اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار - سید منظور الحسن

اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار

 روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے نمائندے نے جناب جاوید احمد صاحب غامدی سے یہ سوال کیا کہ پاکستان جیسی مسلم ریاست میں’’ اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘ کا کردار کیا ہونا چاہیے، کیا یہ کردار اس نے ادا کیا ہے اور اس بنا پر اس کی کارکردگی کیسی رہی ہے، مزید براں اسے ایک موثر ادارہ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟اس سوال کے جواب میں غامدی صاحب نے جو گفتگو کی، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔
’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ ریاست پاکستان کا ایک آئینی ادارہ ہے۔ اس کا بنیادی فریضہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو اسلامی قانون کی تدوین کے لیے سفارشات پیش کرنا ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ یہ کام ملک وملت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں جو شکوک وشبہات یا سوالات اس وقت دنیا میں پیدا ہورہے ہیں، ان میں سے بیش تر کا تعلق فقہ و شریعت ہی سے ہے۔ جہاد و قتال کے حدودوشرائط، نظم سیاست اور اس میں شوریٰ کی نوعیت ، نظم معیشت اورسودی نظام کے مسائل، خواتین کے حوالے سے پردہ، تعدد ازواج اورطلاق وغیرہ کے احکام ، شہادت اوردیت کے بارے میں قوانین ، قتل ، زنا ، چوری اورارتداد جیسے جرائم کی سزائیں ، موسیقی ، مصوری اور دیگر فنون لطیفہ کی شرعی حیثیت اور اس نوعیت کے متعدد موضوعات ہیں جن کے بارے میں سوالات زبان زد عام ہیں ۔ ہمارے علما کے پاس چونکہ ان سوالوں کے تسلی بخش جواب نہیں ہیں، اس لیے یہ تصور قائم کیا جارہا ہے کہ اسلامی شریعت عہد رفتہ کی یادگار ہے۔ تمدن کے ارتقا کے نتیجے میں انسانوں کے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں جو تغیرات ہوئے ہیں، یہ ان سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت سے محروم ہے ۔ چنانچہ دور جدید میں اسے ریاستی سطح پر نافذ کرنا ممکن نہیں ہے ۔
اس تناظر میں’’ اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ سے مقصود اصل میں یہی ہے کہ وہ :
        اولاً ، اسلامی شریعت کے بارے میں پائے جانے والے شکوک وشبہات کو رفع کرے ۔
        ثانیاً، محل اجتہاد معاملات کو متعین کرے اور ان میں اپنی اجتہادی آرا سے قوم وملت کو آگاہ کرے۔
        ثالثاً ، پارلیمنٹ کی رہنمائی کے لیے انفرادی اور اجتماعی معاملات کے بارے میں قوانین مرتب کرے۔
یہی وہ تقاضے ہیں جنھیں مصور پاکستان علامہ اقبال نے قیام پاکستان سے پہلے ہی محسوس کرلیا تھا۔ چنانچہ انھوں نے اپنی کتاب"Reconstruction of religious thought in Islam" میں اسے موضوع بنایا اور اس امر کا اظہار کیا کہ شریعت کا جو ڈھانچا اس وقت موجود ہے، وہ نہ اسلام کی دعوت کے لیے موزوں ہے اورنہ اس کے نفاذ کے لیے۔ انھوں نے ان اہم عملی مسائل کی فہرست بندی بھی کی جن کا شریعت کے اس پیش کردہ ڈھانچے میں کوئی حل بیان نہیں ہوا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ’’اسلامی نظریاتی کونسل ‘‘ان ضرورتوں کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے تو میرے نزدیک اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام تعلیم ایسے جید علما تیار کرنے سے قاصر ہے جو دور جدید کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے اہل ہوں۔ یہ نظام تعلیم تقلید جامد کے اصول پر قائم ہے۔ اس کا اصرار ہے کہ دین کی تعبیر و تشریح کے حوالے سے قدیم علما کا کام ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ ان کے کام کی تفہیم اورشرح و وضاحت تو ہو سکتی ہے، مگر اس پر نظر ثانی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ دور اول کے فقہا نے جو اصول و قوانین مرتب کیے ہیں، وہ تغیرات زمانہ کے باوجود قابل عمل ہیں۔ اس ضمن میں تحقیق و اجتہاد کی نہ ضرورت ہے اور نہ اس بات کا اب کوئی امکان کہ کوئی شخص مجتہد کے منصب پر فائز ہو سکے۔ ہمارے علما اسی نظام تعلیم کی پیداوار ہیں۔ چنانچہ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں ہوں یا کسی ادارے کی صورت میں مجتمع ہو کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہوں، وہ اس اہلیت ہی سے محروم ہیں کہ اسلامی شریعت کی شرح ووضاحت کر سکیں یا جن معاملات میں شریعت خاموش ہے، ان کے بارے میں اپنی آرا پیش کر سکیں۔ یہی علما ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کا حصہ ہیں۔ لہٰذا اس ادارے یا ایسے کسی دوسرے ادارے سے اس طرح کی توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ اسلامی شریعت کے بارے میں ان سوالات کا جواب دے سکے جو مسلمانوں کے ذہین عناصر کی جانب سے اٹھائے جارہے ہیں اور ان شکوک وشبہات کو رفع کر سکے جن کا اسلام کو عالمی سطح پر سامنا ہے۔
چنانچہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کی کارکردگی کا جائزہ اگر اس پہلو سے پیش نظر ہے کہ آیا اس نے ایسے قوانین مرتب کیے ہیں جو اسلامی شریعت کے عین مطابق ہیں اور دور حاضر کی ضرورتوں کو ہر لحاظ سے پورا کرتے ہیں تو اس کی کارکردگی صفر ہے ، لیکن اگر اس زاویے سے دیکھا جائے کہ اس نے موجودہ زمانے کے مسائل سے قطع نظر روایتی مذہبی افکار کی روشنی میں قوانین کی تدوین کے لیے اپنی سفارشات پیش کی ہیں تو اس کی کارکردگی سوفی صد ہے۔
جہاں تک اس سوال کاتعلق ہے کہ اسے ایک موثر ادارہ کیسے بنایا جائے تو میرے نزدیک اس کے لیے یہ تین اقدامات ناگزیر ہیں:
        ۱۔ مذہبی نظام تعلیم کی اصلاح کی جائے تا کہ وہ ایسے علما پیدا کر سکے جو حقیقی معنوں میں اسلامی قانون کی تدوین کا فریضہ انجام دے سکیں۔
        ۲۔ کونسل کی رکنیت کے لیے میرٹ کو بنیاد بنایا جائے۔
        ۳۔ پارلیمنٹ کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اس کی سفارشات پر بحث کر کے ان کے ردوقبول کا فیصلہ کرے ۔

____________

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2006
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Apr 06, 2017
2437 View