بنی اسماعیل کی تولیت بیت اللہ - خالد مسعود

بنی اسماعیل کی تولیت بیت اللہ

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

(جناب خالد مسعود صاحب کی تصنیف ’’حیات رسول امی‘‘ سے انتخاب)

 

 حضرت اسماعیل کی شادی ہاجرہ کے قبیلہ بنو جرہم میں ہوئی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے معتقد تھے۔ اس قبیلہ کے لوگ مکہ میں بھی آ کر آباد ہو گئے۔ حضرت ابراہیم کو ملنے والی بشارت کے مطابق اسماعیل کی نسل میں خوب اضافہ ہوا۔ ان کے بارہ بیٹے تھے جن سے بارہ قبیلے وجود میں آئے اور وہ بیٹے ان قبیلوں کے سردار بنے۔ حضرت اسماعیل تو بیت اللہ کی خدمت کے لیے اللہ کی نذر تھے ہی، ان کے بعد ان کی اولاد نے بھی یہ ذمہ داری نبھائی۔ ان کے بڑے بیٹے نابت کے پاس بیت اللہ کے انتظام کی ذمہ داری رہی۔ نابت اور دوسرے بیٹے قیدار کے بارے میں قدیم صحیفوں میں یہ شہادت موجود ہے کہ:

’’قیدار کی سب بھیڑیں تیرے پاس جمع ہوں گی ۔ نابت کے مینڈھے تیری خدمت میں حاضر ہوں گے۔ وہ میرے مذبح پر مقبول ہوں گے اور میں اپنی شوکت کے گھر کو جلال بخشوں گا۔ ‘‘(یسعیاہ ۶۰ :۷)

ظاہر ہے کہ پر شوکت گھر سے مراد بیت اللہ ہے۔ لہٰذا قیدار اور ان کی اولاد نے بھی اس عظیم گھر کی پاسبانی میں بھرپور حصہ لیا۔ بنو جرہم کا جو تعلق بنی اسماعیل کے ساتھ تھا، اس کی بدولت وہ بھی بیت اللہ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے ان کی معاونت کرنے لگے۔

بیت اللہ کا انتظام غیر بنی اسماعیل میں

جوں جوں بنی اسماعیل کی تعداد میں اضافہ ہوا وہ مکہ سے نقل مکانی کرنے لگے۔ وہ جہاں جہاں گئے اللہ تعالیٰ نے ان کو برکت دی اور جابجا ان کی ریاستیں قائم ہو گئیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ مکہ میں بنو جرہم نے طاقت پکڑی اور بالآخر بیت اللہ کے مجاور بن بیٹھے۔ ان کا تسلط بے حد طویل عرصہ تک رہا۔ شروع میں تو انھوں نے بیت اللہ کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان سے کعبہ کے حقوق و فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی ہونے لگی۔ انھوں نے اس مرکز توحید کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ یہاں لوگ جو نذریں پیش کرتے ان کو یہ خود ہڑپ کرنے لگے۔ زائرین کی خدمت کاجذبہ مضمحل ہو گیا۔ ظلم و زیادتی کر کے زائرین سے مال بٹورنے کے طریقے وضع کر لیے گئے۔ انھوں نے خانہ کعبہ کی حلت و حرمت کی حدود کو بھی ملحوظ نہ رکھا۔ اس صورت حال کی اصلاح کے لیے مکہ کے قریب آباد دو قبائل بنوبکر اور بنو خزاعہ نے مل کر جرہم کو مکہ سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ دونوں پارٹیوں میں جنگ ہوئی جس میں جرہم کو شکست ہوئی اور وہ مکہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ جاتے جاتے انھوں نے بیت اللہ کے پاس واقع کنویں زم زم میں اپنا اسلحہ اور دوسرا سامان پھینک کر کنویں کو بھر دیا اور اس کا نشان مٹا دیا۔
بنوبکر اصلاً خانہ بدوش تھے، اس لیے اب بیت اللہ کا انتظام عملاً بنو خزاعہ کے پاس آ گیا اور تولیت کعبہ باپ سے بیٹے کو منتقل ہونے لگی۔ طریقہ ہے کہ اصلاح کے مقصد سے انقلاب لانے والے پہلے پہل بڑے خلوص نیت اور وفا شعاری کاثبوت دیتے ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں اور وہ پہلوں ہی کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ چنانچہ بنو خزاعہ نے بھی وہی حرکتیں شروع کر دیں جو بنوجرہم نے کی تھیں۔ اسی قبیلہ کاایک بدبخت آدمی عمرو بن لحی خزاعی بیت اللہ میں مظاہر شرک کو داخل کرنے کا ذریعہ بنا۔ وہ مختلف ممالک میں آتا جاتا تھا ۔ ایک مرتبہ شام کے سفر سے واپس آیا تو اپنے ساتھ عمالقہ کا بت ہبل بھی لایا۔ اس کو اس نے عین کعبہ کے پاس نصب کیا اور لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت کا نقش بٹھایا۔ چنانچہ لوگ اہم امور میں اس بت سے برکت کی دعائیں مانگنے لگے۔ جب ایک مرتبہ کعبہ کے تقدس کو داغ دار کر دیاگیا تو پھر مزید بتوں کا اس میں داخلہ آسان ہو گیا۔ ہوتے ہوتے اس مرکز توحید کو مرکز شرک میں تبدیل کر دیاگیا۔

بیت اللہ کے انتظام کی بازیافت

قصی بن کلاب
حضرت اسماعیل کی نسل میں ایک بڑا نام عدنان کا آتا ہے جس کی نسل کا شجرۂ نسب محفوظ ہے۔ دوسری صدی عیسوی میں اس نسل میں کنانہ کی اولاد نمایاں ہوئی جو مکہ میں مقیم تھے۔ کنانہ کا پڑپوتا ایک نہایت باصلاحیت سردار فہد بن مالک تھا۔ اس کی اولاد قریش کہلائی۔ فہد کی چھٹی پشت میں قصی بن کلاب نے بے حد شہرت پائی۔ اس نے کعبہ کے خزاعی متولی حلیل بن حبشیہ کی بیٹی سے شادی کی اور امور بیت اللہ میں شریک ہو گیا۔ حلیل کی وفات پر قصی نے تمام انتظام خود سنبھال لیا۔ خزاعہ نے اس کی مخالفت شروع کر دی تو قصی نے اپنے خاندان بنو کنانہ کے علاوہ دوسرے بنی اسماعیل سے مدد طلب کر لی۔ اس نے ان کو دعوت دی کہ وہ مکہ کے قریب آ کر بسیں۔ چنانچہ بہت سے قبائل مکہ میں آ گئے جس کے نتیجہ میں قریش کی قوت میں اضافہ ہو گیا۔ اس خدمت کی بنا پر قصی کو مجمع کا لقب ملا۔
بالآخر فریقین کے درمیان جنگ کی نوبت آئی جس میں کافی نقصان ہوا۔ اس نزاع کے فیصلہ کے لیے یعمر بن عوف کو ثالث مانا گیا۔ اس نے فیصلہ دیا کہ قصی بن کلاب خزاعہ کی نسبت تولیت کعبہ کازیادہ حق رکھتے ہیں۔ نیز خزاعہ اور بنوبکر نے قریش کے جو خون کیے ہیں ان کو ان کا خون بہا دینا ہو گا۔ البتہ قصی کے ہاتھوں جو خون ان کے ہوئے ہیں ان کاخون بہا نہیں دینا ہو گا۔ اس طرح وراثت ابراہیم اور عرب کی مذہبی سیادت اس قبیلہ کے ہاتھ میں آ گئی جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تھا اور جس کا تولیت کعبہ کا حق مقدم تھا۔ ۱؂
قصی کے ذہن رسا نے مکہ میں ایک شہری ریاست قائم کرنے کا خاکہ تیار کیا تاکہ قریش کے تمام خان وادوں میں اس ریاست کی ذمہ داریاں تقسیم کر دی جائیں اور وہ سب محسوس کریں کہ ان میں سے ہر خان وادہ کو اہمیت دی جا رہی ہے اور اس کو امور ریاست میں اپنا حصہ ادا کرنا ہے تاکہ وہ شہر کے نظم و نسق میں برابر کا شریک رہے۔ اس مقصد سے قصی نے قریش کی تمام شاخوں کے لیے الگ الگ محلے مقرر کیے اور ان کے سرداروں پر مشتمل ایک مجلس مشاورت قائم کی۔ ہر شاخ کا سردار اس مجلس کا رکن تھا۔ لیکن یہ بات ملحوظ رکھی جاتی کہ سردار چالیس برس سے کم عمر کا نہ ہو۔ اس مجلس مشاورت کی سربراہی قصی کے پاس تھی اور اس کی اہم ذمہ داری انتظام بیت اللہ، صلح و جنگ، اہم امور مملکت اور شادی بیاہ کے فیصلے کرنا تھا۔ مجلس کے اجتماعات کے لیے اس نے دارالندوہ قائم کیا جس کا دروازہ بیت اللہ کی طرف کھلتا تھا۔ قصی نے بیت اللہ کی ذمہ داریاں خود سنبھالیں۔ لہٰذا وہ مکہ کا حاکم اور تمام عربوں کا روحانی پیشوابھی تھا۔ اس منصب کی بدولت اس کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ شہری ریاست کے کئی محکمے تھے۔ ان میں حجابہ (خانہ کعبہ کی دربانی و حفاظت) اور سدانہ (کلید برداری) کا تعلق خانہ کعبہ سے تھا۔ سقایہ (پانی پلانا) اور رفادہ (کھانے کا بندوبست کرنا) زائرین بیت اللہ کی خدمت کے محکمے تھے۔ اللواء (پرچم)، قیادہ (جنگ میں قیادت) اور قبہ (چھاؤنی کا انتظام) کا تعلق حالت جنگ سے تھا۔ مختلف خان وادوں میں تقسیم کار سے شہر کا نظم و نسق بہتر ہو گیا، مختلف خاندانوں کی اہمیت بڑھ گئی اور ان کے درمیان وحدت پیدا ہو گئی۔ قصی نے باہر سے آنے والے تاجروں سے عشر لینا شروع کیا جو مکہ کی ثروت کاایک اہم ذریعہ بن گیا۔ حج و عمرہ کے انتظام میں بھی اس نے کئی اصلاحات کیں۔ حجاج کی بہبود کے لیے اس نے قریش کو یہ شعور دیا کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کے گھر کے خادم اور حجاج کو اللہ کے مہمان سمجھیں۔ اس نے پانی کی فراہمی کا نظام بہتر کیا اور قریش کے لیے ضروری قرار دیا کہ وہ چندہ جمع کر کے ایام حج میں حاجیوں کی ضیافت کیا کریں۔
قصی نے مرتے وقت انتظام ریاست اپنے بڑے بیٹے عبدالدار کے حوالہ کر دیا حالانکہ اس کے چار بیٹوں میں سے دوسرا بیٹاعبد مناف سب سے زیادہ باصلاحیت تھا اور والد کی زندگی ہی میں دوسروں پر فوقیت پا گیا تھا۔ لوگوں کے اندر اس کے لیے بڑا احترام پایا جاتا تھا۔ باپ کے فیصلہ کے مطابق بھائیوں نے عبدالدار کی سیادت تسلیم کر لی، لیکن ان کی اولادیں اس پر مطمئن نہ تھیں۔ عبدالدار کے مرنے پر عبد مناف کے بیٹوں نے دادا کے فیصلہ کے خلاف آواز بلند کی اور محکموں کی منصفانہ تقسیم کا مطالبہ کیا۔ اس کے نتیجہ میں جو بحث چلی تو قریش دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ بنو اسد، بنو زہرہ، بنو تیم اور بنو حارث عبد مناف کے بیٹوں کے مطالبہ کے حق میں تھے۔ انھوں نے ایک ساتھ رہنے کی قسم کھائی اور مطیبین کہلائے۔ عبدالدار کی اولاد کا ساتھ بنو سہم، بنو عدی، بنو مخزوم اور بنو جمح نے دیا۔ یہ احلاف کہلائے۔ قریب تھا کہ دونوں گروپوں میں جنگ برپا ہو جائے کہ بعض لوگوں نے درمیان میں پڑ کر اس بات پر سمجھوتا کرا دیا کہ بنو عبدالدار کے پاس ندوہ، حجابہ اور لواء کے محکمے رہیں، جبکہ بنو عبد مناف کو سقایہ اور رفادہ کاانتظام دے دیاجائے۔ اگرچہ معاملہ صلح صفائی سے طے ہو گیا، لیکن مذکورہ خاندانوں کامیلان بعد میں بھی ایک دوسرے کی طرف مطیبین اور احلاف کی تقسیم کے مطابق رہا۔
ہاشم بن عبد مناف
عبد مناف کے بعد قبیلہ کی سیادت عبد شمس کو ملی، لیکن وہ زیادہ تر سفر میں رہتا اور مالی لحاظ سے بھی کمزور تھا۔ لہٰذا عملاً اس کی ذمہ داریاں عبد مناف کے دوسرے بیٹے ہاشم نے ادا کیں۔ وہ بے حد فیاض اور کریم النفس آدمی تھا۔ ایک مرتبہ مکہ میں قحط پڑا تو وہ فلسطین سے آٹا خرید کر لایا اور روٹیاں شوربے میں ڈال کر ثرید سے اہل مکہ کی ضیافت کی۔ ہاشم نے حجاج کی خدمت بڑھ چڑھ کر کی۔ پانی کی فراہمی کا انتظام بہتر بنایا۔ وہ زائرین بیت اللہ کو کھلانے پلانے کا بندوبست اپنی جیب سے کر دیاکرتا ۔ ہاشم ایک کامیاب تاجر تھا۔ اس نے اور اس کے بھائیوں نے تعلقات اور اثرورسوخ کو بروئے کار لا کر شام، فلسطین، عراق، حبشہ اور یمن کی حکومتوں، نیز قبائل عرب سے قریش کے تجارتی قافلوں کے لیے پر امن سفر کے اجازت نامے حاصل کیے۔ مطلب بن عبد مناف نے نجاشی سے اجازت نامہ حاصل کیا، نوفل بن عبد مناف نے شاہ ایران کسریٰ سے سہولتیں حاصل کیں۔ خود ہاشم نے شاہ روم قیصر سے قریش کے تجارتی سفروں کے لیے امن و حفاظت کے پروانے لیے۔ ۲؂ ان بھائیوں کی تگ و دو کے نتیجہ میں قریش کو ایک ایسی سہولت ملی جو دوسرے قبائل عرب کو حاصل نہ تھی۔ دوسرے قبائل کو غیر قبائل کے علاقہ میں سے گزرنا ہوتا تو وہ پہلے ایک ٹیکس ادا کرتے۔ اس کے برعکس قریش کے لیے ممکن ہو گیا کہ وہ کچھ خرچ کیے بغیر قبائل عرب یامذکورہ حکومتوں کے علاقوں میں سے گزر جائیں۔ ان کا پیشہ چونکہ تجارت تھا لہٰذا محفوظ سفر کی سہولت میسر آنے کے بعد ان کا ہر فرد اپنی استطاعت کے مطابق مال تجارت خود یا اپنے اہل کاروں کے ذریعے سے منڈیوں میں بھیج سکتاتھا۔ جن لوگوں کے پاس اپنا سرمایہ نہ ہوتا وہ دوسروں کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے اور اہل مکہ، حتیٰ کہ ان کی خواتین بھی، مکہ میں رہتے ہوئے تجارت کرتے اور منافع کماتے۔ قریش کا معمول تھا کہ وہ موسم سرما میں یمن و حبشہ اور موسم گرمامیں فلسطین اور شام کا قصد کرتے۔ لوگ ان کو بیت اللہ کے خادم، اس کے متولی اور حجاج کے ہمدرد سمجھ کر ان سے کوئی تعرض نہ کرتے۔ یہ سفر اہل مکہ کی خوش حالی اور دولت و ثروت کا اہم ذریعہ تھے۔ قرآن نے قریش کے لیے اس غیر معمولی سہولت کاحوالہ دیتے ہوئے فرمایا:

لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ اٖلٰفِھِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیْفِ فَلْیَعبُدُوْا رَبَّ ھٰذَا الْبَیتِ الَّذِیْٓ اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ.(قریش۱۰۶ :۱۔۴)
’’قریش کو اپنی وابستگی کے سبب سے، یعنی اس وابستگی کے سبب سے جوان کو موسم سرما اور موسم گرما کے سفر سے ہے، چاہیے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انھیں بھوک میں کھلایا اور خوف میں امن بخشا۔‘‘

یعنی قریش کو چونکہ یہ سہولت بیت اللہ کی تولیت کے باعث حاصل ہوئی ہے تو اس کا حق یوں ادا ہو سکتا ہے کہ وہ اس گھر کے رب ہی کی عبادت کریں اور شرک سے اجتناب کریں۔
عبدالمطلب بن ہاشم
ہاشم نے یثرب کے قبیلہ بنو نجار میں ایک با حیثیت خاتون سے شادی کی جس نے یہ شرط لگائی کہ وہ اپنے معاملات کی نگرانی کے لیے یثرب ہی میں رہے گی۔ اس خاتون کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام شیبہ رکھا گیا۔ معاہدہ کے مطابق یہ بچہ ہاشم کو اس کی ماں کے پاس چھوڑنا پڑا۔ جب ہاشم کا انتقال ہوا تو اس کے بھائی مطلب نے یثرب جا کر اس کی بیوہ سے یہ مطالبہ کیا کہ بچے کی پرورش کرنے کے لیے اس کو مکہ میں بھیجے تاکہ وہ خاندان کی روایات کے مطابق تربیت پا سکے۔ ماں نے بڑی مشکل سے یہ مطالبہ تسلیم کیا اور بچے کو اس کے چچا کے حوالے کر دیا۔ مطلب مکہ پہنچا تو لوگوں نے بچے کو اس کا زر خرید غلام سمجھا اور اس کو عبدالمطلب کہہ کر پکارا۔ حقیقت کی وضاحت ہو جانے کے باوجود یہی نام شہرت پا گیا اور اصل نام شیبہ نظر انداز ہو گیا۔ ہاشم کے بعد مطلب بن عبد مناف کے پاس سقایہ اور رفادہ کے محکمے تھے۔ یمن کی طرف ایک تجارتی سفر میں اس کاانتقال ہو گیا تو بنو ہاشم کی سرداری کا منصب اور رفادہ اور سقایہ کی ذمہ داریاں عبدالمطلب کو ملیں۔ ۳؂
عبدالمطلب کے دور کا اہم واقعہ چاہ زم زم کی بازیافت ہے جس کو بنو جرہم بیت اللہ کے معاملات سے بے دخلی کے بعد بند کر کے بے نشان کر گئے تھے۔ یہ کنواں اگرچہ بیت اللہ کے بالکل ساتھ تھا، لیکن امتداد زمانہ کے باعث لوگ اس کا محل وقوع بھول گئے تھے۔ روایات کے مطابق عبدالمطلب نے خواب میں دیکھا کہ وہ ایک خاص مقام پر کنویں کی کھدائی کر رہے ہیں ۔ انھوں نے اس خواب کو اشارۂ غیبی سمجھ کر قریش سے اس کا تذکرہ کیا اور کھدائی میں ان سے مدد طلب کی۔ قریش نے اس کو کار عبث سمجھا اور ان سے تعاون نہ کیا۔ عبدالمطلب نے اپنے بیٹے حارث کو ساتھ لے کر خود کھدائی شروع کر دی۔ کچھ دنوں کے بعد بنو جرہم کی دفن کی ہوئی تلواریں برآمد ہو گئیں۔ اب قریش متمنی ہوئے کہ وہ بھی اس کار خیر میں شریک ہو جائیں، لیکن عبدالمطلب نے اس مرحلہ میں ان کی حصہ داری تسلیم نہ کی اور خود ہی کنواں کھودا۔ مدت ہاے دراز کے بعد پھر سے حجاج کو اس مبارک کنویں کا پانی پینا نصیب ہوا۔
کتب سیرت کی روایات کے مطابق عبدالمطلب کو اس بات کا بڑا قلق تھا کہ چاہ زم زم کی کھدائی میں قریش کے دوسرے خان وادوں نے ان کی مدد نہیں کی۔ انھوں نے نذر مانی کہ میرا رب اگر دس بیٹے مجھے عطا کر دے تو میں ایک بیٹے کی قربانی اس کی راہ میں کر دوں گا۔ یہ نذر قبول ہوئی اور ان کے دس بیٹے پیدا ہوئے۔ جب یہ جوان ہوئے تو باپ نے سب کو جمع کر کے اپنی نذر سے آگاہ کیا اور وہ اس پر عمل کرنے پر تیار ہو گئے۔ عبدالمطلب نے خانہ کعبہ کے پاس بیٹوں کے نام کا قرعہ ڈالا جو چھوٹے بیٹے عبداللہ پر نکلا۔ عبدالمطلب عبداللہ کو ساتھ لے کر قربان گاہ کو چلے تو قریش مزاحم ہوئے کہ بیٹے کی قربانی سے عرب میں ایک غلط رسم چل پڑے گی جس کو روکنا کسی کے لیے ممکن نہ ہو گا۔ انھوں نے عبدالمطلب سے مطالبہ کیا کہ وہ یثرب کی مشہور کاہنہ سے مشورہ کرکے بیٹے کافدیہ دے دیں۔ قریش کے کچھ لوگ یثرب گئے تو کاہنہ نے یہ تجویز دی کہ خانہ کعبہ کے پاس دس اونٹ اور عبداللہ کے مابین قرعہ ڈالا جائے۔ اگر قرعہ عبداللہ پر نکلے تو پھر بیس اونٹوں پر قرعہ ڈالا جائے۔ دس دس اونٹ کا اضافہ اس وقت تک کیاجائے جب تک اونٹوں پر قرعہ نہیں نکلتا۔ جب یہ عمل کیاگیا تو عبداللہ کافدیہ سو اونٹ ٹھہرا۔ یہ جانور ذبح کیے گئے اور ان کا گوشت مکہ کی آبادی میں تقسیم کر دیا گیا۔
عبدالمطلب ہی کی سرداری کے زمانہ میں یمن کے ایک متعصب عیسائی حکمران ابرہہ نے خانہ کعبہ کو ڈھانے کے ناپاک ارادہ سے ایک لشکر جرار کے ساتھ حجاز میں پیش قدمی کی۔ حملہ آور لشکر کے ساتھ ہاتھی بھی تھے۔ عربوں کو ایسے لشکر کے ساتھ جنگ کا تجربہ نہ تھا۔ چنانچہ قریش اور دوسرے عربوں نے بہترین جنگی پالیسی کے طور پر پہاڑوں میں محفوظ ہو کر گوریلا جنگ کا طریقہ اپنایا تاکہ ابرہہ کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکیں۔ ابرہہ نے حملہ کی جو اسکیم بنائی تھی اس میں حملہ کے نام نہاد سبب اور وقت کاخاص طور پر انتخاب کیاگیا۔ سبب تو یہ بتایا گیا کہ کسی عرب نے یمن میں نو تعمیر شدہ گرجا کو توہین کے ارادہ سے ناپاک کر دیا ہے لہٰذا اس کا بدلہ عربوں کے مقدس معبد خانہ کعبہ کو ڈھا کر لینا ہے۔ وقت کاانتخاب اس نے یوں کیا کہ جنگی کارروائی کے لیے محترم مہینوں کو چنا۔ اس کاخیال تھا کہ عرب ان مہینوں میں جنگ اور خوں ریزی کو جائز نہیں سمجھتے، اس لیے ان کی طرف سے مدافعت نہیں ہو گی۔ اس نے حملہ بھی ان دنوں میں کرنا چاہا جب پورے ملک سے آئے ہوئے حجاج یا تو قربانی میں مصروف ہوتے ہیں یا تھکے ماندے گھروں کو لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ نیز ان دنوں میں مکہ عملاً خالی ہوتا ہے، کیونکہ وہاں کے باشندے بھی بیش تر حج کی مصروفیتوں میں گھروں سے باہر ہوتے ہیں۔ عبدالمطلب کو حملہ کی خبر ملی تو انھوں نے اس موقع پر خانہ کعبہ میں یہ دعا کی کہ:

’’اے خدا، آدمی اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتا ہے تو بھی اپنے لوگوں کی حفاظت فرما۔ دشمن کی صلیب اور اس کی قوت تیری قوت پر ہرگز غالب نہ ہونے پائے۔ اگر تو ہمارے قبلہ کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتا ہے تو پھر کر جو تیری مرضی ہے۔‘‘ ۴؂

ابرہہ کی چال اور پورے منصوبہ کو اللہ تعالیٰ نے خاک میں ملا دیا۔ یمن سے مکہ کو سفر کرتے ہوئے اس کو عرب قبائل کے حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مکہ کے قریب پہنچا تو اہل مکہ اور غیر مسلح حاجیوں نے منیٰ کے پتھروں سے اسلحہ کا کام لیا اور لشکر پر بار بار سنگ باری کرکے اس کے قدم مکہ کی طرف بڑھنے سے روک دیے۔ اس دوران میں قریش نے گوریلا جنگ کا طریقہ اپنایا۔ قریش اور حجاج دشمن کے حملوں کا مقابلہ کرتے ہوئے برابر اپنے رب سے دعا بھی کرتے رہے کہ وہ دشمن کو پامال کرے۔ چنانچہ منیٰ سے متصل وادی محسر میں ابرہہ کی فوج پر سنگ باری کرنے والی ہوا چلی جس نے محسر کو دشمن کے لیے موت کی وادی بنا دیا۔ جھنڈ کے جھنڈ گوشت خور پرندے ان کا گوشت نوچنے کے لیے وادی میں آ گئے اور منیٰ کو لاشوں کے تعفن سے پاک کر دیا۔ اس کے بعد وادی میں سیلاب آیا جو مرنے والوں کے انجرپنجر بہا کر لے گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس تائید سے قریش کی کمزور مدافعت اتنی موثر بنا دی کہ اصحاب فیل کھانے کے بھس کی طرح پامال ہو گئے۔ عربوں کی تاریخ میں یہ واقعہ اتنی اہمیت کا حامل تھا کہ انھوں نے اس سے اپنے کیلنڈر کاآغاز کیا اور یہ سال عام الفیل (ہاتھیوں کا سال) کہلایا۔
بنو خزاعہ جب سے خانہ کعبہ کے امور سے بے تعلق ہوئے تھے ان کو اپنی محرومی کا بے حد قلق تھا۔ عبدالمطلب نے اپنی سربراہی کے دور میں بنو خزاعہ کے عمرو بن ربیعہ اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ باہم مدد و اعانت اور ایک دوسرے کے دست و بازو بنے رہنے کامعاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ ان کی اولادوں پر بھی لاگو تھا۔ اس معاہدہ میں بنو مطلب بھی شامل ہو گئے، لیکن عبد شمس کی اولاد بنو امیہ نیز نوفل کی اولاد اس معاہدہ سے باہر رہی۔ عبدالمطلب نے اپنے جانشین و وصی زبیر بن عبدالمطلب کو اور انھوں نے ابوطالب کو اس معاہدہ کی پاس داری کی وصیت کی۔ اسی معاہدہ کے مطابق بنو خزاعہ اولاد عبدالمطلب کی بعد میں بھی حمایت کرتے رہے۔ اس طرح مکہ کے جوار میں بسنے والا قبیلۂ خزاعہ ایک بار پھر قریش کے قریب آ کر امور بیت اللہ میں دل چسپی لینے لگا۔
اولاد عبدالمطلب
عبدالمطلب کے بیٹوں میں سے حارث، زبیر، ابوطالب، ابولہب، عباس، حمزہ اور عبداللہ کو شہرت ملی۔ ان میں سے حارث کاانتقال والد کی زندگی میں ہو گیا۔ عبدالمطلب کی دوسری بیوی فاطمہ بنت عمرو بن عائذ سے ان کے تین بیٹے تھے۔ زبیر، ابوطالب اور عبداللہ۔ انھوں نے مرض الموت میں دستور کے مطابق سب سے بڑے بیٹے زبیر کو اپنی تمام ذمہ داریاں حوالہ کیں۔ چنانچہ وہ سربراہ خاندان مقرر ہوئے اور اس حیثیت میں انھوں نے اپنی نیکی اور رحم دلی کا سکہ بٹھایا۔ زبیر اپنے والد کے وصی تھے۔ ۵؂ وہ بنو ہاشم کی سربراہی پر تقریباً تیرہ چودہ برس فائز رہے۔ ان کی وفات پر یہ منصب ابوطالب کے حصہ میں آیا۔ ابوطالب غریب آدمی تھے۔ وہ اپنے بھائی عباس کے مقروض ہو گئے۔ قرض ادا نہ ہو سکا تو وہ سقایہ کے منصب سے ان کے حق میں دست بردار ہو گئے۔
عبداللہ کا انتقال عین جوانی میں باپ کے سامنے ہوا۔ ان کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اس پیغمبر اعظم کے والد ہوں جن کی بعثت کے لیے ابراہیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح اللہ نے دعا کی تھی۔ بنی اسرائیل کے انبیا جن کے حق میں پیشین گوئیاں کرتے اور اپنی قوم سے ان پر ایمان لانے کا عہد لیتے رہے، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد جن کی آمد کی خوش خبری دی اور ان کے لیے راہ ہموار کی۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
گزشتہ زمانہ میں انبیا علیہم السلام نے اپنے بعد آنے والے نبی کی جو بڑی نشانیاں بتائیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اس کی بعثت بنی اسماعیل میں ہو گی جو بیت اللہ کی پاسبانی کرنے والے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ٹھیک بنی اسماعیل کی شاخ قریش میں اور قریش کی بھی اس شاخ میں پیدا ہوئے جس کے پاس تولیت کعبہ کامنصب تھا۔ دوسری نشانی یہ تھی کہ حضرت عیسیٰ اور اس عظیم رسول کے درمیان کسی رسول کی بعثت نہیں ہو گی تو فی الواقع اس مدت میں کوئی رسول نہیں آیا۔ خود بنی اسرائیل، یہود اور نصاریٰ، سب منتظر رہے کہ اس موعود رسول کی بعثت کب ہو کہ ہم اس پر ایمان لائیں۔ تیسری نشانی یہ تھی کہ وہ رسول رہتی دنیا کے لیے ہو گا اور اس کے بعد کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں ہو گا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد سے اب تک دعویٰ تو کئی لوگوں نے کیا کہ وہ نبی ہیں، لیکن نہ وہ اپنے دعویٰ کو سچ ثابت کر سکے، نہ ان کے پاس اس طرح کی وحی کی تعلیم تھی جو نبیوں کے پاس ہوا کرتی تھی، اور نہ ان کے دعویٰ کو دنیا نے قبول کیا۔ ان کے علاوہ دوسری نشانیاں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کس طرح صادق آئیں اس کابیان آیندہ صفحات میں آں حضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے احوال میں آئے گا۔
  

۱؂ الطبقات الکبریٰ، محمد ابن سعد، دارالفکر بیروت۱/ ۴۴۔
۲؂ الطبقات الکبریٰ، محمد ابن سعد، دارالفکر بیروت۱/ ۵۱۔
۳؂ الطبقات الکبریٰ، محمد ابن سعد، دارالفکر بیروت۱/ ۵۴۔
۴؂ الطبقات الکبریٰ، محمد ابن سعد، دارالفکر بیروت۱/ ۶۰۔
۵؂ الطبقات الکبریٰ، محمد ابن سعد، دارالفکر بیروت۱/ ۶۱۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت نومبر 2006
مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Sep 08, 2016
5621 View