اجتہاد - جاوید احمد غامدی

اجتہاد

 اجتہاد کی اصطلاح ایک حدیث سے پیدا ہوئی ہے۔ ائمۂ حدیث کے نزدیک یہ روایت منقطع ہے، لیکن اِسی کا ایک جملہ ہے جو فقہ اسلامی کی اِس اہم اصطلاح کا ماخذ بن گیا ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا تو اُن سے پوچھا: کس طرح فیصلے کرو گے؟ اُنھوں نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کی طرف رجوع کروں گا۔ آپ نے پوچھا: اگر اللہ کی کتاب میں نہ ملے؟ اُنھوں نے جواب دیا: اللہ کے پیغمبر کی سنت میں دیکھوں گا۔ آپ نے پوچھا : اگر وہاں بھی نہ ملے؟ اُنھوں نے جواب دیا:’اجتہد برأیی ولا آلو جھدًا‘، میں پوری کوشش کرکے اپنی راے قائم کروں گا اور اِس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھوں گا۔*
’اجتہد برأیی‘ کے یہی الفاظ اِس اصطلاح کا ماخذ ہیں۔ علماے اصول نے اِس کو ہمیشہ اُنھی حدود میں استعمال کیا ہے جو حدیث سے متعین ہوتے ہیں۔ یعنی اجتہاد صرف اُن امور میں کیا جائے گا جن کے بارے میں قرآن و سنت خاموش ہیں۔ اِس کا اُن امور سے کوئی تعلق نہیں ہے جو قرآن و سنت میں صراحت کے ساتھ بیان ہو گئے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن وسنت کے نصوص محل تدبر ہیں، وہ محل اجتہاد نہیں ہیں۔ اہل علم اُن کا منشا متعین کرنے کے لیے بار بار اُن کی طرف رجوع کر سکتے اور اُن کی تاویل میں اگلوں سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں، مگر اُن کے کسی حکم یا فیصلے کو اپنے اجتہاد سے تبدیل یا معطل نہیں کر سکتے۔
اجتہاد کا دائرہ یہی ہے۔ سیدنا معاذ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکالمے کی روایت اگر صحیح ہے تو اِس میں آپ نے یہی حقیقت واضح فرمائی ہے۔ چنانچہ پوچھا ہے کہ اگر قرآن میں نہ ملے؟ اگر سنت میں نہ ملے؟ قرآن و سنت میں کوئی چیز مل جاتی ہے تو مسلمان اُس سے انحراف نہیں کر سکتا۔ اُس کے ایمان کا تقاضا ہے کہ بے چون و چرا اُس کے سامنے سرتسلیم خم کر دے۔ اسلام کے معنی ہی یہ ہیں کہ اللہ و رسول کے سامنے سر اطاعت جھکا دیا جائے۔ خلفاے راشدین کے بعض احکام کو سمجھنے میں دور حاضر کے بعض جلیل القدر مفکرین نے ٹھوکر کھائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن میں سے کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ خدا کے کسی حکم کو تبدیل یا معطل کرنے کی جسارت کرے۔ لوگ جسے تعطیل یا تبدیلی خیال کرتے ہیں، وہ دراصل حکم کے مضمرات و تضمنات ہیں جنھیں خلفاے راشدین نے اپنے عمل سے واضح کر دیا ہے۔ اِس سے تعطیل یاتبدیلی کا جواز پیدا کرنے کے بجاے قرآن و سنت میں تدبر اور اُن کے اسالیب کو سمجھنے کا سلیقہ سیکھنا چاہیے۔
اِس دائرے کے اندر اجتہاد، البتہ ہوا اور پانی کی طرح ہر مسلمان کی ضرورت ہے۔ اِس کا دروازہ کبھی بند نہیں ہو سکتا اور حقیقت یہ ہے کہ کبھی بند ہوا بھی نہیں۔ بعض لوگوں کی طرف سے اِس اصرار کے باوجود کہ یہ چوتھی صدی ہجری کے بعد بند ہو چکا ہے، ایسے علما، فقہا اور مختلف علوم و فنون کے ماہرین ہمیشہ پیدا ہوتے رہے ہیں جنھوں نے ہر زمانے میں اجتہاد کیاہے اور اِس وقت بھی کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم و عقل سے نوازا ہے۔ یہ نعمت انسان کو اِسی لیے دی گئی ہے کہ اپنے معاملات کا فیصلہ اِن کی رہنمائی میں کرے۔ یہ معاملات غیر متعین بھی ہیں اور گوناگوں بھی۔ انسان اندھا اور بہرا نہیں ہے کہ ہر جگہ براہ راست آسمان کی رہنمائی کا محتاج ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت صرف اُن معاملات میں نازل فرمائی ہے جن میں خود علم و عقل کو رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اُس کے احکام بھی اِسی لیے نہایت محدود ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اجتہاد کیا جائے۔ ترقی کا راز اِسی اجتہاد میں پوشیدہ ہے۔ اِس کے بغیر زندگی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ مسلمانوں کے زوال کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ قومی حیثیت سے وہ طبعی علوم میں سائنسی تحقیق اور معاشرتی علوم میں اجتہاد کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اجتہاد کے کوئی شرائط نہیں ہیں۔ لوگوں کو اجتہاد کرنا چاہیے۔ اُن میں سے ایک غلطی کرے گا تو دوسرے کی تنقید اُسے درست کر دے گی۔ انسان اِسی سے آگے بڑھتا ہے اور اعلیٰ درجے کے مجتہدین بھی اِسی عمل کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ تقلید کے اصول کو تسلیم کر لیا جائے تو وہ تمام شرائط ماننا ضروری ہو جاتے ہیں جو اجتہاد کے لیے بیان کیے جاتے ہیں۔ اِس لیے کہ اِس صورت میں اصل چیز نفس اجتہاد اور اُس کا استدلال نہیں، بلکہ مجتہد کی شخصیت ہو گی جسے مرجع تقلید مانا جائے گا۔ لیکن صحابہ و تابعین کی طرح عامی و عارف سب اپنے فیصلوں کی بنیاد دلیل پر رکھیں تو مجتہد کو نہیں، بلکہ اجتہاد کو دیکھا جائے گا کہ وہ کس حد تک علم و عقل کے معیارات پر پورا اترتا ہے۔ اِس صورت میں مسلمان تو ایک طرف اگر کوئی غیر مسلم بھی کسی مسئلے کا کوئی معقول حل پیش کر دیتا ہے تو اِس میں اعتراض کی کوئی چیز نہیں ہو گی، اِسے ’ضالۃ المؤمن‘ سمجھ کر قبول کر لیا جائے گا۔
چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ دور حاضر میں سیاست، معیشت، نظم و نسق اور شہریت کے اصول و قواعد سے متعلق زیادہ تر اجتہادات غیر مسلموں نے کیے ہیں اور مسلمان بالعموم اُنھیں تسلیم کیے ہوئے ہیں۔ اِس کی ایک واضح مثال جمہوریت، جمہوری اقدار اوراُن کے تحت قائم ہونے والے اداروں کے ضوابط ہیں۔جمہوریت کا اصول قرآن نے دیا تھا، مگر مسلمان اِس کے لیے کوئی نظام نہیں بنا سکے۔ یہ نظام غیر مسلموں نے بنایا ہے۔ اِس کے باوجود دیکھ لیجیے کہ علما و فقہا اور بیش تر مذہبی جماعتیں نہ صرف یہ کہ اِس نظام کو تسلیم کرتی ہیں، بلکہ اِس کے فروغ اور بقا کی جدوجہد میں ہمیشہ ہراول کا کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ قرآن و سنت جن معاملات میں خاموش ہیں، اُن میں صحیح رویہ یہی ہے اور اِسی پر قائم رہنا چاہیے۔


* احمد، رقم ۲۱۵۰۲۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جولائی 2011
مصنف : جاوید احمد غامدی