جھوٹ اور سچ کے بارے میں روایات - امین احسن اصلاحی

جھوٹ اور سچ کے بارے میں روایات

ترتیب و تدوین: خالد مسعود ۔ سعید احمد

(مَا جَاءَ فِی الصِّدْقِ وَالْکَذِبِ)

حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَیْمٍ أَنَّ رَجُلاً قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَکْذِبُ إمْرَأَتِیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا خَیْرَ فِی الْکَذِبِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَعِدُھَا وَأَقُوْلُ لَھَا؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا جُنَاحَ عَلَیْکَ.
صفوان بن سلیم سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میں اپنی بیوی سے کوئی بات جھوٹ کہہ سکتا ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، جھوٹ میں کوئی خیر نہیں، اس نے کہا: یارسول اللہ، میں اس سے کوئی وعدہ کر لوں، کوئی بات تسلی کی کر لوں تو کیا یہ جائز ہو گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں کچھ حرج نہیں۔

وضاحت

خانگی زندگی کو خوشگوار رکھنے کے لیے آدمی کو کئی تدبیریں کرنی پڑتی ہیں۔ ہر عاقل آدمی مصالحت کی پالیسی اختیار کرتا ہے۔ بسااوقات اس میں بات بنانی پڑتی ہے یا مغالطہ آمیز بات کرنی پڑتی ہے۔ آدمی نے جب یہ سوال کیا کہ کیا میں بیوی سے جھوٹ بول سکتا ہوں؟ تو آپ نے اس کی صاف صاف ممانعت فرما دی کہ جھوٹ بولنے میں کوئی خیر نہیں۔ پھر اس نے پوچھا کہ میں اس سے کوئی وعدہ یا تسلی کی بات کر سکتا ہوں تو آپ نے اس کی اجازت دے دی۔
معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھنے والے کے سوال کا یہ مطلب لیا کہ اس کی پہلی بات ماضی سے متعلق ہے اور دوسری مستقبل سے متعلق۔ تو ماضی کے کسی واقعہ کے بیان کرنے میں جھوٹ نہیں بولا جائے گا، لیکن مستقبل چونکہ پردہ میں ہو تا ہے، اس توقع پر کہ فلاں کام ہو جائے گا، آدمی اس کے بارے میں وعدہ کر سکتا ہے۔ اس میں وعدہ پورا ہونے یا پورا نہ ہونے، دونوں کا یکساں احتمال ہوتا ہے۔ پھر مستقبل کے کسی وعدہ میں یہ شرط مضمر ہوتی ہے کہ اگر حالات نے ساتھ دیا تو یوں کروں گا، اگرچہ یہ شرط الفاظ میں ادا نہ ہوتی ہو۔
اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ بیوی کو جھوٹے چکمے دے کر خوش رکھنا مطلوب ہے۔ البتہ ایسی شکلیں اختیار کی جا سکتی ہیں جو جواز کے اندر ہوں اور ان کی مدد سے آدمی کی گھریلو زندگی خوش گوار رہے۔
روایت میں ’کذب‘ کا جو لفظ آیا ہے، یہ عربی میں وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے مفہوم میں ذومعنی بات یا مغالطہ آمیز بات کرنا بھی شامل ہے، اور جو لوگ بیوی بچے والے ہیں، ان کو گھریلو ماحول سازگار رکھنے کے لیے ایسی باتیں کرنا پڑتی ہیں۔

حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ أَنَّہُ بَلَغَہُ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ کَانَ یَقُوْلُ: عَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّ الصِّدْقَ یَھْدِیْ إِلَی الْبِرِّ وَالْبِرَّ یَھْدِیْ إِلَی الْجَنَّۃِ وَ إِیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ فَإِنَّ الْکَذِبَ یَھْدِیْ إِلَی الْفُجُوْرِ وَالْفُجُوْرَ یَھْدِیْ إِلَی النَّارِ أَلَا تَرٰی أَنَّہُ یُقَالُ: صَدَقَ وَ بَرَّ وَ کَذَبَ وَ فَجَرَ.
عبداللہ بن مسعود فرماتے تھے کہ سچائی کو اختیار کرو، کیونکہ سچائی خدا کی وفاداری کی راہ پر لے جاتی ہے اور خدا کی وفاداری جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ خدا کی نافرمانی کی طرف لے جاتا ہے اور خدا کی نافرمانی دوزخ کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ مثل بیان کی جاتی ہے: ’’اس نے سچ کہا اور وفاداری کی، اس نے جھوٹ کہا اور نافرمانی کی‘‘۔

وضاحت

اس روایت کو بخاری نے بھی لیا ہے۔ وہاں یہ موصول کی شکل میں ہے اور یہاں مرسل ہے۔ سند کے لحاظ سے روایت کا جو درجہ بھی ہو، فلسفۂ دین کے لحاظ سے اس کا درجہ بہت اعلیٰ ہے۔
حضرت ابن مسعود کا کہنا یہ ہے کہ سچائی اختیار کرو، کیونکہ سچائی ہمیشہ تمھیں خیر، نیکی، بِرّ، وفاداری کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور بر جنت کی طرف لے جائے گی۔ ’بر‘ کے صحیح معنی وفاداری کے ہیں۔ نیکی اس کا ناقص ترجمہ ہے۔ قرآن میں ’بَرًّام بِوَالِدَیْہِ‘ * اپنے والدین کے وفا شعار اور فرماں بردار بیٹے کے لیے آیا ہے۔ ’بَر‘ اللہ تعالیٰ کی صفت بھی ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے سارے وعدے پورے کرے گا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جھوٹ سے بچنے کی تلقین کی۔ اگر آپ جھوٹ نہیں بولتے تو شیطان کا آپ پر کوئی زور نہیں چلے گا۔ اگر آپ عزم کر لیں کہ صداقت اختیار کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کی رہنمائی کریں گے۔ اس وقت آپ کی زبان سے وہ باتیں نکلیں گی، جیسے لقمان حکیم کی زبان سے نکلتی تھیں۔
مزید غور کریں تو معلوم ہو گا کہ نفاق کا پردہ جھوٹ کے سوا اور کوئی نہیں اور نفاق ایمان کی ضد ہے۔ نفاق کے ساتھ کوئی چیز باقی ہی نہیں رہتی تو ایمان کیسے باقی رہے گا۔ جھوٹ عملی بھی ہوتا ہے اور قولی بھی۔ عملی جھوٹ تو یہ ہے کہ آپ نماز پڑھیں تو مجبورانہ یا ریاکاری کے لیے پڑھیں۔ قرآن مجید میں ہے کہ ’اِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی‘ ** کسل اور بے دلی کے ساتھ نماز ادا کرنا عملی جھوٹ ہے۔ قولی جھوٹ یہ ہے کہ آپ کہیں کچھ، لیکن آپ کے دل میں اس کا الٹ ہو۔ منافق کے لیے ایک ہی راستہ ہوتا ہے جس پر وہ اعتماد کرتا ہے، وہ یہ ہے کہ قولی اور عملی جھوٹ بول دے گا۔ آپ کو بے وقوف بنا دے گا۔ وعدے کی خلاف ورزی کرے گا، لیکن اس کی بات کا کوئی وزن نہ ہو گا۔ سچا آدمی کسی کو اس طریقے کا دھوکا نہیں دے سکتا۔ اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہوتا، کیونکہ اس نے تو سچی بات کہنی ہے۔ وہ اگر کر سکتا ہے تو مغالطہ آمیز بات کر سکتا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بعض نازک مواقع پر ذومعنی بات کر کے اپنی قوم کو غچا دے دیا۔ لیکن اس کے لیے بڑی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں اس کی نہایت عمدہ مثال ہمارے سب سے بڑے آدمی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ملتی ہے۔ میں جب اس کو یاد کرتا ہوں تو عش عش کر اٹھتا ہوں۔ مدینہ منورہ کو ہجرت کے سفر میں آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق تھے۔ کفار مکہ نے حضور کی گرفتاری کے لیے آدمی پھیلا رکھے تھے۔ اسی دوران میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جاننے والا ایک شخص سر پر آپہنچا۔ اس نے انھیں مخاطب کر کے پوچھا: ’من معک ھذا‘ (یہ آپ کے ساتھ کون ہے؟) غور کیجیے کہ ناگہانی طور پر اس سوال کا فوری جواب دینا کتنا مشکل تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت ہو جانے میں کتنے خطرات درپیش ہو سکتے تھے، لیکن نہایت سادگی سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا ’رجل یھدینی الطریق‘ (ایک شخص ہے جو مجھے راستہ دکھاتا ہے)۔ یہ کتنی سچی بات تھی۔ صحرائی سفر میں راستہ دکھائے بغیر آدمی سفر کر ہی نہیں سکتا۔ اس حوالہ سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ممکن ہے آدمی کرائے پر لیا ہو تا کہ راستہ دکھائے۔ دوسری طرف پیغمبر سے بڑھ کر صحیح راستہ دکھا نے والا کون ہو سکتا ہے؟ پوچھنے والے کا ذہن پہلی بات کی طرف چلا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی ممکن خطرہ سے محفوظ ہو گئے۔ اس طرح کی گفتگو بجاے خود سچ پر مبنی ہوتی ہے، لیکن کہنے کے انداز سے دوسرا آدمی غچا کھا جاتا ہے۔

حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ أَنَّہُ بَلَغَہُ أَنَّہُ قِیْلَ لِلُقْمَانَ: مَا بَلَغَ بِکَ مَا نَرٰی؟ یُرِیْدُوْنَ الْفَضْلَ، فَقَالَ لُقْمَانُ: صِدْقُ الْحَدِیْثِ وَأَدَاءُ الْأَمَانَۃِ وَتَرْکُ مَالَا یَعْنِیْنِیْ.
امام مالک کی بلاغات میں سے ہے کہ لقمان حکیم سے پوچھا گیا کہ آپ کو جو بلند درجہ ملا ہے آپ اس پر کس طرح سے پہنچے ہیں، تو لقمان نے کہا کہ بات کی صداقت سے، امانت کی ادائیگی سے اور اپنے سے غیر متعلق باتوں سے اجتناب کی بنا پر۔

وضاحت

یہ تینوں باتیں اپنی جگہ پر اٹل ہیں۔ حضرت لقمان نبی نہیں تھے، بلکہ عرب کے حکما میں سے تھے۔ قرآن مجید میں ان کا ذکر اپنے بیٹے کو نصیحت کرنے کے ضمن میں ہوا ہے۔ اس میں یہ باتیں نہیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بعض واقعات اور اقوال عرب میں مشہور بھی تھے اور لوگ ان کو بیان کرتے تھے۔ انھی میں سے ایک واقعہ امام مالک نے لیا ہے۔
حضرت لقمان حکمت کے جس بلند مقام تک پہنچے، اس کو وہ تین صفات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ سچائی، امانت اور غیرمتعلق باتوں سے سروکار نہ رکھنا۔ یہ تینوں نہایت بلند اخلاقی صفات ہیں۔ سچائی اور امانت کا وصف تو قرآن مجید کی رو سے ہر پیغمبر کا لازمی وصف ہوتا ہے۔ اسی طرح جس آدمی کے سامنے کوئی مقصد زندگی ہو، اس کے پاس غیرمتعلق باتوں میں دل چسپی لینے کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا۔
یہ روایت بھی کسی پہلو سے حدیث کی تعریف میں نہیں آتی۔ امام مالک کے ہاں اس طرح کی بلاغات کی کثرت کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ ابتدائی دور میں کسی بھی اچھی بات کو روایات میں جگہ دے دی جاتی تھی۔ خواہ وہ کسی سابق پیغمبر سے منسوب ہو یا اس کی نسبت کسی حکیم شخص یا صحابی کی طرف کی جاتی ہو۔ چونکہ اس طرح کی حکیمانہ باتیں عوام کی زبان پر چڑھ جاتی ہیں، اس لیے امام مالک نے ان کو بلاغات کے طور پر لے لیا، یعنی ان کے لیے سند کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ سند کا جو پہاڑ بنا لیا گیا، یہ بعد کی بات ہے۔

حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ أَنَّہُ بَلَغَہُ أَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ کَانَ یَقُوْلُ: لَا یَزَالُ الْعَبْدُ یَکْذِبُ وَ تُنْکَتُ فِیْ قَلْبِہِ نُکْتَۃٌ سَوْدَاءُ حَتّٰی یَسْوَدَّ قَلْبُہُ کُلُّہُ فَیُکْتَبَ عِنْدَ اللّٰہِ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ.
امام مالک کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے تھے کہ آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے تو ایک ایک سیاہ نکتہ اس کے دل پر پڑتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کا دل بالکل سیاہ ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ جھوٹوں میں لکھا جاتا ہے۔

وضاحت

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول صحیح اور اصول کے مطابق ہے۔ گناہ کرنے کے متعلق جو روایت آئی ہے، اس میں یہ ہے کہ آدمی جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نشان پڑ جاتا ہے جو توبہ و استغفار سے صاف ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر آدمی پروا نہ کرے اور گناہ کرتا رہے تو پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید سے بھی دلوں پر مہر ہو جانے کی حقیقت یہی معلوم ہوتی ہے کہ دل اس طرح بند ہو جاتا ہے کہ نیکی کی کوئی کرن اس سے گزر نہیں کر پاتی۔ چونکہ جھوٹ تمام گناہوں کی بنیاد ہے، اس لیے گناہ کے بارے میں سنۃ اللہ کا اطلاق اس پر ہو گا۔ لہٰذا حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول بالکل ٹھیک ہے۔ اگرچہ روایت کی حقیقت بلاغات کی ہے اور یہ موقوف بھی ہے۔

حَدَّثَنِیْ مَالِکٌ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَیْمٍ أَنَّہُ قَالَ: قِیْلَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ جَبَانًا؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَقِیْلَ لَہُ: أَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ بَخِیْلاً؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَقِیْلَ لَہُ: أَیَکُوْنُ الْمُؤْمِنُ کَذَّابًا؟ فَقَالَ: لَا.
حضرت صفوان بن سلیم کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا۔ ہاں، پھر پوچھا گیا کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ پھر سوال کیا گیا کہ کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے۔ تو آپ نے فرمایا، نہیں۔

وضاحت

سند کے لحاظ سے یہ روایت مرسل ہے اور اس لحاظ سے اس کی کوئی اہمیت نہیں، لیکن بات اپنی جگہ پر ٹھیک ہے۔ بہت اعلیٰ درجے کا ایمان ہو گا تو آدمی بزدل ہو گا، نہ بخیل۔ لیکن یہ کمزوریاں رکھتے ہوئے بھی مومن مختلف درجات کے ہوتے ہیں۔ البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کے کذاب ہونے کی نفی کر دی، اس کی وجہ یہ ہے کہ جھوٹ منافق کا شیوہ ہوتا ہے اور منافق مومن نہیں ہوتا، بلکہ وہ بہت ہی گھٹیا قسم کا کافر ہوتا ہے۔ اخلاقی جرأت کے فقدان کے باعث وہ مومن ہونے کا دعویٰ کر تا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ جہنم کے سب سے بدترین درجے میں ہو گا۔ پھر اس امت کے افراد کی منصبی ذمہ داری حق کی سچائی کی گواہی دینا ہے، اس لیے کوئی صاحب ایمان اس وصف سے خالی نہیں ہو سکتا۔

 

* مریم ۱۹: ۱۴۔
** النساء ۴: ۱۴۲۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت مارچ 2014
مصنف : امین احسن اصلاحی
Uploaded on : Mar 13, 2017
3646 View