بنو ہاشم کا مقاطعہ اور دعوت مصالحت - خالد مسعود

بنو ہاشم کا مقاطعہ اور دعوت مصالحت

{’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔}

 

جوں جوں قریش کو احساس ہوتا کہ نئے دین سے متعلق معاملات ان کی گرفت میں نہیں آ رہے ہیں تو وہ اہل ایمان اور ان کے معاونین کے خلاف ایک کے بعد دوسرا سخت اقدام تجویز کرتے تاکہ ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکیں اور نئے دین کی دعوت کامیاب نہ ہونے پائے۔ بنو ہاشم نے چونکہ آنحضرت کو تحفظ فراہم کر رکھا تھا اور قریش متعدد کوششیں کرنے کے باوجود ابوطالب کو حضورﷺ کی حمایت سے دست بردار کرنے میں ناکام ہو چکے تھے۔ اس لیے قدرتی طور پر بعض جذباتی لوگوں نے خود بنی ہاشم ہی کو اس حمایت کی سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کی شکل ان کو معاشرتی مقاطعہ کی سوجھی۔

مقاطعہ کی معروف روایت

عام طور پر سیرت نگاروں نے مقاطعہ کے بارے میں جس روایت پر انحصار کیا ہے وہ یوں ہے کہ جب قریش کو رسول اللہﷺ کے لیے نجاشی کے اظہار عقیدت اور مسلمانوں کے لیے خیرسگالی کے جذبات گراں گزرے تو انھوں نے رسول اللہ کو، معاذاللہ، قتل کرنے پر اتفاق کر لیا۔ انھوں نے بنوہاشم کے خلاف ایک معاہدہ تحریر کیا کہ جب تک یہ خانوادہ محمد (ﷺ) کو ان کے حوالہ نہیں کر دیتا، قریش کا کوئی خاندان بنوہاشم سے نہ تو شادی اور نکاح کا تعلق جوڑے گا، نہ ان سے تجارت کرے گا، اور نہ ان سے میل جول رکھے گا۔ یہ معاہدہ تحریر کر کے خانہ کعبہ کے اندر لٹکا دیا گیا۔ روایت کے مطابق اس معاہدہ کے تحت کارروائی کرتے ہوئے محرم ۷ نبوی میں بنوہاشم اور ان کے حمایتی بنومطلب کو شعب ابی طالب میں محصور کر دیاگیا۔ نہ ان کے پاس کھانے کی کوئی چیز جانے دی جاتی اور نہ بیرونی تاجروں سے ان کو کچھ خریدنے دیا جاتا۔ وہ بیریوں کے پتے کھا کھا کر گزارا کرتے۔ سعد بن ابی وقاص کی بھوک کے مارے یہ حالت ہو گئی کہ ان کو سوکھا ہوا چمڑا ہاتھ لگا تو اسی کو آگ پر بھون کر انھوں نے چبا لیا اور پانی سے نگل لیا۔ بعض اچھے لوگ کسی جانور پر غلہ لاد کر شعب ابی طالب کی طرف ہانک دیتے۔ بنوہاشم کے بچے بھوک سے بلکتے تو قریش ان کی آوازیں سن سن کر خوش ہوتے۔ بنوہاشم نے یہ مصیبتیں تین سال تک جھیلیں۔ بالآخر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب کو بتایا کہ معاہدہ کی دستاویز کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ ابوطالب کفار کے پاس گئے اور کہا کہ معاہدہ پیش کرو۔ میرے بھتیجے کے کہنے کے مطابق اس میں کوئی تحریر نہیں۔ اگر اس کی بات غلط ثابت ہوئی تو میں اس کو تمھارے حوالے کر دوں گا۔ جب معاہدہ لایا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کی تحریر دیمک کے ہاتھوں محو ہو چکی ہے۔ اس موقع پر قریش کے بعض وسیع الظرف سرداروں مثلاً مطعم بن عدی، ابوالبختری بن ہاشم، زمعہ بن الاسود، عدی بن قیس اور زہیر بن ابی امیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ ہم یہ ظلم مزید نہیں ہونے دیں گے اور وہ محصورین کو گھاٹی سے نکال لائے۔ وہ اس سے قبل بھی اس ظالمانہ معاہدہ کے خلاف آواز بلند کرتے رہے تھے۔
اس روایت کی رو سے قریش کا ہر خانوادہ اس بات کا پابند تھا کہ وہ :
(ا) بنوہاشم سے شادی بیاہ کا تعلق قائم نہیں کرے گا۔
(ب)ان سے تجارت نہیں کرے گا۔ اور
(ج)ان سے میل جول نہیں رکھے گا۔
جب تک کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے حوالے نہیں کر دیتے کہ قریش ان سے نجات حاصل کر سکیں۔
اس مضمون کی دوسری روایات تفصیلات میں باہم مختلف ہیں۔ بعض روایات کی رو سے قریش نے بنوہاشم کو شعب ابی طالب میں محصور کر دیا لیکن بعض کے نزدیک بنوہاشم اپنی مصلحت کے تحت یکجا ہو گئے۔ مختلف روایات محصوری کی مدت ۲ سال، ۳ سال یا اس سے کم یا زیادہ بتاتی ہیں۔ دیمک نے معاہدہ کے جس حصہ کو چاٹ لیا تھا اس میں بھی اختلاف ہے کہ وہ ابتدائی الفاظ ’باسمک اللّٰھم‘ تھے یا یہ الفاظ تو باقی رہ گئے، اصل معاہدہ تلف ہو گیا۔
ہمارے نزدیک ان روایات کے مضمون پر کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔ مثلاً:
(ا) معاہدہ کی شقوں میں بنوہاشم کے ساتھ شادی بیاہ اور تجارتی لین دین کی ممانعت تو ہے لیکن ان کا محاصرہ کرنے کی کوئی شق کسی روایت میں موجود نہیں۔ لہٰذا اس معاہدہ کے تحت ان کا محاصرہ کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا اور کوئی قرشی خانوادہ ایسا کرنے کا پابند نہیں تھا۔ جو چیز معاہدہ میں تھی ہی نہیں تو اس پر قریش نے بالاتفاق عمل کیسے کر لیا!
(ب) یہ معاہدہ بنوہاشم اور ان کے حمایتی بنو مطلب کے خلاف تھا۔ دوسرے خانوادے اس سے متاثر نہیں ہوتے تھے لیکن روایت کی رو سے حضرت سعد بن ابی وقاص کو چمڑے کا ٹکڑا کھاتے ہوئے بتایا گیا ہے جبکہ وہ بنوزہرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ محصورین میں کیسے شامل ہو گئے؟ اگر ان کو زبردستی وہاں گھسیٹ لیا گیا تھا تو بنوزہرہ ان کی مدد کو کیوں نہ آئے؟
(ج) معاہدہ کی رو سے صرف قریش پر بنوہاشم سے تجارت پر پابندی عائد کی گئی۔ غیر قرشیوں یا بیرونی تاجروں پر یہ معاہدہ لاگو نہیں ہوتا تھا۔ اس صورت میں بنوہاشم کے لیے کوئی رکاوٹ نہ تھی کہ وہ ضرورت کی اشیا دوسرے تاجروں سے حاصل کریں اور اپنے بچوں کو بھوک سے ہلکان نہ کریں۔ لیکن روایت کے مطابق تین سال تک بنی ہاشم بھوکے محصور رہے۔
(د) عرب معاشرہ میں کسی بھی شخص کو قتل کرنا آسان کام نہ تھا۔ قریش کو اگر رسول اللہ ﷺ کا قتل مطلوب تھا تو اس کے لیے فیصلہ کرنے کی بہترین جگہ دارالندوہ تھی جہاں قریش اہم فیصلے پورے سوچ بچار کے بعد اجتماعی طور پر کیا کرتے تھے لیکن اس موقع پر دارالندوہ میں کوئی مجلس منعقد نہیں ہوئی۔ اس سے باہر کیا گیا کوئی بھی اہم فیصلہ قریش کا اجتماعی فیصلہ نہیں کہلاتا تھا، لہٰذا وہ قابل عمل نہیں ہوتا تھا۔ اس واقعہ کے کئی سال بعد وہ وقت آیا جب قریش کے تمام خانوادوں نے دارالندوہ میں جمع ہو کر بڑی بحث و تمحیص کے بعد حضور ﷺ کے قتل کی تدابیر پر اتفاق کیا۔ چونکہ بعد کا یہ فیصلہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ کیا گیا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو ان کے دشمنوں سے نجات دی اور آپ کو ہجرت کر جانے کا حکم ہوا۔
(ھ)بنوہاشم کے محاصرہ کا واقعہ، اور وہ بھی تین سال کے لیے، اگر پیش آیا ہوتا تو یہ اتنا غیر معمولی تھا کہ اس کی صدائے بازگشت پورے عرب میں سنائی دیتی کیونکہ بنوہاشم حاجیوں کی مہمان داری، ان کو پانی پلانے، بیت اللہ کی دیکھ بھال اور مسافروں کی خدمت پر مامور تھے۔ ان کا اپنی ذمہ داریوں سے غائب ہونا پورے ملک میں ہلچل پیدا کر دیتا۔ تاریخ میں اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے کہ بنوہاشم کو منظر سے ہٹا کر ان کی حج و عمرہ کی منصبی خدمات کے لیے کون سا متبادل نظام وضع کیا گیا تھا۔
ان حقائق کی روشنی میں اس طرح کی مضطرب روایات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ معاملہ کی شکل وہ نہیں رہی جو ان روایات کی روشنی میں دکھائی دیتی ہے۔

واقعہ کی ممکن شکل

حضرت ابوہریرہ حجۃ الوداع کے ضمن میں بیان کرتے ہیں کہ جب ہم منیٰ میں مقیم تھے تو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ کل ہم بنوکنانہ کی گھاٹی میں اتریں گے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگوں نے کفر کی حمایت میں باہم قسمیں کھائی تھیں۔ قریش اور بنوکنانہ نے بنوہاشم اور بنو مطلب کے خلاف حلف اٹھایا کہ وہ ان سے نکاح کا رشتہ جوڑیں گے اور نہ تجارت کا معاملہ کریں گے جب تک کہ وہ رسول اللہ کو ان کے حوالہ نہیں کر دیتے۔ ۱؂
یہ روایت اصل حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتی ہے۔ اس کی رو سے واقعہ کی جو شکل سامنے آتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ کفار قریش کے ایک طبقہ نے بنوہاشم اور بنو مطلب (جو بنوہاشم کا ساتھ دینے میں ثابت قدم رہے تھے) کے معاشرتی مقاطعہ پر باہم حلف اٹھایا جس کے تحت ان کے ساتھ رشتہ نکاح قائم کرنا اور تجارت میں اشتراک یالین دین ختم کر دیا گیا۔ اس میں کوئی ایسی شق نہ تھی جس کے تحت بنوہاشم کو خوراک پہنچانا منع کیاگیا ہو یا ان کی نظربندی مقصود ہو۔ یہ حلف مکہ میں نہیں بلکہ منیٰ کی ایک گھاٹی میں اٹھایا گیا اور اس کی حیثیت حلف اٹھانے والوں کی نظروں میں جو بھی رہی ہو، یہ قریش کا معاہدہ نہیں تھا۔ لہٰذا اس کے لکھنے لکھانے کی نوبت نہیں آ سکتی تھی۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو حسب ذیل نتائج بہ آسانی نکالے جاسکتے ہیں۔
۱۔یہ قریش کا کوئی ایسا اجتماعی معاہدہ نہیں تھا جو سوچ بچار کے بعد طے پایا ہو یا جسے تحریر کیا گیا ہو اور اس کی کوئی مدت مقرر ہو۔ قریش اور بنوکنانہ کے کچھ لوگوں نے بنی ہاشم کو زچ کرنے کے لیے بنو کنانہ کی گھاٹی میں اکٹھے ہو کر قسمیں کھائیں اور ان کے معاشرتی مقاطعہ کا فیصلہ کیا۔ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ کچھ جذباتی لوگوں نے باہم یہ حلف اٹھایا ہو اور خاندانوں کے بڑے اس میں شامل نہ رہے ہوں۔ اس حلف میں بھی بنوہاشم کی محصوری کی کوئی بات نہ تھی۔
۲۔اس فیصلہ کو بعض اہم قرشی سرداروں، جن کے نام اوپر بیان ہو چکے ہیں، کی اشیر باد حاصل نہ تھی۔ وہ برابر اس کو ظلم و زیادتی قرار دے کر حلف اٹھانے والوں سے جھگڑتے رہے۔ بالآخر انھی کی کوششوں سے یہ محاذ آرائی ختم ہوئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ قریش کا متفقہ فیصلہ نہ تھا اسی لیے اس کی خلاف ورزی کے واقعات بھی روایتوں میں ملتے ہیں۔
۳۔ چونکہ محاصرہ نام کی کوئی چیز نہیں تھی اس لیے بنوہاشم کے رشتہ دار ضرورت کی اشیا اپنے عزیزوں کو پہنچا سکتے تھے۔ چنانچہ حکیم بن حزام کے غلہ پہنچانے کا ذکر روایات میں ہوا ہے۔
۴۔ ابوہریرہ کی روایت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بنوہاشم کتناعرصہ اس حلف کے باعث پریشان رہے۔ لیکن یہ پریشانی یقیناًمحصوری یا خوراک نہ ملنے کی نہیں تھی بلکہ وہ پریشانی تھی جو بعض ایسے لوگوں کی طرف سے معاشرتی مقاطعہ کے سبب سے ہوتی ہے جن کے ساتھ پہلے تعلقات درست رہے ہوں۔
جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے قریش اور بنوکنانہ کے بطون میں لوگ ایمان لا چکے تھے۔ چونکہ یہ حلف صرف بنوہاشم اور بنومطلب کے خلاف تھا لہذا باقی بطون کے مسلمان مثلاً ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور وہ تمام لوگ جن کے نام ان کے خانوادوں کے حوالہ سے اوپر بیان ہو چکے ہیں اس سے قطعاً متاثر نہیں ہوئے۔ لہٰذا اس مقاطعہ نے دعوت دین کے معاملہ میں مسلمانوں کے لیے کوئی رخنہ نہیں ڈالا۔
علی ہذا القیاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا دوسرے لوگوں کے مسجد حرام میں آنے جانے یا شہر میں گھومنے پھرنے پر کوئی پابندی نہ تھی۔ چنانچہ آنحضرت ﷺکی دعوت و تبلیغ کا کام حسب سابق جاری رہا۔ اسی طرح حج و عمرہ کے حوالہ سے بنوہاشم اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکتے تھے۔
۵۔حلف میں شامل لوگوں کے سوا بنوہاشم باقی لوگوں اور اہل مکہ سے مال لے سکتے تھے اور تجارتی لین دین کر سکتے تھے۔ ان پر اس حلف کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔
۶۔روایتوں میں محصوری کا مقام شعب ابی طالب بتایا جاتا ہے جبکہ اس نام کی کوئی جگہ مکہ کے آس پاس ثابت نہیں ہے۔ اگر ہو سکتا ہے تو شعب بنی ہاشم مراد ہو سکتا ہے۔ یہ مکہ کا وہ محلہ ہے جس میں بنوہاشم کی بڑی تعداد مقیم تھی اور جو ماضی قریب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جاے ولادت کے جنوب مغرب میں موجود رہا ہے۔ حرم شریف کی توسیع کے پروگرام میں اس محلہ اور اس پہاڑی کا، جس پر یہ آباد تھا، نام و نشان مٹ گیا ہے۔ اس شعب کے بارے میں یہ تصور بالکل غلط ہے کہ یہ مکہ سے دور کوئی گھاٹی تھی جس میں بنوہاشم قید ہو گئے تھے جبکہ خود روایات میں یہ بیان ہوا ہے کہ بچے جب بھوک سے روتے تو کفار ان کی آوازیں سن کر ہنستے۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب گھاٹی مکہ کے دوسرے محلوں کے قریب ہی واقع ہو۔ اسی طرح یہ محلہ بھی مکہ کے دوسرے علاقوں کی طرح بنجر تھا، اس میں بیریوں کے باغ نہیں تھے جن کے پتوں پر بنوہاشم اتنا عرصہ گزر اوقات کرتے رہے ہوں۔
اگر بنوہاشم اپنے اس محلہ میں اکٹھے ہوئے ہوں تو اس کی یہ شکل ممکن ہے کہ بعض لوگوں کے اس جذباتی حلف کے پیش نظر ابوطالب نے محلہ سے باہر آباد بنوہاشم کو یکجا ہو جانے کی ہدایت کی ہو تاکہ وہ لوگ کفار کی کسی زیادتی کا نشانہ نہ بننے پائیں۔ پھر جب قریش کے اچھے لوگوں نے شرارتی لوگوں کو لگام ڈال لی ہو تو بنوہاشم دوبارہ اپنے مکانات میں منتقل ہو گئے ہوں۔ یہ بات ایک روایت میں بیان بھی ہوئی ہے۔۲؂

دعوت مصالحت

قریش نے جب دیکھا کہ ان کی سخت گیری سے معاملہ بگڑ رہا ہے اور نیا دین معاشرہ میں جڑ پکڑ رہا ہے تو انھوں نے ایک سیاسی چال چلی۔ انھوں نے رسول اللہﷺ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ آپ لوگ ہمارے بھائی بند ہیں۔ ہمیں آپ کی مخالفت سے کوئی خوشی نہیں ہوتی۔ آپ کے ساتھ ہماری بڑی توقعات وابستہ تھیں کہ بنی ہاشم کی آپ قیادت کریں گے تو ہم سب کے وقار میں اضافہ ہو گا۔ اب بھی ہماری خواہش یہ ہے کہ آپ اپنی تعلیم کے ان حصوں میں، جو ہمارے لیے وحشت کاباعث بنتے ہیں، ترمیم کر کے ان کو ہم لوگوں کے لیے قابل قبول بنا دیں، نیز ہماری بعض عادات چونکہ نہایت پختہ ہو چکی ہیں جس کے باعث آپ کے بتائے ہوئے احکام کی موجودہ شکل میں لوگوں کے لیے ان پر عمل کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے لہٰذا ان میں ذرا سا ردوبدل کر دیں تو پھر ہمارے لیے آپ کی باتوں کو ماننا ممکن ہو جائے گا۔ ہمارے عوام بھی آپ کے دین کو اختیار کر لیں گے۔ اس طرح آپ کی کامیابی کی منزل قریب آ جائے گی۔
اس طرح کی تجویز آدمی کو غور کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وہ اس کے امکانات کا جائزہ لینے پر تیار ہو جاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر میں وقتی طور پر ان لوگوں کو کچھ رعایت دے دوں تو شاید کچھ عرصہ بعد یہ لوگ حقیقی دین کے رمز شناس ہو کر پورے دین پر عمل کرنے لگیں گے۔ حضورﷺ کو اپنی قوم سے محبت تھی، آپ اس کے ایمان کے حریص تھے اور چاہتے تھے کہ یہ لوگ اپنی نادانی میں جہنم کا ایندھن نہ بن جائیں۔ لہٰذا آپ اس تجویز کے بارے میں سوچنے لگے۔ پیغمبر چونکہ زمین پر اللہ تعالیٰ کے نمائندہ کی حیثیت سے کام کر رہا ہوتا ہے اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ اس طرح کے مواقع میں جہاں پیغمبر مذبذب ہو کر خود کوئی فیصلہ نہ کر پا رہا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو غلط اقدام سے روک کر صحیح سمت میں اس کی رہنمائی کر دیتا ہے۔ یہی صورت حال یہاں پیش آئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تذبذب کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَ اِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُونَکَ عَنِ الَّذِیْ اَوْحَیْنَا اِلَیکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہ‘ وَ اِذًالَّاتَّخَذُوْکَ خَلِیْلًا. وَلَوْ لَا اَنْ ثَبَّتْنٰکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَیْھِمْ شَیءًا قَلِیْلًا. اِذًالَّاَذَقْنٰکَ ضِعْفَ الْحَیٰوۃِ وَ ضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا.
(بنی اسرائیل ۱۷: ۷۳۔۷۵)
’’اور بے شک قریب تھا کہ وہ تم کو فتنوں میں ڈال کر اس چیز سے ہٹا دیں جو ہم نے تم پر وحی کی ہے تاکہ تم اس سے مختلف ہم پر افترا کر کے پیش کرو، اور تب وہ تم کو اپنا گاڑھا دوست بنا لیتے اور اگر ہم نے تم کو جمائے نہ رکھا ہوتا تو قریب تھا کہ تم ان کی طرف کچھ جھک پڑو۔ اگر ایسا ہوتا تو ہم تم کو زندگی اور موت دونوں کا دوگنا عذاب چکھاتے، پھر تم ہمارے مقابل میں اپنا کوئی مددگار نہ پاتے۔‘‘

دوسرے مقام پر قرآن میں یوں بیان ہوا ہے:

وَ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرجُوْنَ لِقَاءَ نَا اءْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ھٰذَا اَوْ بَدِّلْہُ. قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْ اَنْ اُبَدِّلَہ‘ مِنْ تِلْقَاءِی نَفْسِیْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوحٰی اِلَیَّ اِنِّی اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَومٍ عَظِیْمٍ. قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰہُ مَا تَلَوْتُہ‘ عَلَیْکُم وَلَآ اَدْرٰکُمْ بِہٖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ. اَفَلَا تَعْقِلُون.(یونس ۱۰: ۱۵۔۱۶)
’’اور جب ہماری کھلی ہوئی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو ہماری ملاقات کے متوقع نہیں ہیں، کہتے ہیں : اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں ترمیم کر دو۔ کہہ دو: مجھے کیا حق ہے کہ میں اپنے جی سے اس میں ترمیم کر دوں۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر آتی ہے۔ اگر میں نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ کہہ دو اگر اللہ کی مشیت ہوتی تو نہ میں اس کو تمھیں سناتا اور نہ وہ اس سے تمھیں باخبر کرتا۔ میں اس سے پہلے تم میں ایک عمر بسر کر چکا ہوں۔ تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟‘‘

یعنی کتاب میری اپنی تصنیف نہیں کہ میں اپنی مرضی سے اس کے مضامین میں تغیر و تبدل کر دوں۔ یہ خدا کا کلام ہے جس کی پیروی پر میں مامور ہوں۔ میں اس کی کسی بات کو منسوخ نہیں کر سکتا۔ اگر میں ایسا کروں تو میں خدا کی پکڑ میں آ جاؤں گا۔
ایک اور مقام پر فرمایا:

عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖ اَحَدًا. اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُولٍ فَاِنَّہ‘ یَسْلُکُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا لِّیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِم وَاَحَاطَ بِمَا لَدَیْھِمْ وَ اَحْصٰی کُلَّ شَیءٍ عَدَدًا.(الجن ۷۲: ۲۶۔۲۸)
’’غیب کاجاننے والا وہی (خدا) ہے اور وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ رہے وہ جن کو وہ رسول کی حیثیت سے انتخاب فرماتا ہے تو وہ ان کے آگے اور پیچھے پہرہ رکھتا ہے کہ دیکھے کہ انھوں نے رب کے پیغام پہنچا دیے۔ اور وہ ان کے گرد و پیش کا احاطہ کیے اور ہر چیز کو شمار میں رکھے ہوتا ہے۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جب غیب کی باتیں وحی کی صورت میں اپنے رسول کے حوالہ کرتا ہے تو پھر رسول کو آزاد نہیں چھوڑ دیتا کہ اب وہ اپنی مرضی سے لوگوں کے ساتھ جو معاملہ چاہے کر لے۔ بلکہ رسول کو سخت نگرانی میں رکھتا ہے۔ اس کے ارد گرد فرشتوں کا پہرہ لگا دیتا ہے تاکہ اس کا پیغام صحیح شکل میں رسول کی قوم تک پہنچ جائے۔ لہٰذا اس بات کا کوئی امکان نہیں ہوتا کہ پیغمبر اپنے طور پر یا دوسروں کے کہنے پر کلام خداوندی میں کوئی تغیر و تبدل کر سکے۔ اس مضمون کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

تَنْزِیْل’‘ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِینَ. وَلَو تَقَوَّلَ عَلَینَا بَعْضَ الاَقَاوِیْلِ. لَاَخَذْنَا مِنہُ بِالْیَمِیْنِ. ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ. فَمَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْنَ. وَ اِنَّہ‘ لَتَذْکِرَۃ’‘ لِّلْمُتَّقِینَ.(الحاقہ ۶۹: ۴۳۔۴۸)
’’یہ (قرآن) خداوند عالم کی طرف سے اتارا ہوا ہے۔ اور اگر یہ (پیغمبر) ہم پر کوئی بات گھڑ کر لگاتا تو ہم اس کو قوی بازو سے پکڑتے، پھر ہم اس کی شاہ رگ ہی کاٹ دیتے۔ پس تم میں سے کوئی بھی اس سے ہم کو روکنے والا نہ بن سکتا۔ اور یہ تو خدا سے ڈرنے والوں کے لیے ایک یاددہانی ہے۔‘‘

یہاں قریش کو بتایا ہے کہ جس شخص کو رسول منتخب کیا جاتا ہے اس سے اس بات کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا کہ وہ وحی خداوندی میں اپنی جانب سے جھوٹ کی ملاوٹ کر دے۔ اگر کوئی رسول ایسا کرنے کی جسارت کرے تو اس خیانت پر اسی لمحے اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺکو رہنمائی دی کہ نازل شدہ وحی کو بے کم و کاست لوگوں تک پہنچانا تمھاری ذمہ داری ہے۔ یہ لوگ تو چاہتے ہیں کہ تم اگر نرمی اختیار کرو تو یہ بھی اپنی مخالفت میں نرمی پیدا کر لیں گے، لیکن تم اس تعلیم میں تبدیلی کرنے کے مجاز نہیں ہو۔ تم خدا کے آگے مسؤل ہو، ان لوگوں کے آگے مسؤل نہیں ہو۔ لہٰذا مخالفین خواہ کتنا ہی زور لگائیں وہ اللہ کی آیات سے تمھیں روکنے نہ پائیں۔ یہ جن باتوں سے چڑتے ہیں ان کو برملا اور ڈنکے کی چوٹ کہو۔ خدا کی اتاری ہوئی بات نہ واپس ہو سکتی ہے اور نہ دبائی جا سکتی ہے۔ یہاں سے ایک سیاسی لیڈر اور ایک پیغمبر کا فرق واضح ہوتا ہے۔ پیغمبر اپنے موقف میں تبدیلی نہیں لا سکتا لیکن سیاسی لیڈر وقتی مصالح کے تحت فیصلے کرتا ہے اور اس طرح کے مواقع سے فائدہ اٹھاتا ہے جس طرح کے مواقع قریش نے پیدا کیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مراعات دینے کا فیصلہ کیا۔
مذکورہ دعوت مصالحت ہی کے سلسلہ میں قریش کا ایک وفد ابوطالب سے بھی ملا۔ انھوں نے ان سے درخواست کی کہ اپنے بھتیجے کو قائل کریں کہ وہ اپنی دعوت میں ترمیم کرے اور اس کے بدلے میں وہ جو دولت، عزت، شرف اور سیادت قوم سے حاصل کرنا چاہتا ہے ہم وہ اس کے قدموں میں ڈالنے کو تیار ہیں۔ ابوطالب نے حضورؐ کو بلایا اور قریش کی تجویز آپ کے سامنے رکھی۔ اس پر آپ نے مشہور و معروف جملہ کہا کہ چچا جان، اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی لا کر رکھ دیں کہ میں اس دعوت سے دستبردار ہو جاؤں تو یہ چیز مجھے قبول نہیں۔ اس پر ابوطالب نے کہا کہ اچھا تم اپنا کام کیے جاؤ۔
مخالفین جب سمجھوتے کی کسی تجویز کے بروئے کار آنے سے مایوس ہو گئے تو انھوں نے دہشت گردی کا بازار پھر سے گرم کر دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں پر سختیاں پھر سے شروع کر دیں۔

حضرت ابوبکر کا ارادۂ ہجرت

حضرت ابوبکر صدیق قریش میں نہایت معزز سمجھے جاتے تھے اور مکہ کی ریاست میں دیت اور تاوانوں کے معاملات طے کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ اس کے باوجود قریش کی نگاہوں میں ان کا اسلام لانے کا جرم بری طرح کھٹکتا تھا۔ وہ صاحب عزیمت آدمی تھے اور غریب مسلمانوں کی پشت پناہی سے کبھی گریز نہیں کرتے تھے۔ سنگین سے سنگین حالات میں ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی۔ لیکن اب قریش اتنے وحشی ہو رہے تھے کہ حضرت ابوبکر جیسے عزم کے پہاڑ نے بھی سوچا کہ مکہ سے ہجرت کر جائیں اور حبشہ میں دوسرے مسلمانوں سے جا ملیں۔ مکہ سے نکل کر کئی میل کا فاصلہ طے کر چکے تھے کہ ایک دوست ابن الدغنہ، جو قارہ قبیلہ کا سردار تھا، سے ملاقات ہو گئی۔ اس نے پوچھا، ابوبکر کہاں جانے کا ارادہ ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ میری قوم نے مجھے مکہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب میں چاہتا ہوں کہ زمین میں چل پھر کر خدا کی عبادت کروں۔ ابن الدغنہ نے کہا کہ میں تمھیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں، واپس چلو۔ یہ واپس آ گئے تو ابن الدغنہ نے قریش کے تمام خانوادوں کے سرداروں سے ملاقاتیں کیں اور اپنی پناہ کے حوالے سے کہا کہ ابوبکر جیسا شخص نہ مکہ سے نکل سکتا اور نہ نکالا جا سکتا ہے۔ کیا تم ایک ایسے شخص کو نکالو گے جو غریبوں کی اعانت کرتا ہے، صلہ رحمی کرتا ہے، لوگوں کا بار اٹھاتا ہے، مہمان نوازی کرتا ہے اور لوگوں کی مشکلات میں ان کا سہارا بنتا ہے۔ قریش نے ابن الدغنہ کی پناہ کو تسلیم کر لیا اور حضرت ابوبکر کو اجازت دے دی کہ اپنے گھر میں اللہ کی عبادت کریں، نماز پڑھیں اور قرآن کی قرأت کریں مگر اس کا اعلان نہ کریں کیونکہ ہمیں ڈر ہے کہ اس طرح وہ ہمارے بچوں اور عورتوں کو بہکا دیں گے۔ حضرت ابوبکر نے گھر کے سامنے صحن چھوڑا ہوا تھا۔ انھوں نے اس میں جاے نماز بنا لی۔ وہاں نماز پڑھتے اور قرأت کرتے ۔ جب قرآن پڑھتے تو اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکتے۔ مکان کے پاس سے گزرنے والے لوگ تعجب سے ان کو دیکھتے اور متاثر ہوتے۔ اس چیز نے مشرکین کو گھبرا دیا۔ انھوں نے ابن الدغنہ سے کہا کہ ابوبکر کو کنٹرول کریں۔ ابن الدغنہ نے ابوبکر سے کہا کہ گھر کے اندر عبادت کیا کریں۔ اگر علانیہ ایسا کرنا ہے تو میرا ذمہ خود ہی لوٹا دیں۔ کیونکہ میں یہ پسند نہیں کرتا کہ اہل عرب یہ کہیں کہ اس شخص نے ایک آدمی کو پناہ دی، پھر خود ہی اپنی امان کو توڑ دیا۔ حضرت ابوبکر جیسا آدمی اس طرح کی پناہ گوارا نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ انھوں نے کہہ دیا کہ میں آپ کی پناہ آپ کو واپس کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی پناہ پر راضی ہوں۔ اس کے بعد انھوں نے کفار کی زیادتیوں کا خود ہی مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور حبشہ کو ہجرت کا خیا ل دل سے نکال دیا۔۳؂ یوں اللہ تعالیٰ نے کمزور مسلمانوں کے ایک ہمدرد اور خیرخواہ کو ان کی سرپرستی کے لیے مکہ ہی میں رکھا۔ ان کے قیام کا دوسرا فائدہ یہ تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمد ترین دوست تھے اور حضورﷺ تمام اہم امور میں ان کے مشورہ سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ مشورہ کا یہ سلسلہ برابر جاری رہا یہاں تک کہ حضورﷺ نے حضرت ابوبکر ہی کے ہمراہ ہجرت فرمائی۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت فروری 2009
مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Sep 07, 2016
5406 View