زبان کے فتنے سے اندیشے کے بارے میں روایات - امین احسن اصلاحی

زبان کے فتنے سے اندیشے کے بارے میں روایات

ترتیب و تدوین: خالد مسعود۔ سعید احمد

(مَا جَاءَ فِیْمَا یُخَافُ مِنَ اللِّسَانِ)

حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ یَسَارٍ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ وَقَاہُ اللّٰہُ شَرَّ اثْنَیْنِ وَلِجَ الْجَنَّۃَ، فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَلَا تُخْبِرُنَا؟ فَسَکَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ عَادَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مِثْلَ مَقَالَتِہِ الْأُوْلٰی فَقَالَ لَہُ الرَّجُلُ: أَلَا تُخْبِرُنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَسَکَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذٰلِکَ أَیْضًا، فَقَالَ الرَّجُلُ: أَلَا تُخْبِرُنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذٰلِکَ أَیْضًا، ثُمَّ ذَھَبَ الرَّجُلُ یَقُوْلُ مِثْلَ مَقَالَتِہِ الْاُوْلٰی فَأَسْکَتَہُ رَجُلٌ إِلٰی جَنْبِہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ: مَنْ وَقَاہُ اللّٰہُ شَرَّ اثْنَیْنِ وَلِجَ الْجَنَّۃَ مَا بَیْنَ لَحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ مَا بَیْنَ لَحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ مَا بَیْنَ لَحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ.
’’عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کے شر سے محفوظ رکھا، وہ جنت میں جائے گا۔ ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیے کہ وہ کیا ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ پھر آپ نے وہی بات فرمائی جو پہلے فرمائی تھی۔ اس شخص نے پھر کہا کہ حضور کیا آپ ہم کو بتائیں گے نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش رہے۔ آپ نے پھر وہی پہلے والی بات دہرائی۔ اس شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ ہمیں بتائیں گے نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی بات فرمائی۔ وہ شخص بھی اپنی پہلی بات دہرانے لگا تو اس شخص کے قریب کے آدمی نے اس کو خاموش کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کے شر سے محفوظ رکھا، وہ جنت میں جائے گا۔ ایک وہ چیز جو اس کے دو جبڑوں کے درمیان ہے اور دوسری وہ جو اس کے دو پاؤں کے درمیان ہے۔ وہ جو دو جبڑوں کے درمیان ہے اور وہ جو دو پاؤں کے درمیان ہے۔ وہ جو دو جبڑوں کے درمیان ہے اور وہ جو دو پاؤں کے درمیان ہے۔‘‘

وضاحت

یہ بڑی اہم روایت ہے۔ ایک تو اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ تعلیم معلوم ہوتا ہے اور دوسرے بڑی ہی حکمت کی بات ہے۔ آں حضرت کا طریقہ یہ نہیں تھا کہ بغیر لوگوں کو پوری طرح متوجہ کیے کوئی اہم بات انڈیل دیں۔ آپ لوگوں کو پوری طرح متوجہ کر کے اور یہ دیکھ کر کہ ان حضرات میں کتنی طلب ہے، ارشاد فرمایا کرتے۔ یہ نہیں کہ طلب نہ ہو اور آپ ٹھونسے چلے جائیں جیسا کہ ہم لوگ کرتے ہیں۔ اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ میرے استاذ مولانا فراہی کا طریقہ یہ تھا کہ وہ از خود کوئی بات نہیں بتاتے تھے جب تک پوچھنے والے میں اتنی طلب نہ ہوتی کہ وہ جرح کرتے کرتے ان کو وہاں تک پہنچا دیتا جہاں تک سوال کرتے کرتے پہنچا جا سکتا ہو۔
جبڑوں اور پاؤں کے درمیان کی دو چیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان اور شرم گاہ کو مراد لیا اور ان پر پہرہ لگانے والے کو جنت کی بشارت دی۔ واقعہ یہ ہے کہ معاشرتی زندگی میں بہت بڑے فتنے انھی چیزوں کے غلط استعمال سے پھوٹتے ہیں۔

حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِیْہِ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ دَخَلَ عَلٰی أَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ وَ ھُوَ یَجْبِذُ لِسَانَہُ فَقَالَ لَہُ عُمَرُ مَہْ غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ، فَقَالَ اَبُوْبَکْرٍ: إِنَّ ھٰذَا اَوْرَدَنِی الْمَوارِدَ.
’’زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ اپنی زبان پکڑ کر کھینچ رہے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا نہ کریں، اللہ تعالیٰ آپ کو بخشے۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ معلوم نہیں اس چیز نے مجھے کن کن گھاٹوں پر پہنچایا۔‘‘

وضاحت

حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ یہ اپنی زبان اس لیے مروڑ رہے ہیں کہ کہیں اس سے غلطی ہو گئی ہو گی، تو کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو معاف کر دیں گے۔ اب زبان کو سزا دینا موقوف کر دیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جواب یہ تھا کہ اس زبان کی لغزشوں نے معلوم نہیں کن کن گھاٹیوں میں مجھے گرایا ہے۔ ابھی پیچھے یہ روایت گزری ہے کہ ایک کلمہ زبان سے ایسا نکل جاتا ہے جس کے اجر و ثواب کی حد نہیں ہوتی۔ اور کبھی آدمی کوئی بات ایسی کر دیتا ہے جس کی ہلاکتوں کا اسے اندازہ نہیں ہوتا۔

(تدبر حدیث ۵۰۸۔۵۱۰)

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2016
مصنف : امین احسن اصلاحی
Uploaded on : Feb 11, 2017
1600 View