اسلام سے قریش کی وحشت کے اسباب - خالد مسعود

اسلام سے قریش کی وحشت کے اسباب

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

(جناب خالد مسعود صاحب کی تصنیف ’’حیات رسول امی‘‘ سے انتخاب)

 

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے قریش کو جو وحشت ہوتی تھی، اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ بیت اللہ کے متولی ہونے کے حوالے سے انھوں نے جو دین رائج کر رکھا تھا، وہ وہ نہیں تھا جس کی تعلیم حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دی تھی۔ اسلام کی دعوت اس خود ساختہ نظام پر تنقید کے نشتر چلاتی تھی۔ بیت اللہ پر قریش کے قابض رہنے کے جواز کو اس نے چیلنج کر دیا تھا۔ قریش محسوس کرتے کہ اگر یہ دعوت قوت پکڑتی گئی تو یہ کامیاب ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں ان کا دینی پیشوائی کا نظام زمین بوس ہو جائے گا اور ملک میں ان کی مقتدر حیثیت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
قریش نے ابراہیمی تصور توحید کو خیرباد کہہ کر بت پرستی کو جو اہمیت دے رکھی تھی، اس کا فائدہ ان کو یوں پہنچتا تھا کہ وہ عرب کے تمام قبائل کے بتوں کو خانہ کعبہ میں جگہ مہیا کر کے ان کو اپناوفادار بنا سکتے تھے۔ یہ وہی ذہنیت ہے جس کے تحت ہندوستان میں ہندووں نے گوتم بدھ کے بتوں کو اپنے معاشرہ میں جگہ دے کر بدھوں کو اپنے ساتھ ملایا اور ان کی انفرادیت ختم کر کے بدھ مت کو دیس نکالا دے دیا۔ ہر قبیلہ کابت کعبہ میں لا لا کر رکھنے کے نتیجہ میں پورا عرب قریش کو نظام شرک کا محافظ سمجھتا تھا اور اس کے بدلے میں ان کو تجارت اور اپنے علاقے میں سے گزرنے پر ان کو راہ داری کی سہولتیں مہیا کرتا تھا۔ ابراہیمی تصور توحید کو اختیار کرنے کی صورت میں یہ فوائد معرض خطر میں پڑ سکتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت نے قریش کے ایک ایک انحراف اور ہر ہر بدعت کو بالکل نمایاں کر کے رکھ دیا جس سے قریش پریشان ہو کر رہ گئے۔ یہاں مختصر طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے ان عناصر کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت ہے جو قریش کے نظریات پر تنقید کی نوعیت کے تھے۔

شرک اور بت پرستی پر گرفت

چونکہ قریش اپنی ہر بدعت اور تصور دین کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب کرتے تھے، اس لیے سیدنا ابراہیم کے اسوہ کو قرآن میں کئی مقامات پر اجاگر کر کے بتایا گیا کہ ان کو شرک اور بت پرستی سے شدید نفرت تھی اور اسی نفرت کے باعث انھوں نے اپنی قوم سے ٹکر لی اور بالآخر اپنے وطن سے ہجرت کر کے نکل آئے:

وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰھِیمَ. اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا. اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَلَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْءًا. یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآءَ نِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَالَمْ یَاْتِکَ فَاتَّبِعْنِیْٓ اَھْدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا. یٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰنَ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِیًّا. یٰٓاَبَتِ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یَّمَسَّکَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ فَتَکُوْنَ لِلشَّیْطٰنِ وَلِیًّا. قَالَ اَرَاغِبٌ اَنْتَ عَنْ اٰلِھَتِیْ یٰٓاِبْرٰھِیْمُ لَءِنْ لَّمْ تَنْتَہِ لَاَرْجُمَنَّکَ وَاھْجُرْنِیْ مَلِیًّا.(مریم ۱۹: ۴۱۔۴۶)
’’اور کتاب میں ابراہیم کی سرگزشت کو یاد کرو۔ بے شک وہ راست باز اور نبی تھا۔ یاد کرو، جبکہ اس نے اپنے باپ سے کہا کہ اے میرے باپ، آپ ایسی چیزوں کی پرستش کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ دیکھتی ہیں اور نہ وہ کچھ آپ کے کام آنے والی ہیں۔ اے میرے باپ، میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں ہے تو آپ میری پیروی کریں، میں آپ کو سیدھی راہ دکھاؤں گا۔ اے میرے باپ، شیطان کی پرستش نہ کیجیے۔ بے شک شیطان خداے رحمان کا بڑا ہی نافرمان ہے۔ اے میرے باپ، مجھے ڈر ہے کہ آپ کو خداے رحمان کا کوئی عذاب آ پکڑے اور آپ شیطان کے ساتھی بن کر رہ جائیں۔ وہ بولا: اے ابراہیم، کیا تم میرے معبودوں سے برگشتہ ہو رہے ہو؟ اگر تم باز نہ آئے تو میں تمھیں سنگ سار کر دوں گا۔ تم مجھ سے ہمیشہ کے لیے دور ہو جاؤ۔‘‘

ان آیات میں بتوں کی پوجا کو ایک بے فائدہ حرکت بتایا گیا ہے جو شیطان کی عبادت کے حکم میں ہے۔ اس حرکت کے باعث آدمی اللہ کے عذاب سے دوچار ہو سکتا ہے۔ سیدھی راہ اس سے بالکل الگ پیغمبر کی اطاعت سے ملتی ہے:

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّاجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ. رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ. رَبَّنَآ اِنِّیْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْءِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ. رَبَّنَآ اِنَّکَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِیْ وَمَا نُعْلِنُ وَمَا یَخْفٰی عَلَی اللّٰہِ مِنْ شَیْءٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ.(ابراہیم ۱۴: ۳۵۔۳۸)
’’اور یاد کرو، جب ابراہیم نے دعا کی: اے میرے رب، اس سرزمین کو پرامن بنا اور مجھ کو اور میری اولاد کو اس بات سے محفوظ رکھ کہ ہم بتوں کو پوجیں۔ اے میرے رب، ان بتوں نے لوگوں میں سے ایک خلق کثیر کو گمراہ کر رکھا ہے تو جو میری پیروی کرے، وہ تو مجھ سے ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو بخشنے والا مہربان ہے۔ اے ہمارے رب، میں نے اپنی اولاد میں سے ایک بن کھیتی کی وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے۔ اے ہمارے رب، تاکہ وہ نماز کا اہتمام کریں تو تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور ان کو پھلوں کی روزی عطا فرما تاکہ وہ تیرا شکر ادا کریں۔ اے ہمارے رب، تو جانتا ہے جو ہم پوشیدہ رکھتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں۔ اور اللہ سے کوئی چیز مخفی نہیں، نہ زمین میں اور نہ آسمان میں۔‘‘

ان آیات میں شرک و بت پرستی سے نفرت ہر ہر لفظ سے عیاں ہے۔ پھر بیت اللہ کی ذمہ داریوں کی یاددہانی ہے جن سے قریش غافل تو تھے ہی، وہ بدعات کو رواج دیے ہوئے تھے۔ قرآن کی یہ باتیں قریش کو کہاں ہضم ہو سکتی تھیں اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی وضاحتیں کرتے ہوں گے تو قریش کو اپنے پیروں کے نیچے سے زمین کیوں نہ کھسکتی ہوئی محسوس ہوتی ہو گی؟

حقیقت توحید

قرآن نے اس حقیقت کو بھی آشکارا کیا کہ اس کائنات میں شکر کے لائق ذات صرف اللہ کی ہے، کیونکہ انسان اسی کی دی ہوئی نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے، لہٰذا نجات اللہ کے ان بندوں کو حاصل ہوتی ہے جن کو وہ نبیوں کا ساتھ دینے کے لیے منتخب فرما لیتا ہے۔ قرآن نے متعدد نعمتیں گنوا کر سوال کیا کہ کیا ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی ہے جس کو خدا کے کسی شریک کی طرف منسوب کیا جا سکے یا جس کی بنا پر شریکوں کو عبادت کے لائق سمجھا جا سکے:

قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی. اآللّٰہُ خَیْرٌ اَمَّا یُشْرِکُوْنَ. اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَنْبَتْنَا بِہٖ حَدَآءِقَ ذَاتَ بَھْجَۃٍ مَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُنْبِتُوْا شَجَرَھَا. ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ. بَلْ ھُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَ. اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّجَعَلَ خِلٰلَھَآ اَنْھٰرًا وَّجَعَلَ لَھَا رَوَاسِیَ وَجَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزًا. ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ. بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ. اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓءَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ. ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ. قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ. اَمَّنْ یَّھْدِیْکُمْ فِیْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ یُّرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ. ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ. تَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ. اَمَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ. ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ. قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ. قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ. وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ.(النمل ۲۷: ۵۹۔۶۵)
’’کہو کہ شکر کا سزاوار اللہ ہے۔ اور اس کے ان بندوں پر سلامتی و رحمت ہے جن کو اس نے برگزیدہ کیا۔ کیااللہ بہتر ہے یا وہ چیزیں جن کو یہ شریک ٹھہراتے ہیں؟ (کیا تمھارے یہ معبود بہتر ہیں) یا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمھارے لیے جس نے آسمان سے پانی اتارا، پس ہم نے اس پانی سے خوش منظر باغ اگائے۔ تمھارے امکان میں نہ تھا کہ تم ان کے درختوں کو اگا سکتے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ بلکہ یہ راہ حق سے انحراف اختیار کرنے والے لوگ ہیں۔
(کیا تمھارے یہ اصنام سزاوار شکر ہیں) یا وہ جس نے زمین کو ٹھکانا بنایا اور جس نے اس کے درمیان نہریں جاری کیں اور اس کے لیے اس نے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان جس نے پردہ ڈال دیا؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے، بلکہ ان کے اکثر لوگ نہیں جانتے۔
(کیا تمھارے یہ شرکا مستحق عبادت ہیں) یا وہ جو محتاج کی داد رسی کرتا ہے، جبکہ وہ اس کو پکارتا ہے، اور اس کے دکھ دور کرتا ہے اور تم کو زمین کی وراثت دیتا ہے،کیااللہ کے سوا کوئی اور معبود بھی ہے؟ بہت ہی کم تم لوگ یاد دہانی حاصل کرتے ہو!
(کیا تمھارے یہ دیوی دیوتا لائق پرستش ہیں) یا وہ جو بروبحر کی تاریکیوں میں تمھاری رہنمائی کرتا ہے اور جو ہواؤں کو اپنے باران رحمت سے پہلے خوش خبری بنا کر بھیجتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ اللہ بہت ہی برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔
(کیا تمھارے مزعومہ شفعا لائق بندگی ہیں)یا وہ جو خلق کا آغاز کرتا ہے، پھر اس کا اعادہ کرے گا اور جو تم کو آسمان اور زمین سے روزی دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ کہو کہ تم اپنی دلیل لاؤ اگر تم سچے ہو! کہہ دو کہ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں، اللہ کے سوا کسی کو بھی غیب کا علم نہیں ہے اور انھیں پتا بھی نہیں کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘

جب اس طرح دو ٹوک انداز میں کسی کے عقائد کو بے بنیاد قرار دیا جا رہا ہو تو مخالفت میں اس کا خون کیوں کھولنے نہیں لگے گا!

فرشتوں اور جنات کی پوزیشن

اہل عرب فرشتوں اور جنات کو خدا کی ذات میں شریک کرتے یا پھر اس کے حقوق و صفات میں ان کو اس کاساجھی ٹھہراتے۔ وہ ان سے نفع و ضرر وابستہ کرتے اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے جتن کر کے ان سے بڑی امیدیں باندھ لیتے۔ فرشتوں کو تو وہ خدا کی بیٹیوں کی حیثیت دیتے، جبکہ جنات اور خدا کے درمیان رشتہ مانتے۔ قرآن نے ان تصورات کے تار و پود بکھیر دیے اور واضح کیا کہ فرشتے ہوںیا جنات، دونوں کو اپنی اوقات خوب معلوم ہے۔ وہ شریک خدا ہونے کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتے۔ وہ بھی خدا کی بندگی کر کے ہی رب کو راضی کر سکتے ہیں اور یہی اصول انسانوں کے لیے بھی ہے:

فَاسْتَفْتِہِمْ اَلِرَبِّکَ الْبَنَاتُ وَلَھُمُ الْبَنُوْنَ. اَمْ خَلَقْنَا الْمَلآءِکَۃَ اِنَاثًا وَّھُمْ شٰھِدُوْنَ. اَلَآ اِنَّھُمْ مِّنْ اِفْکِھِمْ لَیَقُوْلُوْنَ وَلَدَ اللّٰہُ وَاِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ. اَصْطَفَی الْبَنَاتِ عَلَی الْبَنِیْنَ. مَالَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ. اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ. اَمْ لَکُمْ سُلْطٰنٌ مُّبِیْنٌ. فَاْتُوْا بِکِتٰبِکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ. وَجَعَلُوْا بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ الْجِنَّۃِ نَسَبًا. وَلَقَدْ عَلِمَتِ الْجِنَّۃُ اِنَّہُمْ لَمُحْضَرُوْنَ. سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوْنَ. اِلَّا عِبَادَ اللّٰہِ الْمُخْلَصِیْنَ. فَاِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ بِفٰتِنِیْنَ. اِلَّا مَنْ ھُوَ صَالِ الْجَحِیْمِ. وَمَا مِنَّآ اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ. وَّاِنَّا لَنَحْنُ الصَّآفُّوْنَ.وَاِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُوْنَ.(الآّٰفّٰت ۳۷: ۱۴۹۔۱۶۶)
’’ان سے پوچھو: کیا تیرے رب کے لیے بیٹیاں ہیں اور ان کے لیے بیٹے؟ کیا ہم نے فرشتوں کو عورتیں بنایا اور وہ دیکھ رہے تھے؟ یہ لوگ محض من گھڑت طور پر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ خدا نے اولاد بنائی ہے اور یہ بالکل جھوٹے ہیں۔ کیا اس نے بیٹوں پر بیٹیوں کو ترجیح دی؟ تمھیں کیا ہو گیا ہے۔ تم کیسا فیصلہ کرتے ہو! کیا تم ہوش سے کام نہیں لیتے؟ کیا تمھارے پاس واضح حجت ہے؟ پس پیش کرو تم اپنی کتاب اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔
اور انھوں نے خدا اور جنوں کے درمیان بھی رشتہ جوڑ رکھا ہے۔ اور جنوں کو خوب پتا ہے کہ وہ عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ اللہ پاک ہے ان باتوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں۔ بجز ان کے جو اللہ کے خاص بندے ہیں۔ پس تم اور جن کو تم پوجتے ہو خدا سے برگشتہ نہیں کر سکتے، مگر انھی کو جو جہنم میں پڑنے والے ہیں۔
اور ہم (فرشتوں) میں سے ہر ایک کے لیے ایک معین مقام ہے اور ہم تو خدا کے حضور بس صف بستہ رہنے والے ہیں اور ہم تو اس کی تسبیح کرتے رہنے والے ہیں۔‘‘

آخرت کا تصور

اہل عرب آخرت کے معاملہ میں نہایت غیر سنجیدہ تھے۔ وہ اس کو ایک غیر یقینی امر سمجھتے۔ قرآن نے اس کے دل نشین دلائل بھی دیے اور اس صورت حال سے بھی پردہ اٹھایا جو آخرت کے واقع ہونے پر مجرموں اور رسولوں کو جھٹلانے والوں کو پیش آئے گی:

اَللّٰہُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ. وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ. وَلَمْ یَکُنْ لَّھُمْ مِّنْ شُرَکَآءِھِمْ شُفَعآؤُا وَکَانُوْا بِشُرَکَآءِھِمْ کٰفِرِیْنَ. وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یَوْمَءِذٍ یَّتَفَرَّقُوْنَ. فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ فَہُمْ فِیْ رَوْضَۃٍ یُّحْبَرُوْنَ. وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَلِقَآئِ الْاٰخِرَۃِ فَاُولٰٓءِکَ فِی الْعَذَابِ مُحْضَرُوْنَ.(الروم ۳۰: ۱۱۔۱۶)
’’اللہ ہی خلق کا آغاز کرتا ہے ۔ پھر وہ اس کا اعادہ کرے گا۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ اور جس دن قیامت واقع ہو گی تو مجرم اس دن مایوس ہو جائیں گے اور ان کے شریکوں میں سے کوئی ان کے لیے سفارش کرنے والا نہیں بنے گا۔ اور وہ اپنے شریکوں کا انکار کریں گے۔
اور جس دن قیامت واقع ہو گی، مومن اور کافر الگ الگ ہو جائیں گے۔ پس جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہوں گے، وہ تو ایک شان دار باغ میں مسرور ہوں گے۔ رہے وہ جنھوں نے کفر کیا اور ہماری آیات اور آخرت کی ملاقات کی تکذیب کی تو وہ عذاب میں پکڑے ہوئے ہوں گے۔‘‘

وَیَقُوْلُ الْاِنْسَانُ ءَ اِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ اُخْرَجُ حَیًّا. اَوَلَا یَذْکُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ یَکُ شَیْءًا. فَوَرَبِّکَ لَنَحْشُرَنَّھُمْ وَالشَّیٰطِیْنَ ثُمَّ لَنُحْضِرَنَّھُمْ حَوْلَ جَھَنَّمَ جِثِیًّا. ثُمَّ لَنَنْزِعَنَّ مِنْ کُلِّ شِیْعَۃٍ اَیُّھُمْ اَشَدُّ عَلَی الرَّحْمٰنِ عِتِیًّا. ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِیْنَ ھُمْ اَوْلٰی بِھَا صِلِیًّا. وَ اِنْ مِّنْکُمْ اِلَّا وَارِدُھَا کَانَ عَلٰی رَبِّکَ حَتْمًا مَّقْضِیًّا.(مریم ۱۹: ۶۶۔۷۱)
’’اور انسان کہتا ہے کہ کیا جب میں مر جاؤں گا تو پھر زندہ کر کے نکالا جاؤں گا۔ کیا یہ انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ ہم نے اس کو اس سے پہلے پیدا کیا، دراں حالیکہ وہ کچھ بھی نہ تھا۔ پس تیرے رب کی قسم، ہم ان کو بھی اور شیطانوں کو بھی ضرور اکٹھا کریں گے، پھر ہم ان کو جہنم کے گرد اس طرح حاضر کریں گے کہ وہ دوزانو بیٹھے ہوئے ہوں گے۔ پھر ہم ہر گروہ میں سے ان لوگوں کو چھانٹ کر الگ کریں گے جو خداے رحمان سے سب سے زیادہ سرکشی کرنے والے رہے ہوں گے۔ پھر ہم ان لوگوں کے سب سے زیادہ جاننے والے ہوں گے جو اس جہنم میں داخل ہونے کے سب سے زیادہ سزاوار ہوں گے۔ اور (ان کو حکم دیں گے کہ) تم میں سے ہر ایک کو بہرحال اس میں داخل ہونا ہے۔ یہ تیرے رب کے اوپر ایک طے شدہ امر واجب ہے۔‘‘

وہ صنادید قریش ، جو تکبر اور رعونت کے باعث کسی کو بھی خاطر میں لانے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے ، اپنے بارے میں یہ سن کر کہ وہ اکابر مجرمین کی صف میں کھڑے ہوں گے اور ان کو اپنی سرکشی کی سزا بھگتنی ہو گی، اس دعوت کے تیوروں سے کیوں نہ برافروختہ ہوتے ۔ اس کا تو ہر ہر لفظ ان کے لیے ناقابل برداشت اور تن بدن میں آگ لگانے والا رہا ہو گا۔

احکام و آداب حج

قریش کے ہاتھوں میں مسجد حرام اور حج و عمرہ کی عبادت کا انتظام تھا۔ وہ یہ کام اپنی دینی ذمہ داری سمجھ کر بڑی محنت سے سرانجام دیتے، لیکن صدیوں سے جو انحراف وہاں کے طور طریقوں میں در آیا تھا، اس سے احکام خداوندی نظرانداز ہوتے، لہٰذا قریش کو ان معاملات میں بے اعتنائی برتنے سے روکا گیا۔ احکام و آداب حج نئے سرے سے دیے گئے جس سے وہ راہ پھر سے روشن ہو گئی جس پر صدیوں سے تاریکیوں نے ڈیرے جما رکھے تھے:

وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْءًا وَّ طَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآءِفِیْنَ وَالْقَآءِمِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ. وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ. لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ. فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْبَآءِسَ الْفَقِیْرَ. ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ. ذٰلِکَ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ. وَاُحِلَّتْ لَکُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰیعَلَیْکُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ. حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہٖ. وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْ تَھْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ. ذٰلِکَ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآءِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ.(الحج ۲۲: ۲۶۔۳۲)
’’اور یاد کرو جبکہ ہم نے ابراہیم کے لیے ٹھکانا بنایا بیت اللہ کی جگہ کو، اس ہدایت کے ساتھ کہ کسی چیز کو میراشریک نہ ٹھہرائیو اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھیو۔ اور لوگوں میں حج کی منادی کرو۔ وہ تمھارے پاس آئیں گے پیادہ بھی اور نہایت لاغر اونٹنیوں پر بھی جو دور دراز گہرے پہاڑی راستوں سے پہنچیں گی۔ تاکہ لوگ اپنی منفعت کی جگہوں پر بھی پہنچیں اور چند خاص دنوں میں ان چوپایوں پر اللہ کا نام بھی لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں۔ پس اس میں سے کھاؤ اور فاقہ کش فقیروں کو کھلاؤ۔ پھر وہ اپنے میل کچیل دور کریں، اپنی نذریں پوری کریں اور بیت قدیم کا طواف کریں۔ ان امور کا اہتمام رکھو اور جو حرمات الٰہی کی تعظیم کرے گا تو اس کے رب کے نزدیک یہ اس کے حق میں بہتر ہے۔ اور تمھارے لیے چوپائے حلال ٹھہرائے گئے ہیں بجز ان کے جو تمھیں پڑھ کر سنا دیے گئے ہیں۔ تو بتوں کی گندگی سے اجتناب کرو اور جھوٹ بات سے بچو۔ اللہ ہی کی طرف یک سو رہو، کسی کو اس کاشریک نہ ٹھہراؤ اور جو اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے، اس کی مثال یوں ہے کہ وہ آسمان سے گرے اور پرندے اس کو اچک لیں یا ہوا اس کو کسی دور دراز جگہ میں لے جاپھینکے۔ ان امور کا اہتمام رکھو اور جو اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے تو یاد رکھے کہ یہ چیز دل کے تقویٰ سے تعلق رکھنے والی ہے۔‘‘

مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے جن مقاصد کے لیے یہ گھر تعمیر کیا تھا، وہ مقاصد تم نے برباد کر دیے۔ بتوں کے تعلق سے شرک کی جو گندگی تم نے اپنے اوپر لاد رکھی ہے، اس سے بچو اور اپنے جی سے چیزوں کو حرام یا حلال ٹھہرانے سے اجتناب کرو۔ حج کے تمام مناسک کی ادائیگی شرک کے ہر شائبہ سے پاک ہونی ضروری ہے۔ بیت اللہ کے شعائر کی تعظیم کا حق محض ظاہر داری سے ادا نہیں ہو سکتا، اس کے لیے دل کا تقویٰ مطلوب ہے۔
قرآن نے طواف کے دوران عریانی کو عبادت کا جز قرار دینے کی بدعت کو شیطنت قرار دیا اور بتایا کہ برہنگی سراسر بے حیائی ہے، جس کا حکم خدا کبھی نہیں دے سکتا، لہٰذا مسجدوں میں پورے لباس میں آیا کرو:

وَاِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْھَآ اٰبَآءَ نَا وَاللّٰہُ اَمَرَنَا بِھَا. قُلْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ. اَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَالَا تَعْلَمُوْنَ.... یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ. قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ. قُلْ ھِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ. کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ.(الاعراف ۷: ۲۸، ۳۱۔۳۲)
’’اور جب یہ لوگ سنگین بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم نے اسی طریق پر اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور خدا نے ہمیں اسی کا حکم دیا ہے۔ کہہ دو اللہ کبھی بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔ کیا تم لوگ اللہ پر وہ تہمت جوڑتے ہو جس کے باب میں تم کو کوئی علم نہیں؟...اے بنی آدم، ہر مسجد کی حاضری کے وقت اپنے لباس پہنو اور کھاؤ پیو، البتہ اسراف نہ کرو۔ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پوچھو، کس نے حرام ٹھہرایا ہے اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی اور رزق کی پاکیزہ چیزوں کو، کہہ دو کہ وہ دنیا کی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں اور آخرت میں تو وہ خاص انھی کا حصہ ہوں گی۔ اسی طرح ہم اپنی آیات کی تفصیل کر رہے ہیں، ان لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں۔‘‘

یاد رہے کہ یہ تبصرے اس دین پر ہیں جو قریش نے رائج کر رکھا تھا اور جس میں عریاں طواف بھی جز دین تھا۔ اس دین کے متعلق ان کا دعویٰ یہ تھا کہ یہ ابراہیمی دین کی وراثت ہے جو ہمارے بزرگوں کو ملی تھی۔ قرآن نے اس کو سراسر تہمت قرار دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ کبھی برائی اور بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔ ایسی نسبت اس کی طرف کرنا بھی سوء ادب ہے۔

کھیتی اور جانوروں میں حرام و حلال

حلال و حرام کے ضمن میں مشرکین نے بہت سی بدعات اختیار کر رکھی تھیں۔ وہ ان کو ابراہیمی دین کا ورثہ سمجھتے۔ فرمایا کہ تمھاری یہ سب باتیں بے سند ہیں، لہٰذا جو چیزیں اصلاً حلال ہیں،اگر ان پر ذبح کے وقت اللہ کا نام لے لیا جائے تو ان کو بلا تکلف کھاؤ، لیکن وہ جانور جو تھانوں اور استھانوں پر غیراللہ کے نام پر ذبح کیے جاتے ہیں، ان کا کھانا حرام ہے:

فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ بِاٰیٰتِہٖ مُؤْمِنِیْنَ. وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاْکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ قَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَااضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ. وَاِنَّ کَثِیْرًا لَّیُضِلُّوْنَ بِاَھْوَآءِھِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ. اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِیْنَ. وَذَرُوْا ظَاھِرَ الاِثْمِ وَباطِنَہٗ. اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ. وَلَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ. وَاِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰی اَوْلِیٰٓءِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْھُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ.(الانعام ۶: ۱۱۸۔۱۲۱)
’’پس تم کھاؤ ان چیزوں میں سے جن پر خدا کا نام لیا گیا ہو، اگر تم اس کی آیات پر ایمان رکھنے والے ہو۔ اور تم کیوں نہ کھاؤ، ان چیزوں میں سے جن پر خدا کا نام لیا گیا ہو، جبکہ اس نے وہ چیزیں جو تم پر حرام ٹھہرائی ہیں، تفصیل سے بیان کر دی ہیں، اس استثنا کے ساتھ جس کے لیے تم مجبور ہو جاؤ۔ اور بے شک، بہتیرے ایسے ہی ہیں جو لوگوں کو کسی علم کے بغیر اپنی بدعات کے ذریعے سے گمراہ کر رہے ہیں۔ ان حد سے بڑھ جانے والوں سے تیرا رب خوب واقف ہے۔اور چھوڑو گناہ کے ظاہر کو بھی اور اس کے باطن کو بھی۔ بے شک جو لوگ گناہ کما رہے ہیں، وہ عنقریب اپنی اس کمائی کا بدلہ پائیں گے۔ اور تم نہ کھاؤ ان چیزوں میں سے جن پر خدا کا نام نہ لیا گیا ہو۔ اور بے شک یہ حکم عدولی ہے۔ اور شیاطین القا کر رہے ہیں اپنے ایجنٹوں کو تاکہ وہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم ان کا کہا مانو گے تو تم بھی مشرک ہو جاؤ گے۔‘‘


مطلب یہ ہے کہ شرک کے عقیدہ کے تحت تم نے بدعات کاایک جال بچھا رکھا ہے۔ ان بدعات کے مطابق جانوروں پر ذبح کے وقت اللہ کا نام لینے سے بھی اجتناب کرتے ہو اور تمھارا انحصار موہوم شریکوں پر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ رب العزت سے اس بے اعتنائی کی تعلیم ابراہیم علیہ السلام نے کبھی نہیں دی۔ اسی طرح ابراہیمی شریعت کے لحاظ سے بہت سے جانوروں میں حرمت کا کوئی پہلو موجود نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود چونکہ وہ تمھاری بدعات کے تحت حرام ہوتے ہیں، اس لیے ان کواگر اللہ کے نام پر بھی ذبح کیا جائے تو تم ان کے گوشت کو ہاتھ لگانے پر تیار نہیں ہوتے۔ یہ سارا رویہ تمھارے خود ساختہ مذہب کا حصہ ہے۔ یہ اللہ کی صریح نافرمانی ہے۔
علیٰ ہٰذاالقیاس، کھیتی اور چوپایوں کے بارے میں ابراہیمی شریعت کا قریش نے جو حلیہ بگاڑ دیا تھا، اس پر سخت گرفت کرتے ہوئے اسے جھوٹ کاپلندہ اور افترا قرار دیا اور واضح کیاکہ اس افترا کا ان کو خدا کے دربار میں بدلہ چکانا پڑے گا۔ فرمایا:

وَقَالُوْا ھٰذِہٖٓ اَنْعَامٌ وَّحَرْثٌ حِجْرٌ لَّا یَطْعَمُھَآ اِلَّا مَنْ نَّشَآءُ بِزَعْمِھِمْ وَاَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُھُوْرُھَا وَاَنْعَامٌ لَّا یَذْکُرُوْنَ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا افْتِرَآءً عَلَیْہِ. سَیَجْزِیْھِمْ بِمَا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ.(الانعام ۶: ۱۳۸)
’’اور کہتے ہیں: فلاں فلاں چوپائے اور فلاں فلاں کھیتی ممنوع ہے ۔ ان کو نہیں کھا سکتے، مگر وہی جن کو ہم چاہیں اپنے گمان کے مطابق۔ اور کچھ چوپائے ہیں جن کی پیٹھیں حرام ٹھہرائی گئی ہیں اور کچھ چوپائے ہیں جن پر خدا کا نام نہیں لیتے، محض اللہ پر افترا کے طور پر۔ اللہ عنقریب ان کو اس افترا کا بدلہ دے گا۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان تمام امور میں جو موقف تھا، وہ قریش کے تصور دین سے اتنا مختلف تھا کہ دونوں میں کوئی مقام اتصال آتا ہی نہیں تھا۔ قریش اس سے سیخ پا ہوتے ۔ ان کا خیال تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی یہ دعوت نہ صرف ہمارے آبائی عقائد کی نفی کر رہی ہے، بلکہ جس دینی نظام کے بل بوتے پر ہم پورے عرب پر اپنی سیادت کا سکہ جمائے بیٹھے ہیں، اس کو بھی بے بنیاد قرار دے رہی ہے۔ اگر یہ دعوت کامیاب ہو گئی تو ہمیں اپنی پیشوائی اور خانہ کعبہ سے متعلق اپنے مناصب سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ اس طرح قریش کے دنیاوی مفادات پر جو زد پڑتی تھی وہ ان کو بے کل کر دیتی تھی۔ وہ دعوت دین کی راہ روکنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کی مخالفت میں شدت لے آتے، لیکن کسی طرح بات بنتی نظر نہ آتی۔ اس صورت حال میں قرآن پچھلی امتوں کی سرفروشیوں کا حوالہ دیتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دین اسلام کی کامرانی و فتح یابی کی پیشین گوئیاں سنا کر مسلمانوں کاحوصلہ بڑھاتے اور ان کو قریش کی زیادتیوں کا پامردی سے مقابلہ کرنے کے لیے دل مضبوط کرنے کی تلقین فرماتے۔ آخرت میں اہل ایمان کی بلندئ درجات کا وعدہ ان کو اتنی قوت فراہم کرتا کہ وہ قریش کے مظالم کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دیتے۔

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت جون 2008
مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Sep 09, 2016
2343 View