قرآن مجید اورقطعی الدلالۃ - ابو یحییٰ

قرآن مجید اورقطعی الدلالۃ

 قرآن مجید کے حوالے سے اس خاکسار کا ایک مضمون ماہنامہ انذار کے اکتوبر 2016 کے شمارے میں شائع ہوا جس میں قرآن مجید کا قطعی الدلالۃ ہونا زیر بحث آیا تھا۔ بعض احباب نے اس ضمن میں کچھ مزید توضیحات طلب کی ہیں۔ متفرق گفتگوؤں میں ان باتوں کو کئی دفعہ دہرانے کے بعد اب اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس معاملے میں اپنا نقطہ نظر ایک دفعہ تحریری طور پر بیا ن کر دیا جائے تاکہ بار بار سوالات کے جواب نہ دینے پڑیں۔

اس مسئلے کو یہ طالب علم ایک علمی نہیں بلکہ ایمانی پس منظر میں دیکھتا ہے۔قرآن مجید گرچہ آسمانی کتابوں میں سے ایک کتاب ہونے کی بنا پر ہمارے ایمانیات کا ایک حصہ ہے، لیکن اس خاکسار کے نزدیک اس کا معاملہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی صفتِ کلام کا وہ ظہور ہے جو نہ کبھی پہلے ہوا نہ کبھی آئندہ ہو گا۔ عام وحی اور سابقہ کتب کے برعکس قرآن مجید کی شان یہ ہے کہ تاریخ نبوت میں پہلی اور آخری دفعہ اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کے منہ میں اپنا کلام ڈالا۔ اس سے قبل انبیا پر وحی اترتی تھی جو ان کے الفاظ میں کتابوں میں مرتب ہو جاتی تھی۔ مگر قرآن مجید کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے الفاظ کا انتخاب بھی خود کیا ہے۔ پھر لوح محفوظ سے نبی علیہ السلام کے قلب اطہر اور پھر آپ کی زبان مبارک سے آج کے دن تک قرآن کی حفاظت کا بھرپور انتظام کیا گیا ہے۔

یہی وہ پس منظر ہے جس میں نبوت کا ادارہ جو انسانیت کے آغاز سے شروع کیا گیا تھا، انسانی تاریخ کے ایک اہم ترین دور کے آغاز سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا۔ اب تاقیامت اللہ اور اس کے آخری نبی کی نسبت سے جو مستند ترین متن ہمارے پاس موجود ہے وہ یہی قرآن مجید ہے جو گویا اب خدا اور اس کے پیغمبر کے قائم مقام ہے۔

اسی پر بس نہیں ، قرآن مجید اپنے بارے میں جو کچھ کہتا ہے وہ اس کو مذہب کی پوری روایت میں انتہائی منفرد اور ممتاز کر دیتا ہے۔ چند اہم مقامات ملاحظہ فرمائیے ۔

1۔ قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ یہ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ 2:2)

2۔ اس کلام کو اللہ نے نازل کیا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرے گا۔(الحجر 9:15)

3۔ اس کلام میں کوئی ٹیڑھ نہیں جو بالکل سیدھی بات کرنے والا کلام ہے (الکہف 15: 2-1)۔ اسی کو دوسری جگہ واضح عربی کتاب کہا گیا کہ لوگ سمجھ سکیں (یوسف 12: 2-1)۔

4۔ قرآن مجید رب العالمین کا نازل کردہ کلام حق ہے (ال عمران 60:3)، اور اس سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 28:53)

5۔ باطل نہ اس کلام کے آگے سے آ سکتا ہے نہ پیچھے سے۔ (الفصلت 42:41)

6۔ کتاب الٰہی لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے اتاری گئی ہے۔ (البقرہ 213:2)

7۔ یہ کتاب میزان ہے۔ یعنی وہ ترازو ہے جس میں رکھ کر ہر دوسری چیز کی قدر وقیمت طے کی جائے گی۔ (الشوریٰ 17:42)

8۔ یہ کتاب فرقان یعنی وہ کسوٹی ہے جو کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کرتی ہے۔(الفرقان 1:25)

9۔ یہ کتاب تمام سلسلہ وحی پر مہیمن یعنی نگران ہے۔ (المائدہ 48:5)

10۔ یہی وہ کتاب ہدایت ہے جس کو ترک کر دینے کا مقدمہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطبین کے حوالے سے پیش کریں گے۔ (الفرقان 30:25)

اللہ تعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں قرآن مجید کی یہ حیثیت بیان کی ہے۔ اس لیے جو کوئی بھی قرآن کے بارے میں قلم اٹھائے تو وہ سوچ لے کہ وہ اس شان کے کلام الٰہی کی بارگاہ میں کلام کرنے کی جرأت کر رہا ہے۔

اس تمہید کے بعد آئیے قرآن مجید کے قطعی الدلالۃ ہونے کی طرف۔ قطعی الدلالۃ کا مطلب یہ ہے کہ الفاظ کی دلالت ان کے مفہوم پر قطعی ہے۔ اس بات کو نہ ماننے کے دو بدیہی نتائج نکلتے ہیں۔ ایک یہ کہ زبان و بیان کے مسلمہ اصولوں کو پامال کر کے قرآن مجید کی کسی آیت کا وہ مطلب نکالا جا سکتا ہے جو اس کے ظاہری الفاظ سے نہیں نکلتا۔ دوسرا یہ کہ کسی آیت کے بیک وقت کئی متضاد مفاہیم بیان کیے جائیں اور ان سب کو ٹھیک بھی مانا جائے۔ یہ کلام کا اتنا بڑا عیب ہے کہ قرآن مجید کو تو چھوڑیے، اس عاجز جیسا ایک حقیر مصنف بھی اپنی تحریروں کی طرف اس طرح کے عیب کی نسبت کو اپنے لیے باعث عارسمجھے گا۔

واضح رہے کہ قرآن مجید کسی موقع پر قطعی الدلالۃ کے الفاظ استعمال کر کے اسے کہیں براہ راست زیرِ بحث نہیں لایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صفت ہر اس کلام کا لازمی جز ہے جس میں متکلم کے پیش نظر اپنی بات کا ابلاغ اور درست بات بتانا ہوتا ہے۔ کسی متکلم کے پیش نظر اگر کلام کا ابلاغ ہی نہیں یا اسے اسالیب کلام پردسترس نہیں تو یہ دوسری بات ہے۔ ورنہ اس مسلمہ کو مانے بغیر نہ انسان کے علمی بیان کی کوئی حیثیت ہے، نہ کوئی گفتگو، مکالمہ، معاہدہ بامعنی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے پیش نظر اگر ہدایت کا ابلاغ ہے اور ساتھ میں وہ ساری حقیقتیں پیش نظر رہیں جو اوپر بیان ہوئیں تو یہ کیسے مانا جا سکتا ہے کہ قرآن قطعی الدلالۃ نہیں ۔یہ کیسے مان لیا جائے کہ قرآن کے ظاہری الفاظ سے جو مفہوم زبان وبیان کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں نکل رہا ہے، اسے چھوڑ کر خارج سے ڈالے گئے کسی مفہوم کو قبول کر لیا جائے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک وقت میں چارمتضاد معنی کلام میں پائے جا رہے ہوں۔

تاہم جیسا کہ ہم نے پچھلے ایک مضمون میں بعض مثالوں سے یہ عرض کیا تھا کہ اہل علم کے سامنے مسئلہ یہ آ گیا تھا کہ بعض مسلمہ حقائق قرآن مجید کے بیانات کے برعکس بات سامنے لاتے ہیں۔ تاہم اُس مضمون میں ہم نے یہ بات بھی واضح کر دی تھی کہ امام فراہی نے قرآن مجید کی روشنی میں علم کی دنیا کی حد تک اس مسئلے کو حل کر دیا ہے۔ گرچہ تعصبات کی دنیا میں کوئی مسئلہ ختم نہیں ہوتا۔ یہی بات (البقرہ 213:2) میں بھی بیان ہوئی ہے کہ لوگ تو کتاب الٰہی کے آنے کے بعد بھی ایک دوسرے کی ضد میں آ کر اختلاف کرتے رہتے ہیں۔

اس دنیا میں لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ جس بات کا چاہے انکار کر دیں اور جو چاہیں اختلاف کریں۔ ان کا یہ حق سر آنکھوں پر۔ مگر پھر دیانت داری کا تقاضہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے ان صریحی بیانات کے بعد اگر قرآن قطعی الدلالۃ نہیں تو پھر دنیا کے کسی بھی کلام کو قطعی الدلالۃ نہیں مانا جا سکتا۔ حتیٰ کہ ان چیزوں کو بھی نہیں جن چیزوں کو قرآن پر حاکم بنانے کے لیے قرآن کے قطعی الدلالۃ ہونے کا انکار کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال پر سب سے اچھا تبصرہ مولانا مودودی نے کیا ہے کہ جو کچھ یہ حضرات قرآن مجید کے ساتھ کرتے ہیں، وہ اگر ان کی تحریروں کے ساتھ کیا جائے تو یہ لوگ چلا اٹھیں گے۔

ایک دلچسپ بات یہ کہی جاتی ہے کہ قرآن کا کچھ حصہ قطعی ہے اور کچھ نہیں۔ہم دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں اس طر ح کی رائے لوگ اس لیے قائم نہیں کرتے کہ انھیں قرآن سے اس کا کچھ اشارہ ملا ہے۔ بلکہ جیسا کہ امام فراہی کے حوالے سے عرض کیا گیا کہ ان کے کچھ مسائل ہیں جو حل نہیں ہوتے۔ ان کی خدمت میں صرف یہی درخواست ہے حضور کچھ زاویہ نظر بدلیں۔ ذہن کو وسیع کریں۔ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اوپر ہم نے اللہ کا فیصلہ صاف الفاظ میں سنایا ہے کہ کتاب الٰہی لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے آتی ہے، (البقرہ 213:2)۔ اگر قرآن ظنی الدلالۃ ہے اورایک وقت میں چار متضاد مفاہیم نکلنے کی گنجائش ہے تو پھر کتاب الٰہی کسی اختلاف کا فیصلہ کیسے کرسکتی ہے؟ اگر آپ اپنے مقاصد کے لیے یہ کریں گے تو پھر جان لیں کہ بات یہاں تک نہیں رکے گی، پھر باقی لوگ اپنے اپنے مقاصد کے لیے یہی کام کریں گے۔ آپ فقہی احکام میں یہ کام کریں گے دوسرے ایمانیات میں یہ کام کر دیں گے۔

اب یہ بھی دیکھ لیجیے کہ جب الفاظ کی دلالت اپنے مفہوم پر قطعی نہیں مانی جاتی تو اس اصول کو اپنا کر لوگ قرآن مجید کے ساتھ کیا کچھ کرتے ہیں۔ ایک گروہ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر ہیں۔ غیر اللہ کو پکارنا، مدد مانگنا، دعا کرنا یہ سب قرآن سے ثابت ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک ایک نئی نبوت کا اعلان خود قرآن میں موجود ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک صحابہ کرام کا ارتداد اور نبوت کے بعد امامت کے سلسلے کا بیان خود قرآن سے ثابت ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک معجزات قرآن اور تمام خارق العادات واقعات جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں وہ معنی ومفہوم نہیں رکھتے جو ظاہری الفاظ سے ثابت ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر مستشرقین کا گروہ ہے جو قرآن مجید سے کبھی گرامر کی غلطیاں نکالتا ہے اور کبھی اسے ساتویں صدی عیسوی کی سائنس کا ناقص بیان کہتا ہے ۔

یہ سارے نقطہ ہائے نظر اصل میں قرآن مجید کے انھی بیانات کو نظر انداز کرنے سے پھوٹے ہیں جو اوپر خود قرآن مجید کے حوالے سے بیان ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے جو کچھ بھی سطحی باتیں کی جاتی ہیں، ہم قارئین کی خدمت میں صرف یہی عرض کریں گے کہ اگر وہ ان باتوں کو درست سمجھتے ہیں تو قرآن کو تختہ مشق بنانے سے قبل پہلے یہ تحریریں لکھنے والوں کے کلام پر انھی اصولوں کو منطبق کر کے ذرا وہ سب کچھ کریں جو لوگ قرآن کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس نہ اتنا وقت ہے نہ یہ کرنے کا کوئی کام ہے کہ ہم قطعی الدلالۃ کے بدیہی وصف کو نہ مان کر دوسروں کی کسی تحریرکا پوسٹ پارٹم ایسے ہی کریں جیسا سلوک وہ قرآن مجید کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے قارئین پر صرف ایک حقیقت واضح کرنا چاہ رہے ہیں۔ وہ یہ کہ اوپر جو کچھ قرآن مجید کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے وہ انھوں نے کسی اور دوسری چیز کے بارے میں نہیں کہا۔ قرآن مجید کے سوا کسی اور مذہبی کتاب، کسی پیغمبرسے منسوب کلام، کسی عالم اور محقق کی رائے کے بارے میں اللہ تعالیٰ اس طرح کی کوئی بات نہیں کہتے۔ اگر قرآن قطعی الدلالۃ نہیں تو کچھ اور بھی نہیں ہو سکتا۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب یا حیثیت کو کسی پہلو سے کم کرنے کی جرأت کر رہے ہیں۔ رسول کی ہستی دین کا ماخذ ہے۔ سرکار دوعالم کی عطا کی ہوئی ہر چیز قرآن ہی کی طرح حجت ہے۔ لیکن آپ نے جو دین قرآن کی طرح اجماع و تواتر سے ہم تک منتقل کیا ہے وہ سنت یا دین کا عملی ڈھانچہ ہے۔ باقی جو ذخیرہ حدیث ہمارے سامنے موجود ہے وہ بڑا قیمتی ہے مگر اسے لوگوں نے اپنی صوابدید پر جتنا چاہا اور جس نے چاہا آگے منتقل کیا۔ اس کی حفاظت کا وعدہ اور اہتمام نہ اللہ نے کیا، نہ سرکار دوعالم نے کوئی اہتمام کیا نہ خلفائے راشدین نے خود یہ کام باہتمام کیا نہ اپنی حکومت کے ذریعے سے اس حوالے سے ایسا کوئی کام کیاجیسا انھوں نے حفاظت قرآن کے لیے کیا تھا۔ یہ ایک ناقابل ترید تاریخی مسلمہ ہے۔ اس کے بعد جو کچھ منتقل ہوا وہ ہمارے آقا علیہ السلام سے منسوب ہونے کی بنا پر سرآنکھوں پر، لیکن اسے قرآن مجید ہی کی روشنی میں دیکھاجائے گا۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے ہم انسانی آمیزش سے در آنے والی خرابیوں سے بچتے ہوئے اس ذخیرے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔

چنانچہ اصولی بات وہی ہے کہ اگرقرآن قطعی الدلالۃ نہیں ہے تو پھر کوئی اور چیزبدرجہ اولیٰ نہیں ہے۔ اس لیے طریقہ یہی ہے کہ قرآن مجید کی وہ حیثیت مان لی جائے جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کی ہے۔ یعنی یہ حکم ہے جو ہر اختلاف کا فیصلہ کرنے آئی ہے، یہ میزان ہے، فرقان ہے، یہ الحق ہے، کتاب محفوظ ہے، باطل کی دراندازی سے پاک ہے، تمام سلسلہ وحی پر نگراں ہے، صاف، واضح، سیدھی اور روشن ہدایت ہے۔ اس کے بعد ہر مذہبی چیز قرآن کی روشنی میں سمجھی جائے گی۔ اس کا امکان پھر بھی رہے گا کہ چار لوگ قرآن کی بات کے چار مختلف مفاہیم بیان کریں۔ مگر سب لوگ بیک وقت ٹھیک نہیں ہو سکتے۔ زبان وبیان کے مسلمہ دلائل کی روشنی میں غلطی کو واضح کیا جا سکتا ہے۔ کسی کو اپنی غلطی کا ادراک نہیں ہوپاتا اور وہ اپنے نقطہ نظر پر قائم رہتا ہے تو گرچہ اس کی غلطی پھر بھی غلطی ہی رہے گی ، مگر قیامت کے دن وہ غلطی کے باوجود ایک اجر پائے گا۔

لیکن اگر قرآن کو اصول ہی میں وہ حیثیت نہیں دی گئی جو قرآن مجید کے اپنے بیانات سے واضح ہے تو پھر ایک طرف تو بنیادی ایمانیات اور بنیادی دینی مطالبات میں بھی قرآن کے ہوتے ہوئے گمراہی کا راستہ ہم خود کھول دیں گے اور دوسری طرف قیامت میں اللہ کے حضور اس حال میں پیش ہوں گے کہ قرآن مجید کی اس حیثیت کے انکار کا الزام ہم پر عائد ہو گا جو صریح ترین الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے خود بیان کی ہے۔ اب جس میں ہمت ہے وہ روزِ قیامت اللہ کے سامنے کھڑے ہوکر اس صریح انکار کی وضاحت کرتا پھرے۔ اس فقیر میں کم از کم یہ جرأت نہیں ہے۔

پس نوشت

ہمارا کام کسی بحث کو ختم کرنا نہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید کے حوالے سے اوپر بیان ہوا کہ لوگ تو کتاب الٰہی کے آنے کے بعد بھی ضد میں آ کر بحث کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات کو سامنے لایا جائے۔ اس کے بعد لوگ جانیں اور ان کا پروردگار۔

بشکریہ ماہنامہ انذار، تحریر/اشاعت دسمبر 2016
’’انذار دسمبر 2016‘‘ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مصنف : ابو یحییٰ
Uploaded on : Dec 28, 2016
3005 View