قانون جہاد: چند منتخب احادیث - محمد رفیع مفتی

قانون جہاد: چند منتخب احادیث

نظم اجتماعی میں امیر کی حیثیت
(۱)
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: مَنْ أَطَاعَنِیْ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ وَمَنْ یُّطِعِ الْأَمِیْرَ فَقَدْ أَطَاعَنِیْ وَمَنْ یَعْصِ الْأَمِیْرَ فَقَدْ عَصَانِیْ وَإِنَّمَا الْإِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَاءِہِ وَیُتَّقٰی بِہِ فَإِنْ أَمَرَ بِتَقْوَی اللّٰہِ وَعَدَلَ فَإِنَّ لَہُ بِذٰلِکَ أَجْرًا وَإِنْ قَالَ بِغَیْرِہِ فَإِنَّ عَلَیْہِ مِنْہُ.(بخاری، رقم۲۹۵۷)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: جس نے میری اطاعت کی: اس نے اللہ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی، اس نے اللہ کی نافرمانی کی، جس نے امیر کی اطاعت کی ،اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔مسلمانوں کا حکمران ان کی سپر ہے ، قتال اسی کے پیچھے رہ کر کیا جاتا ہے اور لوگ اپنے لیے اسی کی آڑ پکڑتے ہیں۔ چنانچہ اگر وہ اللہ سے ڈرتے رہنے کا حکم دیتا اور عدل کرتا ہے تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور اگر اس نے اس کے علاوہ رویہ اختیار کیا تو اسے اس کی وجہ سے سزا ملے گی۔‘‘ 
توضیح:
اس حدیث میں درج ذیل دو باتیں بیان ہوئی ہیں:
پہلی یہ کہ اللہ، رسول اور مسلمانوں کے امیر میں کامل ہم آہنگی ہے۔ تینوں کی اطاعت دراصل ایک وحدت ہے، یعنی امیر کی اطاعت نبی کی اطاعت کا حصہ ہے اور نبی کی اطاعت اللہ کی اطاعت کا حصہ ہے۔ چنانچہ آپؐ نے امیر کی اطاعت کو اپنی اور اپنی اطاعت کو اللہ کی اطاعت قرار دیا۔ اسی طرح آپ نے امیر کی نافرمانی کو اپنی اور اپنی نافرمانی کو اللہ کی نافرمانی قرار دیا ہے۔
دوسری یہ کہ مسلمانوں کا امیر ان کے لیے ڈھال کی مثل ہوتا ہے، کیونکہ وہی ان کو دشمنوں سے بچاتا ہے، اور مسلمان اسی کی سرکردگی میں جنگ کرتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جہاد کا سارا معاملہ دراصل مسلمانوں کے امیر ہی سے متعلق ہے۔ یہ کوئی انفرادی عمل نہیں ہے۔
فرد اور قوم کے مفاد کاٹکراؤ
(۲)
عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ وَمَرْوَانَ یُصَدِّقُ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا حَدِیثَ صَاحِبِہِ قَالَا: خَرَجَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَیْبِیَۃِِ... رَجَعَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَی الْمَدِینَۃِ فَجَاءَ ہُ أَبُوْ بَصِیْرٍ رَجُلٌ مِّنْ قُرَیْشٍ وَہُوَ مُسْلِمٌ فَأَرْسَلُوْا فِیْ طَلَبِہِ رَجُلَیْنِ، فَقَالُوا: الْعَہْدَ الَّذِیْ جَعَلْتَ لَنَا فَدَفَعَہُ إِلَی الرَّجُلَیْنِ فَخَرَجَا بِہِ حَتّٰی بَلَغَا ذَا الْحُلَیْفَۃِ فَنَزَلُوْا یَأْکُلُوْنَ مِنْ تَمْرٍ لَہُمْ فَقَالَ أَبُو بَصِیرٍ لِأَحَدِ الرَّجُلَیْنِ: وَاللّٰہِ إِنِّیْ لَأَرٰی سَیْفَکَ ہَذَا یَا فُلَانُ جَیِّدًا فَاسْتَلَّہُ الْآخَرُ فَقَالَ: أَجَلْ وَاللّٰہِ إِنَّہُ لَجَیِّدٌ لَقَدْ جَرَّبْتُ بِہِ ثُمَّ جَرَّبْتُ فَقَالَ أَبُو بَصِیْرٍ أَرِنِیْ أَنْظُرْ إِلَیْہِ فَأَمْکَنَہُ مِنْہُ فَضَرَبَہُ حَتّٰی بَرَدَ وَفَرَّ الْآخَرُ حَتّٰی أَتَی الْمَدِینَۃَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ یَعْدُوْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ رَآہُ: لَقَدْ رَأَی ہَذَا ذُعْرًا فَلَمَّا انْتَہٰی إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: قُتِلَ وَاللّٰہِ صَاحِبِیْ وَإِنِّیْ لَمَقْتُوْلٌ، فَجَاءَ أَبُوْ بَصِیْرٍ فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ قَدْ وَاللّٰہِ أَوْفَی اللّٰہُ ذِمَّتَکَ قَدْ رَدَدْتَّنِیْ إِلَیْہِمْ ثُمَّ أَنْجَانِی اللّٰہُ مِنْہُمْ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: وَیْلُ أُمِّہِ مِسْعَرَ حَرْبٍ لَوْ کَانَ لَہُ أَحَدٌ فَلَمَّا سَمِعَ ذٰلِکَ عَرَفَ أَنَّہُ سَیَرُدُّہُ إِلَیْہِمْ فَخَرَجَ حَتّٰی أَتٰی سِیفَ الْبَحْرِ....(بخاری، رقم۲۷۳۱،۲۷۳۲)

مِسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم باہم تصدیق کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (صلح) حدیبیہ کے زمانے میں (مدینہ سے مکہ کے لیے) نکلے ... ( حدیبیہ کے مقام پر قریش کے ساتھ معاہدے کا واقعہ پیش آیا اور پھر جب) آپ مدینے واپس تشریف لائے، تو قریش کا ایک فرد ابوبصیر مسلمان ہو کر آپ کے پاس آ گیا۔ قریش نے اسے واپس لانے کے لیے دو آدمیوں کو بھیجا۔ انھوں نے آ کر کہا کہ آپ کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہو چکا ہے، (لہٰذا، آپ یہ آدمی ہمیں سونپ دیں) چنانچہ آپ نے معاہدے کے مطابق ابو بصیر کو ان کے سپرد کر دیا ۔ وہ اسے لے کر چل دیے، یہاں تک کہ ذو الحلیفہ کے مقام پر پہنچے تو وہاں وہ کھجوریں کھانے کے لیے اپنی سواریوں سے اترے۔ ابو بصیر نے ان میں سے ایک آدمی سے کہا: بھائی، تمھاری تلوار تو بخدا بڑی عمدہ معلوم ہوتی ہے، اس نے یہ سن کر تلوار اپنی نیام سے نکال لی اور کہا: ہاں، اللہ کی قسم یہ بڑی عمدہ ہے، میں اس کا بارہا تجربہ کر چکا ہوں۔ ابو بصیر نے کہا ذرا مجھے بھی دکھاؤ تو اس نے وہ انھیں دے دی۔انھوں نے اس پر تلوار سے ایسا وار کیا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا اور دوسرا شخص مدینے کی طرف بھاگ گیا اور دوڑتا ہوا مسجد نبوی میں داخل ہوا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا: یہ تو خوف زدہ معلوم ہوتا ہے۔ پھر جب وہ آپ کے پاس آیا تو اس نے کہا: بخدا ،میرا ساتھی مارا گیا ہے اور میں بھی بس مرنے ہی والا ہوں۔ اتنے میں اس کے پیچھے ابو بصیر بھی آ پہنچے اور کہنے لگے: اے اللہ کے نبی، بخدا، اللہ نے آپ کی ذمہ داری پوری کر دی ہے، آپ نے (اپنے عہد کے مطابق) مجھے ان کے سپرد کر دیا تھا ، پھر اللہ نے مجھے ان سے نجات دلا دی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ بات سن کر فرمایا: اس کی ماں پر آفت آئے ، اسے کچھ ساتھی مل گئے ہوتے تو یہ جنگ کی آگ بھڑکا دیتا۔ جب انھوں نے یہ سنا تو جان لیا کہ آپ انھیں دوبارہ ان کے حوالے کر دیں گے۔ چنانچہ وہ وہاں سے نکلے اور سمندر کے کنارے پر آ گئے...۔
توضیح:
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جہاد و قتال کا سارا معاملہ امیر سلطنت ہی سے متعلق ہے۔ اس کی اطاعت سے باہر ہو کر لڑنے کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔
چنانچہ ابو بصیر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دوبارہ آتے ہیں تو یہ صاف محسوس کر لیتے ہیں کہ آپ اپنے معاہدے کے مطابق انھیں دوبارہ قریش کے حوالے کر دیں گے۔ بحیثیت قوم مسلمانوں کا مفاد اسی چیز میں تھا کہ وہ قریش کے ساتھ اپنے عہد کی پاس داری کریں ،جبکہ ابو بصیر کا ذاتی مفاد اپنی آزادی میں تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی آزادی کے لیے یہ راستہ اختیار کیا کہ وہ مسلمانوں کی اجتماعیت ہی سے الگ ہو گئے۔ اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کے دائرے میں رہتے، تو آپ معاہدے کے مطابق انھیں لازماً واپس کر دیتے۔ 
مقبول جہاد 
(۳)
عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: الرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِلذِّکْرِ وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِیُرٰی مَکَانُہُ فَمَنْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ؟ قَالَ: مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا فَہُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ.(بخاری، رقم ۲۸۱۰۔مسلم، رقم۱۹۰۴، رقم مسلسل ۴۹۱۹)

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ کوئی مال غنیمت حاصل کرنے کے لیے لڑتا ہے ،کوئی شہرت اور نام وری کے لیے لڑتا ہے ،کوئی اپنی بہادری دکھانے کے لیے لڑتا ہے ،فرمائیے کہ ان میں سے کس کی لڑائی اللہ کی راہ میں ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اللہ کی راہ میں لڑائی تو صرف اس کی ہے جو محض اللہ کا بول بالا کرنے کے لیے میدان میں اترے۔

(۴)
عَنْ أَبِیْ أُمَامَۃَ الْبَاہِلِیِّ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَرَأَیْتَ رَجُلًا غَزَا یَلْتَمِسُ الْأَجْرَ وَالذِّکْرَ مَالَہُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا شَیْءَ لَہُ فَأَعَادَہَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ یَقُوْلُ لَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا شَیْءَ لَہُ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللّٰہَ لَا یَقْبَلُ مِنْ الْعَمَلِ إِلَّا مَا کَانَ لَہُ خَالِصًا وَابْتُغِیَ بِہِ وَجْہُہُ.(نسائی، رقم۳۱۴۲)

حضرت ابو امامہ باہلی (رضی اللہ عنہ )روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی : اس شخص کے بارے میں فرمائیے جو مالی فائدے اور نام وری کے لیے جنگ کرتا ہے ،اسے کیا ملے گا؟ آپ نے جواب دیا : اسے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔ اس شخص نے تین مرتبہ یہی بات پوچھی اور آپ نے یہی جواب دیا کہ اسے کچھ بھی نہیں ملے گا، پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کوئی عمل بھی اس وقت تک قبول نہیں کرتا ، جب تک کہ وہ خالص نہ ہو اور اس کی رضا مندی کے لیے نہ کیا جائے۔

(۵)
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ ... سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ یُقْضٰی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلَیْہِ رَجُلٌ اسْتُشْہِدَ فَأُتِیَ بِہِ فَعَرَّفَہُ نِعَمَہُ فَعَرَفَہَا، قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِیہَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِیکَ حَتَّی اسْتُشْہِدْتُ قَالَ: کَذَبْتَ وَلٰکِنَّکَ قَاتَلْتَ لِأَنْ یُّقَالَ جَرِیْءٌ فَقَدْ قِیْلَ، ثُمَّ أُمِرَ بِہِ فَسُحِبَ عَلٰی وَجْہِہِ حَتّٰی أُلْقِیَ فِی النَّارِ.... (مسلم، رقم۱۹۰۵، رقم مسلسل۴۹۲۳)

ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ... میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: قیامت کے دن سب سے پہلے اس شخص کا فیصلہ کیا جائے گا جو لڑ کر شہید ہوا تھا۔ وہ خدا کے حضور میں لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا، وہ ان کا اقرار کر ے گا تو اللہ پوچھے گا : تو نے یہ نعمتیں پا کر میرے لیے کیا کیا؟ وہ کہے گا : میں نے تیرے لیے جنگ کی، یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو جھوٹ کہتا ہے،تو نے تو اس لیے جنگ کی تھی کہ لوگ تیری بہادری کا اعتراف کریں ،سو یہ ہو گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کے لیے عذاب کا حکم فرمائے گا اور اسے منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا...۔

(۶)
عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ غَزَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَہُوَ لَا یُرِیْدُ إِلَّا عِقَالًا فَلَہُ مَا نَوٰی.(نسائی، رقم۳۱۴۰)

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلا اور (اس کے ساتھ) اس نے اونٹ باندھنے کی ایک رسی پانے کی نیت بھی کر لی تو اسے صرف وہ رسی ملے گی، اس کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔

(۷)
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ: الْغَزْوُ غَزْوَانِ فَأَمَّا مَنِ ابْتَغٰی وَجْہَ اللّٰہِ وَأَطَاعَ الْإِمَامَ وَأَنْفَقَ الْکَرِیْمَۃَ وَیَاسَرَ الشَّرِیْکَ وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ کَانَ نَوْمُہُ وَنُبْہُہُ أَجْرًا کُلُّہُ وَأَمَّا مَنْ غَزَا رِیَاءً وَسُمْعَۃً وَعَصَی الْإِمَامَ وَأَفْسَدَ فِی الْأَرْضِ فَإِنَّہُ لَا یَرْجِعُ بِالْکَفَافِ.(نسائی، رقم۳۱۹۰،۴۲۰۰)

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: لڑائیاں دو قسم کی ہیں: جس نے خالص اللہ کی رضا جوئی کے لیے لڑائی کی اور اس میں اپنے حکمران کی اطاعت کی، اپنا بہترین مال خرچ کیا، اپنے ساتھیوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کیا اور فساد سے اجتناب کیا تو اس کا سونا جاگنا، سب باعث اجر ہو گا اور جس نے دنیا کو دکھانے اور شہرت اور نام وری کے لیے تلوار اٹھائی اور اپنے حکمران کی نافرمانی کی اور (اس طرح) زمین میں فساد پھیلایا تو وہ برابر بھی نہ چھوٹے گا ۔ 
توضیح:
ان احادیث سے ہمیں درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
۱۔ اللہ کی راہ میں لڑائی صرف اس کی ہے جو محض اللہ کا بول بالا کرنے کے لیے میدان جنگ میں اترے۔
۲۔ مالی فائدے اور نام وری کے لیے جنگ کرنے والے کو آخرت میں کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ صرف اسی عمل کو قبول کرتا ہے جو خالصتاً اس کی رضا مندی کے لیے کیا جائے۔
۳۔ جس شخص نے اپنی بہادری کا اعتراف کرانے کے لیے جنگ کی اور پھر وہ شہید ہو گیا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا:تو نے تو اس لیے جنگ کی تھی کہ لوگ تیری بہادری کا اعتراف کریں ،سو یہ ہو گیا۔ چنانچہ اسے منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
۴۔ جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کی نیت سے نکلا، لیکن اس کے ساتھ اس نے کسی اور چیز کی نیت بھی کر لی تو اسے صرف وہ چیز ہی ملے گی، اس کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہو گا، کیونکہ وہ خالص نیت سے محروم تھا۔
۵۔ جو شخص محض اللہ کی رضا کے لیے جہاد کرتا، اپنے حکمران کی اطاعت کرتا، اللہ کی راہ میں اپنا بہترین مال خرچ کرتا، اپنے ساتھیوں کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کرتا اور فتنہ و فساد سے اجتناب کرتا ہے تو اس کا سونا جاگنا، سب باعث اجر ہوتا ہے۔
۶۔ جو شخص دنیا کو دکھانے اور شہرت و نام وری کے لیے تلوار اٹھاتا، اپنے حکمران کی نافرمانی کرتا اور اس طرح زمین میں فتنہ و فساد پھیلاتا ہے تو وہ قیامت کے دن برابر سرابر کے اعمال پر بھی نہ چھوٹے گا۔

تاریخ: مئی 2012
بشکریہ: محمد رفیع مفتی
مصنف : محمد رفیع مفتی
Uploaded on : May 28, 2016
3754 View