جاگتا خدا - طالب محسن

جاگتا خدا
(مشکوٰۃ المصابیح حدیث: ۹۱)

عن أبی موسیٰ رضی اللّٰہ عنہ قال : قام بین رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بخمس کلمات فقال إن اﷲ لا ینام، و لا ینبغی لہ أن ینام، یخفض القسط و یرفعہ، و یرفع إلیہ العمل اللیل قبل النہار وعمل النہار قبل اللیل، حجابہ النور، لو کشفہ لأحرقت سبحات وجہہ ما انتہی إلیہ بصرہ من خلقہ ۔
’’حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بیچ میں پانچ باتیں (بیان کرنے کے لیے ) کھڑے ہوئے ۔ چنانچہ آپ نے فرمایا : اللہ عزوجل سوتے نہیں اور نہ ان کے لیے موزوں ہے کہ وہ سوئیں ۔ وہ میزان کو جھکاتے اور اٹھاتے ہیں۔ ان کے سامنے دن سے پہلے رات کے اعمال اور رات سے پہلے دن کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں ۔ روشنی ان کا پردہ ہے ۔ اگر وہ یہ پردہ ہٹا دیں تو ان کے چہرے کی روشنی ہر اس تخلیق کو جلا ڈالے جہاں تک ان کی نگاہ پہنچے۔‘‘

لغوی مباحث

قام بخمس کلمات :ایک صورت تو یہ ہے کہ بخمس کلمات کو حال لیا جائے ۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ آپ جب تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ کے پیش نظر یہ پانچ نکات تھے ۔دوسری صورت یہ ہے کہ قام کے ساتھ ب بطور صلہ ہو۔اس صورت میں اس کے معنی کسی شے کی حفاظت و استحکام کی سعی کے ہیں ۔ اس روایت میں یہ معنی مراد لینا محض تکلف ہے ۔تیسری صورت یہ ہے کہ بخمس کلمات سے پہلے یتکلم کا فعل محذوف ہو۔ یہ صورت متکلم کے منشا کے زیادہ قریب ہے ۔
یخفض القسط و یرفعہ:قسط کے معنی عدل کے ہیں ۔ میزان یعنی ترازو کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کہ اس سے عدل قائم ہوتا ہے ۔ شارحین نے خفض و رفع سے ناپ تول کا کام لینا مراد لیا ہے ۔ایک رائے یہ ہے کہ قسط سے مراد نصیب ہے اور یہاں رزق کی کمی بیشی کا عمل مراد ہے ۔اگرچہ قسط کے نصیب کے معنی میں آنے کی گنجایش لفظ میں موجود ہے ، مگر یہاں خفض و رفع کے الفاظ اسے ترازو کے معنی میں لینے کا تقاضا کرتے ہیں ۔
سبحات وجہہ :سبحات ، سبحۃ کی جمع ہے ۔ سبحۃ سے مراد روشنی ، جلال اور چمک دمک ہے ۔ وجہ کے معنی چہرے کے ہیں ، بسا اوقات یہ پورے وجود کو تعبیر کرنے کے لیے آتا ہے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی نسبت سے یہ لفظ دو پہلووں سے استعمال ہوا ہے ۔ایک ذات الہٰی کی تعبیر کے لیے جیسے :ویبقی وجہ ربک ذو الجلال والاکرام، (اور تیرے پروردگار صاحب جلال واکرام کا چہرا باقی رہے گا۔)۱؂ اور دوسرے اللہ کی خوشنودی کی تعبیر کے لیے مثلاً: ما تنفقون الا ابتغاء وجہ اﷲ (اور تم صرف اللہ کے چہرے (یعنی اس کی خوش نودی )کے لیے خرچ کرتے ہو۔۲؂ ) سبحات وجہہ کی ترکیب میں یہ پہلے معنی ہی میں آیا ہے ۔

متون

زیر بحث روایت میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روز پانچ باتیں بیان کیں ۔ مسلم کی ایک روایت میں پانچ کے بجائے چار کا لفظ آیاہے ۔ اس روایت میں باتیں بھی چار ہی بیان ہوئی ہیں۔ کچھ متون میں سرے سے یہ جملہ ہی نہیں ہے ۔ ان روایات میں اس روایت کے کچھ اجزا روایت ہوئے ہیں ۔ کسی روایت میں دو جز اور کسی میں تین جز نقل ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ فرق لفظی ہیں ۔ مثلاً: ما انتہی الیہ بصرہکی جگہ کل شیء ادرکہ بصرہکا جملہ مروی ہے۔مسند احمداور صحیح ابن حبان کی ایک روایت میں عمل کے پیش کیے جانے کے بجائے یہ بات بیان ہوئی ہے :

قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلمإن اﷲ تعالی یبسط یدہ باللیل لیثوب مسیء النہار و یبسط یدہ بالنہار لیتوب مسیء اللیل حتی تطلع الشمس من مغربہا۔ (مسند احمد ، رقم ۱۸۷۰۸)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ وہ دن کے گناہ گار کو معاف کریں ، اور دن کو اپنا ہاتھ پھیلاتے ہیں تاکہ رات کے گناہ گار کو معاف کریں یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے۔‘‘

ابن حبان نے یہ مضمون زیر بحث روایت کے جز کے طور پر روایت کیا ہے ۔ اس روایت کے ایک متن میں حجابہ النورکی جگہ حجابہ النار کے الفاظ آئے ہیں ۔ نار اور نور میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ کہ نار روشنی کا ایک ذریعہ ہے ۔ لیکن اس سیاق میں نور کا لفظ ہی موزوں معلوم ہوتا ہے ۔ قرین قیاس یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نور کا لفظ ہی بولا ہوگا ۔

معنی

یہ روایت بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے کچھ نکات کا بیان ہے ۔ چنانچہ ہمارے نزدیک اس روایت کا تقدیر کے مسئلے سے براہ راست تعلق نہیں ہے ۔صاحب مشکوٰۃ نے اسے تقدیر کے باب میں درج کیا ہے ۔ اس کا سبب غالباً روایت میں موجود یخفض القسط و یرفعہ کا جملہ بنا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ صاحب مشکوٰۃ نے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیب میں کمی بیشی کے مفہوم میں لیا ہے ۔ اور غالباً اسی وجہ سے وہ اسے باب تقدیر میں لائے ہیں۔
اس روایت میں اللہ تعالیٰ کے حوالے سے پانچ باتیں بیان ہوئی ہیں:
۱۔ اللہ تعالیٰ نہیں سوتے اور نیند ان کے شایان شان نہیں ہے ۔
۲۔ وہ میزان کے پلڑے جھکاتے اور اٹھاتے ہیں۔
۳۔ شب وروز کے اعمال ان کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔
۴۔وہ نور کی اوٹ میں ہیں۔
۵۔اگر وہ یہ اوٹ ہٹادیں تو ہر چیز جل جائے گی۔
پہلا نکتہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے ۔ سورۂ بقرہ کی معروف آیت ، آیت الکرسی میں یہ بات ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: اﷲ لا الہ الا ہو الحی القیوم لا تأخذہ سنۃ ولا نوم (اللہ ہی معبود ہے ، اس کے سواکوئی معبود نہیں ، وہ زندہ ہے ، سب کا قائم رکھنے والا ہے ،نہ اس کو اونگھ لاحق ہوتی ہے نہ نیند) ۳؂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوباتیں ارشاد فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نہیں سوتے ۔ دوسری یہ کہ نیند ان کے شایان شان نہیں ہے ۔ پہلی بات ایک اطلاع ہے اور براہ راست اس آیت میں بیان ہوئی ہے ۔ دوسری بات اللہ تعالیٰ کی عظمت کو واضح کرتی ہے ۔ عظمت کے اس پہلو کو مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر میں بہت خوبی سے بیان کیا ہے۔ محولہ بالا آیت کے تحت لکھتے ہیں:

’’حیٌ کے معنی زندہ کے ہیں۔اور قیوم کے معنی ہیں وہ ذات جو خود اپنے بل پر قائم اور سب کو قائم رکھنے والی اور سب کو سنبھالنے والی ہو۔ ظاہر ہے جو خود زندہ نہ ہو وہ تمام دنیا جہان کے لیے زندگی بخش کیسے ہو سکتا ہے۔ اور جو خود اپنی ذات پر قائم نہ ہو وہ آسمان و زمین کو قائم رکھنے والا کس طرح ہو سکتاہے ۔...
اس کے بعد فرمایا کہ نہ اس کو اونگھ لاحق ہوتی ہے نہ نیند ۔ یہ نیند کی ابتدااور اس کی انتہا دونوں سے اس کو بری قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ اس کے حی و قیوم ہونے کا لازمی تقاضا ہے ۔ نیند موت کے ظلال و آثار اور اس کے مظاہر و مبادیات میں سے ہے ، اس وجہ سے یہ خدا کی شان کے منافی ہے ۔ پھر یہ اس کے قیوم ہونے کے بھی منافی ہے ، جو خود نیند سے مغلوب ہو کر اپنے آپ کو قائم نہ رکھ سکے گا ، وہ دنیا کو کیا قائم رکھے گا۔‘‘(تدبر قرآن ۱ /۵۸۸)

حقیقت یہ ہے کہ نیندجہاں موت و زوال کا مظہر ہے ، وہاں جب طاری ہوجاتی ہے تو عقل و احساس کے تعطل کا نام ہے اور اس طرح ہر اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے حق میں ناموزوں ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال ایجاز سے یہی بات ایک مختصر جملے میں بیان کر دی ہے ۔
دوسرا نکتہ قسط کے خفض و رفع سے متعلق ہے ۔ ہم یہ بات لغوی مباحث میں بیان کر چکے ہیں کہ خفض و رفع کے الفاظ متقاضی ہیں کہ قسط سے میزان مراد لی جائے ۔ ہماری اس رائے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اس سے اگلی روایت (۹۲) میں یہ جملہ میزان کے لفظ کے ساتھ ہی روایت ہوا ہے ۔ غرض یہ کہ اس روایت میں قسط کا لفظ میزان کے مترادف کی حیثیت ہی سے آیا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ اس سے کون سی میزان مراد ہے ۔ جن شارحین نے اس سے اعمال کا تولنا مراد لیا ہے ، ان کے حق میں اسی روایت کا اگلا جملہ بھی جاتا ہے ۔ اس میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور صبح شام اعمال پیش کیے جاتے ہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان کو میزان میں رکھ کر ان کی قدروقیمت کا فیصلہ کر دیتے ہیں ۔ بعض شارحین نے اس پر یہ اضافہ بھی کیا ہے کہ یہ چیز اس دنیوی زندگی میں خدا کی عنایات کے کم وبیش ہونے کا باعث بھی بنتی ہے ۔اس طرح وہ قسط کے دونوں معنی میں تطبیق بھی پیدا کر دیتے ہیں۔
لاریب ، دنیا میں جاری آزمایش کے قانون کے تحت اللہ تعالیٰ نعمت و نقمت کی مختلف صورتیں پیدا کرتے رہتے ہیں۔ پھر نعمت و نقمت کی ان صورتوں میں انسان جو رویے اختیار کرتا ہے ، اس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کبھی تنبیہ کے لیے سختی کرتے ہیں ، کبھی حوصلہ افزائی کے لیے آسانی مرحمت فرماتے ہیں اور مجرموں کے معاملے میں امہال کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔اس اعتبار سے بھی شارحین کی مذکورہ شرح ٹھیک ہی معلوم ہوتی ہے ۔ لیکن ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ متکلم کا منشا یہ نہیں ہے۔ ہمیں یہ بات زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ ان الفاظ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت الکرسی کے لفظ قیومکے ایک اطلاق کو بیان کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اس دنیا کے نظام کوبراہ راست قائم رکھے ہوئے ہیں ۔ یہ نظام ایک توازن پر قائم ہے۔قرآن مجید میں اس توازن کے لیے وضع میزان کی تعبیر خود اللہ تعالیٰ نے اختیار کی ہے ۔ سورۂ رحمن میں ہے :والسماء رفعہا ووضع المیزان، ’’اور آسمان کو ہم نے اٹھایا اور میزان رکھ دی۔‘‘ معلوم ہوتا ہے روایت میں میزان کا لفظ سورۂ رحمن کی اسی آیت سے ماخوذہے ۔ اور میزان ہی کی مناسبت سے اس روایت میں خفض و رفع کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔گویا روایت کا مدعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس توازن کو بحال رکھنے کے لیے اس میزان کے پلڑوں کو جھکاتے اور اٹھاتے رہتے ہیں۔
تیسرا نکتہ اعمال کے پیش کیے جانے سے متعلق ہے۔صبح و شام کے اعمال کے پیش کیے جانے سے مراد فرشتوں کا اللہ تعالیٰ کے حضور اعمال کے رجسٹر پیش کرنا ہے۔ قرآن مجید میں یہ تو بیان ہوا ہے کہ فرشتے اعمال کا ریکارڈ تیار کرتے ہیں۔لیکن یہ بات قرآن مجیدمیں بیان نہیں ہوئی کہ دن کا ریکارڈ شام کو اور رات کا ریکارڈ صبح کو پیش کر دیا جاتا ہے ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ریکارڈ کے ہر وقت مکمل رکھنے کے نظام کا بیان ہے اور اس میں اور قرآن مجید میں کوئی منافات نہیں ہے ۔
چوتھی بات اللہ تعالیٰ اور کائنات کے بیچ حائل اوٹ سے متعلق ہے ۔ اوٹ کے لیے اس روایت میں حجاب کا لفظ آیا ہے اوراس کی ماہیت نو ر بیان ہوئی ہے ۔ نور کا لفظ اردو کے لفظ روشنی کا مترادف ہے ۔ ہمارے لیے یہ متعین کرنا ناممکن ہے کہ اس سے روشنی کی کیا صورت مراد ہے اور یہ بات بھی ہمارے فہم سے بالا ہے کہ یہ اوٹ کیسے بن گئی ہے ۔ یہ ایک خبر ہے اور اسے ایک خبر ہی کی حیثیت سے مانے بغیر چارہ نہیں۔
قرآن مجید میں یہ بات بھی مذکور نہیں ہے ۔ البتہ دو مقامات سے اس سے ملتی جلتی بات اخذ کی جا سکتی ہے ۔ ایک جگہ پروحی یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے انبیا کے ساتھ رابطے کی صورتیں بیان ہوئی ہیں۔ سورۂ شوریٰ میں ہے :

وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلاَّ وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآیئ حِجَابٍ اَوْیُرْسِلَ رَسُوْلًا فَیُوْحِیَ بِاِذْنِہٖ مَا یَشَآءُ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیْمٌ ۔(الشوریٰ۴۲ :۵۱)
’’اور کسی بشر کی بھی یہ شان نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کریں ،مگر وحی کے ذریعے سے یا پردے کی اوٹ سے یا بھیجے کسی فرشتہ کو ، پس وہ وحی کرے اس کے اذن سے جو وہ چاہے ۔‘‘

اس آیۂ کریمہ میں ورائے حجاب کا جو ذریعہ بیان ہوا ہے ، اس کی مثال حضرت موسیٰ کی پہلی وحی کا واقعہ ہے ۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس آیت کے اس ٹکڑے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ پردے کی اوٹ سے بات کرتا ہے ۔یعنی نبی اللہ کا کلام اور اس کی آواز تو سنتا ہے ، لیکن اس کو دیکھتا نہیں۔ اس کی مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اللہ کا کلام و خطاب ہے ۔ تورات اور قرآن دونوں میں مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے بات کی ، مگر اس کو دیکھا نہیں اور قرآن میں یہ تصریح بھی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سوا اور کسی نبی سے اللہ تعالیٰ نے اس طرح کلام نہیں کیا ۔ یہ شرف حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کو حاصل ہوا۔ ‘‘(تدبر قرآن ۷/ ۱۹۲)

ایک دوسرے مقام پر اس واقعے کی تفصیل بیان ہوئی ہے:

اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِاَہْلِہٖٓ اِنِّیْ ٰانَسْتُ نَارًا سَاٰتِیْکُمْ مِّنْہَا بِخَبْرٍ اَوْ اٰتِیْکُمْ بِشِہَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّکُمْ تَصْطَلُوْنَ ۔ فَلَمَّا جَآءَ ہَا نُوْدِیَ اَنْ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَ مَنْ حَوْلَہَاوَسُبْحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ یٰمُوْسٰٓی اِنَّہٗ اَنَا اللّٰہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ (النمل۲۷ : ۷ ۔ ۹)
’’ یاد کرو جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا ، میں نے اک آگ سی دیکھی ہے ، میں وہاں سے یا تو کوئی خبر لاتا ہوں یا آگ کا کوئی انگارہ تاکہ تم تاپو، تو جب وہ اس کے پاس آیا تو اس کو آواز آئی کہ مبارک ہے وہ جو اس آگ میں ہے اور جو اس کے ارد گرد ہیں اور پاک ہے اللہ عالم کا خداوند ، اے موسیٰ ، یہ تو میں ہوں ، خدائے عزیز و حکیم۔‘‘

سورۂ شوریٰ میں جس چیز کو حجاب کہا گیا ہے سورۂ نمل میں اس کی توضیح آگ سے ہوئی ہے ۔ آگ کا لفظ اس روشنی کی تعبیر کے لیے ہے جسے حضرت موسی علیہ السلام نے آگ سمجھا اور اس کی طرف بڑھے تھے ۔ممکن ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مقام سے یہ بات اخذ کی ہو۔
پانچواں نکتہ اس حجاب کے ہٹنے کی صورت میں پیدا ہونے والے نتیجے سے متعلق ہے ۔ یہ بات بھی ان الفاظ یا اس مفہوم میں قرآن مجید میں بیان نہیں ہوئی ۔ البتہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی ہی کا ایک واقعہ اس بات کی حقیقت سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے ۔سورۂ اعراف میں ہے :

وَ لَمَّا جَآءَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَکَلَّمَہٗ رَبُّہٗ قَالَ رَبِّ اَرِنِیٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ قَالَ لَنْ تَرٰنِیْ وَلٰکِنِ انْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرِّ مَکَانَہُ فَسَوْفَ تَرٰنِیْ فَلَمَّا تَجَلِّی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّاوَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا ، فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (الاعراف ۷ : ۱۴۳)
’’ اور جب موسیٰ ہماری مقررہ مدت پر حاضر ہوا اور اس سے اس کے رب نے کلام کیا تو اس نے درخواست کی کہ اے میرے رب مجھے موقع دے کہ میں تجھے دیکھ لوں ، فرمایا تم مجھے ہر گز نہ دیکھ سکو گے ، البتہ پہاڑ کی طرف دیکھو ، اگر یہ اپنی جگہ ٹکا رہ سکے تو تم بھی مجھے دیکھ سکو گے تو جب اس کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو اس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے پھر جب ہوش میں آئے تو بولے تو پاک ہے میں نے تیری طرف رجوع کیا اور میں پہلا ایمان لانے والا بنتا ہوں۔‘‘

یہاں تجلی سے ذات کے پرتوکا ایک شمہ ہی مراد ہے ۔ جب ادنیٰ سی جھلک کا یہ معاملہ ہے تو پردہ ہٹانے سے کیا کچھ ہو سکتا ہے۔

کتابیات

مسلم ، کتاب الایمان ، رقم ۲۶۳،۲۶۴۔ابن ماجہ ، مقدمہ، رقم ۱۹۱، ۱۹۲۔احمد ، رقم ۱۸۷۰۸ ، ۱۸۷۰۹ ،۱۸۷۶۵ ،۱۸۸۰۶ ۔ صحیح ابن حبان ، رقم ۲۶۶۔مسند ابی عوانہ ، رقم ۳۷۹، ۳۸۱۔ مسند ابی یعلی، رقم۷۲۶۲۔

____________

۱؂ الرحمان ۵۵ : ۲۷۔
۲؂ البقرہ ۲ : ۲۷۲۔
۳؂ البقرہ ۲: ۲۵۵۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت اپریل 2002
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Feb 08, 2017
1982 View