جھوٹ کا اثر - طالب محسن

جھوٹ کا اثر

 برا عمل دل پر برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ دل کی طہارت اور صفائی کے لیے برائی کے سرزد ہونے کے فوراً بعد تائب ہونا ضروری ہے، خواہ یہ برائی بظاہر بہت معمولی کیوں نہ ہو۔ اس طرح بعض برائیاں دوسری برائیوں کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ چنانچہ ایسی برائیوں سے اجتناب بہت ضروری ہے، ورنہ آدمی برائیوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔
جھوٹ ایک ایسی برائی ہے۔ گھر کے معمولی معاملات سے لے کر تجارت اور سیاست تک، ہر شعبے میں ہونے والے بڑے بڑے جرائم کی بنا، بالعموم، جھوٹ ہی سے پڑتی ہے۔
اس کے برعکس سچ نیکی اور خیر کے فروغ کا باعث بنتا ہے۔ ایک راست گو آدمی اپنے معاملات، لین دین اور تعلقات میں بھی سچا اور دیانت دار ثابت ہوتا ہے۔ جس طرح جھوٹ کی زنجیر میں برائیاں بندھی چلی آتی ہیں اور ان سے بچنا، بسااوقات، ناممکن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح سچ نیکیوں کے جلو میں چلتا ہے اور آدمی کو برائیوں کے اثرات بد سے بچنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔
اس حقیقت کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی خوبی سے واضح کیا ہے:

’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچ فرماں برداری کی راہ دکھاتا ہے اور فرماں برداری جنت کی راہ ہموار کرتی ہے۔ آدمی سچ کو اپنا معمول بنا لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے ’’صدیق‘‘ لکھ دیا جاتا ہے۔ جھوٹ نافرمانی کی بنیاد بنتا ہے اور نافرمانی آگ کی طرف لے جانے والی چیز ہے۔ آدمی جھوٹ بولتا رہتاہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اسے ’’کذاب‘‘ لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ (متفق علیہ)

قرآن مجید نے خدا اور بندے کے تعلق کو ’’بندگی‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے: ’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون‘، ’ اور ہم نے انسانوں اور جنوں کو صرف ’’بندگی‘‘ کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔‘ ’’بندگی‘‘ عبادت اور فرماں برداری کی جامع ہے۔ یعنی، بندۂ مومن صرف پروردگار عالم کی پوجا اور پرستش ہی نہیں کرتا، اس کے احکامات کی بے چون و چرا تعمیل بھی کرتا ہے۔ اسی اطاعت گزاری کو اس حدیث میں فرماں برداری کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ کو اسی فرماں برداری کی کلید قرار دیا ہے۔
انبیا جب دعوت لے کر کھڑے ہوتے ہیں، تو ان کی دعوت قبول کرنے اور اس کے علم کو اٹھانے والے لوگوں کو قرآن مجید نے ’’صدیق‘‘ قرار دیا ہے۔ یہ کسی مومن کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے کہ وہ خدا کے ہاں صدیق قرار پائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو صدیق کے مرتبے پر فائز ہونے کی خوش خبری دی ہے جو سچ کے دامن کواپنی زندگی کے کسی گوشے اور کسی لمحے میں بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔
سچ جس قدر خیروبرکت کی چیز ہے، جھوٹ اسی نسبت سے باعث آلام اور اندوہناک ہے۔ اس کو اپنی زندگی بنا لینے والا شخص ’’کذاب‘‘ یعنی منکر دعوت ورسالت قرار پا سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ چیز آگ کے عذاب ہی کا باعث بنے گی۔

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت دسمبر 2005
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Mar 25, 2016
4001 View