کرپشن کا خاتمہ: ٹارگٹ نہیں، پروسس ہے

کرپشن کا خاتمہ: ٹارگٹ نہیں، پروسس ہے

 خدا جانے ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو احتساب سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر بیٹھے ہیں اور کہہ رہے ہیں :’’عسکری حکومت جلد از جلد احتساب اور کرپشن کے خاتمے کا عمل مکمل کر کے واپس چلی جائے ۔‘‘ گویا احتساب اور کرپشن کا خاتمہ بھل صفائی مہم جیسا کوئی ٹارگٹ ہے ، جسے چند دنوں میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔
آخر ان لوگوں کو کون سمجھائے کہ کرپشن کا خاتمہ ٹارگٹ نہیں ، مسلسل عمل ہے ۔ اسے اگر بطور ٹارگٹ لیا جائے تو کبھی کسی معاشرے کو کرپشن سے پاک نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح نہ تو جمہوریت کرپشن کا باعث ہے اور نہ جمہوریت کو ختم کر کے کرپشن کو ختم کیا جا سکتا ہے ۔ کرپشن کے عوامل کچھ اور ہیں ۔ صرف سیاست دان کرپٹ نہیں ہیں ، بلکہ معاشرے کے سبھی شعبوں کے لوگکرپٹ ہیں ۔ کرپشن صرف چند سیاست دانوں یا افسروں کو قید کرنے سے ختم نہیں ہو گی ؟ اس کے لیے معاشرتی قدروں کو بدلنا ہو گا ۔ خوفِ خدا اور خوفِ آخرت کے جذبے کو ابھارنا ہو گا ۔ معاشرتی تفریق کو ختم کرنا ہو گا ۔ آئین اور قانون کو بالادست بنانا ہو گا اور ہاں ، سب سے بڑھ کر یہ کہ پہلے حکمرانوں کو قانون کے سامنے جواب دہ ہونا ہو گا۔
کیا کرپشن صرف پاکستان میں ہے ؟ کیا پوری انسانی تاریخ میں کوئی دور ایسا آیا ہے ،جب کرپشن کا وجود یکسر ختم ہو گیا ؟ کیا دیگر جمہوری ممالک کرپشن سے پاک ہیں؟ ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے ۔ کرپشن اس وقت بھی ہر ملک اور ہر جگہ موجود ہے ۔ کسی جگہ کم ہے او رکسی جگہ زیادہ ۔ لیکن کسی بھی ملک میں اس کے خاتمے کے لیے جمہوریت کی بساط نہیں لپیٹی جاتی ۔ اس کے لیے آئین کو بالاے طاق نہیں رکھا جاتا ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ دانا لوگ جانتے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ ٹارگٹ نہیں ، بلکہ مسلسل عمل ہے ۔
ایک دفعہ ایک ٹی وی پروگرام میں ہندوستان کے تین سابق وزاے اعظم گجرال ، وی پی سنگھ اور چندر شیکھر آئے ۔ سپریم کوٹ کے سابق چیف جسٹس احمدی بھی ان کے ہمراہ تھے ۔ یہ لوگ تقریباً ڈیڑھ سو سامعین کے سامنے ہندوستان کے مسائل کا ذکر کر رہے تھے ۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟تو ان سب کا متفقہ جواب تھا : ’’کرپشن‘‘ ۔ چینی وزیر اعظم نے ایک دفعہ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے ۔ جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں کئی لوگ کرپشن کے الزامات کے تحت مستعفی ہوئے ۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نیتن یاہو پر کرپشن کا الزام لگا ۔ برطانیہ اور امریکہ میں سیاست دانوں کی کرپشن کے کئی سکینڈل منظرِ عام پر آئے ، لیکن ان ممالک میں کسی نے بھی کرپشن کے خاتمے کے لیے وہ طریقہ اختیار نہیں کیا جو ہمارے ملک میں اختیار کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ ٹارگٹ نہیں ، بلکہ پروسس ہے ۔
ہماری ملکی تاریخ گواہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے احتساب کے نام پر کئی سال گزارے ۔ شاید ان کی نیت بھی خراب نہ تھی ۔ خود جنرل ضیا ء الحق پر کرپشن کا کوئی بڑا الزام بھی نہیں لگا ، لیکن وہ کرپشن کو ختم نہ کر سکے ۔ وجہ واضح ہے کہ وہ کرپشن کے خاتمے کو ٹارگٹ سمجھ رہے تھے ۔ اور اس کے لیے مستقل اور مناسب نظام نہ بنا سکے۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے بھی احتساب کے نعرے لگائے ۔ اس کے لیے کچھ مخصوص لوگوں کو استعمال کیا، لیکن ہاتھ کچھ بھی نہ آیا ۔ میاں نواز شریف آئے ، احتساب کو اپنا اہم ہدف قرار دیا ، اس کے لیے کچھ مخصوص لوگوں کی مدد حاصل کی ، لیکن سب نے دیکھ لیا کہ مسئلہ حل نہ ہوا ۔ اب ایک بار پھر یہ سلسلہ جاری ہے ۔ لوگوں کو پکڑ کر تین تین ماہ تک جسمانی ریمانڈ پر بھیجا جا رہا ہے ۔ انھیں سات ضرب چھ کے تنگ و تاریک کمروں میں رکھا جاتا ہے ، لیکن کون نہیں جانتا کہ کرپشن کا کینسر معاشرے کی رگوں میں بدستور موجود ہے ۔ نہ تو عام آدمی کی زندگی پر کوئی اثر پڑا ہے اور نہ رشوت اور سفارش کا خاتمہ ہوا ہے ۔ پولیس ویسے ہی بھتا وصول کر رہی ہے ۔ عدالتوں میں انصاف کا حصول ویسے ہی مشکل ہے ۔ اس صورت میں اگر کسی خاص سیاست دان کے ساتھ خواہ کتنی ہی سختی کر لی جائے ، عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہ ہو گا ۔ جب تک ہم کرپشن کے خاتمے کو ٹارگٹ کے بجائے مسلسل عمل سمجھ کر اس کے لیے مناسب اور شفاف نظام بنا کر آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی نہیں بنائیں گے، لوگوں میں خوفِ خدا اور خوفِ آخرت پیدا کرنے کی سعی نہیں کریں گے ، تب تک ہزاروں بیوروز بنا لیے جائیں ، ہزاروں سیاست دانوں کو قید کر لیا جائے ، کرپشن کبھی ختم نہیں ہو گی۔

------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت اپریل 2001
Uploaded on : Aug 24, 2016
2670 View