اسلام میں اتحاد کا طریقہ اور عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک مسلمانوں کا طرز عمل - امین احسن اصلاحی

اسلام میں اتحاد کا طریقہ اور عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک مسلمانوں کا طرز عمل
اسلام میں اتحاد کی تاکید اور اس کا طریقہ

یہ اختلافات اور تعصبات جو آج کل مسلمانوں کے اندر پیدا ہو گئے ہیں، یہ اسلام کا نتیجہ نہیں ہیں، بلکہ یہ اسلام سے انحراف کا نتیجہ ہیں۔ اسلام نے تو نہ صرف ان اختلافات سے بچتے رہنے کی سخت تاکید کی تھی، بلکہ نہایت واضح طور پر وہ طریقہ بھی بتا دیا تھا، جس طریقہ پر عمل کر کے ان اختلافات سے محفوظ رہا جا سکتا تھا۔ اور ساتھ ہی اس طریقہ کی خلاف ورزی کے سبب سے پچھلی امتیں جن خرابیوں میں مبتلا ہو چکی تھیں، ان کی طرف بھی اشارہ کر دیا تھا تاکہ مسلمان ان کے انجام سے عبرت حاصل کر سکیں۔ قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ ہوں:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْا وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ، وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ، وَلاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ وَاُولٰٓءِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ. (آل عمران۳: ۱۰۳۔۱۰۵)
’’اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہو اور پراگندہ نہ ہو جاؤ اور اپنے اوپر اللہ کے اس فضل کو یاد رکھو کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں کو جوڑا اور تم اس کی رحمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے کھڈکے بالکل کنارے پر کھڑے تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچایا۔ اسی طرح اللہ تمھارے لیے اپنی آیتوں کو کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ یاب ہو۔ اور تم میں سے ایک خاص گروہ ہونا چاہیے جس کا کام یہ ہو کہ وہ لوگوں کو بھلائی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ اوران لوگوں کی طرح نہ بن جانا جو (اللہ کی رسی کو چھوڑ کر) پراگندہ ہو گئے اور خدا کی طرف سے کھلی کھلی آیتیں پانے کے بعد انھوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘

مذکورہ بالا آیات میں مسلمانوں کو متحد رہنے کی تاکید بھی فرمائی گئی ہے اور ساتھ ہی اس اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے مندرجہ ذیل ہدایات بھی دی گئی ہیں:
پہلی ہدایت یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو متحد ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑنا چاہیے اور پراگندہ نہ ہونا چاہیے۔
’اللہ کی رسی‘ سے مراد وہ عہد میثاق ہے جو ہمارے اور ہمارے رب کے درمیان ہوا ہے، یعنی قرآن مجید——- ’قرآن مجید کو مضبوط پکڑنے‘ سے مراد یہ ہے کہ خدا نے ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے جو ضابطہ اس کے ذریعہ سے ہم کو دیا ہے، ہم اسی ضابطہ پر چلیں۔ اس کے خلاف کوئی ضابطہ نہ خود اپنے جی سے بنائیں اور نہ کسی دوسرے کے بنائے ہوئے کسی ’ضابطہ‘ کو، جو اس کے خلاف ہو، اپنی انفرادی یا اجتماعی زندگی کے لیے پسند کریں۔ ہر سوال جو ہمارے سامنے آئے، ہم سب سے پہلے اس کے حل کے لیے اسی کی طرف رجوع ہوں۔ ہر فکری و نظری الجھن میں وہی ہمارے لیے مصدر الہام ہو۔ ہر مشکل میں وہی ہماری رہنمائی کرے، جس چیز کو وہ حق قرار دے ہم اس کو حق قرار دیں اور جس چیز کو وہ باطل قرار دے دے، ہم اس کو باطل قرار دے دیں۔ ہر حال میں وہی ہمارا ہادی اور امام ہو اور ہم اس کی ہدایت کے خلاف کسی حالت میں بھی کسی کی رہنمائی قبول نہ کریں۔
’پراگندہ نہ ہونے‘ سے مطلب یہ ہے کہ ’حبل اللہ‘ کو چھوڑ کر ہم الگ الگ اماموں اور لیڈروں کی عصبیت میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ حق و ہدایت قرآن کے بجاے اشخاص و افراد کے اندر محصور ہو کر رہ جائے، یہاں تک کہ جو کچھ ان کی طرف منسوب کر کے روایت کر دیا جائے نہ اس کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھنے ہی کی ضرورت محسوس کی جائے اور نہ یہی تسلیم کیا جائے کہ حق اس کے سوا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔
دوسری ہدایت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر ایک سیاسی ادارہ (خلافت) اس مقصد کے لیے قائم کیا جائے کہ وہ ایک طرف عام خلق الٰہی کو اس بھلائی اور خیر کی طرف بلاتا رہے جس کی طرف قرآن نے رہنمائی کی ہے تاکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اختلاف اور پراگندگی کی جہنم سے نکال کر اتفاق و محبت کی شاہراہ پرکھڑا کر دیا ہے، اسی طرح تمام دنیا اتفاق و محبت کی برکتوں سے مالا مال ہو جائے۔ دوسری طرف وہ ادارہ مسلمانوں کو معروف پر چلتے رہنے اور منکر سے بچتے رہنے کی ہدایت کرتا رہے تاکہ مسلمان پھراسی گڑھے میں نہ جا گریں جس سے قرآن مجید نے ان کو ہاتھ پکڑ کے نکالا ہے۔ اور ان کے اندر اختلافات کی وہی آندھیاں پھر نہ چلنے لگیں جو عرب جاہلیت میں چلا کرتی تھیں۔
تیسری نصیحت یہ فرمائی ہے کہ اس واضح ہدایت کے بعد تم ان لوگوں کی طرح نہ بن جانا جو خدا کی طرف سے نہایت واضح ہدایات پانے کے باوجود الگ الگ ٹولیوں میں بٹ گئے اور ان کے اندر جھگڑے اور اختلافات اٹھ کھڑے ہوئے۔
یہ اشارہ یہود اور نصاریٰ کی طرف ہے جو حبل اللہ کو ترک کر دینے اور الگ الگ اماموں اور مقتداؤں کی بے جا عصبیت میں گرفتار ہو جانے کی وجہ سے تفرق اور اختلاف کی ایسی آفت میں مبتلا ہو گئے کہ ہر گروہ نے اپنے اپنے علما اور پیروں ہی کو اپنا رب بنا لیا اور کتاب اللہ سے ان کا سرے سے کوئی تعلق ہی باقی نہیں رہ گیا۔ چنانچہ قرآن مجید نے ان کی حالت کا نقشہ یہ پیش کیا ہے:

اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ.(التوبہ ۹: ۳۱)
’’انھوں نے اپنے عالموں اور صوفیوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا۔‘‘

اس حالت میں مبتلا ہونے کی جو سزا یہود کو ملی، اس کا ذکر بھی قرآن مجید نے ان الفاظ میں فرما دیا ہے:

فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ لَعَنّٰہُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قٰسِیَۃً.(المائدہ ۵: ۱۳)
’’پس اس سبب سے کہ انھوں نے اس عہد کو توڑ دیا جو ان سے باندھا گیا تھا، ہم نے ان کے اوپر لعنت کر دی اور ان کے دل سخت بنا دیے۔‘‘

ٹھیک یہی حال نصاریٰ کا بھی ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو روشنی عطا فرمائی تھی، انھوں نے اس کی حفاظت نہیں کی، بلکہ اس کو گل کر کے وہ سرے سے اس چیز ہی سے محروم ہو گئے جو جھگڑوں کو چکانے والی اور اختلافات کو مٹانے والی بن سکتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اندر جو اختلاف بھی اٹھا، قیامت تک کے لیے اس کے مٹنے کی کوئی صورت ہی باقی نہیں رہ گئی۔ چنانچہ قرآن مجید نے ان کی باہمی جنگ و جدال کا نقشہ ان الفاط میں پیش کیا ہے:

وَمِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرآی اَخَذْنَا مِیْثَاقَہُمْ فَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَاَغْرَیْْنَا بَیْْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ.(المائدہ ۵: ۱۴)
’’اور ان لوگوں سے جنھوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں، ہم نے عہد لیا تو انھوں نے اس چیز کا ایک حصہ بھلا دیا جس کے ذریعہ سے ان کو یاددہانی کی گئی تھی تو ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے دشمنی اور نفرت کی آگ بھڑکا دی۔‘‘

دین میں کتاب الٰہی کی اہمیت و مرکزیت

قرآن مجید کی ان واضح ہدایات کا اثر یہ ہوا کہ جب تک امت کے اندر اصلی دینی روح موجود رہی، اس وقت تک مسلمانوں کے اندر جو مرکزیت قرآن مجید کو حاصل رہی، وہ کسی دوسری چیز کو حاصل نہیں ہوئی۔ یہی کتاب ان کے تمام فکر و عمل کا مصدر تھی۔ ہر پیش آنے والے معاملہ میں وہ اسی کی طرف رہنمائی حاصل کرنے کے لیے رجوع کرتے تھے۔ اور سب سے پہلے وہ اسی کتاب کے علم و عمل میں ماہر ہونے کی کوشش کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

قال کان الرجل منّا إذا تعلّھ عشر اٰیات ولم یجاوزھن حتّٰی یعرف معانیھن والعمل بھن.
’’ہم میں سے جو شخص قرآن مجید کی دس آیتیں بھی سیکھ لیتا تو وہ اس وقت تک ان کے آگے نہ بڑھتا جب تک ان کے معانی سے اچھی طرح واقف نہ ہو جائے اور ان پر عمل کرنے نہ لگ جائے۔‘‘

اس کتاب کے علم کی جو قدر و عزت مسلمانوں کی نگاہوں میں تھی، اس کا اندازہ انھی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایک دوسرے بیان سے لگایا جا سکتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

ولو أعلم احدًا أعلم بکتاب اللّٰہ تنالہ المطایا لأتیتہ.
’’اگر مجھے پتا چلتا کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ اللہ کی کتاب کا جاننے والا ہے اور سواریوں کے ذریعہ سے اس کے پاس پہنچا جا سکتا ہے تو میں اس کے پاس ضرور پہنچتا۔‘‘

اور یہی کتاب تمام قضا اور فتویٰ کی بنیادی کتاب تھی۔ چنانچہ جن لوگوں کو مسلمانوں کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کی خدمت پر مامور کیا جاتا تھا، ان کو تمام پیش آنے والے معاملات میں سب سے پہلے اسی کتاب کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا جاتا۔ چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

عن معاذ أنہ قال: لما بعثنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی الیمن قال: کیف تقضی إذا عرض لگ قضاء؟ قال: أقضی بکتاب اللّٰہ، قال: فإن لم یکن فی کتاب اللّٰہ؟ قال: فبسنۃ رسول اللّٰہ، قال: فإن لم یکن فی سنۃ رسول اللّٰہ؟ قال أجتھد رأیی ولا آلو، قال: فضرب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صدرہ وقال: ألحمد للّٰہ الذی وفق رسولَ رسولِ اللّٰہ لما یرضی بہ رسول اللّٰہ.
’’معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ جب مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجا تو فرمایا کہ ’’جب تمھارے سامنے کوئی معاملہ فیصلہ کے لیے آئے گا تو تم اس کا فیصلہ کس طرح کرو گے؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ ’’میں اس کا فیصلہ اللہ کی کتاب کی روشنی میں کروں گا۔‘‘ فرمایا: ’’اگر اللہ کی کتاب میں اس کے متعلق کوئی واضح بات نہ ملے تو کیا کرو گے؟‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’پھر رسول اللہ کی سنت کے مطابق کروں گا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اگر رسول اللہ کی سنت میں بھی اس کے متعلق کوئی واضح ہدایت موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں کیا کرو گے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’تو پھر میں اجتہاد کروں گا، اور اس اجتہاد میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھوں گا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری یہ بات سنی تو میرے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ ’’اس اللہ کا شکر ہے جس نے رسول اللہ کے نمائندے کو اس بات کی توفیق دی جو رسول اللہ کو پسند ہے۔‘‘‘‘

بعینہٖ اسی بات کی ہدایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قاضی شریح کو فرمائی۔ انھوں نے ان کو لکھا:

إذا وجدت شیءًا فی کتاب اللّٰہ فاقض بہ ولا تلتفت إلٰی غیرہ وإذا أتی شئٌ لیس فی کتاب اللّٰہ ولیس فی سنۃ رسول اللّٰہ ولم یقل فیہ أحدًا قبلک فإن شئت أن تجتھد رأیک فتقدم وإن شئت أن تتأخر فتأخر وما أری التأخر إلا خیرًا لک.
’’جب تمھیں اللہ کی کتاب میں کوئی بات مل جائے تو اس کے مطابق فیصلہ کر دو اور اس کے سوا کسی اور چیز کی طرف توجہ مت کرو اور جب کوئی ایسا معاملہ پیش آ جائے جس کے متعلق، نہ اللہ کی کتاب میں کچھ ہو نہ رسول اللہ کی سنت میں کچھ ہو اور نہ تم سے پہلے کسی اور ہی نے اس بارہ میں کوئی فیصلہ کیا ہو، تو تم اگر اس کے بارہ میں اجتہاد کرنا چاہو، تو اجتہاد کرو اور اگر توقف کرنا چاہو تو توقف کرو اور میں توقف کو تمھارے لیے بہتر خیال کرتا ہوں۔‘‘

اسی مضمون کی روایات تھوڑے بہت تغیر اور بعض باتوں کی تشریح کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں۔ ان تمام روایات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ خیرالقرون میں، ہر معاملہ میں، پہلی سند اور پہلا مرجع اللہ کی کتاب تھی۔ کسی مفتی اور قاضی کے سامنے جب کوئی معاملہ لایا جاتا تو وہ اس کا جواب دینے یا اس کا فیصلہ کرنے کے لیے سب سے پہلے کتاب اللہ ہی کی طرف رجوع کرتا، جب اس میں اس کو کوئی واضح بات نہ ملتی تو پھر رسول کی سنت میں دیکھتا اور اگر اس میں بھی اس کوکوئی چیز نہ ملتی تو بدرجۂ آخر اجتہاد سے کام لیتا۔

سنت رسول اللہ

اور یہ سنت رسول اللہ، کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کتاب اللہ سے بالکل الگ ہو یا اس کے خلاف ہو یا کتاب اللہ کی مرکزیت کو نقصان پہنچانے والی ہو یا امت کی وحدت کو، جو ’حبل اللہ‘ کے ذریعہ سے قائم کی گئی ہے، کسی پہلو سے تقسیم کرنے والی ہو۔
سنت رسول اللہ درحقیقت کتاب الٰہی کی تشریح و تفسیر ہے۔ جو باتیں قرآن مجید کے اجمالات و اشارات کے اندر چھپی ہوئی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی باتوں کو واضح فرما دیا ہے۔ اس وجہ سے کتاب اللہ کے بعد سنت رسول اللہ کی طرف رجوع کرنے کی جو ہدایت کی گئی ہے، تو یہ کتاب اللہ سے الگ کسی چیز کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت نہیں کی گئی ہے، بلکہ کتاب اللہ ہی کی اس توضیح و تشریح کی طرف رجوع کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جو صحیح طریقہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ماثور و منقول ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن مجید کی توضیح و تشریح کرنے کا حق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ نہ کسی کو ہو سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کی توضیح و تشریح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توضیح و تشریح کے مقابل میں لائق قبول ہو سکتی ہے۔ البتہ اس بات کی تحقیق ضروری ہے کہ اس کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح ہو۔
ہمارے محقق علما نے سنت کی حقیقت یہی سمجھی ہے اور یہ بالکل صحیح ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے اپنے زمانہ کے منکرین حدیث و سنت کو جو جوابات دیے ہیں، اس سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

عن عمران بن حصین أنہ قال لرجل إنک إمرء أحمق أتجد فی کتاب اللّٰہ الظھر أربعا لا تجھر فیھا بالقراء ۃ؟ ثم عدد علیہ الصلٰوۃ و والزکٰوۃ ونحو ھذا ثم قال أتجد فیہ الصلٰوۃ والزکٰوۃ؟ ونحو ھذا ثم قال أتجد فی کتاب اللّٰہ مفسرًا؟ إن کتاب اللّٰہ أبھم ھذا وإن السنۃ تفسر ذلک.
’’عمران بن حصین سے مروی ہے کہ انھوں نے کسی شخص (غالباً کسی منکر حدیث) سے کہا کہ تم ایک احمق آدمی معلوم ہوتے ہو۔ بھلا قرآن مجید میں کہیں واضح الفاظ میں یہ ہے کہ ظہر کی رکعتیں چار رکعتیں ہیں اور ان میں قراء ت جہری نہیں ہونی چاہیے؟ پھر اسی طرح انھوں نے نماز، زکوٰۃ اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کو گنا کر سوال کیا کہ کیا ان چیزوں کی تفصیلات قرآن مجید میں موجود ہیں؟ قرآن نے تو ان چیزوں کو اجمالی طور پر بیان کیا ہے اور سنت نے ان کی تفصیل کر دی ہے۔‘‘

ایک اور محقق کا جواب ملاحظہ ہو:

عن أیوب أن رجلاً قال لمطرف بن عبد اللّٰہ بن الشخیر: لا تحدثونا إلا بالقراٰن فقال لہ مطرف واللّٰہ ما نرید بالقراٰن بدلًا ولکن نرید من ھو أعلم بالقراٰن منا.
’’ایوب سے مروی ہے کہ ایک شخص (غالباً کسی منکر حدیث و سنت) نے مطرف بن عبد اللہ بن شخیر سے کہا کہ ہم سے قرآن کے علاوہ کچھ نہ بیان کیا کرو۔ مطرف نے اس کو جواب دیا کہ خدا کی قسم، ہم قرآن کا بدل نہیں پیش کرتے، بلکہ اس شخص کی باتیں پیش کرتے ہیں جو ہم سے زیادہ قرآن کو جاننے والا تھا (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم)۔‘‘

بعینہٖ یہی بات حدیث و سنت کے سب سے بڑے عالم، حضرت امام احمد بن حنبل سے بھی مروی ہے۔ وہ بھی سنت کو کتاب الٰہی کی تفسیر و توضیح قرار دیتے ہیں اور نہایت واضح الفاظ میں اس امر کا بھی اعلان کرتے ہیں کہ سنت کتاب اللہ کی کسی چیز کو رد نہیں کر سکتی۔ کتاب اللہ کو صرف کتاب اللہ ہی منسوخ کر سکتی ہے:

قال الفضل بن زیاد: سمعت أبا عبد اللّٰہ یعنی أحمد بن حنبل و سئل عن الحدیث الذی روی أن السنۃ قاضیۃ علی الکتاب فقال ما أجسو علی ھذا أن أقولہ أن السنۃ قاضیۃ علی الکتاب أن السنۃ تفسر الکتاب وتبینہ قال الفضل: وسمعت أحمد بن حنبل یقول لا تنسخ السنۃ شیءًا من القراٰن قال لا ینسخ القراٰن إلا القراٰن.
’’فضل بن زیاد نے کہا کہ ابو عبداللہ (یعنی احمد بن حنبل) سے اس حدیث کی بابت سوال کیا گیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’سنت کتاب اللہ کے خلاف فیصلہ کر سکتی ہے‘ انھوں نے جواب دیا کہ میں یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ سنت کتاب اللہ کے خلاف فیصلہ کر سکتی ہے۔ سنت تو کتاب اللہ کو واضح کرنے والی چیز ہے۔ فضل نے بیان کیا کہ میں نے احمد بن حنبل کو فرماتے سنا کہ سنت قرآن کی کسی بات کو منسوخ نہیں کر سکتی۔ قرآن کو صرف قرآن ہی منسوخ کر سکتا ہے۔‘‘

سنت کے معاملہ میں یہی مذہب حضرت امام شافعی اور جمہور اصحاب مالک کا بھی ہے۔
لیکن یہ بات یہاں یاد رکھنی چاہیے کہ چونکہ سنت قرآن کی ایسی تفسیر ہے جو ایک معصوم کی طرف سے کی گئی ہے، جس کا اجتہاد بے خطا اور جس کا استنباط بالکل قطعی اور بالکل غیر مشتبہ ہے، اس لیے قرآن کے بعد ہم نہ صرف اس کی پیروی کو ضروری قرار دیتے ہیں، بلکہ اس بات کو بھی صحیح قرار دیتے ہیں کہ اس کی جزئیات سے اصول و کلیات مستنبط کر کے بعینہٖ اسی طرح ان اصول و کلیات سے مسائل کی تخریج کی جائے، جس طرح قرآن سے مستنبط کلیات کی روشنی میں مسائل کی تخریج کی جاتی ہے۔ یہ درجہ کتاب اللہ کے بعد صرف سنت رسول اللہ کو حاصل ہے، سنت رسول کے سوا کسی امام و مجتہد کے اجتہادات و استنباطات کو یہ درجہ حاصل نہیں ہے کہ اس کے اجتہادات ہمارے لیے اصول اور سانچہ کا کام دے سکیں اور ہم ان کو کلیات کی حیثیت دے کر ان کو مسائل کی تخریج کے لیے بنیاد بنا سکیں۔

اجتہاد راے

جس طرح سنت کتاب الٰہی سے کوئی الگ چیز نہیں ہے، اسی طرح اجتہاد راے بھی کتاب الٰہی اور سنت سے کوئی علیحدہ شے نہیں ہے۔ اجتہاد راے سے مراد یہ ہے کہ جن پیش آنے والے معاملات کے بارہ میں قرآن یا سنت رسول اللہ میں کوئی واضح بات موجود نہ ہو، ان پر قرآن و سنت کے اشارات کی رہنمائی میں غور کر کے یہ طے کرنا کہ ان میں کتاب اللہ اور سنت رسول سے لگتی ہوئی بات کیا ہو سکتی ہے۔ شریعت نے اس کے لیے جو شرطیں مقرر کی ہیں، ان کی رو سے صرف وہی لوگ اس منصب کے اہل ہو سکتے ہیں جو دین کی نہایت پختہ سمجھ رکھتے ہوں، جن کا مذاق کتاب و سنت کے مزاج سے پوری پوری مناسبت رکھتا ہو، جو زندگی کے معاملات کے نشیب و فراز کے ساتھ ان مقاصد و مصالح کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہوں جو شریعت کے احکام میں ملحوظ ہوتے ہیں۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کا عملی اور اخلاقی درجہ اتنا بلند ہو کہ ان کی نسبت یہ شبہ نہ کیا جا سکتا ہو کہ وہ اللہ کے دین کے معاملہ میں اپنی خواہشوں کو دراندازی کا موقع دیں گے یا کسی خوف اور طمع سے مغلوب ہو کر جھوٹے اجتہادات کریں گے اور جھوٹے فتوے دیں گے۔

فتویٰ اور اجتہاد میں سلف کی احتیاط

مسلمانوں کے اندر جب تک دینی روح باقی رہی، ہر کس و ناکس کی مجال نہیں تھی کہ وہ اجتہاد کرنے اور فتویٰ دینے کی جرأت کر سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارہ میں فرمایا تھا: ’اذا جرء کم علی الفتیا اجرء کم علی النار‘ (جو شخص تم میں سے فتویٰ دینے میں سب سے زیادہ دلیر ہے وہ جہنم میں چھلانگ لگانے کے لیے سب سے زیادہ دلیر ہے)۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تنبیہ کے سبب سے لوگ اجتہاد کرنے اور فتویٰ دینے کے معاملہ میں اس قدر احتیاط کرنے لگے تھے کہ اس سے زیادہ احتیاط کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت براء فرماتے ہیں کہ میں انصار میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سو بیس ایسے صحابیوں سے ملا ہوں جن کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ جب ان سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو ان میں سے ہر ایک کی یہ خواہش ہوتی کہ کاش، اس کے بتانے کی ذمہ داری کوئی دوسرا اٹھا لے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ تھے اور ان کے منصب کی ذمہ داریوں میں یہ بات داخل تھی کہ وہ پیش آنے والے معاملات کے فیصلے بھی کریں گے، اور اگر ان کے قُضاۃ و عمّال کسی معاملہ میں ان سے رجوع کریں تو ان کی رہنمائی بھی کریں۔ لیکن ان کی احتیاط کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ جب ان کے ایک عامل نے کسی معاملہ میں ان سے رجوع کیا تو انھوں نے اس کو جواب میں لکھا کہ ’واللّٰہ ما أنا بحریص علی الفتیا ما وجدت منہ بدًا‘ (خدا کی قسم، میں جب تک فتوے کی ذمہ داری سے بچ سکتا ہوں، اس وقت تک میں فتویٰ دینے کا خواہش مند نہیں ہوں، تمھارا علم اس ذمہ داری کے لیے کافی ہے)۔ انھی کا ارشاد ہے کہ ’أعلم الناس بالفتوی أسکتھم وأجھلھم بھا أنطقھم‘ (جو فتویٰ کی ذمہ داریوں سے جتنے ہی زیادہ واقف ہیں، وہ اتنے ہی زیادہ خاموش ہیں اور جو اس چیز سے جتنے ہی زیادہ بے خبر ہیں، وہ فتوے دینے میں اتنے ہی زیادہ بے باک ہیں)۔ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فقہا کا یہ حال تھا کہ وہ جب تک فتویٰ دینے کی ذمہ داریوں سے بچ سکتے تھے، اس وقت تک فتویٰ دینے سے گریز کرتے تھے، صرف اسی صورت میں اس بارگراں کو اٹھاتے جب اس کے لیے بالکل ہی مجبور ہو جاتے۔ حضرت امام احمد بن حنبل کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے اپنے آپ کو فتوے کے لیے پیش کیا، اس نے اپنے سر بہت بڑی ذمہ داری لے لی۔ مفتی کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ اللہ کے نام سے امر اور نہی کا اعلان کرتا ہے اور اس کے بارہ میں ایک دن اس سے پرسش ہونی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگ ہم سے فتویٰ پوچھتے ہو اور ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش، ہم سے فتویٰ نہ پوچھا جاتا۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق منقول ہے کہ ان سے جب کوئی فتویٰ پوچھا جاتا تو وہ اس کا جواب اس طرح ڈرتے ہوئے دیتے گویا جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑے ہوئے ہیں۔
سلف سے اس قسم کے اقوال کا ایک دفتر منقول ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ حضرات اجتہاد کرنے اور فتویٰ دینے میں اس قدر احتیاط اور اس قدر پرہیز گاری سے کیوں کام لیتے تھے؟ جس کام کو آج ہمارے دینی مدرسوں کے معمولی مدرسین اپنے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھتے ہیں، آخر اس میں ایسا اشکال کیا چھپا ہوا تھا کہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ جیسے لوگ اس سے تھرّاتے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے تھے کہ جس معاملہ سے متعلق اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت میں کوئی واضح ہدایت موجود نہ ہو، اس میں زبان سے کوئی بات نکالنا بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔ اس طرح کے معاملات میں کتاب و سنت کے اشارات سے رہنمائی حاصل کر کے یہ متعین کرنا کہ اللہ اور اس کے رسول کی شریعت کے مزاج سے قریب تر بات فلاں ہے، کوئی آسان کام وہ نہیں خیال کرتے تھے۔ وہ اس راز سے بے خبر نہیں تھے کہ اس امت کی ہستی اللہ کی کتاب سے وابستگی ہی پر قائم ہے اور ایک مجتہد اور ایک مفتی اپنی غفلت یا اپنی کم علمی کے سبب سے اس وابستگی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جس کا وبال امت پر بھی آ سکتا ہے اور جس سے خود اس کی آخرت بھی برباد ہو سکتی ہے۔ وہ اس حقیقت سے ناواقف نہیں تھے کہ ایک مجتہد اور مفتی خدا اور اس کے بندوں کے درمیان دخیل بنتا ہے اور اللہ کے نام پر ایک چیز کو حرام یا حلال قرار دیتا ہے، اس وجہ سے اس معاملہ میں اس کی غلطی کوئی معمولی غلطی نہیں ہے، بلکہ بعض حالات میں اس کی غلطی توحید اور شرک کا سوال پیدا کر دیتی ہے۔
اگر آج کے مفتیوں کی طرح ان کے سامنے بھی الگ الگ اماموں کی مرتب فقہیں ہوتیں اور ان کا کام صرف یہ ہوتا کہ ان کے اقوال یاد کر چھوڑیں اور بغیر اس امر کی تحقیق کیے کہ ان اقوال کی کتاب و سنت میں کوئی سند ہے بھی یا نہیں؟ اور اگر ہے تو وہ کیا ہے، اور اس کی حیثیت کیا ہے، ان کو نقل کرتے پھریں، تو معاملہ بے شک آسان تھا۔ لیکن معلوم ہے کہ وہ دین کے معاملہ میں نہ تو اس سہل انگاری ہی میں مبتلا ہوئے تھے اور نہ الگ الگ اماموں کی عصبیت ہی میں گرفتار ہوئے تھے، بلکہ ان کے نزدیک سب سے مقدم مسئلہ، ہر معاملہ میں، اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے وابستگی کا مسئلہ تھا۔ اس وجہ سے وہ اجتہاد کی مشکلات اور اس کی ذمہ داریوں سے گھبراتے تھے۔

صدر اول میں اجتہاد اور فتویٰ کا طریقہ

اس احتیاط و تقویٰ کی وجہ سے اسلام کے ابتدائی دور میں پیشہ ور فتویٰ نویسوں کا وجود نہیں تھا۔ صرف وہی لوگ مجبورانہ اجتہاد و فتویٰ کی ذمہ داریاں ادا کرتے تھے جن پر حکومت کی طرف سے، ان کی اہلیت کے سبب سے، یہ ذمہ داری ڈال دی جاتی تھی۔ فتویٰ و قضا تو درکنار اس زمانہ میں وعظ و نصیحت کرنے کے لیے بھی ہر شخص پیش قدمی کرنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ اس فرض کو بھی بیش تر وہی لوگ انجام دیتے تھے جو حکومت کی طرف سے اس خدمت پر مقرر کیے جاتے تھے۔ اس کے متعلق سنن ابی داؤد میں ایک روایت بھی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو وعظ کرنا امیر کا کام ہے یا اس کے مقرر کیے ہوئے نمائندے کا۔ جو لوگ محض اپنی طلاقت لسانی کی نمایش کرنے اور اپنی چرب زبانی کی لوگوں پر دھاک بٹھانے کے لیے وعظ کرتے پھرتے ہیں، دراں حالیکہ وہ اس ذمہ داری سے سبک دوش ہیں، ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت سخت ناپسند فرمایا ہے:

عن عوف بن مالک الأشجعی قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: لا یقص إلا أمیرًا وما مورا ومختال.(ابو داؤد، باب فی القصص)
’’عوف بن مالک اشجعی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ وعظ نہ کہے مگر امیر یا وہ شخص جو امیر کی طرف سے مامور ہو۔ اور یا پھر وہ جو اپنی نمایش کا شوق رکھتا ہے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ صدر اول میں یہ اجتہادات لوگوں کے درمیان تفریق اور اختلافات پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتے تھے۔ اس زمانہ میں اول تو لوگ انفرادی طور پر اپنی رایوں کے اظہار ہی میں احتیاط برتتے تھے، ثانیاً اگر اظہار کرتے بھی تھے تو اس کی حیثیت ایک راے سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔ ایک مجتہد اپنی انفرادی زندگی کی حد تک تو اپنے اجتہاد کا پابند ہوتا تھا، لیکن نہ وہ دوسروں کو اپنے اجتہاد کا پابند بنانے کی کوشش کرتا، اور نہ اپنے اجتہاد کے مقابل میں دوسروں کے اجتہاد کو غلط قرار دینے کی جرأت کرتا۔ جو لوگ کسی خاص مجتہد کے اجتہادات کی پیروی کرتے، وہ بھی دوسرے مجتہدین کے اجتہادات پر چلنے والوں کو غلطی پر نہیں سمجھتے تھے۔ اس طرح کے انفرادی اجتہادات، اگرچہ صحابہ ہی کے ہوں، غلطی اور صحت دونوں کے محل سمجھے جاتے تھے۔ اس وجہ سے کسی کو بھی یہ دعویٰ کرنے کا حق نہیں تھا کہ وہی حق پر ہے اور دوسرے باطل پر ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم جس معاملہ میں مختلف الراے ہو جاتے، اس کے ہر پہلو میں غلطی اور صحت دونوں ہی کا امکان تسلیم کیا جاتا۔
صدر اول میں اجتہاد راے کا اصلی طریقہ یہ تھا کہ جب لوگوں کے سامنے کوئی معاملہ آتا تو اس کو امیر یا اس کے کسی مامور کے سامنے پیش کرتے اور وہ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کا فیصلہ کر دیتے اور اگر معاملہ پیچیدہ ہوتا تو امیر اس کے لیے ارباب اجتہاد و تفقہ کی مجلس شوریٰ بلاتا اور اس معاملہ کو ان کے سامنے رکھتا اور پھر اجتماعی طور پر جو راے طے پاتی اس کا اعلان کر دیا جاتا۔ یہی چیز ہے جس کو اجماع کہتے ہیں اور جس کو دین میں حجت ہونے کی حیثیت حاصل ہے، کیونکہ اس طرح کے تمام فیصلے خلفاے راشدین نے خیر القرون کے ارباب علم و اجتہاد کے مشورے سے کیے ہیں:

أخرج الدارمی عن المسیّب بن رافع قال کانوا إذا نزلت فیھم قصۃ لیس فیھا عن رسول اللّٰہ أثر إجتمعوا لھا وأجمعوا، فالحق فیما رأوا.
’’دارمی نے مسیب بن رافع سے روایت کی ہے کہ صحابہ کے سامنے جب کوئی ایسا معاملہ آتا جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث منقول نہ ہوتی تو وہ اس پر غور کرنے کے لیے اکٹھے ہوتے اور اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے، تو جو کچھ وہ طے کر دیتے اس کو حق سمجھا جاتا۔‘‘

اس طرح کے اجتماعی فیصلوں کی حیثیت انفرادی اجتہادات سے بالکل مختلف تھی۔ ان کو ایک مستقل شرعی حجت کا درجہ حاصل تھا۔ قاضی اور مفتی ضرورت کے وقت ان کی طرف رجوع کرتے اور ان کے مطابق فتویٰ دیتے اور فیصلے کرتے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت ہے کہ جس معاملہ میں سنت رسول اللہ سے ان کو کوئی رہنمائی نہ ملتی، اس میں وہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے اقوال، اگر پا جاتے تو ان کے مطابق فیصلے کر دیتے۔ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں بزرگوں کے فیصلے بالعموم مجلس شوریٰ کے مشورے سے ہوتے تھے اور ان کی حیثیت اجماعی فیصلوں کی ہوتی تھی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی معاملہ میں میری سنت کے اندر کوئی ہدایت نہ ملے تو ’واجعلوہ شورٰی بینکم ولا تقضوا فیہ برأی واحد‘ ( اس کو شوریٰ کے ذریعہ سے طے کرو۔ انفرادی راے سے اس کا فیصلہ نہ کرو)۔۱؂

عثمان غنی کے زمانہ تک مسلمانوں کا طرز عمل

اس تفصیل سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو گئی کہ خلفاے راشدین کے زمانہ میں راے اور اجتہاد کی آزادی کے باوجود مسلمانوں کے اندر نہ تو کوئی ذہنی انتشار ہی پیدا ہوا تھا اور نہ ان کی سیاسی جمعیت ہی میں کوئی فرق آیا تھا۔ وہ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے ہر گوشہ میں سب سے پہلے کتاب اللہ سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ اگر کتاب اللہ میں کوئی واضح رہنمائی نہ ملتی تو سنت رسول اللہ کی طرف رجوع کرتے۔ اگر سنت رسول اللہ میں بھی کوئی واضح ہدایت نہ ملتی تو پھر اپنے ارباب حل و عقد (اولوالامر) کے سامنے معاملہ کو پیش کرتے اور یہ ان کا کام ہوتا کہ وہ اہل علم اور اہل تقویٰ سے مشورہ کر کے یہ طے کریں کہ اس معاملہ میں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کے مزاج سے موافق تر بات کیا ہو سکتی ہے، اور پھر جو کچھ وہ طے کر دیتے سب اسی کی پیروی کرتے۔ بات طے ہونے سے پہلے تک ہر شخص کو اس امر کی آزادی حاصل ہوتی کہ وہ اپنی راے کا پوری بے خوفی کے ساتھ اظہار کرے، لیکن جب ایک بات اجتماعی طور پر طے ہو جاتی، تو اجتماعی زندگی میں سب اسی پر کاربند ہوتے۔ اجتماعی و سیاسی زندگی کے لیے یہی ضابطہ قرآن مجید نے مسلمانوں کو سورۂ نساء کی مندرجہ ذیل آیت میں بتایا ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ. (النساء ۴: ۵۹)
’’اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرواور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اولوالامر کی اطاعت کرو۔ اور اگر کسی معاملہ میں اختلاف واقع ہو تو اس کے لیے اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو۔‘‘

اس آیت میں اللہ، رسول اور اولوالامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس بات کی ہدایت کی گئی ہے کہ اگر کسی معاملہ میں اختلاف راے واقع ہو جائے تو اس کے فیصلہ کے لیے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی طرف رجوع کیا جائے۔ یہ اختلاف، ظاہر ہے کہ دو ہی صورتوں میں واقع ہو سکتا ہے: یا تو یہ ہو گا کہ اس امر کے بارے میں کتاب اللہ اور سنت رسول میں کوئی ہدایت سرے سے موجود ہی نہیں ہو گی یا ہدایت تو موجود ہو گی، لیکن اس میں تاویل کے مختلف پہلو ہو سکتے ہوں گے۔ ان دونوں صورتوں میں قرآن مجید کی ہدایت یہ ہے کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ یعنی اگر اختلاف تاویل کی نوعیت کا ہے تو وہ تاویل اختیار کی جائے جس کی تائید کتاب و سنت کے دوسرے نظائر سے ہو رہی ہو اور اگر معاملہ کا تعلق اجتہاد سے ہو تو اجتہاد میں یہ بات دیکھی جائے کہ زیربحث معاملہ میں خدا کی شریعت کے مزاج سے قریب تر بات کیا ہو سکتی ہے، اور جو بات قریب تر نظر آئے وہ اختیار کر لی جائے۔
اس آیت میں دو باتیں خصوصیت کے ساتھ قابل توجہ ہیں:
ایک یہ کہ اس میں اطاعت کا حکم تو تین کے لیے دیا گیا ہے اللہ، رسول اور اولوالامر۔ اس لیے کہ سیاسی نظام اس وقت تک وجود میں آ ہی نہیں سکتا جب تک اللہ و رسول کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی بھی اطاعت نہ کی جائے جو خدا اور رسول کی شریعت نافذ کرنے والے ہوں۔ لیکن اختلاف واقع ہونے کی صورت میں رجوع کرنے کا حکم صرف اللہ اور رسول ہی کی طرف دیا گیا ہے، اولوالامر کو اس سے الگ کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون کا مصدر صرف اللہ اور رسول ہی ہیں۔ اولوالامر نہ قانون کا مصدر ہیں اور نہ ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کوئی قدم خدا اور اس کے رسول سے بے نیاز ہو کر اٹھائیں۔ بلکہ اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں اللہ و رسول کی طرف رجوع کرنے کا جو حکم مذکورہ بالا آیت میں دیا گیا ہے، وہ حکم دراصل اولوالامر ہی کو دیا گیا ہے، کیونکہ نظام سیاسی کے ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے یہ انھی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو خدا اور رسول کے راستہ پر چلائیں اور اگر کوئی ایسا موڑ آجائے جہاں اس امر کے تعین میں اختلاف ہو سکتا ہو کہ خدا کی راہ کون سی ہے تو وہاں خدا کی شریعت کے اشارات سے فائدہ اٹھا کر صحیح سمت کا تعین کریں۔
دوسری یہ کہ ’اَطِیْعُوْا‘ (اطاعت کرو) کا لفظ اللہ اور رسول، دونوں کے لیے الگ الگ آیا ہے، لیکن اولوالامر کے لیے اس لفظ کو نہیں دہرایا گیا ہے۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ و رسول کی اطاعت تو مستقل اور غیرمشروط ہے، لیکن اولوالامر کی اطاعت مستقل اور غیر مشروط نہیں ہے، بلکہ وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ ان کے احکام اللہ اور رسول کے احکام کے تحت ہوں۔
یہ جو کچھ ہم نے لکھا ہے، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے زمانہ تک مسلمانوں کا طرزعمل یہی رہا ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ’’ازالۃ الخفاء‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’وعظ و فتویٰ موقوف بود بررائے خلیفہ بدون امر خلیفہ وعظ نمی گفتند و فتویٰ نمی دادند۔ وا خیراً بغیر توقف بر رائے خلیفہ وعظ می گفتند و فتویٰ دادند و دریں وقت مشاورت جماعت در فتویٰ موقوف ماند .......... و تحقیق آنست کہ تازمان حضرت عثمان اختلاف مسائل فقیہ واقع نمی شد در محل اختلاف بخلیفہ رجوع می کردند و خلیفہ بعد مشاورت امرے اختیار می کرد و ہماں امر مجمع علیہ می شد۔ وبعد وجود فتنہ ہر عالمے برائے خود فتویٰ مے داد و دریں زمانہ اختلاف واقع شد۔ و آنچہ شہرستانی در کتاب ملل و نحل گفتہ کہ بمجرد وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اختلاف پدید آئد خطا است۔ اختلاف آن نیست کہ در اثنائے مشاورت اقوال متغائرہ گوئندد بالآخر امرے منقح شود و برہماں امر اجماع کنند۔ اختلاف آنست کہ ہر دو قول مستقر پیدا شود و ہر یکے بجانب خود و ہدم وضع مخالف خواہد .......... ومفسدۂ عظیم کہ برآں مترتب گشت آنست کہ طبقات متاخرین ایں تغیر را بہئیتہا وصفاتہا سنت خیال کردند ازیں جہت کہ اصل او ماخوذ از سنت بود و لائمہ قائم نمودند برتارک آں و مقصر درآں۔‘‘
’’اس زمانہ تک وعظ اور فتویٰ خلیفہ کی رائے پر موقوف تھا۔ خلیفہ کے حکم کے بغیر نہ وعظ کہتے تھے اور نہ فتویٰ دیتے تھے۔ بعد میں خلیفہ کے حکم کے بغیر وعظ کہنے اور فتویٰ دینے لگے اور فتویٰ کے معاملہ میں جماعت کے مشورہ کی جو صورت پہلے تھی وہ باقی نہ رہی.......... تحقیق یہ ہے کہ حضرت عثمان کے زمانہ تک فقہی اختلافات برپا نہیں ہونے پائے تھے۔ جب کوئی اختلافی صورت نمودار ہوتی، خلیفہ کے سامنے معاملہ پیش کرتے، خلیفہ اہل علم و تقویٰ سے مشورہ کرنے کے بعد ایک رائے قائم کرتا اور وہی سب لوگوں کی اجماعی رائے بن جاتی۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد ہر عالم بطور خود فتوے دینے لگا اور اس طرح مسلمانوں میں اختلاف برپا ہوا۔ اور شہرستانی نے اپنی کتاب ملل و نحل میں یہ جو لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی فقہی اختلافات اٹھ کھڑے ہوئے تو یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اختلاف اس چیز کو نہیں کہتے کہ مشورہ کے دوران میں لوگ رایوں کا اظہار کریں یہاں تک کہ ایک منقح بات بالآخر طے ہو جائے اور لوگ اس پر اجماع کر لیں۔ اختلاف یہ ہے کہ کسی امر میں دو مستقل قول پیدا ہو جائیں اور ہر قول اپنی اپنی جگہ پر اس امر کا مطالبہ کرے کہ وہی باقی رہے اور دوسرا مٹ جائے .......... سب سے بڑی خرابی جو اس صورت حال سے نمودار ہوئی، وہ یہ ہے کہ بعد کے لوگوں نے ان اختلافات کو، محض اس خیال کی بنا پر کہ اگلوں نے جو کچھ کہا ہو گا، سنت نبوی ہی سے اخذ کر کے کہا ہو گا، سنت کا درجہ دے دیا اور جن کو ان کا تارک پایا یا جن کو ان کے معاملہ میں کوتاہی کرنے والا دیکھا، ان پر ترک سنت کا الزام دھرنے لگے۔‘‘

شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیان سے یہ بات صاف واضح ہوتی ہے کہ جب تک اسلامی نظام اپنی اصلی صورت میں قائم رہا اس وقت تک امت میں اگرچہ ہرقسم کے فقہی اختلافات پیدا ہوتے تھے، اہل علم ان اختلافات پر پوری آزادی کے ساتھ بحثیں بھی کرتے تھے، لیکن یہ اختلافات مسلمانوں کے اندر انتشار اور تفریق پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتے تھے، کیونکہ ہر اختلاف بالآخر خلیفہ کے سامنے پیش ہوتا اور وہ اس کے بارے میں اپنی مجلس شوریٰ سے مشورہ کر کے کوئی منقح بات طے کر دیتا جس کو سب تسلیم کر لیتے۔ اور اگر اس طرح کے فیصلہ سے کسی خاص شخص کو اختلاف بھی ہوتا، تو اس اختلاف کی حیثیت صرف ایک راے کی ہوتی۔ قضا اور فتویٰ کے سارے معاملات خلیفہ اور مجلس شوریٰ کے فیصلہ کے مطابق ہی انجام پاتے۔

 

۱؂ بعض لوگوں نے اس روایت پر شبہ کیا ہے۔ ممکن ہے نقطاً یہ روایت صحیح نہ ہو، لیکن خلفاے راشدین کا عمل اس روایت کے مفہوم کی تصدیق کرتا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت فروری 2014
مصنف : امین احسن اصلاحی
Uploaded on : Feb 14, 2017
2708 View