اسلام اور فنون لطیفہ - سید منظور الحسن

اسلام اور فنون لطیفہ

 انسان کو اللہ تعالیٰ نے احسن تقویم پر پیدا کیا ہے۔ چنانچہ فکر و عمل میں حسن و خوبی کی جستجو اُس کی خلقت کا لازمی تقاضا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شر کے مقابلے میں خیر کا طالب اور سیئات کے برعکس حسنات کا تمنائی ہے۔ وہ نفرت، جھوٹ، ظلم اور بے انصافی کے بجاے اخلاص و محبت، صدق و صفا اور عدل و انصاف کا داعی اور ظلمت کے بجاے نور، تعفن کے بجاے خوش بو اور بدنمائی کے بجاے رعنائی کا مشتاق ہے۔ تہذیب و تمدن کا ارتقا درحقیقت حسن وخوبی کی جستجو ہی کی داستان ہے۔ اِس کا لفظ لفظ بتا رہا ہے کہ انسان نے ہمیشہ بہترین کا انتخاب کیا ہے ۔ نشو و نما کے لیے اُسے غذا کی ضرورت تھی۔ وہ اِسے خار و خس اور ساگ پات سے بھی پورا کر سکتا تھا، مگر اُس نے انواع و اقسام کے خوش ذائقہ کھانوں کو دستر خوان پر سجایا۔ سترپوشی اُس کی حیا کا تقاضا تھا، یہ بوریااوڑھ کر اور ٹاٹ لپیٹ کر بھی پورا ہو سکتا تھا، مگر اُس نے ریشم و دیبا اور اطلس و کم خواب کا انتخاب کیا۔ رہنے بسنے کے لیے اُسے مسکن درکار تھا، اِس کا بندوبست جنگلوں اور صحراؤں میں غاروں، خیموں اور جھونپڑیوں کی صورت میں بھی ہو سکتا تھا، مگر اُس نے شہر آباد کیے اور اُن میں عالی شان محلات آراستہ کیے۔ میل جول میں اُسے ابلاغ مدعاکی ضرورت تھی ۔ یہ اشاروں سے نہ سہی تو سادہ بول چال سے بھی کیا جا سکتا تھا، مگر اُس نے کلام کے ایسے اسالیب وضع کیے کہ زبان شعر و ادب کے قالب میں ڈھل گئی۔ انسان کی اِس تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ اپنے ہر اقدام میں حسن و خوبی کا خوگر ہے۔اُس کی ظاہری و باطنی حسیات اور اُن کے لوازم اُس کے ذوق جمال کے آئینہ دار ہیں۔ چنانچہ یہ اُس کا حسن بیان ہے کہ وہ لفظوں کو مرتب کرتا اور اُن کے آہنگ اور معانی کی تاثیر سے اشعار تخلیق کرتا ہے، یہ اُس کا حسن صوت ہے کہ وہ آواز میں درد و سوز اور لحن و غنا پیدا کرتا اور اُس کے زیر و بم سے راگ اور سر ترتیب دیتا ہے، یہ اُس کا حسن سماعت ہے کہ وہ اپنے ماحول کی آوازوں سے مسحور ہوتا اور اُنھیں محفوظ کرنے کے لیے ساز تشکیل دیتا ہے اوریہ اُس کا حسن نظر ہے کہ وہ قدرت کی رعنائیوں سے مسرور ہوتا ،گرد و پیش کی تزیین و آرایش کرتا اور رفتہ کی یادگاروں، حاضر کے نظاروں اورآیندہ کے تصورات کو تصویروں میں ڈھالتا ہے۔ حسن بیان، حسن صوت، حسن سماعت اور حسن نظر کی صورت میں انسان کا یہی ذوق جمالیات جب اپنے کمال کو پہنچتا ہے تو فن کامقام حاصل کرتاہے او ر شاعری، موسیقی اور مصوری سے موسوم ہوتا ہے۔ شعر و ادب، ساز و سرود اور تصویر و تمثیل سے متعلق اِنھی فنون کے مجموعے کا عنوان فنون لطیفہ ہے۔ یہ انسان کی نفسی تسکین کا باعث بنتے اور اُس کے جمالیاتی وجود کے لیے حظ و نشاط کا سامان کرتے ہیں۔
فنون لطیفہ مباحات فطرت میں سے ہیں، اِس لیے اِن کی اباحت میں کوئی شبہ نہیں ہے، مگر اِن میں سے موسیقی اور مصوری کے بارے میں بالعموم یہ تصور پایا جاتا ہے کہ اسلامی شریعت اِنھیں حرام قرار دیتی ہے۔ ہمارے نزدیک اِس تصور کے لیے شریعت میں کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ دین میں کسی چیز کے جواز یا عدم جواز کے لیے فیصلہ کن حیثیت قرآن و سنت کو حاصل ہے ۔ اُن کی سند کے بغیر شریعت کی فہرست حلت و حرمت میں کوئی ترمیم و اضافہ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ایمان کا تقاضا ہے کہ جن امور کو یہ جائز قرار دیں،اُنھیں پورے شرح صدر کے ساتھ جائز تصور کیا جائے اور جنھیں ناجائز قرار دیں ، فکر و عمل کے میدان میں اُن کے جواز کی کوئی راہ ہر گز نہ ڈھونڈی جائے۔
کسی معاملے میں دین کا نقطۂ نظر جاننے کے لیے اہل علم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے شریعت کے یقینی ذرائع، یعنی قرآن و سنت سے رجوع کیا جاتا ہے۔ پھرحدیث کی کتابوں میں درج نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب روایات کی تحقیق کی جاتی ہے۔اگر موضوع سے متعلق روایات موجود ہوں توقرآن و سنت اور عقل و نقل کے مسلمات کی روشنی میں اُن سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ضرورت ہو تو قدیم الہامی صحائف کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے اور صحابۂ کرام کے آثار کی روایتیں بھی دیکھی جاتی ہیں۔ انجام کار قرآن ، حدیث اور فقہ کے علماے سلف و خلف کی شروح اور توضیحات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
اِس طریق کار کے مطابق جب ہم موسیقی کے بارے میں مختلف مصادر سے رجوع کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے بین الدفتین موسیقی کو براہ راست یا بالواسطہ ، کسی اسلوب میں بھی ممنوع قرار نہیں دیا گیا ۔ سنن کی فہرست میں کسی ایسے عمل کا ذکر نہیں ہے جسے حرمت غنا کا مبنیٰ بنایا جائے۔ذخیرۂ حدیث میں صحیح اور حسن کے درجے کی متعدد روایات موسیقی اور آلات موسیقی کے جوازپر دلالت کرتی ہیں۔ اِن کی ممانعت کی روایتیں بھی موجود ہیں، مگر اُن میں سے بیش تر کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ تاہم، اُن کے مضامین سے معلوم ہوتا ہے کہ ممانعت کا سبب اُن کی بعض صورتوں کا شراب ، فواحش اور بعض دوسرے رذائل اخلاق سے وابستہ ہونا ہے ۔ قدیم صحائف میں سے بائیبل میں واضح طور پر یہ بیان ہوا ہے کہ سیدنا داؤد علیہ السلام نہایت خوش الحان تھے اورساز و سرود کے ذریعے سے اللہ کی حمد و ثنا کرتے تھے۔آپ پر نازل ہونے والی کتاب ’’زبور‘‘ اُن الہامی گیتوں کا مجموعہ ہے جو آپ نے بربط پر گائے تھے۔ صحابۂ کرام کے آثار میں پسند و ناپسند، دونوں طرح کی روایات موجود ہیں۔جہاں تک علما اور محققین کے کام کا تعلق ہے تو کچھ مفسرین نے چند تفسیری اقوال کی بنا پر قرآن مجید کے بعض الفاظ مثلاً ’لَھْوَ الْحَدِیْثِ‘* (کھیل کی باتیں) کا مصداق’ غنا‘ کو قراردیا ہے اور اِس بنا پر موسیقی کی حرمت اور شناعت کا رجحان ظاہر کیا ہے۔ لیکن اگر عربی لغت، قرآن مجید کے عرف اور سیاق کلام اور مفسرین کی آرا کو ملحوظ رکھا جائے توان الفاظ کا مصداق متعین طور پر غنا کو قرار دینا درست نہیں ہے۔علماے حدیث حرمت موسیقی کی اکثر روایتوں کو کمزور قرار دیتے ہیں۔اِس سلسلے میں بعض علما کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ کتب حدیث میں کوئی ایک روایت بھی ایسی نہیں ہے جسے صحیح کے درجے میں شمار کیا جائے۔ فقہاے کرام کی اکثریت موسیقی کی حرمت کا حکم لگاتی ہے۔ اِس ضمن میں اُن کی بناے استدلال بالعموم وہی روایات ہیں جنھیں علماے حدیث نے ضعیف قرار دیا ہے ۔
اِس موضوع پر علوم دین کے مصادر کی تحقیق کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی شریعت نے موسیقی کو حرام قرار نہیں دیا۔ یہ مباحات میں سے ہے۔ لوگ چاہیں تو حمد، نعت، غزل، گیت، یا دیگر المیہ، طربیہ اور رزمیہ اصناف شاعری میں فن موسیقی کو استعمال کر سکتے ہیں۔شعر و ادب کی اِن اصناف میں اگر شرک و الحاد اور فسق و فجور جیسے نفس انسانی کو آلودہ کرنے والے مضامین پائے جاتے ہوں تو یہ بہرحال مذموم اور شنیع ہیں ۔ اِس شناعت کا باعث ظاہر ہے کہ نفس مضمون ہے۔نفس مضمون اگر دین و اخلاق کی روسے جائز ہے تو نظم ، نثر ، تقریر، تحریر، صدا کاری یا موسیقی کی صورت میں اِس کے تمام ذرائع ابلاغ مباح ہیں، لیکن اِس کے اندر اگر کوئی دینی یا اخلاقی قباحت موجود ہے تو اِس کی حامل مخصوص چیزوں کولازماً لغو قرار دیا جائے گا ۔چنانچہ مثال کے طور پر اگر کسی تحریر میں مشرکانہ باتیں بیان ہوئی ہیں تو اُس خاص تحریر کو ناجائز سمجھاجائے گا ، صنف نثر کو غلط قرار نہیں دیا جائے گا ۔ اِسی طرح اگر کوئی نغمہ فحش شاعری پر مشتمل ہو تو اُس کے اشعار ہی لائق مذمت ٹھہریں گے، نہ کہ اصناف شعر و نغمہ کو مذموم تصور کیا جائے گا۔ تاہم ، یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ کسی موقع پر اگر کوئی اخلاقی برائی کسی مباح چیز کے ساتھ لازم و ملزوم کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے تو سدذریعہ کے اصول کے تحت وہ چیزوقتی طور پر ممنوع قرار دی جا سکتی ہے ۔
جہاں تک مصوری کا تعلق ہے تو موسیقی کی طرح یہ بھی من جملۂ مباحات ہے۔علوم دین کے مصادر میں اِس کے مختلف مظاہر کا ذکر مثبت اسلوب میں آیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ کے ایک برگزیدہ نبی سیدنا سلیمان علیہ السلام کے تصویریں اور مجسمے بنوانے کا تذکرہ ہے۔ بائیبل میں اِنھی جلیل القدر پیغمبر کے حوالے سے بیان ہوا ہے کہ اُنھوں نے اپنے گھر اور اللہ کی عبادت گاہ کو تصویروں اور مجسموں سے مزین کیاتھا۔حدیث کی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس فن کی بعض مصنوعات سے بالعموم گریز فرمایا،تاہم عام لوگوں کے لیے آپ نے اِن کے استعمال پر اصلاً کوئی پابندی نہیں لگائی۔ اِن روایتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے گریز کا سبب آپ کا طبعی میلان اور منصب نبوت کی ذمہ داریاں تھیں۔
اِن مصادرمیں فن مصوری کی بعض اصناف کی شناعت بھی مذکور ہے، مگر اِس کا تعلق سرتاسر مشرکانہ تماثیل و تصاویر سے ہے۔قرآن مجید نے پوجی جانے والی تماثیل ہی کی مذمت فرمائی ہے، بائیبل میں ایسی مورتیں بنانے سے منع کیا گیا ہے جن کی پرستش کی جاتی تھی اور احادیث میں بھی معبود ٹھہرائے جانے والے مجسموں اور اُن کی تصویروں اور شبیہوں کو مذموم قرار دیا گیا ہے اور اُنھیں بنانے والے مصوروں کے بارے میں اخروی عذاب کا اعلان کیا گیا ہے۔اِس بنا پر یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ تماثیل و تصاویر کی یہ شناعت علی الاطلاق نہیں، بلکہ اس کے بعض مظاہر کے شرک سے متعلق ہونے کی وجہ سے ہے۔
اِس ضمن میں ہمارے بیش تر علما اور فقہا کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ جان دار مخلوقات کی تصاویر حرام اور بے جان کی جائز ہیں۔ اِس کی اساس اُن کے نزدیک وہ روایات ہیں جن میں اللہ کی مخلوق کے مشابہ مخلوق بنانے کی مذمت کی گئی ہے اور ایسی تصویریں اور مجسمے بنانے سے منع کیا گیا ہے جن میں روح پائی جاتی ہے۔ اِن روایتوں کو اگر دیگر روایات اورعرب کے تاریخی پس منظر کی روشنی میں سمجھا جائے تو یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ممانعت صرف اور صرف مشرکانہ تصویروں کے ضمن میں ہے۔ مشرکین عرب بعض مخصوص مجسموں میں فرشتوں، جنوں اور انسانوں کی روحوں کے حلول کے قائل تھے اور اُنھیں حی و قیوم اور نافع وضار سمجھ کر اُن کی پرستش کرتے تھے۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن مجسموں کو اور ان کی شبیہ پر بننے والی تصویروں کو اللہ کی مخلوق جیسی مخلوق بنانے سے تعبیر کیا اور اُنھیں بنانے اور گھروں میں رکھنے سے منع فرمایا۔چنانچہ آپ کے ارشادات کی روشنی میں مشرکانہ اور غیر اخلاقی تصاویر کو لازماً ممنوع قرار دیا جائے گا۔
اِس تناظر میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ دیگر فنون لطیفہ کی طرح فن مصوری بھی مباحات فطرت میں سے ہے۔ اسلامی شریعت نے اِس کی فطری اباحت کی تائید کی ہے اور اِس کی علی الاطلاق حرمت و شناعت کا کوئی حکم صادر نہیں کیا۔ چنانچہ مجسمہ سازی،تصویر کشی،کندہ کاری، نقاشی اور اِس نوع کے دیگر فنون مصوری بجا طور پر استعمال کیے جا سکتے اور تہذیب و تمدن کے ارتقا میں اِن کی صنعتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک قرآن، بائیبل اور احادیث میں مذکور اِن کے بعض مظاہر کی شناعت کا تعلق ہے تو اِس کا سبب اُن کا مشرکانہ مراسم کے لیے مستعمل ہونا ہے۔ کسی صنف کو اگر لوگ دینی اور اخلاقی مقاصد کے خلاف استعمال کریں گے تو اُسے لازماً شنیع قرار دیا جائے گا، مگر ظاہر ہے کہ یہ شناعت اُس صنف سے نہیں، بلکہ دینی و اخلاقی مفاسد سے متعلق ہو گی۔یہ مفاسد جب تک اُس صنف کے ساتھ وابستہ رہیں گے، شناعت قائم رہے گی اور جب منفک ہو جائیں گے تو شناعت بھی ختم ہو جائے گی۔چنانچہ مصوری کے مظاہر کی حرمت و اباحت کا تعلق اُن کے جان دار اور بے جان یا حیوان اور غیر حیوان ہونے سے نہیں ہے۔ اِس کا تعلق اصلاً دینی و اخلاقی عوارض سے ہے۔ یہ عوارض اگر کسی شبیہ یا تصویر میں موجودہیں تو وہ جان دار کی ہے یا بے جان کی، بہرصورت شنیع قرار پائے گی اور اگروہ اِن سے خالی ہے تو شجر و حجر کی ہے یا انسان و حیوان کی، ہر حال میں مباح ہو گی۔


* لقمان ۳۱: ۶۔

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2017
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Feb 08, 2017
3727 View