مقدر آزمایش - محمد رفیع مفتی

مقدر آزمایش

 (۶۸)

عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ عَلَی بْنِ آدَمَ حَظَّہُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَکَ ذٰلِکَ لَا مَحَالَۃَ فَزِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ وَالنَّفْسُ تَمَنّٰی وَتَشْتَہِیْ وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذٰلِکَ کُلَّہُ وَیُکَذِّبُہُ.(بخاری، رقم ۶۲۴۳)
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک، اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی (کی آزمایش) کے لیے زنا میں سے اس کا حصہ طے کر دیا ہے، جس سے وہ (اضطراراً یا ارادۃً) لازماً دوچار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیدہ بازی آنکھوں کا زنا ہے اور (لگاوٹ کی) بات چیت زبان کا زنا ہے۔ پھر دل و دماغ خواہش کرتے ہیں اور شرم گاہ کبھی اس سب کی تصدیق کرتی اور کبھی اسے جھٹلا دیتی ہے۔

(۶۹)

عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: کُتِبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ نَصِیْبُہُ مِنَ الزِّنَا مُدْرِکٌ ذٰلِکَ لَا مَحَالَۃَ فَالْعَیْنَانِ زِنَاہُمَا النَّظَرُ وَالْأُذُنَانِ زِنَاہُمَا الْاِسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاہُ الْکَلَامُ وَالْیَدُ زِنَاہَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاہَا الْخُطَا وَالْقَلْبُ یَہْوٰی وَیَتَمَنّٰی وَیُصَدِّقُ ذَلِکَ الْفَرْجُ وَیُکَذِّبُہُ. (مسلم، رقم ۶۷۵۴)
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی (کی آزمایش) کے لیے زنا میں اُس کا حصہ طے کر دیا ہے، جس سے وہ (اضطراراً یا ارادۃً) لازماً دوچار ہوتا ہے۔ چنانچہ دیدہ بازی آنکھوں کا زنا ہے، (لگاوٹ کی) بات چیت (سے لذت لینا)کانوں کا زنا ہے، (اِس طرح کی) باتیں کرنا زبان کا زنا ہے، پکڑنا ہاتھ کا زنا ہے اور (اِس کے لیے) چلنا پاؤں کا زنا ہے۔ پھر دل و دماغ خواہش کرتے ہیں اور شرم گاہ کبھی اُس کی تصدیق کرتی اور کبھی جھٹلا دیتی ہے۔

توضیح:

خدا نے انسان میں جہاں اور بہت سے داعیات رکھے ہیں،وہاں اس کے اندر جنس کا ایک مضبوط داعیہ بھی رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس داعیے کو اس کے لیے ایسی مستقل آزمایش بنا دیا ہے کہ اس میں مکمل طور پر پاک رہنا ممکن نہیں۔ اسی بات کو آپ نے اس حدیث میں ان الفاظ سے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کی آزمایش کے لیے زنا میں سے اس کا حصہ طے کر رکھا ہے، جس سے وہ ارادۃً یا اضطراراً دوچار ہو کے رہتا ہے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ غیر محرم کو دیکھنا، اس سے لگاوٹ کی بات چیت کرنا اور سننا، اسے ہاتھ لگانا اور اس کی طرف چل کر جانا، یہ سب اپنے اپنے درجے میں زنا ہی کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں، اگر آدمی ان سے پیچھے ہٹ جاتا اور توبہ کر لیتا ہے تو گویا اس کی شرم گاہ نے ان کی تکذیب کر دی اور انھیں بطور مقدمات زنا قبول کرنے سے انکار کر دیا ، اس صورت میں آدمی گناہ سے بچ جاتا ہے اور اگر وہ ان میں آگے بڑھتے بڑھتے زنا میں ملوث ہو جاتا ہے تو گویا اس کی شرم گاہ نے ان کی تصدیق کر دی، یعنی انھیں بطور مقدمات زنا قبول کر لیا۔ چنانچہ اس صورت میں آدمی گناہ گار ہو جاتا ہے۔

------------------------------

 

تاریخ: جولائی 2011
بشکریہ: محمد رفیع مفتی
مصنف : محمد رفیع مفتی
Uploaded on : Aug 15, 2016
3038 View