سنت خلفاے راشدین - امین احسن اصلاحی

سنت خلفاے راشدین

 سوال: آپ نے اپنے مضمون ’’حدیث، سنت، محدثین‘‘ میں ’’سنت کو معلوم کرنے کے ذرائع‘‘ میں خلفاے راشدین کے تعامل کو بھی گنوایا ہے اور دلیل میں یہ فرمودۂ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیا کہ ’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین‘۔ سو یہ قول کہاں سے ماخوذ ہے اور آج کل ’’خلفاے راشدین‘‘ کی اصطلاح سے ذہن جن خلفاے اربعہ کی طرف منتقل ہوتا ہے، کیا خود آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معہود ذہنی بھی یہی تھا۔ نیز کیا خلفاے راشدین کے الفاظ اس دور میں اسی طرح مستعمل تھے؟
    جواب: ’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین‘ محض کسی ’’عبارت‘‘ کا ایک ٹکڑا نہیں ہے، بلکہ یہ ایک طویل حدیث نبوی کا ایک حصہ ہے جو احمد، ابوداؤد، ترمذی اور ابن ماجہ کے حوالہ سے مشکوٰۃ کے باب ’’الاعتصام بالکتاب والسنہ‘‘ میں، عرباض بن ساریہ سے بہ ایں الفاظ نقل ہوئی ہے:

عن العرباض بن ساریۃ قال صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم، ثم أقبل علینا بوجھہ فوعظنا موعظۃ بلیغۃ زرفت منھا العیون ووجلت منھا القلوب، فقال رجل: یا رسول اللّٰہ، أکان ھٰذہ موعظۃ مودع؟ فأوصنا، فقال: أوصیکم بتقوی اللّٰہ والسمع و الطاعۃ وإن کان عبدًا حبشیًا فإنہ من یعش منکم بعدی فسیرٰی إختلافًا کثیرًا فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین تمسکوا بھا وعضوا علیھا بالنواجذ وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ.(رقم ۱۶۵)
’’عرباض بن ساریہ سے روایت ہے، انھوں نے یہ بیان کیا کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ایک نہایت موثر خطبہ دیا جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور دل کانپ اٹھے۔ مجمع میں سے ایک شخص بولا: حضور، یہ تو ایک وداعی خطبہ معلوم ہوتا ہے تو ہمیں کچھ وصیت کیجیے۔ آپ نے فرمایا: میں تمھیں اللہ سے ڈرتے رہنے اور اپنے صاحب امر کی بات ماننے اور اس کی اطاعت کرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں، اگرچہ تمھارا صاحب امر کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ تم میں سے جو لوگ میرے بعد زندہ رہیں گے، وہ اب اور تب میں بڑا فرق محسوس کریں گے تو تم میری سنت کی اور خلفاے راشدین مہدیین کی سنت کی پیروی کرنا، اس کو مضبوطی سے تھامنا اور دانت سے پکڑنا اور دین میں جو نئی باتیں گھسائی جائیں، ان سے خبردار رہنا، کیونکہ ہر ایسی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘

اس حدیث کو دیکھ لیجیے ’سنۃ الخلفاء الراشدین‘ کے الفاظ صاف موجود ہیں، بلکہ ’راشدین‘ کے بعد ایک لفظ ’مہدیین‘ کا اضافہ بھی ہے۔ اس میں نہایت واضح الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کے ساتھ خلفاے راشدین کی سنت کا بھی ذکر فرمایا ہے اور اپنی سنت ہی کی طرح اس پر قائم رہنے کی وصیت بھی فرمائی ہے۔
رہا یہ سوال کہ جس طرح آج ’خلفاے راشدین‘ کا لفظ جب بولا جاتا ہے تو اس سے خلفاے اربعہ مراد ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب حضور نے یہ الفاظ استعمال فرمائے تو کیا اس وقت بھی لوگوں نے ان الفاظ سے خلفاے اربعہ ہی کو سمجھا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کلام کی نوعیت ایک واضح اور قطعی حکم کی نہیں ہے، بلکہ، جیسا کہ خود حدیث سے واضح ہے، ایک پیشین گوئی اور ایک وصیت کی ہے اور خلفاے راشدین سے یہاں متعین اور مخصوص اشخاص مراد نہیں ہیں، بلکہ آپ کے وہ جانشین مراد ہیں جو آپ کے بعد آپ کی امت کی زمام کار اپنے ہاتھوں میں سنبھالیں گے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے طریقہ پر اپنے فرائض انجام دیں گے۔ اس لفظ کے اندر وہ تمام خلفاے راشدین داخل ہیں جو آپ کی امت کے اندر پیدا ہوئے یا آیندہ پیدا ہوں گے اور حکومت کے فرائض صحیح اسلامی طریق پر انجام دیں گے۔
اگر کسی کو یہ گمان ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں اپنے بعد کسی خلافت کے قیام یا خلفا کے کسی سلسلہ کا کوئی تصور نہیں ہو سکتا تھا تو ہمارے نزدیک یہ گمان بالکل غلط ہے۔ اول تو آپ جس دین حق کے داعی تھے، وہ دین کوئی رہبانیت کا دین نہیں تھا کہ وہ کسی سیاسی نظام کے تصور سے بالکل خالی ہو، بلکہ اس کے برعکس وہ روز اول ہی سے ایک اجتماعی اور سیاسی نظام کے تقاضوں کے ساتھ نمودار ہوا تھا۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس نے عملاً ایک مکمل سیاسی نظام کی صورت اختیار بھی کر لی تھی اور اس نظام کے اصول و مبادی قرآن میں بھی بیان ہو گئے تھے اور خود حضور نے بھی ان کی وضاحت فرما دی تھی۔ ثانیاً، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی امت کے مستقبل کا پورا نقشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے ہی دکھا دیا گیا تھا۔ چنانچہ متعدد حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امت کو اپنی اجتماعی زندگی میں جن مراحل اور جن انقلابات سے گزرنا تھا، اس کے بہت سے پہلو آپ کے علم میں تھے، آپ جانتے تھے کہ آپ کے بعد مسلمانوں میں کس قسم کا نظام قائم ہو گا، اس کے بعد کیا انقلاب ہو گا اور پھر اس انقلاب کے بعد کیا حالات پیش آئیں گے۔ حد یہ ہے کہ خلفاے اربعہ میں سے جس جس کو جس جس طرح کے حالات پیش آنے تھے، حضور نے ان کی طرف بھی اپنی پیشین گوئیوں میں اشارات فرمائے ہیں۔ ہم یہاں بعض حدیثیں نقل کرتے ہیں جن سے اندازہ ہو سکے گا کہ آپ اپنے بعد قائم ہونے والے نظام کی نوعیت سے بھی باخبر تھے اور ان انقلابات سے بھی واقف تھے جن سے اس نظام کو سابقہ پیش آنا تھا:

عن أبی عبیدۃ ومعاذ بن جبل عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن ھٰذا الأمر بدأ نبوۃ ورحمۃ، ثم یکون خلافۃ ورحمۃ، ثم ملکًا عضوضًا، ثم کائن جبریۃ وعتوًا وفسادًا فی الأرض یستحلون الحریر والفروج والخمور یرزقون علٰی ذالک وینصرون حتٰی یلقوا اللّٰہ. رواہ البیہقی فی شعب الایمان.(مشکوٰۃ، رقم ۵۳۷۵)
’’حضرت ابوعبیدہ اور معاذ بن جبل راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نظام کا آغاز نبوت اور رحمت کی شکل میں ہوا ہے، اس کے بعد یہ خلافت اور رحمت کی صورت اختیار کرے گا، پھر ایک مستبد بادشاہی بن جائے گی۔ پھر قہر و جبر اور فساد فی الارض بن کر رہ جائے گا۔ لوگ ریشم، زنا اور شراب کو جائز کر لیں گے۔ اس کے باوجود انھیں روزی بھی ملتی رہے گی اور یہ فتوحات بھی حاصل کرتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ کے ہاں حاضر ہوں۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں بعد کے انقلابات اور ادوار کی تفصیل اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ ملاحظہ ہو:

عن حذیفۃ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تکون النبوۃ فیکم ما شاء اللّٰہ أن تکون، ثم یرفعھا اللّٰہ تعالٰی، ثم تکون خلافۃ علی منھاج النبوۃ ما شاء اللّٰہ أن تکون، ثم یرفعہ اللّٰہ تعالٰی، ثم تکون ملکًا عاضًا فتکون ما شاء اللّٰہ أن تکون، ثم یرفعھا اللّٰہ تعالٰی، ثم یکون ملکًا جبریۃ فتکون ما شاء اللّٰہ أن تکون، ثم یرفعھا اللّٰہ تعالٰی، ثم تکون خلافۃ علٰی منھاج النبوۃ، ثم سکت .... رواہ احمد والبیہقی فی دلائل النبوۃ. (مشکٰوۃ، رقم ۵۳۷۸)
’’حذیفہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں نبوت باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ اس کو باقی رکھنا چاہے۔ پھر اس کو اللہ تعالیٰ اٹھا لے گا۔ اس کے بعد نبوت کے طرز پر خلافت قائم ہو گی اور وہ قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس کو اٹھا لے گا۔ پھر مستبد بادشاہی بن جائے گی اور وہ رہے گی جب تک اللہ چاہے گا، پھر اللہ تعالیٰ اس کو اٹھا لے گا، پھر جبر و قہر کی حکومت قائم ہو گی اور وہ قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ اس کو اٹھا لے گا۔ اس کے بعد نبوت کے طرز پر پھر خلافت قائم ہو گی، یہاں تک بیان کرنے کے بعد حضور خاموش ہو گئے...۔‘‘

اس حدیث میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے بعد پیدا ہونے والے بگاڑ کے بعد پھر ایک دور خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی پیشین گوئی ہے۔ اس کا مصداق ہمارے سلف صالحین نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور کو قرار دیا ہے۔ اس کے بعد حضور کے سکوت فرمانے سے بعض لوگوں نے یہ نتیجہ بھی نکالا ہے کہ اس کے بعد بھی بناؤ اور بگاڑ کے اس طرح کے دور امت میں آتے رہیں گے۔ چنانچہ تاریخ کی شہادت موجود ہے کہ اس کے بعد اچھے حکمران بھی پیدا ہوئے اور برے بھی پیدا ہوئے اور کوئی وجہ نہیں ہے کہ اب یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ آیندہ کبھی اس دنیا میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دور نہیں آئے گا۔ نہ نقل میں ہمیں کوئی ایسی چیز ملتی ہے جو اس کا دروازہ بند کرتی ہو اور نہ عقلاً اس کا آنا کسی طرح محال اور مستبعد قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس مضمون کی ایک دوسری حدیث انھی حضرت حذیفہ سے مسلم و بخاری، دونوں کے حوالہ سے مشکوٰۃ کی کتاب الفتن میں اس طرح نقل ہوئی ہے۔ حضرت حذیفہ فرماتے ہیں:

’’لوگ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کی بابت پوچھا کرتے تھے، لیکن میں فتنوں کی بابت سوال کیا کرتا تھا کہ مبادا کسی فتنہ سے سابقہ نہ پڑ جائے۔ ایک مرتبہ میں نے حضور سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ، ہم جاہلیت اور فتنہ کی تاریکی میں مبتلا تھے کہ اللہ نے ہمیں یہ (نبوت کی) نعمت بخشی۔ کیا اس خیر کے بعد پھر بگاڑ پید ہو گا؟ آپ نے ارشاد فرمایا، ہاں۔ میں نے عرض کیا کہ اس بگاڑ کے بعد پھر خیر کا دور بھی آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں، لیکن اس خیر میں کچھ کدورت بھی ملی ہوئی ہو گی۔ میں نے پوچھا: اس کدورت کی نوعیت کیا ہو گی؟ آپ نے ارشاد فرمایا: لوگ میری سنت اور میرے طریقہ کے خلاف روش اختیار کریں گے۔ ان سے معروف اور منکر، دونوں طرح کی باتیں صادر ہوں گی۔ میں نے دریافت کیا: کیا اس خیر کے بعد شر کا ظہور ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں.....‘‘(بخاری، رقم ۳۴۱۱۔ مسلم، رقم ۱۸۴۷)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ پر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور سے متعلق یہ حقیقت بھی واضح تھی کہ اس دور میں اگرچہ خلیفہ تو راشد ہو گا، لیکن وقت کے حکام اور عوام کی حالت شر کی کدورت سے پاک نہیں ہو گی، ان کے اندر معروف اور منکر، دونوں طرح کی باتیں پائی جائیں گی۔
بعض احادیث میں خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے پہلے دور کی مدت بھی حضور نے متعین فرما دی۔ چنانچہ مشکوٰۃ میں احمد، ترمذی اور ابوداؤد کے حوالے سے یہ روایت نقل ہوئی ہے۔

الخلافۃ ثلاثون سنۃ، ثم یکون ملکًا.(رقم ۵۳۹۵)
’’خلافت تیس سال قائم رہے گی، اس کے بعد بادشاہی قائم ہو جائے گی۔‘‘

تاریخ سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت ۲ سال رہی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ۱۰ سال خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بالترتیب ۱۲ اور ۶ سال خلیفہ رہے، یہ کل ملا کر تیس سال ہوتے ہیں۔
ان احادیث سے یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ حضور کاذہن، جیسا کہ عرض کیا گیا، نہ خلافت کے تصور سے خالی تھا اور نہ خلفا کے تصور سے۔ آپ جس دین فطرت کو لے کر آئے تھے، اس کے فطری تقاضوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ نیز، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، آپ کے بعد جس طرح کا سیاسی و اجتماعی نظام امت میں قائم ہونا تھا، اس کے اصول خود قرآن میں بھی بتا دیے گئے تھے، اور ان کی تفصیلات خود حضور نے بھی مختلف طریقوں سے لوگوں کو سمجھائی تھیں۔ علاوہ ازیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان تمام انقلابات کا مشاہدہ بھی کرا دیا تھا جو آپ کی امت کی اجتماعی و سیاسی زندگی میں پیش آنے والے تھے، یہاں تک کہ یہ بھی آپ پر واضح کر دیا گیا تھا کہ آپ کے بعد جو لوگ خلافت کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے، وہ اس فرض کی ادائیگی میں کن صلاحیتوں کا ثبوت دیں گے اور ان کو کن کن مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ اگر خوف طوالت مانع نہ ہوتا تو ہم یہ تفصیلات بھی یہاں پیش کر دیتے۔
جب ساری باتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر روشن تھیں تواس بات پر کیوں تعجب کیا جائے کہ آپ نے ’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین‘ کے الفاظ کے ساتھ خلفا کے دور کے ظہور میں آنے سے پہلے اس کا تعارف کرایا اور ان کی سنت کی پیروی کرنے کی مسلمانوں کو وصیت فرمائی؟
آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ عام مسلمانوں کا ذہن ان الفاظ کو سن کر ان سے تعین کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف نہیں منتقل ہو سکتا تھا۔ لیکن حضور کے ارشاد میں نہ یہ تعین پیش نظر ہے اور نہ یہ الفاظ اس تعین کے متقاضی ہی ہیں اور نہ اصل وصیت ہی کے نقطۂ نظر سے یہ تعین کچھ ضروری ہے۔ عام مسلمانوں کا اس سے صرف اتنا سمجھ لینا اصل مقصد کے لحاظ سے بالکل کافی تھا کہ آپ کے بعد امت کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کے لیے خلفا ہوں گے جن میں راشد بھی ہوں گے اور غیر راشد بھی۔ اور ہمیں ان میں سے راشدین کی سنت کی پیروی کرنی ہے اور غیر راشدین کے ساتھ شریعت کے مقرر کردہ حدود کے اندر معاملہ کرنا ہے۔

خلفاے راشدین کے تعامل کے سنت ہونے کا مفہوم

یہاں میں تھوڑی سی وضاحت اس بات کی بھی کر دینا چاہتا ہوں کہ خلفاے راشدین کے تعامل کے سنت ہونے کا مفہوم کیا ہے اور اس کو سنت کا درجہ دینے کی وجہ کیا ہے؟
میں نے اپنے اصل مضمون میں سنت اور حدیث میں جو فرق بیان کیا ہے، وہ یہاں بھی ملحوظ رکھیے۔ میں نے بتایا تھا کہ حدیث تو ہر وہ قول یا فعل یا تقریر ہے جس کی روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے ساتھ کی جائے، لیکن سنت صرف وہی چیزیں ہیں جن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر اہتمام و التزام کیا ہو، جن کی اہمیت کے ساتھ تاکید فرمائی ہو، جن کی حیثیت آپ کی زندگی میں معلوم و معروف حقیقتوں کی ہو، جن کو حضور نے انفرادی یا اجتماعی زندگی کے لیے ایک رویہ، ایک مسلک اور ایک پروگرام کی حیثیت سے لوگوں کے سامنے رکھا ہو اور اسی حیثیت سے ان پر عمل کیا اور کرایا ہو۔
اس حقیقت کو سامنے رکھنے کے بعد جب آپ خلفاے راشدین کی سنت کے معاملہ پر غور فرمائیں گے تو جہاں تک ان کے انفرادی اقوال و آرا کا تعلق ہے، وہ ان کی سنت کی حیثیت حاصل نہیں کریں گے، بلکہ ان کی صرف وہی چیزیں ان کی سنت کی حیثیت حاصل کریں گی جو ان کے سامنے ایک مسئلہ کی حیثیت سے آئی ہوں اور انھوں نے ان پر اپنے وقت کے اہل علم اور ارباب حل و عقد سے مشورہ حاصل کر کے ان کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہو یا بطور خود اپنے کسی فیصلہ یا اجتہاد کو نافذ کیا ہو اور ان کے زمانہ کے اہل علم و تقویٰ نے اس کو بغیر کسی نکیر کے قبول کیا ہو اور وہ چیز معمول بہ بن گئی ہو۔
حضرات خلفاے راشدین کا عام طریقہ یہ رہا ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی ایسا معاملہ آتا جس کے بارے میں قرآن یا سنت نبوی میں کوئی تصریح موجود نہ ہوتی تو اس میں اہل علم و تقویٰ سے مشورہ کرتے۔ مشورے کے بعد جب ایک بات طے کر لیتے تو وہ چیز سب کے نزدیک متفق علیہ بن جاتی۔ پھر اگر اس کو پورے ملک کے لیے ایک قانون کی حیثیت دے دینے کی ضرورت داعی ہوتی تو وہ چیز پورے ملک کے لیے ایک قانون کی حیثیت حاصل کر لیتی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانوں میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ اسلام میں اجماع جو حجت مانا گیا ہے تو اس کی معیاری شکل بھی درحقیقت یہی ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ازالۃ الخفا‘‘ میں فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’وتحقیق آنست کہ تازمان حضرت عثمان اختلاف درمسائل فقہیہ واقع نمی شد درمحل اختلاف بخلیفہ رجوع می کردند و خلیفہ بعد مشاورت امرے اختیار می کردد ہماں امر مجمع علیہ می شد۔‘‘

’’اور تحقیق یہ ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک فقہی مسائل میں کسی مستقل اختلاف کی صورت پیدا نہیں ہونے پائی۔ اگر کوئی اختلافی مسئلہ سامنے آتا تو اس کے لیے خلیفۂ وقت کی طرف رجوع کرتے۔ خلیفہ اپنے وقت کے اہل حل و عقد سے مشورہ حاصل کرنے کے بعد اس معاملہ میں کوئی پہلو اختیار کر لیتا اور وہی بات سب کے نزدیک متفق علیہ بن جاتی۔‘‘

میرے نزدیک سنت خلفا سے مراد ان کے اسی طرح کے اجماعی فیصلے ہیں، نہ کہ ان کی انفرادی رائیں۔ اب میں بتاؤں گا کہ میں خلفاے راشدین کے اسی طرح کے طے کردہ مسائل کو کیوں سنت کا درجہ دیتا ہوں۔ میرے نزدیک اس کے وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:

اس کی پہلی وجہ تو وہ حدیث ہے جو اوپر گزر چکی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خلفاے راشدین کی سنت کو سنت کا درجہ بخشا ہے اور اسی حیثیت سے مسلمانوں کو اس پر عمل پیرا ہونے کی ہدایت اور وصیت فرمائی ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اجماع ہمارے ہاں ایک شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور اجماع کی سب سے اعلیٰ قسم اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہی ہو سکتی ہے جس کی مثالیں خلفاے راشدین کے عہد میں ملتی ہیں۔ اول تو یہ خیرالقرون کے لوگوں کا اجماع ہے جن کی حق طلبی و حق کوشی ہر شبہ سے بالاتر ہے۔ ثانیاً، اسی مبارک دور میں عملاً یہ شکل اختیار کی جا سکی کہ اگر کوئی مسئلہ پیش آیا تواس میں وقت کے اہل علم اور صالحین کی رائیں معلوم کی گئیں اور پھر ایک متفق علیہ بات طے کر کے ایک خلیفہ راشد نے اس کو جاری و نافذ کیا اور سب نے اس پر بغیر کسی اختلاف و اعتراض کے عمل کیا۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ ابتدا سے خلفاے راشدین کے تعامل کو ملت میں ایک مستقل شرعی حجت کی حیثیت دی گئی ہے۔ سعید ابن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو ایک اصولی چیز کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اسی طرح ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلوں کو ایک مستقل جگہ حاصل ہے۔ یہی اعتماد ہر مسلمان کو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلوں پر ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو فقہ مالکی ہو یا فقہ حنفی، ہر ایک کے اندر خلفاے راشدین کے تعامل کو سنت ہی کی حیثیت سے جگہ دی گئی ہے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ دین کی تکمیل اگرچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہوئی ہے، لیکن امت کی اجتماعی زندگی میں اس کے مضمرات کا پورا پورا مظاہرہ حضرات خلفاے راشدین کے ہاتھوں ہوا۔ انھی کے مبارک دور میں اسلام کے تمام ادیان پر غلبہ کا قرآنی وعدہ پورا ہوا اور اسلامی شریعت کے بہت سے احکام کا انطباق زندگی کے معاملات میں عملاً متعین ہوا۔ اس پہلو سے خلفاے راشدین کا دور گویا عہد رسالت ہی کا ایک ضمیمہ ہے اور ہمارے لیے وہ پورا نظام ایک مثالی نظام ہے جو ان کے مبارک ہاتھوں سے قائم ہوا۔ پس اس دور میں جو نظائر قائم ہو چکے ہیں، وہ ہمارے لیے دینی حجت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمارے لیے ان سے انحراف جائز نہیں ہے۔ اس کلیہ سے اگر کوئی چیز مستثنیٰ ہو سکتی ہے تو صرف وہ چیز ہو سکتی ہے جو مجرد کسی وقتی مصلحت کے تحت انھوں نے اختیار فرمائی ہو۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت جنوری 2016
مصنف : امین احسن اصلاحی
Uploaded on : Feb 11, 2017
3987 View