خدا کے بارے میں سوال - طالب محسن

خدا کے بارے میں سوال

(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث : ۷۵ )

وعن أبی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال : لا یزال الناس یتساء لون حتی یقال : ھذا خلق اﷲ الخلق ، فمن خلق اﷲ ؟ فاذا قالوا ذلک فقولوا : اﷲ أحد ، اﷲ الصمد، لم یلد و لم یولد ، ولم یکن لہ کفوا أحد ، ثم لیتفل عن یسارہ ثلاثا ، و لیستعذ باﷲ من الشیطان الرجیم۔
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگ سوال کرتے رہیں گے یہاں تک کہ کہا جائے گا : اس مخلوق کو تو اللہ تعالیٰ نے تخلیق کیا ہے ،(پھر) اللہ تعالیٰ کو کس نے تخلیق کیا ہے ؟ جب وہ یہ کہیں تو اس کے جواب میں کہو : اللہ ایک ہے ، اللہ سب کا سہارا ہے ، نہ اس کا بیٹا ہے اورنہ اس کا باپ ، اور نہ کوئی اس کا ہم پلہ ہے ۔پھر اسے چاہیے کہ اپنی دائیں جانب تین مرتبہ تھوک دے ۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کی شیطان مردود سے پناہ مانگے ۔‘‘

لغوی مباحث

الخلق : ’ خَلَقَ‘ سے مصدربطور اسم بھی آتا ہے ۔ روایت کے مضمون سے واضح ہے کہ یہاں اس سے تمام مخلوقات مراد ہیں ۔
الصمد: پناہ کی چٹان ، وہ ذات جس کا سہارا لیا جاتا ہو ۔
لیتفل: ’ تَفَلَ ، یَتْفُلُ‘ سے فعل امر غائب : وہ تھوک دے ۔
ولیستعذ: استعاذہ سے مراد شیطان کو دور کرنے میں معاونت کی طلب ہے۔
الرجیم: ۔فعیل کے وزن پر صفت کا صیغہ ہے ۔ وہ جسے رسوا کرکے مار مار کر نکال دیا گیا ہو ۔ یہ شیطان کے راندۂ درگاہ ایزدی ہونے کے باعث اس کی مستقل صفت ہے ۔ تعوذ میں اس کا التزام اس لیے سکھایا گیا ہے تاکہ شیطان کا ملعون ہونا مستحضر رہے ۔

متون

بخاری میں یہ روایت ’فمن خلق اﷲ ؟ ‘ کے سوال پر ختم ہو گئی ہے ۔ مسلم کی روایت میں ’فإذا قالوا ذلک ‘ کے بجائے ’فمن وجد من ذلک شیء‘ کے الفاظ ہیں اور اس وسوسے پر قابو پانے کے لیے سورۂ اخلاص کے مضامین کی جگہ محض اللہ پر ایمان کو دہرانے کی تلقین کی گئی ہے ۔ ابوداؤد میں اس روایت کے دو متن روایت ہوئے ہیں ۔ ایک متن بعینہٖ مسلم کا متن ہے ۔ البتہ دوسرامتن وہی ہے جسے صاحبِ مشکوٰۃ نے منتخب کیا ہے ۔ احمد نے بھی اسی روایت کو لیا ہے ، جس میں سورۂ اخلاص کے مضامیں نہیں ہیں ۔ سنن کبریٰ میں ’لایزال الناس‘ کے موقع پر ’یوشک الناس أن یتساء لوا بینھم حتی یقول قائلھم ‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔یہ تمام متون معمولی فرق کے ساتھ ایک ہی مضمون کے حامل ہیں ۔

معنی

اس روایت میں بنیادی طور پر ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات سے نمٹنے کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔ان سوالات سے عہدہ برآ ہونے کا جو طریقہ اس روایت میں تجویز کیا گیا ہے، اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ذاتِ باری کے بارے میں اٹھنے والے سوالات شیطانی وسوسے کا نتیجہ ہیں۔ چنانچہ اس نوع کے سوالات کا کوئی تجزیہ کرنے اور انھیں حقیقی علمی سوالات مان کر ان کا جواب تلاش کرنے کے بجائے صرف ان سوالات کے نفس پر پڑنے والے مضر اثرات سے بچنے کا طریقہ تجویز کیا گیا ہے ۔
اس طریقے کے دو اہم اجزا ہیں : ایک جز وہ ہے جس میں سورۂ اخلاص کے مضامین کو اپنے مانے ہوئے اعتقادات کی حیثیت سے دہرانے کا طریقہ بتایا گیا ہے ۔ اس کا تعلق ذہنی اطمینان سے ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات خالق ومالک ہے ۔اس کا اور مخلوقات کا تعلق خالق و مخلوق اور مالک و مملوک کا ہے ۔اس کے بارے میں ہمیں یہ واضح شعور دیا گیا ہے کہ وہ ذات نہ کسی مخلوق کے لیے باپ کی حیثیت رکھتی ہے اور نہ کوئی اس سے پہلے ہے جسے اس کے باپ کی حیثیت حاصل ہوتاکہ انسانوں پر یہ ہمیشہ واضح رہے کہ تمام خلق عدم سے وجود پذیر ہوئی ہے ۔ پھر یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ وہ اکیلی ذات ہے ، اس کاکوئی ہم سر اور مثیل نہیں ہے تاکہ اسے مخلوقات ہی کی طرح کا وجود سمجھ کر اس کے بارے میں وہ سوالات پیدا نہ ہوں جو مخلوقا ت کے بارے میں پیدا ہوتے ہیں ۔ اس طرح ان معتقدات کی یاد اس نوع کے سوالات کی بے وقعتی کو ہمارے لیے واضح کر دیتی ہے۔چنانچہ ہم ایمان کے بارے میں اپنے ذہنی اطمینان کو دوبارہ بحال کر لیتے ہیں ۔ دوسرا جز استعاذہ سے متعلق ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنی باگ اپنے پروردگار کے ہاتھ میں دے دیتا ہے ۔شیاطین سے مقابلے کے لیے انسان اپنے پرودگار کی رحمت اور مدد کا محتاج ہے ۔ یہ حقیقت اس کی زبان سے خدا کی پناہ میں جانے کی دعا کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ لیکن اس کے نتائج دو صورتوں میں ظاہر ہوتے ہیں ۔ ایک طرف بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کی پناہ میں چلا جاتا ہے ۔ خدا کے فرشتے اس کی شیاطین کی دراندازیوں سے حفاظت کرنے لگ جاتے ہیں اور دوسری طرف اس کا نفس ریب و اضطراب سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔ اس کو اس اطمینان سے کہیں گہرا اطمینان حاصل ہو جاتا ہے جوایک ڈرے ہوئے بچے کو باپ کی آغوش میں حاصل ہوتا ہے ۔
اس استعاذہ میں دعا کے ساتھ بائیں طرف تین بار تھوکنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے ۔دعا میں شیطان کو رجیم قرار دے کراس سے جس گریز اور نفرت کو ظاہر کیا گیا ہے ، تھوکنے سے اس کی شدت کو نمایاں کرنا مقصود ہے ۔ بائیں طرف تھوکنے کی ہدایت دائیں جانب کے اکرام کے باعث ہے ۔اس سے یہ قیاس کرنا درست نہیں ہے کہ شیطان بائیں طرف ہی سے حملہ کرتا ہے ۔
قرآنِ مجید میں بھی شیطان کی دراندازیوں سے بچنے کے لیے استعاذہ ہی کا طریقہ سکھایا گیا ہے ۔سورۂ اعراف میں ہے :’و اما ینزغنک من الشیطان نزغ فاستعذ باﷲ‘ (۷ : ۲۰۰) ’’اگر تمھیں کوئی وسوسہ شیطانی لاحق ہونے لگے تو اللہ سے پناہ طلب کرو۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں جس طریقے کی تعلیم دی ہے وہ اس عمل کو ایک جامع عمل بنادیتا ہے ۔‘‘

کتابیات

بخاری ، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ، باب ۴۔ مسلم ، کتاب الایمان ، باب ۶۰۔ ابو داؤد ، کتاب السنۃ ، باب ۱۹۔ احمد ، مسند انس بن مالک ۔ السنن الکبریٰ ، ج ۶ ، ص ۱۶۹۔ السنۃ لابن ابی عاصم ، ج ۱ ، ص ۲۹۴۔ الترغیب و الترہیب ، ج ۲ ، ص ۳۰۷عمل الیوم واللیلۃ ،ج ۱ ، ۴۱۹ ۔ التمہید لابن عبدالبر ، ج ۷ ، ص ۱۴۶ ۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اپریل 2001
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Dec 19, 2016
2553 View