اسبال ازار (۱) - محمد صدیق بخاری

اسبال ازار (۱)

 اسبال ازار کے مسئلے کو ہمارے مذہبی حلقوں میں نہ صرف یہ کہ ایک دینی حکم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ، بلکہ کسی مسلمان کے دین دار ہونے کی علامت کے طور پر بھی مانا جاتا ہے ۔ چونکہ اس مسئلے کو دین اور دین داری ، بلکہ حرام و ناجائز کے ساتھ منسلک کر دیا گیا ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ اسے اس کے بنیادی ماخذ کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے اور وہ بنیادی ماخذ چونکہ احادیث ہی ہیں ، ا س لیے ہم اس مسئلے کو احادیث ہی سے حل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

اسبالِ ازار کے بارے میں بنیادی اور موضوع سے براہِ راست متعلق احادیث پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مضمون اور اسلوب بیان کے لحاظ سے ان میں کسی قدر تنوع پایا جاتا ہے ۔ اس بنا پر ہم انھیں حسبِ ذیل حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں :
۱۔ حکم کا اجمالاً بیان
۲۔ حکم کا صراحت سے بیان
۳ ۔ حکم کی علت کا بیان
۴۔ اشتراکِ علت کا بیان
۵۔ استثنا کا بیان

۱۔ حکم کا اجمالاً بیان

اس ضمن میں دو احادیث نقل ہوئی ہیں :
۱۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تہبندکا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو گا ، وہ (حصہ ) جہنم میں ہو گا ۔ ‘‘ (بخاری ،رقم ۵۳۴۱)

۲۔

’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں : تین قسم کے لوگ ہیں جن سے اللہ روزِ قیامت نہ تو بات کرے گا ، نہ ان کی طرف دیکھے گا ، نہ انھیں پاک کرے گااور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ ارشاد فرمائی۔ حضرت ابو ذر نے کہا : وہ تو ناکام و نامراد ہو گئے ۔ یہ کون ہیں اے اللہ کے رسول؟ آپ نے ارشاد فرمایا : ازار کو لٹکانے والا ، احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنے والا۔‘‘(مسلم ، رقم ۱۵۴)

ان احادیث سے یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں:
o ازار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا جہنم میں ہو گا ۔
o ایسے آدمی سے اللہ نہ روزِ قیامت بات کرے گا ، نہ نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ اسے پاک کرے گا ۔
o دوسری حدیث میں آپ نے تاکید اور مسئلہ کی اہمیت واضح کرنے کے لیے یہ بات تین دفعہ ارشاد فرمائی۔
o ازار لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنے والا ،ان تینوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی زمرے میں رکھا ہے ۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ ان تینوں جرائم میں مخفی علت ایک ہی ہے ، اس لیے غالباً آپ نے ان تینوں کو یکجا کر دیا ہے۔

۲۔ حکم کا صراحت سے بیان

بعض احادیث وہ ہیں جن میں اسبالِ ازار کے ضمن میں کچھ دیگر تفصیلات پائی جاتی ہیں:
۱۔

’’حضرت ابن عمر فرماتے ہیں :میرا گزر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س سے ہوا اور میری حالت یہ تھی کہ میرا تہبند (ٹخنوں سے ) نیچے لٹک رہا تھا ۔ تو آپ نے فرمایا اے عبد اللہ اپنا تہبند اوپر کر ۔ میں نے اوپر کر لیا ۔ پھر آپ نے فرمایا : اور زیادہ کر ۔ میں نے اور زیادہ اوپر کر لیا۔ اس کے بعد سے میں ہمیشہ اس کا خیال رکھتا ہوں ۔ لوگوں نے پوچھا : تہبند کہاں تک ہونا چاہیے ؟ تو آپ نے فرمایا :نصف پنڈلی تک ۔‘‘ (مسلم ، رقم ۳۸۹۲)

۲۔

’’حضرت حذیفہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پنڈلی کے پٹھے سے یا اپنی پنڈلی کے پٹھے سے پکڑا اور فرمایا :یہ تہبند کی جگہ ہے ۔ اگر تو مزید چاہے تو تھوڑا اور نیچے کر لے ، اگر مزید چاہے تو ٹخنوں سے نیچے ہر گز نہیں۔‘‘(ترمذی ، رقم ۱۷۰۵)

۳۔

’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے نماز میں تکبر کی وجہ سے تہبند نیچے لٹکایا ، اس کا اسلام سے کیا تعلق ؟ ‘‘(ابوداؤد ، رقم ۵۴۲)

۴۔

’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں کپڑا لٹکانے سے منع فرمایا ہے ۔‘‘(ترمذی ، رقم ۳۴۵)

۵۔

’’حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکائے نماز پڑھ رہا تھا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا جاؤ وضو کرو ۔ وہ گیا اس نے وضو کیا ۔ پھر (ٹخنوں سے نیچے تہبند لٹکاتا ہوا ) آیا تو آپ نے فرمایا :جاؤ وضو کرو ۔ وہ دوبارہ گیا ۔ وضو کیا ۔ پھر ایک آدمی نے کہا :اے اللہ کے رسول کیا وجہ ہے کہ آپ نے ایک باوضو انسان کو دوبارہ وضو کرنے کا حکم دیا؟ آپ نے فرمایا : وہ تہبند لٹکائے نماز پڑھ رہا تھا ۔ بے شک اللہ تعالیٰ تہبند لٹکانے والے کی نماز قبول نہیں کرتا ۔‘‘(ابوداؤد ، رقم ۵۴۳)

۶۔

’’حضرت ابو سعید خدری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :مسلمان کی تہبند نصف پنڈلی تک ہوتی ہے ۔ اور اگر پنڈلی سے لے کر ٹخنوں تک ہو تب بھی کوئی حرج نہیں ۔ مگر جو ٹخنوں سے بھی نیچے لٹکائے گا تو وہ آگ میں ہو گا ۔ جس نے اپنے تہبند کو تکبر کی وجہ سے گھسیٹا ، اللہ اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں ۔‘‘(ابوداؤد ، رقم ۳۵۷۰)

۷۔

’’حضرت عمرو بن زرارہ انصاری کہتے ہیں کہ وہ چل رہے تھے اور تہبند ٹخنوں سے نیچے تھا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملے تو آپ اپنی پیشانی مبارک پکڑ کر فرما رہے تھے : اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں ، تیرے بندے اور باندی کا بیٹا ہوں ۔ آپ نے فرمایا : اے عمرو ۔ میں نے کہا :اے اللہ کے رسول میں پتلی پنڈلیوں والا آدمی ہوں ۔ آپ نے ارشاد فرمایا : اے عمرو ، بے شک اللہ نے ہر چیز کی تخلیق خوب صورت انداز میں کی ہے ۔ آپ نے اپنی داہنی ہتھیلی کی چار انگلیاں حضرت عمرو کے گھٹنے کے نیچے رکھ کر فرمایا : اے عمرو یہ تہبند رکھنے کی جگہ ہے ۔ پھر آپ نے وہاں سے ہتھیلی مبارک اٹھائی اور ان کے دوسرے گھٹنے کے نیچے رکھی اور فرمایا :اے عمرو یہ تہبند رکھنے کی جگہ ہے ۔‘‘ (مسند احمد ، رقم ۱۷۱۱۴)

۸۔

’’ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امہات المومنین نے آپ سے قمیض کے دامن کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا :اسے (مردوں کی نسبت سے) ایک بالشت زیادہ کر لو ۔ انھوں نے کہا کہ ایک بالشت زیادہ کرنے سے تو پوری ٹانگیں چھپتی نہیں تو آپ نے فرمایا :ایک ذراع کرلو ۔ تو جب بھی ان میں سے کوئی اپنی قمیض بنانا چاہتیں تو اسے ایک ذراع لٹکا لیتیں اور اسے دامن بنا لیتں۔‘‘ (مسند احمد ، رقم ۵۳۷۹)

۹۔

’’حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ یا حضرت امِ سلمیٰ کو حکم دیا کہ وہ اپنا دامن ایک ذراع بنائیں ۔‘‘ (مسند احمد ، رقم ۹۰۱۵)

احادیث کے اس حصے سے مندرجہ ذیل امور واضح ہوتے ہیں:
o تہبند اصلاً نصف پنڈلی تک ہونا چاہیے۔
o ٹخنوں تک رکھنے میں بھی کوئی گناہ نہیں ۔
o نماز میں کپڑا لٹکانے سے منع فرمایا گیا ہے ۔ (اس حدیث کے ضمن میں بعض علما نے کہا ہے کہ یہ اس لیے منع ہے کہ یہ یہود کی عادت تھی ) ۔
o نماز میں تکبر کی وجہ سے کپڑا لٹکانے والے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ (یہود کی مشابہت پر غور کریں تو یہ اسلوب واضح ہو جاتا ہے )۔
o اللہ تہبند لٹکانے والے کی نماز قبول نہیں کرتا ، بلکہ اسے وضو بھی دوبارہ کرنا چاہیے ۔ (تکبر کی علت اور یہود کی مشابہت ذہن میں رکھیں تو شناعت واضح ہو جاتی ہے ) ۔
o جس نے تہبند کو تکبر کی وجہ سے گھسیٹا ، اللہ اس کی طرف نظر رحمت نہ کرے گا ۔
o مسلمان کی تہبند تو نصف پنڈلی تک ہوتی ہے۔ (حضرت ابو سعید خدری کی روایت میں مسلمان کا لفظ قابلِ غور ہے ۔ اسے یہود کے بالمقابل رکھ کر دیکھیں تو بات سمجھ میں آجاتی ہے ) ۔
o آپ نے باقاعدہ ہاتھ سے واضح فرمایا کہ یہ تہبند کی جگہ ہے ۔
o عورتوں کی قمیض کا دامن مردوں کی نسبت ایک ذراع لمبا ہونا چاہیے تاکہ پوری ٹانگیں چھپ جائیں ۔

۳۔ حکم کی علت کا بیان

علت بیان کرنے والی احادیث درجِ ذیل ہیں :
۱۔

’’ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ اس کی طرف (نظر رحمت سے) دیکھے گا بھی نہیں جس نے تکبر کی وجہ سے کپڑا گھسیٹا ۔ (یعنی اتنا لٹکایا کہ گھسٹتا چلا گیا)۔‘‘ (مسلم ، رقم ۳۸۸۷)

۲۔

’’ابنِ عمر نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنا تہبند نیچے گھسیٹتا ہوا چلا جا رہا تھا ۔ آپ نے اس سے کہا کہ میں نے اپنے ان دونوں کانوں سے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا کہ جس نے اپنا تہبند نیچے لٹکایا اور اس لٹکانے سے اس کا ارادہ محض تکبر ہی ہو تو اللہ اس کی طرف روزِ قیامت دیکھے گا بھی نہیں ۔‘‘ (مسلم، رقم ۳۸۹۰)

۳۔

’’ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم سے پہلے لوگوں میں ایک آدمی تھا جو تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند گھسیٹ کر چلتا تھا ، وہ اس کی وجہ سے زمین میں دھنسا دیا گیا ، تاقیامت زمین میں دھنستا ہی چلا جائے گا ۔‘‘(مسلم ، رقم ۳۸۹۵)

۴۔

’’ھبیب کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا کہ جس نے اپنے تہبند کو تکبر سے روندا (گھسیٹا) وہ جہنم میں گھسیٹا جائے گا ۔‘‘ (مسند احمد ، رقم ۱۷۳۸۳)

مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اسبالِ ازار پر جو وعید ہے وہ ان لوگوں کے لیے ہے جو تکبر کی وجہ سے کپڑے نیچے لٹکائیں ۔

۴۔ اشتراکِ علت کا بیان

ازار کے علاوہ بھی کچھ کپڑے ایسے ہیں جو اشتراکِ علت کی بنا پر اسبالِ ازار کی وعید کے زمرے میں آ جاتے ہیں ۔
۱۔

’’سالم بن عبد اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسبال تہبند میں بھی ہے ، قمیض میں بھی اور عمامہ میں بھی، جس نے ان میں سے کسی کو بھی تکبر سے لٹکایا ، اللہ روزِ قیامت اس کی طرف (نظر رحمت سے ) نہ دیکھے گا۔ ‘‘(ابوداؤد ، رقم ۳۵۷۱)

۲۔

’’ابنِ عمر کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنے کپڑے کو تکبر کی بنا پر گھسیٹا (لٹکایا) ، اللہ اس کی طرف نظر نہ کرے گا ۔ ام سلمہ نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ، عورتیں اپنی (قمیض کے ) دامن کیسے بنائیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ (مردوں کی نسبت سے ) ایک بالشت (زیادہ) لٹکالیں ۔ ام سلمہ نے پوچھا اگر پھر بھی قدم کھلے رہیں تو آپ نے فرمایا : ایک ذراع کر لیں ، مگر اس سے زیادہ نہیں ۔‘‘ (نسائی ، رقم ۵۲۴۱)

۳۔

’’ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسبال تہبند میں بھی ہے ، قمیض میں بھی اور عمامہ میں بھی ۔ جس نے ان میں سے کچھ بھی لٹکایا ، اللہ اس پرروزِ قیامت (رحمت کی نظر) نہ کرے گا ۔‘‘ (نسائی ، رقم ۵۲۳۹)

۴۔

’’ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو مجھ پر بڑی نئی اور چمک دار چادر تھی ۔ حضور نے پوچھا : یہ کون ہے ؟ میں نے کہا میں عبد اللہ ہوں ۔ آپ نے فرمایا :اگر تو عبد اللہ یعنی اللہ کا بندہ ہے تو اپنی تہبند کو اونچا کرلو ۔ ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے اونچا کر لیا ۔ آپ نے فرمایا :اور زیادہ کرو ۔ میں نے پھر اونچا کیا یہاں تک کہ نصف پنڈلی تک پہنچ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا جس نے اپنا کپڑا تکبر کی وجہ سے لٹکایا ، اللہ اس کی طرف روزِ قیامت نظر بھی نہ کرے گا۔ ابوبکر کہتے ہیں : میرا ازار تو کبھی لٹک جاتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو (یعنی ابوبکر) ان (متکبرین) میں سے نہیں ۔‘‘ (مسند احمد ، رقم ۶۰۵۶)

۵۔

’’خریم اسدی کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کہا :اے خریم تو کتنا ہی اچھا آدمی ہے اگر تم میں دو خصلتیں نہ ہوں۔ میں نے پوچھا ، وہ کون سی اے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا : تیرا تہبند کا لٹکانا اور بالوں کا کھلا چھوڑنا۔‘‘(مسند احمد ، رقم ۱۸۱۴۳)

ان احادیث سے مندرجہ ذیل نکات معلوم ہوتے ہیں :
o اسبال صرف تہبند کے ساتھ مخصوص نہیں ، دیگر کپڑوں مثلاً عمامہ ، قمیض وغیرہ میں بھی ہوسکتا ہے ، اور اگر وہاں بھی تکبر پیش نظر ہو تو یہی وعید ان کپڑوں کے لیے بھی ہے ۔ اسی طرح بالوں کا کھلا چھوڑنا بھی ناپسندیدہ کہا گیا ہے ۔
o خواتین کو اپنے دامن لمبے رکھنے چاہییں تاکہ ٹانگوں میں سے کچھ حصہ بھی نمایاں نہ ہو ۔
o اللہ کے بندے تکبر کی وجہ سے کپڑا نہیں لٹکاتے ۔ کوئی چاہے کہ وہ اللہ کا بندہ نظر آئے (یعنی عاجزی ظاہر ہو ) تو وہ مکتبرانہ ہیئت اختیار نہ کرے ۔
o جس کا ازار تکبر کی وجہ سے نہیں ، بلکہ ویسے ہی لٹک جاتا ہو ، وہ متکبر لوگوں میں سے نہیں ۔

۵۔ استثنا کا بیان

’’ سالم ، عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس نے اپنا کپڑا تکبر کی وجہ سے لٹکایا اللہ اس کی طرف روزِ قیامت دیکھے گا بھی نہیں ۔ ابوبکر نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ، میرے تہبند کا ایک جانب تو لٹک ہی جاتا ہے، جب تک میں اسے مضبوط باندھ کر نہ رکھوں ۔ حضور نے فرمایا :تو ان میں سے نہیں جو تکبر سے ایسا کرتے ہیں ۔ ‘‘(مسند احمد ، رقم ۵۵۵۳)

اسی طرح کی روایت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے بھی ہے ۔ اس میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کو یہی ارشاد فرمایا۔
مطلب یہ ہوا کہ اس مسئلہ میں استثنا یہی ہے کہ جو تکبر کی وجہ سے ایسا نہ کرے ، وہ اس وعید میں شامل نہ ہو گا۔
احادیث کے ان تمام حصوں پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالی جائے تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں :
۱۔ بعض جگہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اجمالی طور پر روایت ہوئی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غالباً جو بھی اسبالِ ازار کرے گا ، وہ جہنم میں جائے گا ۔
۲۔ یہی بات بعض احادیث میں تفصیل سے آئی تو اس سے کچھ اور چیزیں بھی سامنے آتی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ نماز میں یہ ہیئت منع ہے ۔ اس ممانعت کی وجہ یہود سے مشابہت ہے اور تکبر کی علت ہے ۔
۳۔ پھر بعض احادیث میں واضح طور پر اس حکم کی علت بیان ہوئی ہے کہ چونکہ یہ متکبرانہ ہیئت ہے ، اس لیے منع ہے اور جو تکبر و غرور کی بنا پر ایسا کرے گا ،اس کے لیے جہنم کی وعید ہے ۔ علت بیان کرنے والی ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اجمالی حکم کے اندر جو عموم محسوس ہوتا ہے ، وہ ان احادیث کے ساتھ خاص ہو جاتا ہے ۔ امام نووی بھی یہی بات فرماتے ہیں :

’’ان (احادیث) کے عموم کو ان احادیث کے ساتھ خاص کر دیا جائے گا ، جن میں خیلا (تکبر) کا ذکر ہے ۔ یعنی یہ وعید اس شخص کے لیے ہو گی جو از روے تکبر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے ۔‘‘(شرح نووی ، بحوالہ ’’حرمین ‘‘مارچ ، اپریل ۲۰۰۰)

پھر بعض دیگرکپڑوں مثلاً عمامہ ، قمیض ، چادر وغیرہ میں بھی اگر متکبرانہ ہیئت اختیار کی جائے تو انھیں بھی اسبالِ ازار کی وعید میں شامل کر دیا گیا ہے ۔ یہ شمول بھی احادیث کے عموم کو علت سے خاص کرنے پر دلالت کرتا ہے ۔
اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا استثنا بھی اس علت کو اور موکد کرتا ہے ۔
مسند احمد ، نسائی اور ابن ماجہ میں بیان کردہ درج ذیل حدیث بھی نفسِ مسئلہ کو اور علت کو بالکل عیاں کر دیتی ہے:

عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کلوا واشربوا و تصدقوا والبسوا مالم یخالط اسراف ولامخیلۃ۔ (مسند احمد، سنن نسائی، ابن ماجہ، بحوالہ معارف الحدیث ، ۶/ ۲۹۷)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اجازت ہے کہ خوب کھاؤ، پیو، دوسروں پر صدقہ کرو اور لباس پہنو (جیسا چاہو) ، بشرطیکہ اسراف اور نیت میں فخر و استکبار نہ ہو ۔‘‘

امام بخاری نے حضرت عبد اللہ بن عباس کا یہ قول بھی صحیح بخاری میں نقل کیا ہے:

کل ما شئت والتبس ما شئت ما اخطا تک اثنتان سرف و مخیلۃ۔ (معارف الحدیث ۶/ ۲۹۸)
’’جو بھی جی چاہے کھاؤ اور جو جی چاہے پہنو (جائز ہے) ۔ جب تک دو باتیں نہ ہوں ، ایک اسراف اور دوسرے استکبار و تفاخر۔ ‘‘

(جاری)

------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق
تحریر/اشاعت نومبر 2001
مصنف : محمد صدیق بخاری
Uploaded on : Aug 13, 2016
3711 View