ عمرو ولقب بہ لاصلاحہ امراً کان بین قومہ۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اگست 2007
مصنف : جاوید احمد غامدی