کیا باتیں ہیں جو مکروہ ہیں - امین احسن اصلاحی

کیا باتیں ہیں جو مکروہ ہیں

 (مَا یُکْرَہُ مِنَ الْکَلاَمِ)

حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ دِیْنَارٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَالَ لِأَخِیْہِ کَافِرٌ فَقَدْ بَاءَ بِھَا أَحَدُھُمَا.
’’عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنے بھائی کو کہا: ’’اے کافر‘‘ تو بہرحال ایک کے اوپر وہ لوٹ کے رہے گا۔‘‘

وضاحت

یعنی اگر جس کو کافر کہا ہے، وہ ایسا نہیں تو کہنے والا کافر بن جائے گا۔ مطلب یہ کہ یہ تیر بے خطا ہے۔ اگر وہ کافر نہیں تو خود مرو گے اور اگر وہ ہے تو وہ مرا۔ اس کی جتنی دوسری تاویلیں لوگوں نے کی ہیں، وہ ٹھیک نہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تکفیر کے فتوے دینے والوں کا کام بے حد خطرناک ہے۔ اگر کافر قرار دیا جانے والا آدمی کافر نہیں تو ان کے فتوے انھی پر لوٹ جائیں گے۔

حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ سُھَیْلِ بْنِ أَبِیْ صَالِحٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا سَمِعْتَ الرَّجُلَ یَقُوْلُ: ھَلَکَ النَّاسُ فَھُوَ أَھْلَکُھُمْ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی آدمی کو سنو کہ وہ کہتا ہے کہ لوگ ہلاک ہوں تو سب سے بڑا ہلاک ہونے والا وہ خود ہے۔‘‘

وضاحت

ہم بات بات پر کہتے ہیں کہ لوگ تباہ ہو گئے، خلق تباہ ہو گئی، لیکن یہ تاثر اظہار غم کے طور پر ہوتا ہے۔ یہاں ’ہلک الناس‘ کا جو کلمہ آیا ہے، یہ بددعا کے طریقے پر ہے کہ لوگ تباہ ہو جائیں، جہنم میں جائیں، غارت ہوں۔ ایسی بات ہرگز نہیں کہنی چاہیے۔ اگر اپنے بھائیوں کو دعا نہیں دے سکتے تو بددعا بھی نہ دیں۔ بلکہ یہاں اس مفہوم میں یہ بات درست ہو گی کہ چاہیے کہ لوگوں کو دعا ہی دیں۔

حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ أَبِی الزِّنَادِ عَنِ الْأَعْرَجٍ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَایَقُلْ أَحَدُکُمْ یَا خَیْبَۃَ الدَّھْرِ فَإِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الدَّھْرُ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے کہ ہائے زمانہ کی بدبختی! اس لیے کہ خدا ہی زمانہ ہے۔‘‘

وضاحت

مطلب یہ ہے کہ بے سمجھے بوجھے زمانہ کو بدبخت کہہ دیا جاتا ہے۔ دنیا میں سارے تصرفات تو اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں، زمانہ کوئی چیز نہیں۔ تو زمانے کو گالی دینا اللہ تعالیٰ کو ہی برا بھلا کہنا ہوا۔ دوسری روایت میں ’لاتسبوا الدھر‘ کا لفظ آیا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ روایت بالمعنیٰ ہو۔ اس کا مطلب ہے کہ زمانے کو گالی نہ دو، کیونکہ زمانہ خود اللہ ہی ہے۔ اس میں فلسفیوں نے جو باتیں نکالی ہیں، وہ ان کی موشگافیاں ہیں۔ لیکن یہ بات بالکل معقول ہے کہ گالی جتنی پڑتی ہے، اللہ کو ہی پڑتی ہے، کیونکہ زمانہ تو اللہ تعالیٰ کے تصرفات کو ہی کہتے ہیں۔ لہٰذا زمانے کو مطعون نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کرنا ہی ہو تو اہل زمانہ کو کریں، اس لیے کہ وہ مستحق ملامت ہو سکتے ہیں۔ ان کے متعلق بھی اس طرح کی بات کہنا چاہیے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، خواہ مخواہ اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم سب لوگ زبان درازی میں اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے اور جو آداب کے خلاف ہیں۔

حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیْدٍ أَنَّ عِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ لَقِیَ خِنْزِیْرًا بِالطَّرِیْقِ فَقَالَ لَہُ: انْفُذْ بِسَلَامٍ فَقِیْلَ لَہُ: تَقُوْلُ ھٰذَا لِخِنْزِیْرٍ؟ فَقَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ: إِنِّیْ أَخَافُ أَنْ أُعَوِّدَ لِسَانِی الْمَنْطِقَ بِالسُّوْءِ.
’’یحییٰ بن سعید سے روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے راستے میں ایک سؤر آ گیا تو انھوں نے کہا کہ خیریت کے ساتھ تشریف لے جاؤ۔ آپ سے کہا گیا کہ آپ خنزیر کو یہ کہہ رہے ہیں؟ تو حضرت عیسیٰ نے کہا کہ میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ اپنی زبان کو بدکلامی کا عادی بنا لوں۔‘‘

وضاحت

غور کریں کہ یہ روایت کس پہلو سے حدیث ہے۔ حدیث کی کسی تعریف پر یہ پوری نہیں اترتی۔ یہ بات رائج انجیلوں میں بھی نہیں اور انجیل برناباس میں بھی نہیں۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پہلے کی کوئی روایت رہی ہو گی۔ جو کہیں سے یحییٰ بن سعید کے کان میں پڑ گئی تو انھوں نے اس کو گرہ کر لیا اور امام صاحب نے اپنی کتاب میں جڑ دیا ۔ واللہ اعلم کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ کہا بھی یا نہیں۔ ان کے کلام میں جو بلاغت ہوتی ہے، وہ روایت کردہ جملہ میں نہیں ہے۔ طنز ضرور ہے کہ آپ خیریت سے نکل جاؤ ہم کچھ نہیں کہتے۔
(تدبر حدیث ۵۰۱۔۵۰۳)

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مارچ 2015
مصنف : امین احسن اصلاحی
Uploaded on : Sep 15, 2017
3539 View