میرا مطالعہ (1) - عمار خان ناصر

میرا مطالعہ (1)

 (برادرم عرفان بھٹی کی فرمائش پر ان کے زیر ترتیب مجموعے ’’میرا مطالعہ’’ کی دوسری جلد کے لیے لکھا گیا)

۱۔ ابتدائی تعلیم اور ذوق مطالعہ کی بیداری

لگ بھگ چار سال کی عمر تھی جب ہم گکھڑ سے گوجرانوالہ میں جامع مسجد شیرانوالہ باغ کے مکان میں منتقل ہوئے۔ مجھے اسکول کی ابتدائی تعلیم کے لیے جامع مسجد کے قریب واقع حبیب کالج میں داخل کروایا گیا جہاں میں نے دوسری جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ یہ اسکول شہر کی معروف سماجی شخصیت علامہ محمد احمد لدھیانوی کی زیر نگرانی چل رہا تھا۔ ہمارے دوست میاں انعام الرحمن انھی کے فرزند ہیں۔ انھوں نے بھی پانچویں تک تعلیم اسی اسکول میں حاصل کی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے بقول انھیں پرائمری مکمل کرنے تک معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ اسکول ان کے والد کا ہے۔ غالباً دوسری جماعت کی تکمیل سے قبل ہی مجھے اسکول سے اٹھا کر جامع مسجد کے شعبہ حفظ میں داخل کروا دیا گیا۔ اس وقت قاری جمیل الرحمن کشمیری یہاں حفظ کے استاذ تھے جو جلد ہی سعودی عرب چلے گئے اور ان کے بعد شعبہ حفظ کے حالات کافی عرصے تک دگرگوں رہے۔ بہرحال آٹھ دس مختلف اساتذہ سے تعلیم حاصل کرتے ہوئے ۱۹۸۵ءکے اوائل میں، میں نے تقریباً سوا نو سال کی عمر میں حفظ مکمل کر لیا۔ حفظ کے آخری استاذ قاری محمد اسلم شہزاد تھے جن سے بعد ازاں میری خالہ کا نکاح ہوا اور پھر چند سال کے بعد وہ بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ سعودی عرب منتقل ہو گئے۔

حفظ کے دوران میں ہی میں نے ایک لحاظ سے عربی گریمر کا پہلا سبق بھی لے لیا جو تعلیم قواعد کی عام ترتیب کے برعکس، یہ تھا کہ ”ان“ کے بعد جو لفظ آئے، اس پر زبر پڑھی جاتی ہے۔ قصہ یوں ہے کہ پارہ الم کے آخری صفحے پر چند سطروں کے فرق سے ”الاسباط“ کا لفظ دو دفعہ آیا ہے۔ پہلی مرتبہ اس پر زیر ہے (الی ابراہیم واسماعیل واسحق ویعقوب والاسباط) اور دوسری دفعہ زبر (ام تقولون ان ابراہیم واسماعیل واسحاق ویعقوب والاسباط)۔ میں جب یہ پارہ حفظ کر رہا تھا تو آخری صفحہ یاد کرتے ہوئے ذہن اس فرق کی طرف متوجہ ہوا۔ سردیوں کے موسم میں جامع مسجد شیرانوالہ باغ کی چھت پر قاری جمیل الرحمن کشمیری صاحب دھوپ میں بیٹھ کر کلاس کو پڑھا رہے تھے۔ والد گرامی کبھی کبھی قاری صاحب کے پاس آ کر بیٹھ جاتے تھے۔ اس دن بھی وہ آئے۔ میں غالباً? سپارہ سنا رہا تھا یا پڑھ رہا تھا تو والد گرامی کو پاس بیٹھا دیکھ کر ان سے پوچھ لیا کہ یہاں پہلے الاسباط پر زیر اور دوسرے پر زبر کیوں ہے؟ یقیناً وہ سوال سن کر ہنسے ہوں گے، بہرحال انھوں نے بتا دیا کہ یہ زبر پیچھے ”ان” کے آنے کی وجہ سے ہے۔ یہ میرا عربی گریمر کا پہلا سبق تھا۔

حفظ کی تکمیل کے فوراً بعد دینی علوم کے رسمی نصاب (جسے عرف عام میں ”درس نظامی“ کہا جاتا ہے) کی تحصیل کا سلسلہ جامع مسجد سے متصل مدرسہ انوار العلوم میں شروع ہو گیا۔ والد گرامی صبح نماز کے فوراً بعد جامع مسجد میں امامت کے مصلے پر ہی بیٹھ کر کچھ اسباق پڑھاتے تھے۔ انھوں نے کریما سعدی اور مراح الارواح کے علاوہ تیسویں پارے کا ترجمہ اور عربی صرف ونحو کے قواعد کا اجراءخود کروایا۔ علم صرف میں بس اسی ایک کتاب کے بارے میں ایک خوش گوار تاثر ذہن پر نقش ہے۔ اس کے علاوہ قانونچہ کھیوالی اور علم الصیغہ وغیرہ کے قواعد کوئی خاص پلے نہیں پڑے۔ یہی معاملہ علم نحو اور دوسرے فنی علوم کا تھا۔ ہدایة النحو اور کافیہ وغیرہ کے اسباق میں بس بے دلی سے شرکت ہوتی رہی۔ شرح ملا جامی حالانکہ ہمارے محبوب استاذ مولانا قاضی حمید اللہ خان نے اپنے غیر معمولی تدریسی ملکہ کے ساتھ پڑھائی تھی، لیکن دوران درس توجہ سے سننے کے علاوہ کتاب میں یا اس کی وساطت سے علم نحو میں کوئی خاص رغبت پیدا نہیں ہوئی۔ عربی نثر کی کتابیں نفحة العرب وغیرہ البتہ شوق سے پڑھنا یاد ہے۔ حریری کی مقامات اور دیوان حماسہ بھی والد گرامی سے ہی پڑھیں اور اس سے عربی زبان وادب کے ساتھ ایک مناسبت سے پیدا ہو گئی۔ درس نظامی کے پہلے پانچ سال جامع مسجد میں اسی طرح بے فکری اور آزاد منشی کے ساتھ مکمل کیے۔ انوار العلوم میں امتحان وغیرہ کا کوئی خاص نظم موجود نہیں تھا۔ البتہ معلوم نہیں کس کی ترغیب پر میں ساتھ ساتھ مدرسہ نصرة العلوم کی جانب سے داخلہ بھیج کر وفاق المدارس کے امتحانات میں شریک ہوتا رہا۔ چونکہ دلچسپی اور محنت مفقود تھی، اس لیے درس نظامی میں شامل علوم میں کوئی قابل ذکر علمی بنیاد نہیں بن سکی۔ البتہ امتحانی ضرورت کے تحت اتنا ضرور ہوا کہ میں نے بعض درسی کتابوں، مثلاً نور الانوار، قطبی اور التوضیح والتلویح کے مباحث اپنی محنت سے حل کیے اور اس سے متون کے فہم اور مشکلات کے حل کی اچھی خاصی استعداد کے علاوہ خود اعتمادی بھی پیدا ہو گئی۔

انگریزی کی تعلیم کا آغاز مشہور سیریز Pick me Up اور معین الترجمہ سے ہوا۔ ایک نو مسلم استاذ، محمد اسلم رحمت (جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہو گیا۔ اللہ جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین) اس کے ٹیوٹر مقرر ہوئے۔ انگریزی دانی کی اصل بنیاد میٹرک کے امتحان کی تیاری کرتے ہوئے ہمارے سادہ او رمخلص استاذ عبد الحمید صاحب نے رکھی اور بڑی محنت سے نویں اور دسویں کا پورا نصاب پڑھایا۔ انھی کی محنت کے نتیجے میں، میں نے میٹرک میں انگریزی کے پرچے میں ڈیڑھ سو میں سے ۱۲۸ نمبر حاصل کیے۔ اس سے اتنی خود اعتمادی پیدا ہو گئی کہ اس کے بعد انٹر میڈیٹ یا گریجویشن کے امتحان، حتی کہ ایم اے انگلش کے امتحانات کی تیاری کے لیے بھی کبھی ٹیوشن لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور میں نے خود اپنے طور پر تیاری کر کے یہ سارے امتحانات پاس کیے۔ غالباً ۲۰۰۰ءیا ۲۰۰۱ءمیں برٹش کونسل لاہور میں ڈیڑھ دو ماہ کا ایک لینگویج کورس بھی پڑھا جس میں بہت اچھی کارکردگی رہی۔

۱۹۹۹ءمیں پنجاب یونیورسٹی سے پرائیویٹ طالب علم کے طور پر بی اے کا امتحان پاس کیا تو خیال ہوا کہ کسی مضمون میں ایم اے بھی کرنا چاہیے۔ میرا رجحان انگریزی میں ایم اے کرنے کی طرف تھا۔ ہمارے دوست میاں انعام الرحمن صاحب سے ان دنوں تعارف اور دوستی کا آغاز ہی ہوا تھا۔ ان سے ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ اس مضمون سے علم میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوگا۔ انھوں نے سیاسیات یا معاشیات وغیرہ کسی مضمون کی تجویز دی۔ استاذ گرامی جاوید احمد غامدی صاحب سے انھی دنوں میں ملاقات ہوئی تو انھوں نے انگریزی ہی میں ایم اے کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ اس سے دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ اعلیٰ علمی مطالعے کے لیے استعداد پیدا ہوگی اور دوسرا چونکہ انگریزی کے ساتھ چونکہ ایک prestige وابستہ ہے تو معاشرے میں تعارف کے حوالے سے بھی فائدہ ہوگا۔ خیر، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج گوجرانوالہ میں ایم اے انگریزی میں داخلہ لیا اور رو دھو کر امتحان بھی پاس کر لیا، لیکن حرام ہے کہ اس کے بعد کبھی انگریزی ادب کی کسی چیز کو ہاتھ لگایا ہو۔

اسی زمانے میں کسی وقت برادرم آصف افتخار سے ملاقات کے لیے LUMS جانا ہوا۔ ملاقات کا مقصد انگریزی زبان کو بہتر بنانے کے لیے راہ نمائی لینا تھا۔ انھوں نے مجھے ایک نصاب بنا کر دے دیا جس میں Norman Lewis کی Word Power Made Easy کے علاوہ Wren & Martin کی انگریزی گریمر، ماریو پوزو کی God Father، ول ڈیوراں کی The Story of Philosophy اور ایک آدھ دوسری کتابوں کے علاوہ ڈان اخبار کا مطالعہ شامل تھا، جبکہ انگریزی لغت کے لیے Oxford's Encyclopaedic English Dictionary تجویز کی گئی۔ میں نے مکمل تو نہیں، لیکن کافی حد تک یہ نصاب مکمل کیا اور اس سے زبان کی استعداد میں نمایاں بہتری محسوس ہوئی۔

عام مطالعے کا آغاز، جیسا کہ عام رواج ہے، قصے کہانیوں اور ناولوں سے ہوا۔ اسکول یا مسجد کی تعلیم کے علاوہ ابتدا ہی سے ہمیں گھر میں جو ماحول ملا، اخبارات اور بچوں کے رسائل اس کا بہت نمایاں حصہ تھے۔ عمرو عیار کی کہانیاں، اے حمید کے طلسماتی ناول، اشتیاق احمد کی جاسوسی کہانیاں اور مظہر کلیم کی عمران سیریز سے کم وبیش ۲۲، پچیس برس کی عمر تک شغف رہا۔ جنگ اخبار روزانہ آتا تھا جبکہ جمعے کے دن جنگ کے ساتھ نوائے وقت، امروز اور مشرق بھی منگوائے جاتے تھے۔ بچوں کے رسائل میں نونہال اور تعلیم وتربیت ہر ماہ آتے تھے۔ بعد کے چند سالوں میں ان کے علاوہ بچوں کی دنیا، آنکھ مچولی اور ذہین وغیرہ بھی آتے رہے، لیکن نونہال اور تعلیم وتربیت کا تسلسل کبھی نہیں ٹوٹا۔ یہ دونوں ہمارے محبوب رسالے رہے اور آج میرے بچے بھی ان سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ اخبار جہاں بچپن سے لے کر نوجوانی تک مسلسل زیر مطالعہ رہا۔ اس کے مختلف سلسلے گھر میں ہر صنف اور عمر کے ذوق کی تسکین کا سامان مہیا کرتے تھے۔ والد گرامی زیادہ دلچسپی سے ”کٹ پیس“ پڑھتے تھے، جبکہ باقی افراد زیادہ تر سلسلہ وار کہانیاں۔ کچھ عرصے کے بعد خواتین کے لیے خواتین ڈائجسٹ بھی آنے لگا۔ والد گرامی کبھی تسلسل سے اور کبھی وقفے وقفے سے حکایت، اردو ڈائجسٹ اور قومی ڈائجسٹ بھی منگواتے تھے۔ جمعے کا جسارت اور کچھ عرصہ ہفت روزہ تکبیر اور زندگی وغیرہ کا آنا بھی یاد ہے۔ اس سارے مواد میں میری دلچسپی کی بھی کوئی نہ کوئی چیز موجود ہوتی تھی، سو وہ بھی نظر سے گزرتی رہی۔

ماہوار جرائد کے علاوہ بچوں کی چھوٹی موٹی کہانیاں، ٹارزن اور عمرو عیار کے قصے، جنوں اور بھوت پریوں کی کہانیاں بھی پڑھی گئیں۔ اچھی طرح یاد ہے کہ کسی رسالے میں ”خزانے کی تلاش“ یا اس سے ملتے جلتے کسی عنوان پر ایک کہانی کا اشتہار دیکھا تو رہا نہ گیا۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز نے شائع کی تھی اور شاید چھ روپے قیمت لکھی تھی۔ میں نے ایک ایک روپے کے کچھ نوٹ اور چونیاں اٹھنیاں جمع کر کے خط کے لفافے میں ڈالیں اور لفافہ شیخ غلام علی کے پتے پر روانہ کر دیا۔ کچھ دن کے بعد خط آیا کہ کتاب کی قیمت اور ڈاک خرچ کا جو مجموعہ بنتا ہے، اس میں سے اتنے پیسے (معلوم نہیں ایک یا ڈیڑھ روپے) کم ہیں۔ چنانچہ وہ بھی بھیجے گئے اور پھر جب مطلوبہ کہانی بذریعہ ڈاک موصول ہوئی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔

تھانے والا بازار سے کھیالی دروازہ کی طرف جائیں تو راستے میں کچا دروازہ آتا ہے۔ یہاں حافظ محمد سعید نام کے ایک بزرگ کی کتابوں اور رسالوں کی دوکان تھی اور اشتیاق احمد کے ناولوں کے علاوہ مظہر کلیم اور صفدر شاہین کی عمران سیریز نیز مقبول عوام رومانی ناولوں کا ایک معقول ذخیرہ میسر تھا۔ یہ کتابیں کرایے پر دی جاتی تھیں۔ یہ ذخیرہ سال ہا سال تک میرے ذوق مطالعہ کی تسکین کا ذریعہ بنتا رہا۔ ابتدا اشتیاق احمد کے ناولوں سے ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ عمران سیریز کا چسکا پڑ گیا۔

بچپن اور لڑکپن میں جن مصنفین کو بہت کثرت سے پڑھا، ان میں اشتیاق احمد بھی تھے۔ ان کے لکھے ہوئے جاسوسی ناولوں کی خاص بات ایک تو اردو ادب کے محاوروں کا استعمال تھا اور دوسرے حب وطن اور اسلامی جذبے کی تعمیر۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں تین چار الگ الگ ٹیمیں متعارف کروائیں جو سب کی سب بہت مقبول ہوئیں، لیکن ہر ٹیم کا اپنا ایک الگ رنگ بھی تھا۔ اگرچہ وہ اس نسل سے تعلق رکھتے تھے جو اپنا وقت کم وبیش گزار چکی ہے، لیکن یقین ہے کہ ان کا تخلیق کردہ ادب اگلی نسل کے بچوں اور نوجوانوں کے لیے بھی یکساں دلچسپی اور کشش کا حامل ہے۔

سنجیدہ علمی مطالعہ کب اور کیسے شروع ہوا، تعین کے ساتھ یاد نہیں۔ البتہ یہ یاد ہے کہ بالکل ابتدائی عمر میں ایک دن والد گرامی جمعرات کو لاہور سے واپس آئے (جہاں وہ ہر ہفتے اپنے مرشد مولانا عبید اللہ انور کی مجلس ذکر میں شرکت کے لیے شیرانوالہ دروازہ جاتے تھے) تو ان کے ہاتھ میں مولانا وحید الدین خان کی کتاب ”علم جدید کا چیلنج“ تھی جو انھوں نے مکتبہ خدام الدین سے خصوصی طور پر میرے لیے خریدی تھی۔ چنانچہ میں نے بھی اہتمام کے ساتھ کئی دن میں یہ کتاب اول تا آخر پڑھی اور عین ممکن ہے کہ مجھے اپنے ذہنی سفر میں جو الحاد کے سوال کا کبھی سامنا نہیں ہوا، وہ اسی ابتدائی مطالعے کے اثرات ہوں۔ اسی زمانے میں ایک اور سنجیدہ فکری کتاب جس کا مطالعہ یاد ہے، وہ بھی مولانا وحید الدین خان ہی کی ”تعبیر کی غلطی“ تھی جس کا نسخہ غالباً کتابوں کے کسی لنڈا بازار سے ملا تھا اور اس وقت ذہنی سطح کے لحاظ سے کافی خشک اور دقیق ہونے کے باوجود یاد پڑتا ہے کہ اس کا کافی حصہ پڑھا تھا۔

(جاری)

بشکریہ مکالمہ ڈاٹ کام، تحریر/اشاعت 9 مارچ 2017
مصنف : عمار خان ناصر
Uploaded on : Apr 06, 2017
4216 View