طلب مدد کے لیے قریش کا یہود سے رابطہ (2) - خالد مسعود

طلب مدد کے لیے قریش کا یہود سے رابطہ (2)

[’’سیر و سوا نح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

امتحان کے لیے سوالات:

قرآن مجید شاہد ہے، اور تاریخی روایات بھی اس کی تائید کرتی ہیں، کہ اہل کتاب، نصاریٰ اور یہود، دونوں نے اپنے زعم میں نبی ﷺ کے دعوائے نبوت کاپول کھولنے کے لیے قریش کو بعض ایسے سوالات القا کیے جو ان کی تاریخ کے کم معروف موضوعات سے متعلق تھے۔ ان کا گمان یہ تھا کہ اول تو محمد ﷺ کو ان کے بارے میں کہیں سے معلومات نہیں ملیں گی اور اگر انہوں نے یونہی بات بنانے کی کوشش کی تو ان کو تالی پیٹنے کا موقع مل جائے گا کہ یہ شخص بے پر کی اڑا رہا ہے۔ حقیقت کچھ ہوتی ہے اور اس کو کچھ اور بنا کر پیش کر دیتا ہے۔ یہ ایک برخود غلط آدمی ہے جسے وحی و الہام سے کوئی علاقہ نہیں۔ قرآن مجید نے ایسے سوالات کے نہ صرف جامع و شافی جواب دیے بلکہ اہل کتاب کو لتاڑا کہ انہوں نے نہایت سبق آموز واقعات کو محض قصہ قرار دے رکھا ہے اور ان سے اپنی اصلاح میں کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے۔ قرآن نے اہل کتاب کی تاریخ کے ان واقعات کی توجیہات کو انکے صحیح تناظر میں پیش کیا۔ اس طرح یہ سوالات، جو اصلاً نبی ﷺ کو زچ کرنے، آپ کی مخالفت کے لیے قریش کی پیٹھ ٹھونکنے اور آنحضرت ؐ کے دعوائے نبوت کو جانچنے کے لیے کیے گئے تھے، اہل ایمان کی تربیت اور قریش کے لیے عبرت ناک انجام کی پیش گوئی کاواسطہ بن گئے، اس نوعیت کے تین نمایاں سوالات اصحاب کہف، ذوالقرنین اور بنی اسرائیل کے مصر میں آباد ہونے کے بارے میں تھے۔
اصحاب کہف کا تعلق صحیح عقیدہ رکھنے والے نصاریٰ سے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر طویل نیند مسلط کی جو نصاریٰ کے لیے ایک عجوبہ کی حیثیت رکھتی تھی یا بصورت دیگر بعض نصاریٰ اس کو اپنے اولیائے کرام کی کرامات اور ان کی خاطر قدرت خداوندی کی عظیم شانوں کا ظہور قرار دیتے تھے۔ اہل کتاب کے مطالبہ پر قرآن نے جب ان کا واقعہ سنایا تو اس بات کو نمایاں کیا کہ اصحاب کہف اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر مضبوط ایمان رکھنے والے اور اپنی قوم کے شرک سے بیزاری کااظہار کرنے والے چند نوجوان تھے۔ انہوں نے قوم کے معبودوں کو برملا بے بنیاد قرار دیا تو ان کی قوم ان کی اس جسارت کو برداشت نہ کر سکی۔ اصحاب کہف کوجب اپنی جانوں کاخطرہ محسوس ہوا تو وہ شہر سے نکل کر کسی غار میں جا چھپے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کی بدولت اپنی خاص شان ظاہر فرمائی اور ان کے وجود کو ان کی قوم کے لیے عظیم الشان نشانی بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ان پر طویل نیند طاری کر دی۔ ان کاکتا غار کے دہانے پر بیٹھا ان کی نگرانی کرتا رہا۔ اس مدت کے دوران شہر میں اصحاب کہف کی دعوت توحید کے ماننے والوں میں برابر اضافہ ہوتا رہا اور ایک وقت آیا جب وہاں اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنے والوں کی اکثریت ہو گئی۔ اب اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کو نیند سے بیدار کیا اور ان کو اپنی قدرت کا یہ کرشمہ دکھایا کہ وہی قوم جو ان کے خون کی پیاسی تھی اب ان کے لیے عقیدت کے فراواں جذبات رکھتی تھی۔ پہلے وہ شرک کے مظاہر پر جان چھڑکتی تھی لیکن اب اسے اصحاب کہف کی یادگار تعمیر کرنے کا خیال آیا تو اس نے اس کے لیے مسجد کی تعمیر کو ان سے اظہار عقیدت کا موزوں طریقہ خیال کیا۔ اصحاب کہف کی تاریخ کا یہ باب مکہ میں مشرکین قریش کے ہاتھوں آزمائشوں سے دوچار ہونے والے مسلمانوں کے لیے بے حد امید افزا تھا۔ ان پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ ان کی مخلصانہ قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کی عظیم شانیں ظاہر ہوں گی۔ البتہ عزیمت کے راستہ سے انہیں لازماً گزرنا ہو گا۔ اس طرح قرآن نے اہل حق کی تاریخ کے ایک گم گشتہ باب کو پھر سے روشن کردیا تاکہ ان کے قافلہ کے نئے راہ رو اس سے سبق حاصل کر سکیں۔
ذوالقرنین (تورات کے خورس) کی فتوحات سے دلچسپی یہود کو تھی جو ان کو اپنا محسن بادشاہ سمجھتے تھے۔ خورس نے یہود کو بابل کی غلامی سے رہا اور تباہ شدہ بیت المقدس کو از سر نو ان کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ یہود کے سوال کے جواب میں قرآن نے ذوالقرنین کی شخصیت کے جس پہلو کو نمایاں کیا وہ یہ تھا کہ ذوالقرنین معلوم دنیا کے بیشتر حصہ پر ہمہ مقتدر حکمران ہونے کے باوجود کس طرح ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کی دولت سے مالا مال تھے۔ تکبر اور ظلم و تعدی سے انہوں نے اپنا دامن بچائے رکھا۔ وہ رعایا کے ہمدرد و غمگسار تھے۔ وہ ان کی مشکلات دور کرنااپنا فرض منصبی سمجھتے۔ اللہ کے بندوں میں وہ حق شناسی کا جوہر تلاش کرتے اور ان کوایمان کی راہ اختیار کرنے پر مراعات دیتے۔ ذوالقرنین کے واقعہ میں نہ صرف دنیا پرست یہود کے لیے بلکہ ظالم و جابر متکبرین قریش کے لیے بھی بڑا سبق تھا جس کو قرآن نے اپنے جواب میں واضح کیا۔
مصر میں بنی اسرائیل کے داخلہ کی داستان قرآن نے نہایت دلچسپ انداز میں سنائی لیکن قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی شانوں کو نمایاں کیا جو اس واقعہ میں ظاہر ہوئیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کی اولاد کااصل وطن کنعان تھا۔ حضرت یوسف ؑ نہایت ہونہار، صالح اور والد کی عزیز ترین اولاد تھے۔ ان کے سوتیلے بھائیوں کو ان سے خاص کد تھی۔ انہوں نے باپ کے اس محبوب بیٹے کو رستے سے ہٹانے کے لیے جنگل میں لے جا کر کسی غیر آباد کنویں میں ڈال دیا۔ وہ اپنے تئیں ان کے وجود سے نجات پا چکے تھے لیکن ہوا یوں کہ بنو اسماعیل کا ایک قافلہ پانی لینے کی غرض سے اس کنویں پر جا پہنچا۔ اس نے یوسف کو کنویں سے نکالا اور اپنے ساتھ مصر لے جا کر ان کو فروخت کر دیا۔ یوسف کا خریدار مصر کے شاہی دربار کاایک افسر اعلیٰ تھا۔ اس نے یوسف کو بیٹے کی طرح رکھا اور اپنے تمام معاملات کا ذمہ دار بنایا۔ غلامی کے اس زمانہ میں بعض بیگمات نے یوسف کو بغیر کسی جرم کے قید خانہ میں ڈلوا دیا جس سے رہائی بالکل خدا ساز طریقہ سے ممکن ہوئی۔ یوسفؑ کو شاہ مصر کا قرب حاصل ہو گیا اور اس نے ان کو ملکی وسائل پیداوار کا با اختیار وزیر مقرر کر دیا۔ مصر میں طویل قحط پڑا جس کامقابلہ کرنے میں یوسف کی عمدہ منصوبہ بندی کام آئی۔ کنعان میں بھی قحط تھا۔ برادران یوسف نے مصر کے حکمرانوں کے حسن انتظام کی شہرت سنی تو وہ بھی غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر پہنچے جہاں انہیں یوسف کے سامنے عرض داشت کے لیے پیش ہونا پڑا۔یوسف بھائیوں کو پہچان گئے اور ان کو عنایات سے نوازا۔ برادران یوسف پر یہ راز بہت بعد میں کھلا کہ وہ جس شخص کے ممنون ہیں وہ یوسف ہیں۔ انہوں نے یوسف سے معافی مانگی اور تسلیم کیاکہ خطاکار وہی تھے اور اللہ تعالیٰ نے یوسف کو ان کی سلامت روی کا صلہ دیا۔ اس موقع پر یوسف نے تمام اہل خاندان کو کنعان سے بلا کر اپنے پاس مصر میں لابسایا۔ اس سرگزشت میں اہل مکہ کے کردار اور نبی ﷺ کے ساتھ ان کے طرز عمل کی مماثلت واضح تھی۔ لہٰذا اس واقعہ کے ذریعے آنحضرتؐ کو یہ تعلیم دی گئی کہ ان کا راستہ نہایت کٹھن اور دشوار گزار ضرور ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی عظیم شانیں ظاہر فرمائے گا اور ان کے مخالفین کو اسی طرح آپ کے قدموں میں ڈال دے گا جس طرح برادران یوسف اپنے مقتدر بھائی کے قدموں میں آ گرے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہے۔

تفضیل انبیاء کی بحث:

کسی حریف کو زک پہنچانے اور اس کی حیثیت عرفی کو چیلنج کرنے کا ایک حربہ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ جس شرف و فضیلت کا دعویدار ہو اس میں اس کو دوسروں سے کم تر ثابت کیا جائے تاکہ عوام پر اس کے دعویٰ کے بارے میں شبہات پیدا ہو جائیں۔ یہود نے یہ حربہ استعمال کیا۔ انہوں نے نبی ﷺ کی تنقیص کی خاطر انبیائے بنی اسرائیل کے فضائل کاچرچا کیا۔ مقصد یہ تھا کہ جہاں اسلام کی طرف میلان رکھنے والوں کو بدکادیا جائے کہ اس شخص کے اندر تو وہ خصوصیات ہیں ہی نہیں جو حقیقی انبیاء میں ہوتی ہیں، وہیں مسلمانوں کو ایک غیر ضروری بحث و مباحثہ میں گھسیٹ کر ان کوان کے اصل ہدف سے غافل کر دیاجائے۔ ایسا کرنے سے یہود کو تعصبات ابھارنے میں مدد مل سکتی تھی۔ قرآن مجید نے مسلمانوں کو خبردار کیا کہ یہ تم کو پریشان کرنے اور الجھانے کی ایک شیطانی کاوش ہے۔ اس سے بچ کر رہو اور بحث میں پیغمبروں کے باب میں کوئی ایسی بات نہ کرو جو حق سے ہٹی ہوئی ہو۔ ان کو یہ تلقین بھی فرمائی کہ وہ آنحضرت کی خصوصیات و امتیازات کے پہلوؤں کو ضرور اجاگر کریں لیکن اس بات کو یاد رکھیں کہ سابق انبیاء بھی بعض امتیازات کے حامل تھے، اس لیے ان کا انکار نہ کریں۔ فرمایا:

وَ رَبُّکَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۔ وَلَقَد فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیّٖین عَلٰی بَعضٍ وَّ اٰتَیْنَا دَاو‘دَ زَبُوْرًا۔ (بنی اسرائیل۱۷:۵۵)
اور تمہارا رب ہی خوب جانتا ہے ان کو جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت بخشی ہے اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی۔

تعلیم کا مذاق:

اہل کتاب نے جہاں قریش کو ایسے اعتراضات سجھائے جن سے وہ پیغمبر ﷺ کو زچ کریں وہیں قرآن مجید کی بعض تعلیمات کو انہوں نے تضحیک کا نشانہ بنایا اور اس میں مشرکین کو بھی شریک کیا۔ ظاہر یہ کیا کہ یہ مضحکہ خیز تعلیمات اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری ہوئی نہیں ہو سکتیں، یقیناًیہ نبوت کے اس دعویدار کی طبع زاد باتیں ہیں جن کو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے پیش کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے احوال آخرت کے بیان کا مذاق اڑایا گیا۔ مثال کے طور پر جب قرآن نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی نگرانی کے لیے انیس فرشتے بطور داروغہ مقرر کر رکھے ہیں، نیز دوزخ کی تہہ میں زقوم کا ایک درخت اگے گا جس کا زہریلا اور کڑوا پھل جہنمیوں کو کھلایاجائے گا، تو یہود نے اس تعلیم کا مذاق اڑایا اور مشرکین کے اندر اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا۔ اس کے بعد تحقیر آمیز لہجہ میں یہ کہا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ اس طرح کی باتوں سے خدا کی کوئی مصلحت پوری ہو سکتی تھی کہ وہ ایسی تعلیم نازل کرتا، یقیناًیہ محمد (ﷺ) کی اپنی ذہنی افتاد ہے کہ وہ اس طرح کی انہونی باتیں کر رہے ہیں۔ اگر مشرکین اس طرح کی باتیں کرتے تو ان کو کسی قدر معذور قرار دیاجا سکتا تھا کہ وہ آسمانی کتب سے نابلد تھے۔ یہود کا اس طرح کی باتیں کرنا ایک ناقابل معافی جرم تھا۔ یہود آسمانی کلام کے محرم راز ہونے کے باعث قرآن کے بیان کی فوراً تصدیق کر دیتے تو ان کے لیے یہی زیبا تھا لیکن وہ خود بھی فتنہ میں پڑے اور اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کو بھی اس فتنہ میں مبتلا کرنے کا باعث ہوئے۔ قرآن مجید نے جب جہنم کے داروغوں کی تعداد کی خبر دی تو یہود کے رد عمل کا حوالہ دیتے ہوئے اس تعلیم کی حکمت واضح کرتے ہوئے فرمایا:

وَمَا جَعَلنَا عِدَّتَہُمْ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوالْکِتٰبَ وَ یَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِیْمَانًا وَّ لَا یَرْتَابَ الَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتٰبَ وَالْمُؤمِنُوْنَ وَلِیَقُولَ الَّذِیْنَ فِی قُلُوبِھِمْ مَّرَض’‘ وَّالْکٰفِرُوْنَ مَا ذَآ اَرَادَ اللّٰہُ بِھٰذَا مَثَلًا۔ (المدثر۷۴:۳۱)
اور ہم نے دوزخ پر نگران تو فرشتوں ہی کو بنایاہے اور ہم نے ان کی تعداد نہیں بیان کی مگر اس لیے کہ یہ آزمائش بنے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے کفر کیا، تاکہ یقین حاصل کریں وہ جن کو کتاب عطا ہوئی، اہل ایمان اس سے اپنے ایمان کو بڑھائیں اور اہل کتاب اور اہل ایمان شک میں نہ پڑیں۔ اور تاکہ جن کے دلوں میں روگ ہے وہ اور کفر کرنے والے کہیں کہ بھلا اس سے اللہ کی کیامراد ہے۔

یہ اہل کتاب کی بدقسمتی تھی کہ وہ اس تعلیم سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہے جو ان آیات کے نزول میں پیش نظر تھا۔ 

 

حوالہ جات
۱؂ William Muir, The Life of Mahomed, vol II, p.310, Smith Elder & Co. London (1861)

-------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت نومبر 2008
مصنف : خالد مسعود
Uploaded on : Sep 09, 2016
2810 View