دل کا میلان - طالب محسن

دل کا میلان

(مشکوٰۃ المصابیح حدیث: ۸۹) 

وعن عبد اﷲ بن عمرو قال : قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ، إن قلوب بنی آدم کلہا بین أصبعین من أصابع الرحمن کقلب واحد ، یصرف کیف یشاء ۔ ثم قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم : اللہم مصرف القلوب صرف قلوبنا علی طاعتک۔
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمام بنی آدم کے دل رحمان کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں میں ایسے ہیں جیسے ایک دل ہو ۔وہ جیسے چاہتا ہے ان کو پھیرتا ہے۔پھر آپ نے فرمایا : اے اللہ دلوں کے پھیرنے والے، ہمارے دل اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے۔‘‘

لغوی مباحث

قلوب:’قلوب‘ ،’قلب‘کی جمع ہے ۔ یہ اس آلہ کاعربی نام ہے جو جسم میں خون کی گردش جاری رکھنے کے لیے سینے میں دھڑکتا رہتا ہے ۔ لیکن یہ لفظ غالباً تمام زبانوں میں انسان کی فہم وعقل کی باطنی صلاحیت اور اس کے جذبات و خواہشات کے مرکزکے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، بلکہ بسا اوقات اسے انسان کی اصل شخصیت کو تعبیر کرنے کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔قرآن مجید میں بھی یہ لفظ ان تمام پہلووں کے لیے استعمال ہوا ہے ، بلکہ قرآن مجید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہی بصیرت کا منبع ہے ۔ سورۂ حج میں ہے:

فَاِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ۔( ۲۲ : ۴۶)
’’کیونکہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں ۔‘‘

بین أصبعین من أصابع الرحمان :لفظی مطلب ہے رحمان کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے بیچ میں۔لیکن یہاں اس سے ہر دل کے خدا کے تصرف میں ہونے کا پہلو واضح کرنا مقصود ہے ۔ یہاں یہ بحث بے محل ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ کی انگلیاں ہوتی ہیںیا نہیں ؟ یہ زبان کا ایک اسلوب ہے ۔ یہ الفاظ دل کے خدا کے تصرف میں ہونے کوچشم تصور کے ذریعے سے محسوس کرانے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔خدا کی ذات کے بارے میں کوئی اطلاع ان میں نہیں ہے ۔ دو انگلیوں سے بعض شارحین نے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی دو صفات جلال و اکرام یا رحمت و قہر مراد ہیں ۔ یعنی وہ جسے چاہتاہے نیکی سے برائی یعنی ثواب سے سزا کی طرف پھیر دیتا ہے ۔ یہ نکتہ دل چسپ ضرور ہے ، لیکن زبان و بیان کے قواعد کی روشنی میں یہ محض تکلف ہے ۔
یصرف : ’التصریف‘کے معنی پھیرنے اور پلٹنے کے ہیں ۔ دل کے ساتھ متعلق ہونے کے پہلو سے یہاں دل کا رخ بدلنے کے معنی میں آیا ہے ۔

متون

کتب حدیث میں اس روایت کے دو متن ملتے ہیں ۔ ایک متن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی موقع پر یہ بیان کیا کہ ہر آدمی کا دل اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہے ۔ وہ اسے جس طرف چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی کہ اے دلوں کے پھیرنے والے ، میرا دل اپنی اطاعت کی طرف پھیر دے ۔ دوسرے متن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مذکورہ دعا اکثر کیا کرتے تھے ۔ اس پر لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا اور آپ سے اس دعا کا سبب پوچھا۔ اس کے جواب میں آپ نے یہ بات واضح کی کہ ہر آدمی کا دل اللہ کی گرفت میں ہے ، وہ اسے جس طرف چاہتا ہے پھیر دیتا ہے ۔روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صورت ایک موقع پر کچھ صحابہ کو پیش آئی ۔ ایک موقع پرام المومنین حضرت سلمہ کو اور کسی دوسرے موقع پرام المومنین حضر ت عائشہ رضی اللہ عنھا کو پیش آئی ۔ان تین موقعوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا سوال ان الفاظ میں روایت ہوا ہے :

فقلت (سلمۃ) یا رسول اﷲ ما أ کثر دعاء ک یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک۔
’’ (حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ) :میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ، آپ کتنی زیادہ یہ دعا کرتے ہیں کہ اے دلوں کے پھیرنے والے میرا دل اپنے دین پر جما دے۔ ‘‘

فقلنا یا رسول اﷲ آمنا بک و بما جئت بہ فہل تخاف علینا۔
’’ ہم نے پوچھا اے اللہ کے رسول ہم آپ پر ایمان لائے کیا آپ ہمارے بارے میں اندیشہ رکھتے ہیں ۔‘‘

فقلت (عائشۃ ) بأبی أنت و أمی یا رسول اللّٰہ أ تخاف و أنت رسول اﷲ؟
’’ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ): میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : یارسول اللہ ، میرے ماں باپ آپ پر فدا آپ اندیشہ رکھتے ہیں ، جبکہ آپ اللہ کے رسول ہیں؟‘‘

باقی فرق محض لفظی ہیں ،مثلاً :’ قلوب‘کی جگہ ’قلب‘، ’الرحمان‘کے بجائے ’الجبار‘اور’علی دینک‘کے بدلے ’علی طاعتک‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ اسی طرح ’صرِّف‘ کی جگہ ’اصرف‘ اور’ مقلب‘کے بجائے ’مصرف‘بھی روایت ہوا ہے۔ البتہ نتیجہ کا جملہ مختلف طریقوں سے آیا ہے ۔’یصرف حیث یشاء‘کی جگہ ’إن شاء اقامہ و إن شاء أزاغہ‘ یا ’إذا شاء یقلب قلبہ‘ یا ’فمن شاء أن یقلبہ من الضلالۃ إلی الھدی أو من الھدی إلی الضلالۃ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔
بنیادی طور پر یہ روایت فرد سے متعلق ہے ۔لیکن بعض روایات میں یہ جملہ بھی مروی ہے :

و المیزان بید الرحمٰن یرفع أقواما و یخفض آخرین إلی یوم القیامۃ۔
’’ترازو رحمان کے ہاتھ میں ہے ۔وہ کچھ قوموں کو اٹھاتا ہے اور دوسری کو جھکاتا ہے ۔(یہ صورت) قیامت تک کے لیے (قائم ہے )۔‘‘

اس روایت کے کچھ متون مختصر ہیں اور کچھ مفصل ہیں ۔ یعنی کچھ مرویات میں صرف دعا مذکور ہے ۔ اور کچھ میں صرف تصریف قلوب والا جملہ روایت ہوا ہے ۔

معنی

یہ روایت بنیادی طور پر اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرف چاہتے ہیں کسی انسان کا دل پھیر دیتے ہیں۔ وہ جسے چاہتے ہیں راہ حق پر لگا دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں گمراہی کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے رہتے تھے کہ اے دلوں کے پھیرنے والے میرا دل اپنی اطاعت پر جما دے ۔ میرا دل اپنے دین کی طرف پھیر دے ۔ صاحب مشکوٰۃ اور بعض دوسرے محدثین نے بھی اسے تقدیر کے عنوان کے تحت لیا ہے ۔ اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہدایت و ضلالت سراسراللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ ان کی مرضی ہے وہ کسی کو نیکوکار بنادیں اور ان کی رضا ہے وہ کسی کو بدکار بنا ڈالیں۔اس روایت کے یہ معنی لینا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے ۔
دل کیا ،پوری کائنات خدا کی گرفت میں ہے ۔ وہ جس وقت جو چاہے وقوع پزیر کر سکتا ہے ۔ اس نے یہ زمین و آسمان استوار کیے ہوئے ہیں ۔ وہ جب چاہے ان کی بساط لپیٹ سکتا ہے ۔ لیکن اس نے طے کیا ہے کہ وہ ان کی بساط قیامت برپا کرنے کے موقع ہی پر لپیٹے گا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتایا ہے کہ لوح محفوظ میں ہر ہر معاملہ طے کر کے لکھ دیا گیا ہے اور وہ اسی منصوبے کے مطابق ظاہر ہو گا۔ یہی معاملہ دلوں کا ہے ۔وہ لاریب خدا کی گرفت میں ہیں ۔ اس کے لیے تمام بنی آدم کے دلوں کا الٹ پھیر اس سے کہیں زیادہ سہل ہے ، جتنا سہل انگلیوں میں آئی ہوئی کسی شے کو گھمانا کسی انسان کے لیے سہل ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِہٖ۔( الانفال ۸ : ۲۴)
’’ جان رکھو ، اللہ تعالی آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جایا کرتے ہیں۔‘‘

لیکن زمین و آسمان کے الٹ پھیر کی طرح اس نے دلوں کے الٹ پھیر کا بھی ایک قاعدہ مقرر کر رکھا ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

فَلَمَّا زَاغُوْآ اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ ۔( الصف ۶۱ : ۵)
’’پھر جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیے۔‘‘

سورۂ تغابن میں ہے :

وَ مَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہٗ۔( ۶۴ : ۱۱)
’’ اور جو اللہ تعالیٰ پر حقیقی ایمان رکھتاہو تو وہ اس کے دل کو ہدایت پر جما دیتے ہیں ۔‘‘

یہودکے دلوں میں قساوت کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا :

فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ لَعَنّٰہُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قٰسِیَۃً۔ (المائدہ ۵ : ۱۳)
’’ ان کے اپنا عہد توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کردی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا ۔‘‘

اصحاب کہف کے دلوں کو ثبات عطا ہونے کی وجہ ان الفاظ میں بیان کی :

وَّ رَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَا لْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰہًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا۔( الکہف ۱۸ : ۱۴)
’’ ہم نے ان کے دلوں کومضبوط کیا جبکہ وہ اٹھے اور کہا ہمارا رب وہی ہے جو آسمان اور زمین کا رب ہے ۔ ہم اس کے سوا کسی معبود کو ہر گز نہیں پکاریں گے ۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم نے حق سے ہٹی ہوئی بات کہی۔‘‘

یہ اور دوسرے متعدد مقامات پر قرآن مجید نے اس اصول کو مختلف اسالیب میں واضح کیا ہے کہ دل کی راستی اس کو عطا ہوتی ہے جو خود راستی اختیار کرنا چاہتا ہے اور دل کا ٹیڑھ اسی کا نصیب ہے جو اپنے ارادے سے اس ٹیڑھ کے درپے ہوتا ہے۔اس کے باوجود وہ لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ نے راہ یاب کیا ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ سے دل کی درستی کی دعا کرتے رہتے ہیں ۔ اہل ایمان کی یہ دعا بھی قرآن مجید میں نقل ہوئی ہے ۔سورۂ آل عمران میں ہے :

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَابَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَ ہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ۔ (۳ : ۸)
’’ اے ہمارے پرودگار ہمارے دلوں کو ہدایت بخشنے کے بعد کج نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت بخش ۔ تو نہایت بخشنے والا ہے ۔‘‘

مولانا امین احسن اصلاحی نے الراسخ فی العلم ہونے کے باوجود اور ہدایت یاب ہونے کے باوصف اس دعا کی حکمت واضح کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’یہ راسخین فی العلم کی دعا ہے ۔جس سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ اپنے دین کے معاملے میں اتنے بے پروا نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ شکوک و شبہات کو بلاوے بھیج کر بلائیں ۔ اور اپنے ایمان و اسلام کو خطرے میں ڈالیں۔بلکہ وہ اپنے ایمان کی سلامتی کے لیے برابر اپنے پروردگار سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ دین میں ان کے جمے ہوئے قدم اکھڑنے نہ پائیں اور جب فتنوں کی یورش ہو تو خدائے وہاب اپنے پاس سے ان کے لیے وہ روحانی کمک بھیجے جو ان کے لیے ثبات قدم کا ذریعہ بنے ۔‘‘ ( تدبر قرآن ۲/ ۳۴)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بھی ایک طرف خدا کی ہدایت کے ساتھ آپ کی گہری وابستگی کا مظہر ہے اور دوسری طرف ان فتنوں سے بچنے کا احساس بھی ہے جو انسان کو کسی وقت بھی اپنے شکنجے میں لے سکتے ہیں ۔ خدا کے صالحین کا یہی رویہ ہے جس کا نتیجہ خدا کی روحانی مدد کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام خدا کے ایسے ہی بندے تھے ۔ زلیخا کی گہری چال کی کامیابی کے عین موقع پر خدا کی برہان آئی اور انھیں برائی سے بچالیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

کَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْءَ وَالْفَحْشَآءَ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ۔( یوسف ۱۲ : ۲۴)
’’ہم نے ایسا ہی کیا تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو دور رکھیں ۔ بے شک وہ ہمارے برگزیدہ بندوں میں سے تھا ۔‘‘

کتابیات

مسلم ، کتاب القدر ، رقم ۴۷۸۹۔ مسند احمد ، رقم ۶۳۲۱، ۱۱۶۶۴ ، ۱۸۸۳۰ ، ۲۲۶۹۹ ، ترمذی ، کتاب القدر ، رقم ۲۰۶۶ ۔ کتاب الدعوات ، رقم ۳۴۴۴۔ابن ماجہ ، المقدمہ ، ۱۹۵ ۔ المستدرک علی الصحیحین ، رقم ۳۱۴۰ ۔ السنن الکبریٰ ، رقم ۷۷۳۷، ۷۷۳۸ ۔ مسند البزاز، رقم ۲۴۶۰۔المعجم الاوسط ، رقم ۱۵۳۰۔ مسند عبد بن حمید، رقم ۲۲۲۔

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت فروری 2002
مصنف : طالب محسن
Uploaded on : Feb 03, 2017
3017 View