کار رسالت کے لیے تربیت - خالد مسعود

کار رسالت کے لیے تربیت

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

نبوت و رسالت کامنصب اپنے ساتھ بہت بڑی ذمہ داریاں لاتا ہے، لہٰذا جس شخص کو اللہ تعالیٰ یہ منصب عطا کرنا چاہتا ہے، اس کی پیدایش ہی سے اس کی خاص تربیت فرماتا ہے۔ نبی کا کام لوگوں کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے تقاضوں سے آگاہ کرنا، احکام الٰہی کی یاد دہانی کرنا اور جو ہدایات وحی سے ملیں ان سے اپنے مخاطبوں کو باخبر کرنا ہوتا ہے۔ چونکہ لوگوں کے لیے نبی کی دعوت ان کے مفادات پر ضر ب لگانے والی ہوتی ہے، اس لیے اس سے مخاطبین بالعموم اور طبقۂ خواص بالخصوص بدکتے اور بالآخر اس کے مخالف بن کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر نبی نے مشکل حالات کا خود سامنا نہ کیا ہو اور لوگوں کی زیادتیوں سے اسے واسطہ نہ پڑا ہو، نیز وہ انسانوں کی نفسیات سے آگاہ نہ ہو تو کارنبوت کے ادا کرنے میں اسے مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ لہٰذاس کی تربیت میں اس طرح کے عناصر شامل کر دیے جاتے ہیں جن سے واقف ہو کر وہ عملی زندگی میں اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہو سکے۔ یہ تربیت اللہ کریم کی براہ راست نگرانی میں ہوتی ہے۔ اس لیے وہ ہونے والے نبی کو خاص امداد فراہم کرتا اور اس کو مشکلات سے نکالنے کے لیے غیرمعمولی انتظامات بروے کار لاتا ہے۔
مصر کا حکمران فرعون ایک بے حد ظالم اور سفاک حکمران تھا جو اپنے آپ کو رب اعلیٰ کے طور پر لوگوں سے منواتا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس کے سامنے تبلیغ دین پر مامور کرنے کا فیصلہ ہوا تو انتہائی دشوار اور سنگین حالات میں ان کو پیدا کیا گیا۔ یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام کے خاندان کے بچوں کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالنے کا حکم اس وقت مملکت مصر میں نافذ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ ایک ٹوکری کے سوراخ بند کر کے اپنے نومولود بچے کو اس میں ڈال کر دریا میں بہا دے۔ پھر دیکھے کہ پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ ٹوکری دریا میں بہتی ہوئی فرعون کے محل کے قریب ہوئی تو فرعون کی بے اولاد بیوی کی نظر اس پر پڑ گئی۔ اس نے ٹوکری پانی سے نکلوائی تو اس میں ایک من موہنا بچہ دیکھ کر مچل گئی کہ وہ اس کو بیٹا بنا کر خود پالے گی۔ اس طرح موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے دربار میں اور ملک کے صف اول کے لوگوں کے درمیان پرورش پانے، ان کے طور طریقے سمجھنے اور ان کی نفسیات سے آگاہی حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ان کو مصر کے قبطی باشندوں اور بنی اسرائیل کے قبائل، جو کنعان سے آ کر مصر میں آباد ہو چکے تھے، کے درمیان کی آویزش، اسرائیلیوں کی مظلومیت اور بے بسی اور مصریوں کے ظلم و تشدد کو دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ ایک مرتبہ شہر کو نکل گئے تو ایک مصری کو ایک کنعانی پر تشدد کرتے دیکھا۔ انھوں نے کنعانی کو چھڑانے کی خاطر مصری کو گھونسا مارا تو وہ غیر ارادی طور پر جسم کی کسی ایسی جگہ لگا جس سے وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ موسیٰ علیہ السلام اس خلاف توقع صورت حال پر سخت نادم ہوئے۔ اللہ سے معافی مانگی اور اپنے ایک خیر خواہ مصری درباری کے مشورہ سے شہر سے نکل گئے۔ طویل سفر کے بعد وہ مدین پہنچے جہاں ان کو ٹھکانا نصیب ہوا۔ انھوں نے وہاں رہ کر بکریوں کے ریوڑ چرائے اور ان کے مالک کی صحبت سے نیکی کی تبلیغ کا فن سیکھا۔ یہ تمام تجربات ایسے تھے جنھوں نے ان کی شخصیت میں نکھار اور طبیعت میں ٹھیراؤ پیدا کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس تربیت میں سے گزار چکا تو انھیں پیغمبری عطا کی، فرعون کے دربار میں جا کر دین کی تبلیغ کا حکم دیا اور انھیں اپنے اس فضل سے بھی آگاہ فرمایا کہ میں نے اپنی دعوت کے لیے تمھاری خاص تربیت کی۔ ’وَاصْطَنَعْتُکَ لِنَفْسِیْ‘۔ (طٰہٰ ۔ ۲۰:۴۱)
حضرت یوسف علیہ السلام اپنے لڑکپن ہی سے اپنے سوتیلے بھائیوں کی زیادتیوں کا نشانہ بنے، جس سے ان کو تحمل و برداشت کی تربیت ملی۔ بھائیوں نے ان سے چھٹکارا پانے کے لیے ان کو اندھے کنویں میں ڈال دیا تو اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی اور ان کو مصر کے ایک رئیس کی غلامی میں دے دیا۔ وہاں انھیں مالک کی جاگیر کی نگرانی، کاشت کاری کے طور طریقوں اور غلے کی برداشت اور ذخیرہ کی تربیت ملی۔ وہ غلامی کے مسائل سے دوچار ہوئے۔ انھیں بے گناہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔ اس طرح انھیں زندگی کے معاملات کے تجربہ، تقویٰ اور صبر و استقامت کی تربیت میسر آئی جس کو وہ آیندہ زندگی میں ، جب وہ قیدخانے سے سرخ رو ہو کر نکلے، بروے کار لائے۔

حضور کی یتیمی

ہمارے رسول اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کی اسی سنت کے تحت معاملہ ہوا۔ وہ پیدا ہوئے تو والد کے وفات پا جانے کے باعث ان کے سایۂ عاطفت سے محروم تھے۔ عرب سوسائٹی میں یتیم بچوں سے ہر زیادتی روا رکھی جاتی تھی۔ وہ بے آسرا اور بے سہارا ہوتے، طاقت ور رشتہ دار ان کے حصہ کی جائداد ہڑپ کر جاتے یا حیلے بہانوں سے ہتھیا لیتے، لہٰذا غربت اور تنگ دستی ان کا مقدر بن جاتی۔
حضور کو بچپن میں یتیمی کے باعث جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کی تفصیل سے سیرت نگار واقف نہیں ہو سکے۔ تاہم یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی زندگی بڑی پر مشقت تھی۔ قریش کے رواج کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے کسی دایہ سے بچے کو دودھ پلوانے کے لیے جب بنی سعد کی عورتوں سے معاملہ کرنے کی کوشش کی تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک یتیم بچہ ہونے کے باعث دودھ پلانے پر راضی نہ ہوئیں۔ بالآخر ایک غریب دایہ حلیمہ نے آپ کو قبول کر لیا۔
صحرا میں چند سال گزارنے کے بعد آپ کو واپس مکہ لایا گیا تو آپ کو اپنی والدہ آمنہ کی آغوش محبت ملی۔ لیکن یہ سکون کا عرصہ نہایت مختصر ثابت ہوا۔ والدہ آپ کو یثرب لے گئیں تو مکہ کو لوٹتے ہوئے ابوا کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور آپ کو دوہری یتیمی کے صدمہ سے دوچار ہونا پڑا۔ ماں زندہ رہتیں تو آپ کی پرورش ، نشوونما اور معاشرہ میں آپ کو مقام دلوانے کی تدبیریں کرتیں۔ اب یہ سہارا بھی باقی نہ رہا۔ اب دادا عبدالمطلب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر دست شفقت رکھنے لگے۔ یہ صورت حال دو برس ہی قائم رہ سکی اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر آٹھ سال تھی تو دادا کا انتقال ہو گیا۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم بنوہاشم خاندان کا ایک فرد ہونے کے باعث قبیلہ کی عمومی تولیت میں ضرور تھے، لیکن آپ کو زندگی کی جدوجہد میں بہرحال خود ہی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا تھا۔ آپ کے والد کا انتقال عین جوانی میں ہوا تھا اور انھوں نے کوئی قابل ذکر ترکہ نہیں چھوڑا تھا۔ شاید یہی وہ زمانہ ہے جس کے بارے میں دوسرے رسولوں کے بکریاں چرانے کے حوالہ سے آپ نے فرمایا کہ میں بھی مکہ میں خاندان کی بکریاں چراتا رہا ہوں۔
ایک چرواہا بڑے انہماک سے اپنے ریوڑ کی ہر بکری اور ہر بھیڑ پر نظر رکھتا ہے۔ ان میں سے کوئی بھیڑ یا بکری بیمار ہو، چل نہ سکتی ہو یا چرنہ رہی ہو تو وہ چرواہے کی توجہ کی خاص طور پر مستحق ہوتی ہے اور وہ اس کی خصوصی دیکھ بھال کرنے لگتا ہے۔ کوئی بکری ریوڑ سے الگ ہو جائے تو وہ اس کو ڈھونڈتا اور گھیر گھار کر واپس ریوڑ میں شامل کرتا ہے۔ اگر چراگاہ کے ارد گرد بھیڑیے پائے جاتے ہوں اور وہ ریوڑ پر حملہ آور ہوتے ہوں تو وہ چرواہا ان کو بھگانے کے لیے مناسب سروسامان اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ یہ طرز عمل آدمی کے کردار کی بھی تعمیر کرتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نبی کے منصب پر فائز ہونے والوں کو گلہ بانی سے اس لیے وابستہ کرتا رہا کہ وہ آگے چل کر اپنے صاحب ایمان ساتھیوں کی دیکھ بھال کرنے اور ان کو شیاطین کے حملوں سے بچانے کی تربیت حاصل کر لیں۔ چنانچہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد بھی فرمایا کہ:

’’تم میں سے ہر شخص ایک چرواہا ہے اور اس سے اس کے گلے کے بارے میں باز پرس ہو گی۔‘‘۱؂

اسی تربیت کے باعث حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے فرداً فرداً رابطہ رکھتے، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے، ان کی خوشیوں پر ان کو مبارک باددیتے اورحسب حال ان کی تربیت فرماتے۔

کسب معاش

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب معاشی جدوجہد میں باقاعدہ حصہ لینے کی ہوئی تو دوسرے قرشی نوجوانوں کی طرح آپ بھی تجارتی سفروں پر جانے لگے۔ ان تجارتی سفروں سے آپ کو ممالک کے دیکھنے، وہاں کے باشندوں کے طورطریقے جاننے اور تجارت و معاملت کے انداز سیکھنے کا موقع ملا۔ یہ تربیت، جس کا موقع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نوعمری ہی میں پیدا ہو گیا، بڑی قدروقیمت کی چیز ہے۔ اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ملک کے بیش تر حصوں کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل ہوئیں۔ پھر مختلف علاقوں کے لوگوں کے مزاج، کردار، نفسیات اور رسوم و رواج کا علم ہوا اور ان سے بات چیت کرنے اور معاملات طے کرنے کا تجربہ حاصل ہوا۔ یہ تربیت اس وقت آپ کے کام آئی جب آپ اللہ کے دین کی دعوت پھیلانے پر مامور ہوئے اور اس سلسلہ میں افراد اور وفود کے ساتھ آپ کے مذاکرات ہونے لگے۔

حمایت مظلوم

اپنے لڑکپن ہی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھے لوگوں کے ساتھ نشست و برخاست کا موقع ملا۔ معاشرہ کے اندر صالح نوجوان آپ کے دوست تھے۔ بڑوں میں بھی اعلیٰ کردار کے مالک لوگوں کے مشوروں اور منصوبوں میں شریک ہونے کا آپ کو موقع ملا۔ جب آپ صرف بیس برس کے تھے تو ان اکابر کے اس حلف میں شریک ہوئے جس کا نام ’حلف الفضول‘ ہے۔ حمایت مظلوم کے لیے قائم اس سوسائٹی کا معاشرے پرنہایت اچھا اثر پڑا اور رحم دلی اور غریبوں کی داد رسی کا چلن عام ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلیٰ مقاصد کے لیے قائم اس سوسائٹی سے جو تربیت پائی اور اس کے لیے جو خدمات سر انجام دیں ، آپ بعد کی زندگی میں بھی ان کا تذکرہ کر کے مسرت حاصل کرتے ۔
نبی کی تربیت کے لیے جہاں اللہ تعالیٰ اس کو سخت حالات میں سے گزارتا ہے، وہیں اپنی غیر معمولی شانیں بھی ظاہر کرتا ہے جن کی بدولت نبی پر کوئی آنچ نہیں آنے پاتی۔ فرعون کی ظالمانہ پالیسیاں اور قتل کی اسکیمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بال بیکا نہ کر سکیں۔ اسی طرح باپ اور ماں، دونوں کی شفقت سے محروم ہونے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب ، تایا زبیر اور ابوطالب نے آپ سے محبت کا رویہ رکھا اور سہارا دیا۔ یتیم بچوں کو معاشرہ بالعموم اٹھنے میں مدد نہیں دیتا۔ کسب معاش میں ان کو غیر معمولی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کسب معاش کی راہیں کھلتی اور آسانیاں پیدا ہوتی گئیں، اگرچہ آپ کو اصل دولت اس غنا کی حاصل تھی جس کا تعلق دل کے احوال سے ہوتا ہے، محض مادی وسائل سے نہیں ہوتا۔ انھی انعامات کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن نے ایک موقع پر حضور کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَاٰوٰی...وَوَجَدَکَ عَاءِلًا فَاَغْنٰی.(الضحیٰ ۹۳ :۶۔۸)
’’کیا اس نے تجھے یتیم نہ پایا تو اس نے ٹھکانا دیا ... اورکیا اس نے تمھیں محتاج نہ پایا تو غنی کر دیا۔‘‘

مقصد یہ تھا کہ آپ ان انعامات کو یاد رکھیں اور ان کے شکریہ کے طور پر ایسا رویہ اختیار کریں کہ جس سے یتیموں کو سرپرستی حاصل ہو، غریبوں اور محتاجوں کے ساتھ ہمدردی اور ان کی خیرخواہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کمزوروں سے مواسات اور ہمدردی، غلاموں کی آزادی کی تدابیر اور یتیموں سے محبت نہایت نمایاں نظر آتی ہے۔

دینی رجحان

نبیوں کی تربیت کا ایک پہلو یہ بھی رہا کہ وہ جس ماحول میں تبلیغ کے لیے مبعوث کیے جانے والے ہوتے اللہ تعالیٰ ان کو اس سے پوری طرح آگاہ کرنے کاسامان کر دیتا۔ وہ اپنے مخاطبوں کے عقائد، محبوبات، کردار کے اچھے اور برے پہلووں اور اخلاقی کمزوریوں سے بخوبی آشنا ہوتے۔ وہ لوگوں کے انداز فکر اور نفسیات کو بھی خوب سمجھتے۔ مثال کے طور پر حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم تجارت پیشہ تھی تو وہ خود بھی اسی پیشہ سے منسلک اور کاروبار میں لوگوں کی بددیانتیوں اور زیادتیوں سے اچھی طرح آگاہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول مبعوث ہونے کے بعد جب انھوں نے اپنی قوم کی پیشہ ورانہ بددیانتیوں کو بے نقاب کر کے ان کو بھلائی کی راہ اختیار کرنے کی دعوت دی تو ان کی قوم نے ان کو یہ طعنہ دیا کہ تم ہمارے کاروبار پر اخلاقی قیدیں لگا کر خود اپنی تجارت چمکاناچاہتے ہو۔ قوم حضرت شعیب علیہ السلام کی معاملہ فہمی اور کاروباری بصیرت سے آگاہ تھی۔ اس لیے لوگ ان سے کہتے کہ ہم تو یہ توقع رکھتے تھے کہ تم اپنے تجربہ و بصیرت سے اپنی پوری قوم کو فائدہ پہنچاؤ گے، لیکن تم تو ہمیں خود اپنے مالوں میں مرضی کا تصرف کرنے سے بھی روکتے ہو۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس خانوادے میں پیدا کیاگیا جو بتوں کا پجاری ہی نہیں، بلکہ بت گر اور بت خانوں کامنتظم بھی تھا۔ اس ماحول میں پرورش پا کر سیدنا ابراہیم بتوں کے لیے قوم کی عقیدت مندیوں اور مشرکانہ عقائد کے ہر ہر پہلو سے واقف ہو گئے۔ چنانچہ انھوں نے بعثت کے بعد جب قوم کو توحید کی دعوت دی تو ایک مرحلہ میں بت خانہ میں اپنی رسائی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قوم کو سبق سکھانے کے لیے انھوں نے ان کے بتوں کو توڑ ڈالا اور ان کو ان کے غلط موقف کا عملی ثبوت پیش کر دیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت چونکہ بنی اسماعیل میں ہونے والی تھی اور آ پ نے ملت ابراہیم کو از سر نو زندہ کرنا تھا، لہٰذا آپ کو بنو اسماعیل کی مرکزی بستی مکہ میں ان کے معزز اور حکمران خانوادے قریش میں پیدا کیاگیا۔ آپ نے اپنی قوم کے بتوں پر انحصار اور ان کی عقیدتوں کے مراجع سے پوری واقفیت حاصل کر لی۔ آپ ملت ابراہیم میں کی گئی خیانتوں پر مطلع ہو گئے۔ مکہ میں پورے عرب سے اکٹھے ہونے والے تمام قبائل کے بارے میں آپ کی معلومات میں بے حد اضافہ ہو گیا جس سے آپ نے نبوت پانے کے بعد بھرپور فائدہ اٹھایا۔
قرآن مجید کا بیان ہے کہ جب قوم پر اتمام حجت کے طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت توڑنے کی کارروائی کی تو قوم نے ان کو سزا دینے کے لیے آگ کا الاؤ تیار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس آگ سے محفوظ رکھا اور ان کو ہجرت کا حکم دیا۔ اس موقع پر جاتے جاتے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم اور اس کے شرک سے برملا اظہار بے زاری کیا۔ یہ اعلان اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آیا کہ اس کو ’کلمۃ باقیۃ فی عقبہ‘ یعنی ان کی نسل میں ایک پائیدار اور باقی رہنے والی روایت کے طور پر زندہ رکھا۔ اچھے اسلاف اپنے اخلاف کو یہ روایت منتقل کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ امتداد زمانہ کے باوجود اور اس حقیقت کے با وصف کہ بنی اسماعیل میں شرک سرایت کر چکا تھا، ایک گروہ دین حنیفی کا پیرو، اپنے جد امجد کی دعوت توحید کا حامل اور ان کی شرک بے زاری کی روایت کا امین رہا۔ یہی وہ گروہ تھا جو زمانۂ جاہلیت میں ’حنیف‘ کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ یہ لوگ بیت اللہ اور اس کے پاس کی جانے والی عبادات کے شیدائی تھے اور ان میں روا رکھی جانے والی بدعات کو ہدف تنقید بناتے تھے۔ دین ابراہیم کی جو روایت اپنی اصل شکل میں ان کے علم میں آتی اس پر کاربند ہوتے۔ ان میں امانت و دیانت، عفت و پاکیزگی، غریبوں سے ہمدردی، ہر خیر میں تعاون اور ہر شر سے اجتناب کی صفات موجود تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نزول وحی سے قبل اسی حنیف گروہ کے ایک نمایاں فرد تھے۔ آپ قوم کی مشرکانہ عبادات اور قبیح سرگرمیوں میں ہرگز حصہ نہ لیتے۔ سچائی، امانت اور دیانت آپ کا شیوہ تھا۔ اس اعتبار سے قوم آپ کی قدردان تھی۔

حقیقت کی جستجو

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسان کی رہنمائی کا اولین ذریعہ اس کی اپنی فطرت کی آواز ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جن شخصیات کو منصب نبوت کے لیے چن لیتا ہے وہ آغاز ہی سے فطرت سلیم کی روشنی سے بہرہ ور ہوتی ہیں۔ یہ لوگ اللہ کی وحدانیت اور آخرت پر اجمالی ایمان رکھنے کے علاوہ اس نیک و بد اور حلال و حرام سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں جس کی تعلیم فطرت کے اندر مرتسم کر دی گئی ہے۔ اس کے باوجود ان کے اندر ایسی آتش شوق فروزاں ہوتی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ حقیقت واشگاف انداز میں ان کے سامنے آئے، وہ پورے شرح صدر کے ساتھ اس کو اپنائیں اور اس کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں۔ سورۂ ہود میں بیان ہوا ہے کہ حضرت صالح اور حضرت شعیب علیہما السلام ،دونوں نے اپنی قوموں کو بتایا کہ ہم رسول بنائے جانے سے پہلے بھی ایک ’بینۃ‘ (واضح دلیل) پر تھے، یعنی پاکیزہ فطرت نے ہمیں اپنے رب کی راہ پر ڈال دیا تھا اور دل پکار پکار کر کہتا تھا کہ یہی حق ہے۔ اسی واضح دلیل کی بنا پر ہم کفروشرک کو غلط قرار دیتے رہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی جانب سے وحی کے رزق حسن سے بہرہ مند کیا تو فطرت کی آواز اور زیادہ بلند آہنگ ہو گئی۔ وحی کی تعلیم نے اس کو مدلل اور روشن تر کر دیا۔ یہ فطرت کے نور پر وحی کے حقیقی نور کا اضافہ تھا۔
یہی بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی درست ہے۔ آپ کی زندگی فطرت سلیم پر گزری۔ شرک کے مرکز میں رہنے کے باوجود شرک کی پرچھائیں بھی آپ پر نہ پڑیں۔ مکہ کے ’حنفاء‘ کے بارے میں روایات میں آیا ہے کہ وہ خانہ کعبہ کی دیوار سے لگ کر رب سے یہ دعا کیا کرتے کہ اے رب، ہمیں معلوم نہیں کہ تیری عبادت کیسے کی جاتی ہے، اگر ہمیں اس کی خبر ہوتی تو ہم اسی طریقہ پر تجھے پوجتے۔ حیرانی اور سرگشتگی کی اس کیفیت سے حضور بھی دوچار تھے جس کی تعبیر قرآن نے ان الفاظ سے کی ہے:

مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتَابُ وَلا الاِیْمَانُ.(الشوریٰ ۴۲: ۵۲)
’’تم نہ کتاب کی حقیقت سے واقف تھے اور نہ ایمان کے بارے میں جانتے تھے۔ ‘‘

اس کا سبب یہ ہے کہ دین کا بنیادی تصور درست بھی ہو، لیکن اس کی تفصیلات سے آدمی آگاہ نہ ہو تب بھی وہ متردد سا رہتا ہے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں معلوم نہیں یہ حقیقت کے مطابق ہے یا نہیں اور اس سے میرا رب راضی ہو رہا ہے یا نہیں۔ اسے اطمینان تب حاصل ہوتا ہے جب وہ راہ بالکل واضح دکھائی دے رہی ہو جس پر اس کو چلنا ہے۔ کتاب آسمانی اس ضرورت کو پورا کرتی ہے کہ وہ مجمل ایمان کے تقاضوں اور مطالبات کو واضح کرتی اور اس کی عملی شکل بتاتی ہے۔ اس کے نزول کے بعد آدمی اپنی فطرت کی رہنمائی کو قابل اعتماد طریقہ سے استعمال کر سکتا اور دینی زندگی اختیار کر سکتا ہے۔ خود نبوت کے منصب کاتقاضا یہ ہوتا ہے کہ نبی دین و شریعت کے فہم میں درجۂ کمال پر فائز ہو۔ ہر حقیقت اس پر اس طرح واضح ہو کہ جیسے وہ اس کو بچشم سر دیکھ رہا ہے۔ جب خود اسے شرح صدر حاصل ہو جاتا ہے تو وہ اپنے مخاطبوں کو پورے یقین و اذعان کے ساتھ تعلیم دینے کے قابل ہوتا ہے۔ جب تک نبی کے اندر ہدایت کی طلب وحی کے ذریعے سے پوری نہیں ہوتی وہ برابر حقیقت کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی ذہنی کیفیت کا تذکرہ قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ:

وَوَجَدَکَ ضَالًا فَھَدٰی.(الضحیٰ ۹۳:۷)
’’اس نے تمھیں جویاے راہ پایا تو راستہ دکھایا۔‘‘

تحنث میں دل چسپی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سرگشتگی کے اس عالم میں دین ابراہیمی کی باقی ماندہ عبادات (نماز، روزہ، طواف، حج اور قربانی وغیرہ) پر عمل کرتے اور اصل حقیقت کو پانے کے لیے برابر غور و فکر کرتے۔ جب اس پر بھی عقدہ نہ کھلا تو آپ کا رجحان بستی سے دور الگ تھلگ رہ کر دھیان و گیان کی جانب ہوا۔ اس کے لیے آپ نے شہر کے ہنگاموں سے ہٹ کر ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع ایک چھوٹے سے غار میں وقت گزارنا اور ابراہیمی طریقہ پر عبادت کرنا شروع کیا۔ اس مقصد کے لیے آپ خورونوش کا سامان لے کر پہاڑ پر چلے جاتے، غار حرا میں بسیرا کرتے اور جب سامان ختم ہو جاتا تو اپنے اہل و عیال میں واپس آ جاتے۔ غار حرا میں آمدوشد کا یہ سلسلہ ایک عرصہ تک جاری رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عبادت کو تحنث کا نام دیا گیا ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تحنث کی اس عبادت میں منفرد نہیں تھے، بلکہ دوسرے لوگ بھی جو دین ابراہیمی کی روایات میں دل چسپی رکھتے تھے ، وہ بھی اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر تحنث کرتے جو بعض صورتوں میں خاصا طویل ہوتا۔ تحنث کی عبادت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک کو وحی کے حصول کے لیے سازگار بنانے میں ابتدائی کام کیا اور وہ قلب صافی تیار کیا جو فرشتۂ وحی سے اقتباس نور کے لیے موزوں تھا۔
تحنث کے بارے میں یہ تصور درست نہیں کہ یہ ریاضت ، مجاہدہ اور مراقبہ کی قسم کی کوئی چیز ہے جو کاہنوں، جادوگروں اور نجومیوں کی تربیت کا حصہ ہوتی ہے اور جس کی تعلیم انھیں ان کے استاد اور گرو دیتے ہیں۔ یہ لوگ ایک منتخب پیشہ میں مہارت حاصل کرنے کے لیے ایک عمر کھپا دیتے ہیں۔ ان کے اس شوق و تمنا سے ایک عالم آگاہ ہوتا ہے۔ ان سے ملنے جلنے والے انھیں تربیت حاصل کرتے، مجاہدے کرتے اور ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ نبوت و رسالت پانے والوں کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ اس میں ان کی اکتساب کی کوئی کوشش نہیں ہوتی، کیونکہ نبوت کا منصب اکتسابی ہے ہی نہیں۔ یہ فضل یزدانی ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے یہ تاج پہنا دے۔ لہٰذا نبی نہ کسی کاشاگرد ہوتا، نہ کسی پیرومرشد سے مراقبوں اور مجاہدوں کی تربیت حاصل کرتا اور نہ اس کے ذہن ہی میں یہ تصور ہوتا ہے کہ وہ نبوت کے منصب پر فائز ہونے کا اہل ہے۔ پھر یہ تجربہ عام انسانی تجربہ بھی نہیں کہ آدمی دوسروں کو دیکھ کر کوئی رائے قائم کر لے۔ اس کا تجربہ انھی کو ہوا جن کو اللہ تعالیٰ اس عزت سے نوازنا چاہتا تھا۔ اسی لیے نبی کے ابتدائی مشاہدات اس کے لیے بالکل غیر مانوس، انوکھے اور عجیب ہوتے ہیں۔ لہٰذا نبی کی تربیت کا ایک پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نبوت کے اسرارورموز کو ان کے لیے مانوس بنانے کے لیے کچھ غیر معمولی حالات سے ان کو دوچار کرے۔

رویاے صالحہ

تحنث کے ذریعے سے صفائی قلب کے مرحلہ سے گزرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں جو تبدیلی آئی وہ یہ تھی کہ آپ کو رویاے صالحہ یعنی اچھے اور خوش خبری کی نوید لانے والے خواب نظر آنے لگے۔ یہ ایسے روشن خواب ہوتے جیسے رات کی تاریکی کے اندر سے صبح نمودار ہو جاتی ہے۔ آپ کی طبع مبارک پر اس کا بہت اچھا اثر پڑتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواب دکھا کر آپ کو آنے والے دنوں کی برکات کے تحمل کے لیے تیار کرنا مقصود تھا تاکہ نبی کا دل و دماغ اور اس کی روح فرشتہ کے ساتھ اتصال اور اقتباس وحی کے لائق ہو جائے۔

روشنی کی ایک کرن

مستند کتب حدیث کی رو سے ایک مرتبہ، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں اپنی معمول کی عبادت میں مصروف اور اللہ سے لو لگائے ہوئے تھے، اچانک ایک فرشتہ نمودار ہوا۔ اس نے آپ کو حکم دیا: ’اقرأ‘ (پڑھو) ۔آپ نے جواب دیا: ’میں پڑھا ہوا نہیں ہوں‘۔ اس پر فرشتہ آپ سے بغل گیر ہو گیا اور اتنے زور سے بھینچا کہ آپ کو تکلیف ہونے لگی۔ پھر اس نے حکم دیا: ’اقرأ‘ (پڑھو)۔ آپ نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے دوبارہ آپ کو سینے سے لگا کر بھینچا جس سے آپ کو بے حد تکلیف ہوئی۔ اس نے چھوڑ کر پھر پڑھنے کو کہا۔ آپ نے پھر وہی جواب دیا۔ فرشتہ نے تیسری مرتبہ سینے سے لگا کر بھینچا اور کہا: ’ اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ. خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اِقْرَا وَ رَبُّکَ الْاَکْرَم‘ (پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ انسان کو پیدا کیا خون کی پھٹکی سے۔ پڑھ اور تیرا رب بڑا ہی کریم ہے)۔ یہ کہہ کر فرشتہ غائب ہو گیا۔
اس واقعہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھبرا گئے اور پریشان ہو کر ایسی حالت میں گھر کو چلے کہ آپ کا جسم کانپ رہا تھا۔ نہایت دہشت زدگی کی کیفیت میں آپ نے اپنی زوجۂ محترمہ سے کہا کہ میرے اوپر چادر اوڑھا دو۔ آپ کی طبیعت قدرے سنبھلی تو زوجۂ محترمہ نے اس دہشت زدگی کا سبب پوچھا۔ آپ نے ان کو واقعہ سنایا اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کاخوف ہے۔ انھوں نے آپ کو تسلی دی کہ آپ رشتہ داروں سے جڑتے ہیں، سچ بولتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، غریبوں کی دست گیری کرتے ہیں، حوادث میں لوگوں سے تعاون کرتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کا رب آپ کی جان خطرے میں ڈالے۔ یہ واقعہ ضرور آپ کے لیے خوش خبری لائے گا۔ پھر انھوں نے مشورہ دیا کہ میرے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل ایک بڑے عالم اور نیک آدمی ہیں۔ وہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے ہیں۔ ان کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا جائے اور اس واقعہ کی حقیقت معلوم کی جائے۔ آپ نے یہ مشورہ پسند کیا۔ آپ ان کے پاس گئے اور تمام روداد سنائی تو انھوں نے کہا کہ میری رائے میں آپ کے پاس وہی فرشتۂ وحی آیا جس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا جاتا تھا۔ پھر کہا:کاش میں توانا ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیامیری قوم میرے ساتھ ایسا سلوک کرے گی؟ تو ورقہ نے کہا کہ ہاں، جو شخص بھی یہ پیغام لے کر آیا اس کی قوم اس کی دشمن ہو گئی۔
ورقہ بن نوفل کا نام بھی مکہ کے حنفا کے گروہ میں شامل ہے۔ وہ ایک حق پرست آدمی تھے۔ تحقیق و جستجو کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ اس وقت اصل دین نصاریٰ کے پاس ہے تو انھوں نے اپنے آبائی مذہب کو خیرباد کہہ کر نصرانیت اختیار کر لی اور اپنے شوق کے باعث عبرانی زبان بھی سیکھی اور تورات کو اس کی اصل زبان میں سمجھنے پر قادر ہو گئے۔ اس بنا پر وہ پیغمبروں کے بارے میں اللہ کی سنت اور ان پیشین گوئیوں سے بھی واقف ہو گئے جو آخری نبی کی بعثت کے بارے میں صحف آسمانی میں موجود تھیں۔ اس دور میں وہ بڑے بوڑھے ہو چکے تھے اور جلد ہی ان کاانتقال ہو گیا۔
اس مستند روایت سے، جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم، دونوں میں معمولی تغیر الفاظ کے ساتھ موجود ہے، چند نتائج اخذ ہوتے ہیں:
۱۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ بیان نہیں کرتے کہ میرے پاس غار حرا میں ایک فرشتہ آیا۔ یہ بیان راوی کا ہے کہ آپ کے پاس فرشتہ آیا۔ فرشتے نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا تعارف نہیں کرایا۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جستجو ہوئی کہ کسی صاحب علم سے رائے لی جائے کہ یہ معاملہ کیاتھا۔ ورقہ بن نوفل نے احوال معلوم کر کے اندازہ لگایا کہ یہ فرشتۂ وحی ہو سکتا ہے۔
۲۔یہ جان لینے کے باوجود کہ علامات فرشتۂ وحی کی آمد کی ہیں، ورقہ بن نوفل نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں کہا کہ آپ اللہ کے رسول مقرر ہوئے ہیں۔ یعنی اس مرحلہ پر انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی یا رسول تسلیم نہیں کیا۔
۳۔ ورقہ بن نوفل کاماضی گواہ ہے کہ وہ ایک حق پرست آدمی تھے۔ حقیقت کی تلاش ہی میں انھوں نے نصرانیت اختیار کی تھی۔ ان پر اگر یہ بات واضح ہوتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ آپ پر ایمان لا کر ایمان میں سبقت کا اعزاز حاصل نہ کرتے، جبکہ وہ حسرت کااظہار کرتے رہے کہ میں ناتوان ہو چکا ہوں، اس کے باوجود اگر میں زندہ رہا تو آپ کی نصرت کرنے میں پیش پیش رہوں گا۔ گویا غار کے واقعہ میں انھوں نے اس بات کے آثار دیکھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آیندہ کسی وقت منصب رسالت سے سرفراز ہو سکتے ہیں۔
۴۔فرشتے کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ صرف اتنا تھا کہ ’اقرأ‘ ۔ یہ لفظ اپنے طور پر پڑھنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور دوسروں کے سامنے پڑھ کر سنانے کے لیے بھی۔ قرآن میں یہ دوسرے مفہوم میں بکثرت آیا ہے۔ اس صورت میں ’اقرأ‘ کا صحیح مفہوم ہو گا کہ لوگوں کو پڑھ کر سناؤ۔ یہ گویا نبی کی ذمہ داری کا بیان ہے کہ جو پیغام آپ کو دیا جائے گا، اسے لوگوں تک پہنچانا ہو گا۔
۵۔فرشتے نے پڑھ کر سنانے کا حکم تو دیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ کیا پڑھنا یاکیا سنانا ہے۔ اس وضاحت کو تشنہ چھوڑ کر وہ غائب ہو گیا، حالاں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم برابر یہ کہتے رہے کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ میں کیا سنا سکتا ہوں۔ دوسرے الفاظ میں سنانے کے لیے کوئی پیغام نہیں دیا گیا۔ اس کے برعکس قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور کے پاس جب ایک درخت پر تجلی دیکھی اور اس کے قریب گئے تو پہلی وحی ہی سے ان کو معلوم ہو گیا کہ وہ منصب رسالت پر فائز کیے گئے ہیں اور انھوں نے توحید و آخرت کے بارے میں لوگوں کے عقائد کو درست کرنا اور ان کے اندر نماز کو رائج کرنا ہے۔ انھیں کسی تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
۶۔فرشتے نے تین بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سینے سے لگا کر بھینچا۔ اس عمل کامقصد اگر یہ تھا کہ آپ کاسینہ کھل جائے اور پڑھنا آ جائے تو یہ مقصد حاصل نہیں ہوا۔ بعد کی زندگی میں بھی آپ لکھنے پڑھنے پر قادر نہیں ہوئے۔ لہٰذا فرشتے کے بھینچنے کا مقصد کچھ اور متعین کرنا پڑے گا۔
۷۔کتب حدیث و سیرت میں یہ شہادت نہیں ملتی کہ واقعۂ حرا کے فوراً بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کی تبلیغ شروع کر دی ہو۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس وقت خود آپ پر اپنی حیثیت واضح نہ تھی اور نہ ہی کوئی پیغام تھا جسے لوگوں کو سنانا تھا۔
ان نکات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ واقعۂ حرا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تجربہ ہوا، یہ بھی آپ کی تربیت ہی کا حصہ تھا۔ فرشتۂ وحی کی شخصیت سے تعارف اس کا اصل مقصدتھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیغام دینا مقصود تھا کہ یہ فرشتہ آیندہ آپ کے پاس آنے والا ہے۔ یہ رب کے پیغام آپ تک پہنچائے گا اور آپ کی ذمہ داری یہ ہو گی کہ ان کو لوگوں تک پہنچائیں۔ لہٰذا یہ بات صحیح نہیں کہ واقعۂ حرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا نقطۂ آغاز تھا اور اس میں پہلی وحی نازل ہوئی تھی۔
جہاں تک فرشتے کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار مخاطب کرنے اور بھینچنے کا تعلق ہے اس کی توجیہ مولانا امین احسن اصلاحی یوں کرتے ہیں:

’’(ایک انسان کے لیے) کسی روحانی طاقت سے اتصال کا موقع بڑا نازک ہوتا ہے۔ اس کے لیے ذہن اور دماغ کو تیار کرنے کے لیے بار بار کی ملاقات، بار بار کی آشنائی اور بار بار کاانس ضروری ہوتا ہے ... فرشتے کا بار بار بھینچنے اور چھوڑنے کا مطلب پوری طرح سے اپنے آپ کو پہچنوا دینا، بے تکلف کر دینا اور اپنی ذات اور آواز سے پیغمبر کو آشنا کر دینا ہو سکتا ہے تاکہ جب دوبارہ ملاقات ہو تو آپ کو اطمینان ہو جائے کہ وہی یار غار آ گیا ہے۔ یہ کوئی شیطانی چیز نہیں۔‘‘ (امین احسن اصلاحی۔ تدبر حدیث۔ شرح صحیح بخاری ۱/ ۲۸، ادارۂ تدبر قرآن و حدیث لاہور، ۲۰۰۲)

مطلب یہ ہوا کہ اس عمل کا مقصد فرشتۂ وحی سے محض تعارف تھا اور اصل وحی کا نزول یا دوسرے الفاظ میں منصب رسالت پر فائز کرنے کا معاملہ آیندہ کی کسی ملاقات پر چھوڑ دیاگیا۔
روایات سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اس کے بعد ایک مدت تک فرشتہ کی آمد نہیں ہوئی۔ اس عرصہ کو فترۃ الوحی یا وحی کے انقطاع کا نام دیا جاتا ہے جو ہمارے نزدیک صحیح نہیں۔ جب پہلی مرتبہ وحی نازل ہی نہیں ہوئی تو اس میں انقطاع کیسے ہو سکتا ہے۔ حقیقت میں وحی کا نقطۂ آغاز فرشتۂ وحی کی آمد ثانی کا موقع ہے جس میں کچھ عرصہ لگا۔
واقعۂ حرا کو جو پہلی وحی کے نزول کا موقع ٹھہرایا جاتا ہے تو اس کی وجہ سورۂ علق کی ابتدائی آیات ہیں جو روایت کی رو سے، فرشتہ نے تیسری مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھینچنے کے بعد پڑھیں۔ اس پر بھی چند سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا تشفی بخش جواب نہیں ملتا۔ مثلاً:
۱۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر پہلی وحی پہنچائی جا چکی تھی تو آپ کے اوپر اپنے رسول ہونے کا معاملہ مشتبہ کیوں رہ گیا کہ آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس جا کر پوچھنا پڑا کہ میرے ساتھ یہ کیا معاملہ ہوا ہے۔ آپ کو تو پورے یقین و اذعان کے ساتھ کہنا چاہیے تھا کہ میرے اوپر وحی ان الفاظ میں نازل ہوئی اور مجھے اس کو پڑھ کر سنانے کا حکم ہوا ہے۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔
۲۔حضرت موسیٰ علیہ السلام پر پہلی وحی نازل ہوئی تو دین کے بنیادی امور آپ کو بتا دیے گئے اور ذمہ داری کی نوعیت کے لحاظ سے ہدایات دے دی گئیں۔ اس کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر سورۂ علق کی ابتدائی آیات دی گئیں تو ان میں یہ ہدایت تو ضرور ہے کہ پڑھ کر سنائیں، لیکن پیغام کوئی نہیں ہے۔ محض اللہ تعالیٰ کی چند صفات ان آیات سے اخذ کی جا سکتی ہیں۔
۳۔سورۂ علق کی آیات کے پہلی وحی ہونے کو امت نے بالاتفاق تسلیم نہیں کیا۔ صحیح مسلم میں یحییٰ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ میں نے ابوسلمہ سے سوال کیا کہ قرآن کا کون سا حصہ پہلے نازل ہوا۔ انھوں نے کہا: ’یایھا المدثر‘۔ میں نے کہا: ’اقرأ‘ سب سے پہلے نازل نہیں ہوئی؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں نے یہی سوال جابر بن عبداللہ سے کیا تھا تو ان کا جواب تھا: ’یایھا المدثر‘۔ جب میں نے پوچھا کہ ’اقرأ‘ پہلے نازل نہیں ہوئی تو انھوں نے جواب دیا کہ میں وہ کچھ بیان کر رہا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔( صحیح مسلم، باب بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۸۰)
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تابعین کے زمانہ ہی میں یہ اختلاف سامنے آ گیا تھا، بعض لوگ ’اقرأ‘ کو اولین وحی قرار دیتے تھے اور دوسرے لوگ رسول اللہ کے حوالہ سے ’یایھا المدثر‘ کو پہلی وحی مانتے تھے۔ دیکھا جائے تو مدثر کی ابتدائی آیات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض احکام دیے گئے ہیں اور تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ اقرا کی آیات میں یہ بات نہیں۔
ان نکات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ابتداے وحی کی روایت کا آخری حصہ، جس میں سورۂ علق کی آیات نقل کی گئی ہیں، کچھ قابل اعتماد نہیں ہے۔ اس بارے میں مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے بڑی اہم اور دل کو بھاتی ہے۔ وہ اس کی توجیہ یوں کرتے ہیں:
’’ رب کے نام سے پڑھ کر سنانے کی ہدایت میں ایک اہم نکتہ پوشیدہ ہے۔ وہ یہ کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قدیم صحیفوں میں جو پیشین گوئی کی گئی ہے، اس کا خاص پہلو یہ ہے کہ آخری نبی جب آئے گا تو اپنے رب کے نام سے سنائے گا ... (یہاں مولانا نے کتاب استثناء (۸:۱۸۔۱۹) کی عبارت نقل کی ہے جو مذکورہ پیشین گوئی پر مشتمل ہے) ... اگر فرشتے کا جواب ’اقرأ باسم ربک‘ تک محدود مانا جائے تو یہ مذکورہ پیشین گوئی کے پورا ہونے کی خبر ہے۔ اس صورت میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا بھی ٹھیک ہے کہ میں تو جانتا نہیں کہ مجھے لوگوں کو کیا سنانا ہے اور فرشتے کا یہ بتانا بھی معنی خیز ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے نام سے سنانا ہے۔ وہی آپ کو بتائے گا کہ آپ کیا سنائیں۔ میرے خیال میں فرشتے کاجواب ’اقرأ باسم ربک‘ تک ہی تھا اور اس کا مقصد پیغمبر کو خدا کا کلام خلق کو سنانے کے لیے تیار کرنا تھا۔‘‘ ( امین احسن اصلاحی، تدبر حدیث ، شرح صحیح بخاری ۱/۲۹)

حضور کی گھبراہٹ

ایک سوال اس واقعہ سے یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی مرتبہ فرشتہ کا سامنا ہونے پرحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر گھبراہٹ کیوں طاری ہو گئی کہ آپ کو تحنث چھوڑ کر انتہائی سراسیمگی اور خوف زدگی کے عالم میں گھر جانا پڑا اور حواس بحال ہونے کے بعد آپ اس قابل ہوئے کہ زوجۂ محترمہ کو تمام احوال کی خبر دے سکیں۔ ہمارے نزدیک اس کا سبب یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی آرزو اور منصوبہ بندی کے خالی الذہن ہو کر عبادت میں مصروف تھے۔ یہ موہبت ربانی یکایک ہوئی جس کی توقع آپ کو پہلے سے نہیں تھی۔ لہٰذا اس نامانوس اور انوکھے تجربہ سے آپ گھبرا گئے۔ فوری طور پر اس کا مقصد بھی آپ کو نہیں بتایا گیا اور نہ اس کے اسرار و رموز پر آپ مطلع ہو سکے۔
یہاں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تربیت کے مرحلہ سے گزر رہے تھے۔ اس کے برعکس حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معلوم ہو چکا تھا کہ آپ رسول مبعوث کیے جا چکے ہیں۔ آپ کو ہدایات تک بھی دے دی گئیں۔ لیکن جب عصا کا معجزہ عنایت کیا گیا تو وہ گھبرا کر موقع سے دوڑ پڑے اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی لاٹھی حقیقی سانپ کی صورت اختیار کر لے گی۔ چنانچہ ان کو تسلی دی گئی کہ میرے ہاں اللہ کے رسول خوف زدہ نہیں ہوا کرتے۔
رسول کی یہ کیفیت بالکل عارضی ہوتی ہے۔ جب وہ وحی کے تجربات سے بار بار گزرتا ہے تو اس کو پوری طرح شرح صدر حاصل ہو جاتا ہے کہ جو مشاہدے اس کو ہو رہے ہیں، یہ من جانب اللہ ہیں اور وہ ایک خاص فریضہ ادا کرنے پر مامور کیا جا رہا ہے۔

۱؂ صحیح مسلم، کتاب الامارہ۔ باب فضیلۃ الامام العادل ۲/ ۱۲۵۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت مارچ 2007
مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Sep 09, 2016
3037 View