معرفت حق اور اس کے تقاضے - امین احسن اصلاحی

معرفت حق اور اس کے تقاضے

 [یہ تقریر انجمن خدام القرآن لاہور کی ایک تربیت گاہ کے افتتاحی اجلاس میں کی گئی جو ۱۳ ؍ اگست ۱۹۷۲ء کو لاہور میں منعقد ہوا۔]

خطبہ مسنونہ کے بعد:
بھائیو، میں سب سے پہلے اس حقیقت کا اظہار کر دینا چاہتا ہوں کہ میں اس اجتماع میں برکت دینے کے لیے نہیں، بلکہ برکت لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ میری حاضری کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ میں اپنے مخدوم اور محترم دوست مولانا عبدالغفار حسن صاحب کے درس سے کچھ برکت حاصل کروں۔ برکت حاصل کرنا، میں نے اس لیے عرض کیا ہے کہ میں اب استفادہ کے قابل تو رہا نہیں صرف برکت ہی حاصل کر سکتا ہوں۔ مولانا سے مجھے صرف محبت ہی نہیں ہے، بلکہ بلاشائبۂ تکلف عرض کرتاہوں کہ مجھے ان سے عقیدت بھی ہے۔ دراں حالیکہ عقیدت کے معاملے میں بہت فیاض آدمی نہیں ہوں۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ مجھے ان سے محبت ہی نہیں، بلکہ عقیدت بھی ہے اور میں آپ لوگوں کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ آپ کو ان کے درس سے اور ان کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کا موقع ملے گا۔
میری حاضری کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ آپ کی صحبت اور آپ کی معیت کا تھوڑا بہت ثواب میں بھی حاصل کر لوں۔ اس زمانہ میں ایسے انسانوں کی کمی تو نہیں ہے جو ارسطو کی تعریف کے مطابق انسان ہیں، اس لیے کہ بہرحال وہ ’حیوان ناطق‘ ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ بس حیوان ناطق ہی ہیں، قرآن کی تعریف کے مطابق وہ انسان نہیں ہیں اس لیے کہ وہ بصیرت اور بصارت، دونوں سے محروم ہیں۔ فی زمانہ ایسے انسان بہت ہی تھوڑے ہیں جو اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے جدوجہد کریں، اس کے لیے گھر سے نکلیں، اس کے لیے تکلیفیں اٹھائیں، اس کے لیے ان کے اندر ذوق و شوق ہو۔ میں آپ لوگوں کو انھی میں شمار کرتا ہوں جو ایک نہایت ہی محبوب اور عظیم مقصد کے لیے گھر سے نکلے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس ارادے میں خیر و برکت عطا فرمائے اور آپ کو زیادہ سے زیادہ مستفید اور مستفیض ہونے کا موقع دے!
حضرات، میرا ارادہ تو یہی تھا کہ میں شرکت کے ذریعے سے برکت حاصل کروں، لیکن میرے عزیز بھائی شیخ سلطان احمد صاحب اور برادر عزیز ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی مجھے یہ خواہش بھی معلوم ہوئی کہ میں آپ کے سامنے تقریر بھی کروں، تو میں نے ان کی خواہش کی تعمیل ضروری سمجھی، لیکن میں جو کچھ عرض کروں گا، اس کی نوعیت ہرگز تقریر کی نہیں ہو گی، بلکہ چند نہایت ہی واضح اور بدیہی حقیقتوں کی تذکیر ہی کی ہو گی، یعنی صرف یاددہانی! حقیقت یہ ہے کہ بعض حقیقتیں اپنی جگہ انتہائی واضح ہوتی ہیں، لیکن شاید اپنی شدت وضاحت ہی کی وجہ سے بہت مجہول ہو جاتی ہیں، لہٰذا ان کی وقتاً فوقتاً تذکیر ہوتی رہنی چاہیے۔ میری اپنی زندگی کی رہنمائی میں ان حقائق نے مجھے بہت مدد دی ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر آپ کو بھی ان کی یاددہانی کرا دوں تاکہ آپ حضرات بھی ان سے فائدہ اٹھائیں۔

خدا کا وجود

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا ہے اور ضرور ہے اور خدا کے ماننے پر ہر انسان مجبور ہے۔ جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں، وہ ایک بدیہی حقیقت کا انکار کرتے ہیں۔ میں اس معاملے میں اپنا یہ ذاتی احساس عرض کر دیتا ہوں کہ جب اول اول مجھے اس حقیقت کا شعور ہوا کہ خدا ہے اور ضرور ہے، نیز یہ کہ انسان اس کا انکار نہیں کر سکتا اور اس سے مفر نہیں ہے، تو اس کے ساتھ ہی مجھے اس بات کا بھی ادراک ہوا کہ اس ماننے سے بہت بھاری ذمہ داریاں انسان پر عائد ہو جاتی ہیں۔ جب کبھی میں ان ذمہ داریوں کے متعلق سوچتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ اس کا بوجھ میری کمر توڑ دے گا۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ کچھ فلسفی ایسے بھی ہیں جو خدا کا انکار کرتے ہیں تو واقعہ یہ ہے کہ مجھے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ان کی چیزوں کا بھی مطالعہ کروں۔ اور صاف طور پر عرض کیے دیتا ہوں کہ بغیر کسی تعصب کے میں نے ان چیزوں کا مطالعہ کرنا چاہا، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ میرے اندر چھپی ہوئی خواہش بھی موجود تھی کہ اگر یہ فلسفی یہ ثابت کر دیں کہ خدا نہیں ہے تو میں اس کا خیر مقدم کروں گا، اس لیے کہ اس طرح بہت بڑے بوجھ سے نجات مل جائے گی۔ یہ ایک مخفی راز ہے جو میں آپ پر ظاہر کر رہا ہوں۔ ویسے الحمد اللہ! مجھ پر الحاد کا کوئی دور نہیں گزرا ہے، لیکن مجھ پر ایک ایسا دور ضرور گزرا ہے کہ جب میرے اندر یہ خواہش تھی کہ اگر یہ فلسفی حضرات خدا کا انکار ثابت کر دیں اور مجھے مطمئن کر دیں کہ خدا نہیں ہے تو بہرحال ایک اطمینان کا سانس لینے کا موقع ملے گا اور سر سے ایک بھاری بوجھ اتر جائے گا۔ اس خواہش کے تحت میں نے متکلمین کی، دہریوں کی، منکرین کی، ڈارون کی، مارکس کی، فرائڈ کی، غرض کہ ان سب لوگوں کی کتابیں بڑی دل چسپی سے پڑھیں اور بغیر کسی تعصب کے پڑھیں، لیکن میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ یہ ساری چیزیں پڑھنے کے بعد مجھ پر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ—- یہ سب خرافات ہیں! ایک بدیہی حقیقت سے انکار کی خواہش ان سے یہ کام کرا رہی ہے، باقی رہ گیا یہ کہ خدا کے انکار کے لیے ان لوگوں کے پاس واقعی کوئی دلیل ہے تو اس کی سرے سے گنجایش ہی نہیں! جو بات یہ پیش کرتے ہیں، اس سے ہزار گنا مضبوط اور بدیہی بات وہ ہے جو قرآن حکیم پیش کرتا ہے کہ ایک خدا کو، ایک رب کو، ایک رحمان کو، ایک رحیم کو، ایک علیم کو، ایک خبیر کو، ایک سمیع کو اور ایک بصیر کو مانو!اس بات پر عقل بھی گواہی دیتی ہے اور فطرت بھی گواہی دیتی ہے؛ ظاہر بھی گواہی دیتا ہے اور باطن بھی گواہی دیتا ہے؛ آفاق بھی گواہی دیتے ہیں اور انفس بھی گواہی دیتے ہیں، غرض کہ ایک ایک چیز گواہی دیتی ہے۔ ہمارے متکلم اور ہمارے فلسفی لوگ خدا کے وجود پر اگر کوئی دلیل قائم کر نہیں پاتے تو جانتے ہو کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دلیل وہاں کام دیتی ہے جہاں دلیل دعویٰ سے زیادہ واضح ہو۔ لیکن اگر دعویٰ دلیل سے زیادہ واضح ہو تو وہاں دلیل بے کار ہے۔ وہاں دلیل کیا کام کرے گی؟ وہاں ارسطو کی منطق کیا کام کر سکتی ہے؟ وہاں متکلمین کا علم کلام کیا کام کر سکتا ہے؟ اسی طرح آسمان اور زمین کے وجود پر آپ کیا دلیل لا سکتے ہیں؟ ان چیزوں پر دلیل لانے کی کوشش کرنا درحقیقت حماقت ہے۔ یہ بدیہیات ہیں! فطرت کی، آفاق کی، انفس کی، عقل کی سب کی بدیہیات! اس مطالعہ سے مجھ پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں، وہ محض انکار کرنے کی خواہش کے زیراثر اندھے اور بہرے ہو گئے ہیں، اس لیے کہ وہ جس علت العلل کو، جس محرک اول کو، جس مادہ کو، جس خلیہ کو اس عظیم کائنات کا سبب قرار دیتے ہیں، اس سے زیادہ اور اس سے لاکھ درجہ آسان اور عقل اور دل کے لیے قابل قبول بات وہ ہے جو قرآن کہتا ہے۔ میں اس کائنات کو کسی محرک اول کی حرکت کا نتیجہ مان لوں! اس حماقت میں مبتلا ہونے سے زیادہ بہتر یہی ہے کہ میں یہ مان لوں کہ بے شک خدا ہے اور انھی صفات کے ساتھ ہے جو قرآن کہتا ہے!

خدا کو ماننے کے تقاضے

تو غور کرنے سے معلوم ہوا کہ جو لوگ خدا کا انکار کرتے ہیں، وہ درحقیت خدا کو ماننے کی جو عظیم ذمہ داریاں انسان کے اوپر عائد ہوتی ہیں، ان سے فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے سوا کوئی اور وجہ نہیں ہے۔ اور اس میں واقعۃً کوئی شک نہیں ہے کہ خدا کو ماننے کے بعد جو عظیم ذمہ داریاں انسان کے اوپر عائد ہوتی ہیں، وہ بڑی اہم ہیں، بڑی مشکل ہیں، بڑی کٹھن اور بڑی دشوار ہیں۔ اس راہ میں آگے بڑھنا صرف اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے، جبکہ آدمی سر ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھے۔ اس میں حضرت یحییٰ علیہ السلا م کی طرح سر کٹوانا پڑتا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح سولی کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح آگ میں کودنے کے لیے تیار ہونا پڑتا ہے اور ان تمام مراحل اور مقامات سے گزرنا پڑتا ہے جن مراحل اور مقامات سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم گزرے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے ہر شخص ہمت نہیں رکھتا اور اسی لیے لوگ گریز اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا وہ صاف صاف انکار کر دیتے ہیں کہ ہم ان جھگڑوں ہی میں نہیں پڑتے۔ وہ ان بدیہی حقیقتوں کو ’موہوم‘ کہہ کر گویا ذمہ داریوں سے بچنے کا آسان راستہ نکال لیتے ہیں۔ اور جو لوگ مانتے ہیں، جیسے کہ ہم اور آپ اور ہماری قوم، وہ درحقیقت اقرار مع الانکار کی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ خدا کو مانتے ہیں، لیکن خدا کو ماننے کے جو تقاضے ہیں، ان میں سے کسی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ پھر اس کے بعد تقاضوں سے فرار کے لیے طرح طرح کے حیلے اور بہانے اختیار کر لیتے ہیں۔ بڑے فخر اور تعلّٰی کے ساتھ خدا کا اقرار بھی کرتے ہیں، لیکن زندگی کے کسی مرحلہ میں خدا کے اقرار کے تقاضوں کو پورا کرنے اور خدا کے احکام پر بے چون و چرا عمل کرنے پر تیار نہیں ہوتے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر دوسرے صریح اور کامل انکار میں مبتلا ہیں تو یقیناًہم بھی اقرار مع الانکار میں مبتلا ہیں اور ہماری پوری قوم مبتلا ہے۔
اصل چیز یہ ہے کہ خدا کو مانیے تو خدا کو ماننے کے جو مطالبے ہیں، جو تقاضے ہیں، جو تضمنات ہیں، جو مضمرات ہیں، جو لوازمات ہیں اور جو نتائج ہیں، ان کا مواجہہ کرنے کے لیے تیار رہیے۔ حقیقت سے گریز کی پالیسی نہایت بزدلانہ، بلکہ منافقانہ ہے۔ اور قرآن کے مطالعہ سے میں جس نتیجہ پر پہنچاہوں، وہ یہ ہے کہ مآل کے لحاظ سے کفر اور نفاق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان کے مابین فرق صرف ظاہر کا فرق ہے۔ نتیجہ کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں کا انجام ایک ہے۔ تو جو لوگ انکار میں مبتلا ہیں، وہ تو انکار میں مبتلا ہیں ہی، لیکن جو لوگ اقرار والے انکار میں مبتلا ہیں تو واقعہ یہ ہے کہ وہ صریح نفاق میں مبتلا ہیں۔ اب اس صریح نفاق کو اپنے اندر سے نکالنا ایک بڑا معرکہ ہے اور دوسروں کے اندر سے نکالنا اس سے بھی بڑا معرکہ ہے۔ اللہ جن کو ہدایت بخشتا ہے، وہ نفاق کو اپنے اندر سے نکال سکتے ہیں اور جن کی ہدایت میں اور جن کی توفیق میں زیادتی فرماتا ہے، وہ دوسروں سے اس کو دور کرنے کی سعی و جہد کرتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے بڑی سخت بازی کھیلنی پڑتی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ حقیقت سے گریز کی پالیسی بالکل غلط ہے۔ حقیقت کا مواجہہ کیجیے اور پوری جرأت کے ساتھ مواجہہ کیجیے اور وہی بندے مبارک بندے ہیں جو یہ کام کریں۔ اللہ تعالیٰ کو بہت ساری بھیڑ مطلوب نہیں، وہ تو مکھن چاہتا ہے۔ اسے تو وہ بندے پسند ہیں جو اس کو اس طرح مانیں، جیسے کہ اس کو ماننے کا حق ہے۔ مولویوں کی زبان میں سننا چاہیں تو سنیے کہ ’مانیں ماننا کر!‘ سر دینے کے لیے تیار ہو کر مانیں۔ یوحنا و مسیح علیہما السلام کی طرح مانیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریقہ سے مانیں۔ باقی اس کے سوا دوسرا طرز عمل مہمل اور خرافات ہے!
پس حق کو جانیے، حق کو سمجھیے، حق کا علم حاصل کیجیے، حق کی معرفت حاصل کیجیے اور پھر اس حق کو اپنے اوپر قائم کرنے کے لیے اور دوسروں پر قائم کرنے کے لیے اپنے اندر صبر اور عزیمت پیدا کیجیے۔ اسی حق اور اسی صبر پر حقیقت میں صحیح زندگی قائم ہوتی ہے۔ جہاں تک حصول علم و معرفت کا تعلق ہے تو یہ زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ نبیوں کی تعلیم، نبیوں کے صحیفے، اللہ کا شکر ہے، موجود ہیں؛ اللہ کی آخری کتاب قرآن، بہ تمام و کمال موجود ہے؛ آخری نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت موجود ہے؛ صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگی موجود ہے؛ اگر آپ جاننا چاہیں اور آپ میں جاننے کا شوق اور طلب ہو، جس طرح زندگی کی اور طلبیں ہیں، تو یہ کام بہت مشکل نہیں ہے۔ لیکن صبر کا معاملہ بہت مشکل ہے۔ یہی میری زندگی کا تجربہ ہے کہ صبر کا معاملہ واقعی بہت مشکل ہے۔ عزیمت کا معاملہ بہت مشکل ہے۔ میں اس صبر کے متعلق عرض نہیں کر رہا ہوں جس کے کھوکھلے وعظ ہمارے منبروں سے ہوتے رہتے ہیں۔ بلکہ صبر حقیقی، عزیمت، استقامت سے میری مراد یہ ہے کہ اللہ کو ماننے اور حق کو تسلیم کرنے کے جو حقیقی تقاضے ہیں، ان کو پورا کیا جائے۔ جس حق کو قبول کیا جائے، اس کی اپنے قول و عمل سے شہادت بھی دی جائے۔ یہ ہر مومن کا فرض ہے اور اولین فرض ہے۔

شہادت حق

جس شخص میں حق کی طلب نہ ہو، حق کا علم حاصل کرنے کا شوق نہ ہو، اسے آپ ارسطو کی تعریف کے مطابق انسان کہہ لیجیے، لیکن میں تو اسے دو ٹانگوں پر چلنے والا جانور ہی سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک وہ حقیقت میں انسان نہیں ہے جس میں حق کی طلب نہ ہو۔ جس کا عظیم داعیہ انسان کی فطرت کے اندر موجود ہے۔ جس کے اندر یہ داعیہ نہیں ہے، وہ مردہ ہے۔ وہ آدمی نہیں ہے، بلید ہے اور جانور سے بھی زیادہ بلید ہے! لہٰذا اس حق کو قائم کرنا بہت بڑی سعادت ہے۔ پہلے تو اس حق کو اپنے اوپر قائم کیجیے، اس لیے کہ جس نے اپنے اوپر اس حق کو قائم نہیں کیا، اس کا حق کی شہادت دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہونا فضول کام ہے۔ ایسے کھوکھلے سینوں کی شہادت کچھ کارگر نہیں ہوتی، بالکل بے کار ہوتی ہے۔ صرف انھی لوگوں کو حق کی شہادت پیش کرنے کا حق ہے جو حق کو پہلے اپنے اوپر قائم کر لیں۔ اور اچھی طرح جان لیجیے کہ حق کی شہادت دینا بھی فرض ہے۔ حق کو جاننے والے اور علم صحیح رکھنے والے کے لیے میں دین میں، اور قرآن کے تیس پاروں میں، کہیں کوئی گنجایش نہیں پاتا کہ اسے حق کی شہادت دینے سے مفر ہو۔ شہادت حق اس پر واجب ہے، لازم ہے، فرض ہے! دائیں بائیں، آگے پیچھے، جس حد تک ممکن ہو حق کی شہادت دیجیے۔
لیکن جب شہادت کا مرحلہ آتا ہے تو بڑی مشکلیں پیش آتی ہیں۔ اس کے لیے بسااوقات ایسے ایسے لوگوں کے کانوں میں حق کی اذان دینی پڑتی ہے جن کے کانوں میں یہ اذان دینا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ بڑے عزیز تعلقات اس کے لیے منقطع ہو جاتے ہیں۔ بڑے بڑے عزیز رشتے اس کے لیے کٹ جاتے ہیں۔ بڑے بڑے محبوبوں کی دوستی اس کے لیے قربان کرنی پڑتی ہے اور بسااوقات سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ آخری چیز جان ہے۔ اس کی بھی نذر گزارنی پڑتی ہے اور صاف سن لیجیے کہ اگر آپ جان کو عزیز رکھتے ہوں تو اس راستہ میں بالکل قدم نہ رکھیے۔ یہ وہ راستہ نہیں جس میں آسانیاں ہوں۔ اس راستہ میں بڑی مشکلات ہیں۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ میں ان تمام مشکلات کو بیان کروں۔ آپ قرآن کریم کا جو درس حاصل کریں گے، ان سے یہ مشکلات معلوم ہو جائیں گی۔

صبر کی حقیقت

لیکن میرے عزیز دوستو، ایک بات میں آپ کو ضرور بتانا چاہتا ہوں اور کاش! میں اسے اچھی طرح آپ کو سمجھا بھی سکوں۔ وہ بات یہ ہے کہ ’صبر‘ کہنے کے لیے بہت آسان ہے، لیکن کرنے کے لیے بہت مشکل ہے۔ اور پھر یہی وہ چیز ہے جس پر صحیح زندگی استوار ہوتی ہے۔ جہاں تک اہل حق کا تعلق ہے اور شہادت حق دینے والے لوگوں کا تعلق ہے، ان کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ صبر کی بنیاد ایک علمی حقیقت پر اور ایک حکمت پر مبنی ہے۔ جب تک وہ حقیقت و حکمت پوری طرح سے واضح نہ ہو، اس پر علم الیقین اور حق الیقین نہ ہو تو اس وقت تک صبر کرنا آسان نہیں ہوتا۔ وہ حقیقت و حکمت یہ ہے کہ آپ کے راستہ میں جو کچھ پیش آئے گا، وہ اللہ کے ارادہ اور مشیت کے تحت پیش آئے گا۔ اللہ کے ارادہ اور مشیت کے سوا اس دنیا میں اور کوئی ارادہ اور مشیت کارفرما نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھیے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر ارادہ میں خیر مضمر ہوتا ہے، اگرچہ ہمیں اس کا خیر معلوم نہ ہو۔ اسی حقیقت کو سمجھنے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت خضر علیہ السلام کی تلاش میں نکلنے کا حکم ہوا۔ اس کو خوب اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جب تک آپ اس حقیقت کو مستحضر نہیں رکھیں گے، آپ کی اندرونی زندگی میں اور آپ کی خارجی زندگی میں ایسے ایسے فتنے پیش آئیں گے کہ شیطان آپ کو لوٹا دے گا، آپ کے قدم متزلزل ہو جائیں گے۔ لیکن اگر اس حقیقت پر آپ کا مضبوط یقین ہے کہ جو ہو گا خدا کے ارادہ سے ہو گا اور خدا کا ارادہ ہمیشہ خیر اور حکمت ہی پر مبنی ہوتا ہے تو آپ یقین کریں کہ آپ بڑے سے بڑے مشکل مرحلہ میں بھی ثابت قدم رہیں گے۔ رہی یہ بات کہ خدا کا ہر ارادہ خیر پر مبنی ہے اور خدا کے ارادہ کے سوا کوئی دوسرا ارادہ اس کائنات میں کارفرما نہیں ہے تو یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔ جو اس کو نہیں مانتا، وہ مومن نہیں ہے، اس کو سمجھنے کی دوشکلیں ہیں: ایک یہ کہ ہر کام کی حکمت ہمارے اوپر عیاں اور واضح ہو جائے۔ لیکن اس کا کوئی امکان نہیں، اس لیے کہ ہم خدا تو نہیں بن سکتے۔ ہم بندے ہیں اور ہمارا علم محدود ہے۔ دوسری یہ کہ ہم اس بات پر یقین رکھیں کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس میں خدا کی حکمت مضمر ہوتی ہے۔ کچھ کی حکمت ہماری سمجھ میں آجاتی ہے اور کچھ کی حکمت، اپنے محدود علم کی وجہ سے، ہم سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ لیکن یہ بات کہ ہر کام میں خیر و برکت پوشیدہ ہوتی ہے تو اس پر پورا پورا ایمان اور یقین رکھیں۔ خدا چاہے گا تو وہ آپ پر حکمت بھی واضح کر دے گا، لیکن حکمت جاننے کے لیے ہم کو بے صبر نہیں ہونا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ اس راستہ میں آپ دیکھیں کہ ظالموں کی گرتی ہوئی دیوار اور باغیوں اور طاغیوں کے گرتے ہوئے وقار کو سنبھالا دیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں بھی خدا کی حکمت ہی کارفرما ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ اس راستہ میں آپ دیکھیں کہ اہل حق مظلوم ہیں، مقہور ہیں، ان کو دکھ دیا جا رہا ہے اور وہ فاقے کر رہے ہیں۔ یہ بات بھی آپ دیکھیں تو اس پر یہی یقین رکھیں کہ اس میں بھی خدا کی کوئی حکمت ہو گی۔ یہاں مسکینوں کی کشتی میں سوراخ کرا دیا جاتا ہے تو اس کے اندر بھی حکمت مضمر ہوتی ہے۔ ظالموں اور باغیوں کی دیوار اونچی کرا دی جاتی ہے تو بہرحال اس دیوار کے نیچے بھی، غریبوں اور یتیموں کا خزانہ پوشیدہ ہوتا ہے۔ ظالموں اور طاغیوں کو جو مہلت دی جاتی ہے، اس کے اندر کیا کیا حکمتیں ہوتی ہیں تو ان میں سے کچھ کا اندازہ آپ کو قرآن مجید کے مطالعہ سے ہو گا اور اصل حقیقت قیامت کے دن ہمارے سامنے آئے گی۔
بہرحال ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اس بات پر ایمان رکھیں کہ اگر حق کی راہ میں کسی پر ظلم ہوتا ہے تو اسی کے اندر حکمت ہے۔ اسی کے اندر بہتری ہے، اسی کے اندر خیر ہے، اسی کے اندر فلاح ہے اور اسی کے اندر کامیابی ہے۔ اور اگر ظالموں کو، طاغیوں کو، سرکشوں کو، نافرمانوں کو، باغیوں کو، غافلوں کو اور بے پرواؤں کو خدا کی طرف سے ڈھیل دی جاتی ہے تو اس کے اندر بھی حکمت ہے، اس پر بھی پورا یقین رکھیے۔ اگر آپ اس بنیادی حقیقت کو پیش نظر رکھیں گے تو یہ چیز ہمیشہ شیطان کے مقابلہ میں آپ کو پناہ میں رکھے گی۔ آپ ثابت قدم رہ سکیں گے۔ اور اگر اس سے غفلت ہو گئی تو شیطان آپ کو ٹھوکر کھلائے گا اور آپ کو دھوکا دے گا۔ لہٰذا یہ بڑی بنیادی چیز ہے جو آپ کو ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔

دنیا میں انسان کی حیثیت

دوسری ایک اور بات بھی میں آپ کے سامنے واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ وہ یہ کہ ہم کو اور آپ کو اس دنیا میں اپنا موقف اور مقام بھی طے کر لینا چاہیے کہ ہم اس دنیا میں کیا ہیں؟ خالق ہیں؟ ظاہر ہے کہ خالق نہیں ہیں، مخلوق ہیں۔ مالک ہیں؟ ظاہر ہے کہ مالک نہیں ہیں، مملوک ہیں۔ ہمارا صحیح موقف اور صحیح مقام جو قرآن مجید میں سورۂ حدید میں بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ ہم ’مُسْتَخْلَفْ‘ ہیں، ’مُسْتَخْلِفْ‘ نہیں ہیں۔ ’مُسْتَخْلَفْ‘ کا مفہوم اگر آپ اردو میں سمجھنا چاہیں تو یوں سمجھ لیجیے کہ ہم امین ہیں۔ ہمیں جتنی قوتیں، صلاحیتیں، ذہنی و دماغی قابلیتیں اور جسمانی توانائیاں ملی ہیں، جو مال، دولت، اسباب، سامان، ذرائع اور وسائل ملے ہیں، ہم ان سب کے امین ہیں، مالک نہیں۔ اور جب ہم امین ہیں تو ظاہر بات ہے کہ ہمیں ہر امانت کے لیے جواب دہی کرنی ہے۔ ایک ایک چیز کے متعلق حساب دینا ہے۔ امانت دینے والے نے جس حد تک اختیار دیا ہے، بے شک اس اختیار کے دائرہ کے اندر ہم اختیار استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں، لیکن اس کے باہر رتی برابر بھی ہٹے تو اس کا حساب دینا ہو گا، جواب دہی کرنی ہو گی اور نتیجہ بھگتنا ہو گا اور کسی ایسے ویسے سے نہیں، بلکہ اس ہستی سے بھگتنا ہو گا جو ذرہ ذرہ کا علم رکھتی ہے۔ پھر یا تو اس بات کا انکار کر دیجیے اور کہیے کہ آپ ’مُسْتَخْلَفْ‘ نہیں ہیں، بلکہ مالک ہیں، ورنہ اپنے سمع پر، اپنے بصر پر، اپنے قلب و فواد پر اور اپنی ایک ایک چیز پر پہرہ بٹھائیے، اپنی زبان پر بھی پہرہ بٹھائیے۔ یہ آپ کی زبان کس کی ترجمان ہے؟ یہ آپ کی عقل کی ترجمان ہے یا آپ کے بطن اور فرج کی ترجمان ہے؟ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت عقل کی ترجمان ہے۔ ہم نے اس کو بطن اور فرج کا غلام بنا کر رکھ دیا ہے۔ اگر موقع ہوتا تو میں تفصیل سے آپ کو بتاتا کہ ہماری شاعری، ہمارا ادب اور ہمارا لٹریچر بالکل مہمل، گندی، ناپاک اور لغو چیز بن کر رہ گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شمشیر جوہر دار جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی تھی، اس سے ہم نے گھاس کاٹنے کی درانتی کا کام لینا شروع کر دیا ہے۔
بہرحال، اس بات کو ملحوظ رکھیے کہ ایک ایک چیز کے آپ مسؤل ہیں اور ذمہ دار ہیں۔ جو شخص اس نقطۂ نظر کو سامنے رکھ کر زندگی بسر کرتا ہے، اس کے قدم جادۂ حق پر استوار رہتے ہیں اور جہاں اس حقیقت سے غفلت ہوئی، وہیں وہ فوراً مار کھا جاتا ہے۔ تو اس حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیے۔ اس موقف کو، اپنے مقام کو، اپنے درجہ کو اور اپنے مرتبہ کو کبھی بھی فراموش نہ کیجیے اور اگر اس کے انکار کی آپ میں ہمت ہے تو میں کسی ایسے دوست کا خیر مقدم کروں گا جو مجھ پر ثابت کر دے کہ اس کے انکار کی عقلی دلیل موجود ہے اور اس کی گنجایش ہے۔ کم از کم قرآن مجید میں، جس پر آپ کا ایمان ہے، اس کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اگر یہ آپ کے نزدیک قرآن قبروں کے اوپر پڑھ کر صرف ایصال ثواب کے لیے ہے، تب تو میں کچھ نہیں کہتا۔ ان لوگوں کی قبروں پر بھی پڑھ کر اس کے ذریعہ ایصال ثواب کیجیے کہ جنھوں نے ساری عمر کبھی قرآن کو ہاتھ تک نہ لگایا ہو۔ لیکن اگر قرآن زندگی کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے ہے، حق بتانے کے لیے ہے، صراط مستقیم پر گامزن رکھنے کے لیے ہے، مآل کار کا شعور دینے کے لیے ہے، جیسا کہ فی الواقع وہ ہے، تب میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کا مستقر، آپ کا مقام اور آپ کا موقف اس قرآن میں یہی بیان کیا گیا ہے جو میں نے عرض کیا ہے۔ اگر کوئی صاحب اس کے برعکس مجھے کوئی بات سمجھا سکیں تو میں ان کا خیر مقدم کروں گا۔ یہ بات بڑی تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت تھی، لیکن میں نے مختصراً عرض کیا ہے۔

ابن آدم کا شاطر دشمن

عزیزو، اب ایک حقیقت کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں، جس کو آپ ہمیشہ پیش نظر رکھیے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ ہر ابن آدم اور بنت حوا اس دنیا میں محاذ جنگ پر ہے، اور بڑے شاطر دشمن کے مقابلہ میں محاذ جنگ پر ہے! بڑے کائیاں دشمن کے مقابلہ میں، جس نے خدا کو یہ چیلنج دے رکھا ہے کہ ’اگر تو مجھے مہلت دے تو میں اس انسان کے داہنے سے، بائیں سے، آگے سے، پیچھے سے، اس کے آرٹ سے، ادب سے، لٹریچر سے، ثقافت سے، کلچر سے، غرض کہ ہر پہلو سے، اس کے اوپر تاخت کروں گا! اور اسے تیری صراط مستقیم سے ہٹا کر چھوڑوں گا! اس کو گمراہ کر کے رہوں گا! اور ثابت کر دوں گا کہ اس کو میرے اوپر کوئی فضیلت نہیں ہے‘! اللہ تعالیٰ نے اس شان کے ساتھ، جو اس کو زیبا ہے، جواب میں فرمایا کہ ’جا تجھے مہلت دی گئی! جس کو تو بہکا سکتا ہے، بہکا لے، جو تیرے پیچھے لگ جائیں گے، میں ان سے اور تجھ سے، تیری ذریت سے اور تیرے اولیا سے جہنم کو بھر دوں گا!‘ یہ قرآن مجید کی ایک واضح حقیقت ہے۔ قرآن حکیم میں قصۂ آدم و ابلیس صرف حکایت سنانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ ایک حقیقت بیان کرنے کے لیے ہے۔ اس کی بے شمار حقیقتوں میں سے ایک حقیقت یہ ہے کہ آپ اچھی طرح یہ سمجھ لیں کہ آپ اس دنیا میں ایک بڑے شاطر اور کائیاں دشمن کے مقابلہ میں محاذ جنگ پر ہیں اور یہ دشمن چالاک و مکار ہونے کے ساتھ ساتھ طاقت ور بھی ہے۔ اس نے جس وقت انسان کو گمراہ کرنے کا چیلنج دیا اور مہلت مانگی تھی، اس کے لیے چیلے گنتی کے ہوں گے، لیکن آج تو اس کی فوج بے شمار ہے۔ پھرا س کی فوج میں ایسے ایسے کائیاں لوگ پیدا ہو گئے ہیں کہ میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ وہ آج خود ابلیس کے کان کتر سکتے ہیں۔ ابلیس کو بھی فلسفہ پڑھا سکتے ہیں۔ وہ اس سے بھی زیادہ کائیاں ہیں۔ اب ابلیس کو خود کچھ کرنے کی خاص ضرورت نہیں ہے، اس سے زیادہ شاطر اس کے شاگرد ہیں۔ اگر تفصیل کا موقع ہوتا تو میں ان شاگردوں کے کرتوتوں کو ایک ایک کر کے آپ کے سامنے رکھتا اور آپ کو اپنی بات پوری طرح سمجھا دیتا۔ اجمالاً یوں سمجھ لیجیے کہ یہ شاگرد آج آرٹ کے نام سے، ادب کے نام سے، لٹریچر کے نام سے، ثقافت کے نام سے، کلچر کے نام سے، فیشن کے نام سے، تہذیب کے نام سے، پیٹ کے نام سے، سیکس کے نام سے، جمہوریت کے نام سے، عوام کے نام سے، خود اسلام کے نام سے اور نہ جانے کس کس نام سے خدا کی خلق کو گمراہ کر رہے ہیں اور ابلیس کے کان کتر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ابلیس بھی شاید قیامت کے دن چیخ اٹھے گا کہ بے شک، تم نے مجھے بھی مات دے دی! میں تم سے یہ توقع نہیں رکھتا تھا۔ پس اے بھائیو، ایسے چالاک دشمن اور اس کے ایسے لاؤ لشکر کے مقابلہ میں آپ محاذ جنگ پر ہیں! جو سپاہی محاذ جنگ پر ہے، وہ واقعہ یہ ہے کہ بدبخت ہے، بدقسمت ہے، نالائق ہے اگر وہ انٹا غفیل ہو کر اور گھوڑے بیچ کر سو جائے! گھوڑے بیچ کر سونے کا کیا موقع ہے؟ جن لوگوں کی صفت یہ تھی کہ وہ دن کو گھوڑے کی پیٹھ پر باطل سے پنجہ آزمائی کرتے تھے اور اللہ کی کبریائی کی شہادت دینے کے لیے سردھڑ کی بازی لگاتے تھے اور پھر رات کو مصلیٰ پر اپنے آقا کے حضور کھڑے ہوتے تھے، اس سے مناجات کیا کرتے تھے، وہ آخر کاہے کو جاگتے تھے؟ ان کو کون سا غم تھا؟ ان کو اگر فکر تھی تو یہی کہ بڑے کائیاں دشمن سے مقابلہ ہے، بڑے شاطر دشمن سے سابقہ ہے جس کے ایجنٹ شیطانوں میں بھی ہیں، جنوں میں بھی ہیں اور خود انسانوں میں بھی ہیں۔ اور، جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں، اس زمانہ میں تو ابلیس کے بڑے ہوشیار اور چالاک ایجنٹوں کا پورے کا پورا لاؤ لشکر آپ کے داہنے بائیں اور آگے پیچھے موجود ہے۔ لہٰذا آپ کے لیے ازحد ضروری ہے کہ آپ کسی وقت غافل نہ ہوں۔ ہر وقت جاگتے رہیں، ہر وقت ہوشیار رہیں اور چوکس اور چوکنے رہیں۔ محاذ جنگ پر جس طرح سپاہی سوتا ہے، اسی طرح سوئیں، جس طریقہ سے جاگتا ہے، اسی طریقہ سے جاگیں۔ یہ اللہ کو معلوم ہے کہ اس مقابلہ میں بالآخر جیتے گا کون اور ہارے گا کون! لیکن آدم کی ناخلف اولاد ہو گا وہ جو اس حقیقت سے غافل ہو؟ یاد رکھیے کہ اس کی یہ غفلت اس کو شیطان کے مقابلہ میں چاروں شانے چت کر دے گی۔
پس میرے عزیزو، جاگتے رہو! آگاہ رہو! رات کو بھی، دن کو بھی، سوتے وقت بھی، اور جاگتے وقت بھی، ہر وقت ہوشیار رہو! دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے ہر سمت اور ہر طرف سے چوکنے رہو۔ اگر آپ اس حقیقت کو یاد رکھیں گے تو آپ صراط مستقیم پر گامزن رہیں گے۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ محاذ جنگ پر ہر سپاہی کو ہتھیار کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور آپ کو بھی ہتھیار درکار ہے۔ یہ ہتھیار کیا ہے؟ تو جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کے چیلنج کے جواب میں جو بات ارشاد فرمائی تھی، وہی ارشاد آپ کے لیے ہتھیار اور وہی چیز آپ کے لیے نسخۂ علاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ:

’’جا، میں انسانوں کی رہنمائی اور مدد کے لیے اپنی ہدایت اور اپنی کتاب نبیوں اور رسولوں کے واسطے سے نازل کروں گا جو لوگ میری کتاب (اور میرے انبیا و رسل کی سنت کو) مضبوطی سے پکڑے رہیں گے، ان کو تو ہرگز گمراہ نہیں کر سکے گا، ہاں جو میری ہدایت کو چھوڑ دیں گے تو ان پر تیرا جادو بے شک چل جائے گا۔‘‘

پس شکر کیجیے کہ شیطان کے مقابلہ میں آپ کے پاس اللہ کی آخری کتاب بہ کمال و تمام موجود ہے۔ اس کتاب کو مضبوطی کے ساتھ پکڑیے۔ اس کو ایصال ثواب کا نسخہ نہ سمجھ لیجیے، بلکہ اس کے ایک ایک لفظ کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ اس کے اوامر و نواہی کو معلوم کیجیے۔ اس کے احکام اور ان کی حکمتوں کو جاننے کی سعی کیجیے۔ اس کی دعوت کا شعور حاصل کیجیے۔ برے اعمال، نافرمانی، سرکشی طغیان و بغاوت کے ہول ناک انجام سے آگاہی حاصل کیجیے اور ساتھ ہی ساتھ جو کچھ علم ہوتا رہے، اس پر عمل کی جدوجہد شروع کیجیے اور دوسروں تک قرآن مجید کی دعوت کو نہایت دل سوزی کے ساتھ پہنچانے کی فکر کیجیے۔ اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دیجیے۔ اس کا حق اسی طرح ادا ہو گا۔ اس کو مضبوطی سے تھام لینے کا یہی مطلب اور مفہوم ہے۔ اس کے برعکس طرز عمل اللہ کی کتاب کے ساتھ مذاق ہے۔ ایسے طرز عمل کے ساتھ اس کی محبت کا دعویٰ لاف زنی ہے، بے وزن ہے، بے حقیقت ہے، جس کا پتا آخرکار روز حساب میں چل جائے گا۔

فطرت کے تازیانے

عزیزو، اب صرف ایک حقیقت اور یاد دلانا چاہتا ہوں اور وہ محض میرا تاثر نہیں ہے، بلکہ میرے نزدیک ایک امرواقعہ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ ہماری پوری قوم کے اوپر اس وقت اسی قسم کے حالات پیش آ رہے ہیں جس قسم کے منذرات، تنبیہات اور جس قسم کے تازیانے بنی اسرائیل کے لیے نمودار ہوئے تھے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس دنیا میں دعوت الی اللہ کی وراثت بنی اسرائیل سے چھین کر آپ کو دی گئی تھی۔ سورۂ مائدہ آپ نے پڑھی ہو گی۔ پھر پڑھ لیجیے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرما دیا ہے کہ ’میں بنی اسرائیل سے اس کی نافرمانی، کج روی اور خیانت کی وجہ سے یہ امانت چھین کر اب تمھارے حوالے کرتا ہوں، لیکن اگر تم نے مجھ سے نقض عہد کیا، میری کتاب کو چھوڑا، میرے نبی سے منہ موڑا، میری شریعت کے ساتھ بغاوت کی، میرے ساتھ مکاری اور چالاکی کی تو تمھارے ساتھ بھی وہی معاملہ ہو گا جو بنی اسرائیل کے ساتھ کیا گیا ہے۔‘ میرا تاریخ کا جو مطالعہ ہے، تاریخ سے میری مراد وہ تاریخ ہے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے اور کسی تاریخ کا میں عالم نہیں ہوں، میں اس مطالعہ کی روشنی میں کہہ سکتا ہوں کہ اس قوم پر اسی طرح کے حالات پیش آ رہے ہیں، جس قسم کے حالات بنی اسرائیل کو پیش آئے تھے۔ یہ بڑا نازک وقت ہے۔ میرے عزیزو، کسی غلط فہمی میں نہ مبتلا رہو۔ اسی طرح کے واقعات، حالات اور حادثات چند خاص اشخاص و افراد کی غلطیوں کا نتیجہ نہیں ہوتے، بلکہ یہ صورت حال پوری کی پوری قوم کے شامت اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ بڑے ہی نادان ہیں وہ لوگ جو چند اشخاص و افراد کو مورد الزام گردان کر سارا زور بس ان کو مجرم ثابت کرنے پر لگا رہے ہیں۔ گویا باقی سب خیر سلا ہے، حالاں کہ یہ منذرات، یہ تنبیہات، یہ حادثات اور یہ واقعات پوری قوم کی نافرمانی، سرکشی اور کرتوت کے نتیجے میں رونما ہوئے ہیں۔ ذرا غور تو کرو کہ ایک ہزار سال بعد ہم نے ہندو قوم کے آگے گھٹنے ٹیک دیے، وہ بھی ایک عورت کے آگے! تقریباً ایک لاکھ اپنے لوگ بطور قیدی پکڑوا دیے! آدھے سے زیادہ ہمارا ملک ہاتھ سے نکل گیا! یہ معمولی واقعات نہیں ہیں۔ بھائیوں کے ہاتھوں جس طریقہ سے بھائیوں کا خون بہا ہے، عزتیں پامال ہوئی ہیں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ جو بھیانک واقعات اخبارات میں آئے ہیں، اگر ان کا پانچ فی صد بھی صحیح ہے تو کلیجہ شق کر دینے کو کافی ہے۔ لیکن ذرا غور کرو کہ ان کا کتنا تاثر ہماری قوم نے لیا ہے۔ اس وقت اس بچے کھچے ملک کے حصہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ اللہ اکبر! بھائی، بھائی کے خون کا پیاسا ہو رہا ہے زبان کی بنیاد پر، نسل کی بنیاد پر، کلچر کی بنیاد پر، علاقہ کی بنیاد پر۔ جو امت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کلمہ ’لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘ پر جمع کی گئی تھی؛ جس کا کلمہ ایک، کتاب ایک، رسول ایک، قبلہ ایک، آج وہ کس طرح شیطان کے نرغہ میں پھنسی ہوئی ہے! بھائیو، میں پھر کہتا ہوں کہ یہ بڑا نازک وقت ہے، یہ اصلاح حال کا وقت ہے، یہ جوڑنے اور ملانے کا وقت ہے۔ یہ نفرت دلانے اور ایک دوسرے پر الزام لگانے کا وقت نہیں۔ اس سے آخر قوم کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے کہ ہم کسی ایک طبقے یا گروہ کو ملزم قرار دیں اور ان کو مجرم ثابت کریں کہ ساری خرابیوں کا باعث تم ہو اور وہ ہم پر الزام لگائیں اور ہمیں مجرم ثابت کریں۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم سب کے سب مجرم ہیں، پوری کی پوری قوم مجرم ہے، ہم سب اللہ کے نافرمان ہیں۔ پس ہم سب کو اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اس سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنی چاہیے، اس کی جناب میں ہم سب کو توبہ اور استغفار کرنا چاہیے! ہم سب کو اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جانا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا اور جس کے دور دور بھی آثار نہیں ہیں تو جان لینا چاہیے کہ قوم کی کشتی بالکل بھنور میں ہے، گرداب میں ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب ڈوبی کہ تب ڈوبی۔ معلوم نہیں کہ آپ لوگوں کو بھی حقیقت نظر آتی ہے یا نہیں، مجھے تو رات کے اندھیارے اور دن کے اجالے میں بصارت سے بھی اور بصیرت سے بھی یہی حقیقت نظر آتی ہے۔ عزیزو، آج وقت ہے کہ یوحنا و مسیح علیہما السلام کی طرح آپ کے اندر سے وہ لوگ اٹھیں جو پوری قوم میں توبہ کی منادی کریں، استغفار کی منادی کریں، اللہ سے اپنے تعلق کو استوار کرنے کی منادی کریں، نبی سے حقیقی تعلق جوڑنے کی منادی کریں۔ خلاف دین، خلاف اسلام کاموں سے اجتناب کی منادی کریں۔ سرکشی و نافرمانی سے بچنے کی منادی کریں۔ حلال و حرام کی تمیز کی منادی کریں۔ اس وقت ان کاموں کے سوا دوسرے کام بالکل فضول ہیں۔ شاطر اسی طرح لڑتے رہیں گے اور ایک سے ایک بڑا عذاب مختلف شکلوں میں آتا رہے گا۔ ایسے بگڑے ہوئے معاشرہ میں جو اشخاص و افراد مسلط ہوں گے، وہ بھی اللہ کے قہر کی نشانی ہوں گے۔ کسی کے اندر خیر نہیں ہے۔ ایک پارٹی اگر جائے گی تو جس قسم کے شر و فساد کے ساتھ وہ آئی تھی کوئی دوسری پارٹی بھی، اسی طرح کے شر اور فساد کے ساتھ، ممکن ہے، مسلط ہو جائے۔ لیکن اس وقت محض ہاتھوں کے بدلنے میں بھلائی نہیں ہے، ملک کے لیے کوئی خیر نہیں ہے۔ ملک کی بھلائی اگر ہو گی تو انھی بے غرض لوگوں کے ہاتھوں ہو گی جو آج یوحنا و مسیح علیہما السلام کی طرح توبہ کی منادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ جو صاف صاف، بالکل حق، واضح طور پر بڑوں کے سامنے، چھوٹوں کے سامنے، پوری قوم کے سامنے وہی بات پیش کریں جو حق ہے۔ جو دین کا تقاضا ہے، جو ایمان کا تقاضا ہے۔ لیکن جان رکھو کہ یہ راستہ آسان نہیں ہے، بہت کٹھن ہے! ہو سکتا ہے کہ اس راہ میں تمھارے سر کاٹ کر ظالم لوگ اپنی معشوقاؤں کے سامنے تحفہ کے طور پر پیش کریں۔ ہو سکتا ہے کہ اس راہ میں تمھیں سولی پر چڑھنا پڑے۔ ہو سکتا ہے کہ اپنے وطن سے نکال دیے جاؤ۔ معلوم نہیں کہ اس راہ میں کیا کیا پیش آئے گا۔ بدر و احد اور خندق و حنین، اس راہ کی لازمی منازل ہیں۔ مستقبل کا علم صرف اللہ کو ہے۔ لیکن جو کچھ ہو گا، اسی کے اندر تمھارے لیے خیر اور اسی کے اندر فوز و فلاح ہے۔ اس بات پر یقین رکھو۔ قرآن کی دعوت اور توبہ کی منادی کا کام لے کر اٹھ کھڑے ہو جاؤ۔ شاید اللہ تعالیٰ تمھاری اس سرفروشانہ ادا کو پسند فرما لے اور تمھاری قوم کو بچا لے، ورنہ واقعہ یہ ہے کہ قوم کی کشتی بھنور میں ہے۔
آخر میں، میں اپنے لیے اور آپ کے لیے، دونوں کے لیے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو حق کی معرفت عطا فرمائے اور حق پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین!
وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘!
(مقالات اصلاحی ۲/ ۲۸۵ بہ حوالہ ماہنامہ میثاق لاہور ۔ دسمبر ۱۹۷۲ء)

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2016
مصنف : امین احسن اصلاحی
Uploaded on : Feb 11, 2017
2249 View