دہشت گردی - سید منظور الحسن

دہشت گردی

 جنوری ۲۰۰۲ کے ’’اشراق‘‘ میں ہم نے برادرم محمد مشتاق احمد صاحب کی مدیرِ ’’اشراق‘‘ کے ایک انٹرویو پر تنقید کا جائزہ لیا تھا۔ اس کے جواب میں انھوں ایک تنقیدی مضمون ارسال کیاہے جو اس شمارے میں شامل اشاعت ہے۔اپنے مضمون میں ہم نے مشتاق صاحب کی تحریر کے حوالے سے پانچ مختلف نکات پر بحث کی تھی۔مشتاق صاحب ان میں سے صرف ایک نکتے کو زیر بحث لائے ہیں، جبکہ باقی چار کو انھوں نے گفتگو پر مؤخر کر دیا ہے۔ جس نکتے کو انھوں نے منتخب کیا ہے ،وہ ’’دہشت گردی کی تعریف‘‘ ہے۔اس ضمن میں انھوں نے سابقہ استدلال ہی کی بنا پر استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تعریف پر تنقید کی ہے اور اس کے تقابل میں اپنی تعریف پیش کی ہے ۔ اس موقع پر اگرچہ انھوں نے ہمارے نقد اور اس سلسلے میں دی گئی مثالوں سے اتفاق کیا ہے ، مگر نتیجۃً اختلاف ہی کا اظہار کیا ہے ۔ بہرحال ہم ان کے مضمون کے حوالے سے اپنا نقطۂ نظر ایک مرتبہ پھر پیش کیے دیتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ دہشت گردی کے بارے میں استاذ گرامی اور مشتاق احمد صاحب کی مذکورہ تعریفیں نقل کر دی جائیں۔استاذِ گرامی نے بیان کیا ہے :

’’غیر مقاتلین (Non-Combatants)کی جان ، مال یا آبرو کے خلاف غیر علانیہ تعدی دہشت گردی ہے ۔ غیرمقاتلین سے مراد وہ لوگ ہیں جو حالتِ جنگ میں نہ ہوں ۔ ان کے خلاف اگر کوئی اقدام انھیں اپنی حفاظت کے لیے متنبہ کیے بغیر کیا جائے تو وہ دہشت گردی قرار پائے گا۔ چنانچہ ہیروشیما ، ناگاساکی پر ایٹمی تاخت ، نیویارک اور واشنگٹن میں حالیہ تباہی اور مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے باہر بموں سے حملہ دہشت گردی ہی کے اقدام ہیں ۔‘‘( اشراق ، جنوری ۲۰۰۲، ۳۳)

مشتاق صاحب نے تعریف کی ہے:

’’انسان خواہ مقاتلین ہوں یا غیر مقاتلین ان کے حقوق کی خلاف ورزی میں طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی، دانستہ طور پر غیر قانونی طریقے سے ہو اور اس کا مقصد معاشرے میں خوف و دہشت پھیلانا ہوتو اسے دہشت گردی کہا جائے گا، خواہ اس کا ارتکاب افراد کریں، یا ان کی تنظیم یا کوئی حکومت۔
اس تعریف کی رو سے کسی ’’کارروائی‘‘ کو ’’دہشت گردی‘‘ قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل عناصر بیک وقت پائے جائیں :
۱۔انسانی حقوق کی خلاف ورزی
۲۔طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی
۳۔ ارادہ اور شعور
۴۔ غیر قانونی طریقہ
۵۔خوف و دہشت پھیلانا‘‘(شمارہ ہٰذا، ۳۹)

اس تمہید کے بعد اب ہم اپنا تبصرہ چند عنوانات کے تحت پیش کرتے ہیں۔

مشتاق صاحب کی تعریف کا ابہام

درج بالا تعریف میں مشتاق صاحب نے کسی کارروائی کو دہشت گردی قرار دینے کے لیے پانچ شرائط متعین کی ہیں۔ ان میں سے تین شرائط تو وہی ہیں جنھیں ہم نے ان کی سابقہ تحریر سے اخذ کر کے اپنے مضمون میں نقل کیا تھا اور انھیں مبہم اور غیرواضح قرار دیا تھا۔
اس ضمن میں ’’دانستگی یا ارادہ و شعور‘‘ کی شرط کے بارے میں ہم نے لکھا تھا:

’’ ہمارے نزدیک،کسی اقدام پر دہشت گردی کا اطلاق کرنے کے لیے دانستہ یا نادانستہ کی بحث بالکل بے معنی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلماتِ قانون و اخلاق میں نادانستہ طور پر سرزد ہونے والا جرم اصل میں جرم قرار ہی نہیں پاتا۔وہی جرم، درحقیقت جرم شمار کیا جا تا ہے جوپورے شعور اور ارادے سے کیا گیا ہو۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں جیسے ہی کسی مجرمانہ کارروائی کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ کسی شعور اور ارادے کے بغیر نادانستہ طور پر کی گئی ہے تو ہم اسے فہرستِ جرائم سے نکال کر فہرستِ حوادث میں ڈال دیتے ہیں۔اسی بنا پر کسی ایسے شخص کو قاتل نہیں قرار دیا جاتاجس کے ہاتھوں نادانستہ طور پر انسانی جان ضائع ہو گئی ہو۔ ‘‘(اشراق ، جنوری ۲۰۰۲، ۳۴)

’’انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘‘ کی شرط کے بارے میں ہمارا تبصرہ تھا:
’’ہر جرم ،خواہ اس کا ارتکاب کسی فرد نے کیا ہو، کسی گروہ نے کیا ہو یا ریاست نے ،بہرحال کسی نہ کسی انسانی حق کی خلاف ورزی پر مبنی ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ شرط ہر جرم کے اندر فطری طور پر موجود ہوتی ہے۔ فرد کی سطح پر ملاوٹ، چوری اور قتل اور ریاست کی سطح پر عوامی تائید کے بغیر حکومت کا حصول اور جابرانہ قوانین کا نفاذ جیسے جرائم انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر کے عمل میں آتے ہیں ،مگر ہم انھیں دہشت گردی سے تعبیر نہیں کرتے ۔گویا انسانی حق کی خلاف ورزی کی شرط کے باوجود جرائم اپنی نوعیت میں مختلف ہو سکتے اور ایک ہی نوعیت کے جرائم شدت اور شناعت کے لحاظ سے مختلف درجوں کے حامل ہو سکتے ہیں۔ ‘‘(اشراق ، جنوری ۲۰۰۲، ۳۵)

’’غیر قانونی طریقہ یا قانونی لحاظ سے ناحق‘‘ کی شرط کے بارے میں ہم نے یہ تنقید کی تھی:
’’اس شرط پربھی وہی اعتراض وارد ہوتا ہے جو اوپر ہم نے دوسری شرط کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ یعنی بلا استثنا ہر جرم اسی بنا پر جرم قرار پاتا ہے کہ وہ قانونی لحاظ سے ناحق اور باطل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ہم ہر جرم کو دہشت گردی سے تعبیر نہیں کرتے۔‘‘(اشراق ، جنوری ۲۰۰۲، ۳۵)

ان شرائط کے بارے میں ہماری تنقید سے مشتاق صاحب نے اگرچہ بہت حد تک اتفاق کیا ہے، مگر اس کے باوجود اسی نوعیت کی دو مزید شرائط کا اضافہ کر دیا ہے ۔ اس صورت حال میں ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ اتفاق محض تعلق خاطر کا اظہار ہے یا پھراس کا سبب ہمارے اسلوب بیان کا کوئی سقم ہے؟ بہرحال اس بحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہم اضافی شرائط اور بحیثیت مجموعی تعریف کے ابہام کو واضح کرنے کے لیے اپنا استدلال بعض مزید دلائل کے ساتھ ایک مرتبہ پھر پیش کر دیتے ہیں۔
اضافی شرائط میں سے ایک طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی ہے اور دوسری خوف و دہشت پھیلانا ہے۔ مشتاق صاحب اس سے اتفاق کریں گے کہ بیشتر جرائم میں یہ دونوں شرائط کسی نہ کسی پہلو سے موجود ہوتی ہیں۔ڈاکا، زنا بالجبر اورقتل کے جرائم میں طاقت کا استعمال بھی ہوتا ہے اور یہ خوف و دہشت کا باعث بھی بنتے ہیں ، مگران کی حیثیت دہشت گردی سے الگ جرائم کی ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ ان دو شرائط کے اضافے نے بھی مشتاق صاحب کی بیان کردہ تعریف کے ابہام کو دور نہیں کیا۔تفہیم مدعا کے لیے ہم اسی نوعیت کی پانچ شرائط کا مزید اضافہ کرتے ہوئے مثال کے طور پر یہ بیان کرتے ہیں کہ:

’’وہی کارروائی دہشت گردی قرار پائے گی جس میں مشتاق صاحب کی بیان کردہ پانچ شرائط کے علاوہ یہ پانچ شرائط بھی موجود ہوں کہ وہ: ۱۔اخلاقی لحاظ سے قبیح ہو۔ ۲۔ انسانی فطرت اس سے ابا کرتی ہو۔ ۳۔ ظلم و عدوان پر مبنی ہو۔ ۴۔مسلماتِ دین سے متصادم ہو۔ ۵۔ انسانی شرف کے خلاف ہو۔‘‘

دیکھیے ہم نے پانچ شرائط کا اضافہ کر دیا، مگر اس کے باوجود اطلاق کے لحاظ سے بات ابھی تک مبہم ہے۔ اس نوع کی دس مزید شرائط بھی اگر شامل کر دی جائیں تو ہمارے نزدیک مسئلہ جوں کا توں قائم رہے گا۔

تعریفوں کا تقابل

دونوں تعریفوں کے باہمی تقابل کے حوالے سے ہم دو باتیں مشتاق صاحب کی خدمت میں عرض کرنا چاہیں گے۔
پہلی بات یہ ہے کہ انھوں نے بہت اہتما م کے ساتھ جو پانچ شرائط بیان کی ہیں ، وہ پہلے ہی سے استاذِ گرامی کی تعریف میں موجود ہیں۔البتہ انھوں نے انھیں ایک ہی لفظ میں بیان کر دیا ہے ۔ یہ لفظ ’’تعدی‘‘ ہے ۔ مشتاق صاحب اردو کی کوئی بھی لغت اٹھائیں تو انھیں اس لفظ کا مطلب ’’ظلم و زیادتی‘‘ لکھا ہوا ملے گا۔ہمیں یقین ہے کہ مشتاق صاحب اس بدیہی حقیقت کوتسلیم کریں گے کہ ہر ظلم و زیادتی ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘‘ پر مبنی ہوتی، کسی نہ کسی پہلو سے ’’طاقت کے استعمال ‘‘ کے ذریعے سے وجود میں آتی، کسی ظالم کے ’’ارادہ اور شعور‘‘ کا اظہار ہوتی، ’’غیر قانونی طریقے ‘‘سے ظہور پزیر ہوتی اور مظلوموں کے لیے حزن و ملال اور’’خوف و دہشت ‘‘ کا باعث بنتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ استاذِ گرامی نے’’غیر علانیہ تعدی‘‘ اور’’ غیر مقاتلین کے خلاف تعدی‘‘دو ایسی شرائط بیان کی ہیں جو دہشت گردی اور دیگر جرائم میں فارق ہو جاتی ہیں۔ مشتاق صاحب نے چونکہ اس طرح کی کوئی شرط شامل نہیں کی ، اس لیے ان کی تعریف کے انطباق کی صورت میں یہ خدشہ موجود رہتا ہے کہ کہیں کسی ایسے واقعے پر دہشت گردی کا اطلاق نہ ہو جائے جو دہشت گردی نہیں ہے۔ یہ بات محمد بن قاسم کے ہندوستان پر حملے کی مثال سے سمجھی جا سکتی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ حکومت اسلامیہ کے نمائندے محمد بن قاسم نے ایک لشکر جرار کے ساتھ راجا داہرکی ہند و سلطنت پر حملہ کیا ۔ داہر کی فوجوں نے بھرپور مزاحمت کی ، مگر اسے عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمان سندھ پر قابض ہو گئے اوراقلیت میں ہونے کے باوجود انھوں نے وہاں اپنی حکومت قائم کر لی۔
مشتاق صاحب کی وضع کردہ تعریف کی رو سے یہ واقعہ دہشت گردی قرار پائے گا، کیونکہ اہلِ سندھ کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اس میں وہ تمام شرائط موجو د ہیں جو مذکورہ تعریف میں پائی جاتی ہیں۔ یعنی:
۱۔ اہل سندھ کو آزادی اور حکومتِ خود اختیاری کے حق سے محروم کر دیا گیا اور اس طرح ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘‘ عمل میں آئی۔
۲۔مطالبات نہ پورے کرنے کے حوالے سے پہلے جنگ کی دھمکی دی گئی اور پھر بھرپور طریقے سے حملہ کر دیا گیا۔ اس طرح ’’طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی‘‘کی شرط پوری ہو گئی۔
۳۔ حملہ باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا ، اس لیے ’’ارادہ اور شعور‘‘ کی شرط بھی لاگو ہو گئی۔
۴۔راجا داہر کے سپاہیوں نے مسلمان تاجروں کے بھٹک کر دیبل کی بندرگاہ پر پہنچنے والے جہاز کو لوٹا تھا اور اس کے مسافروں کو قیدی بنا لیا تھا۔ اس کے جواب میں محمد بن قاسم سندھ پر حملہ آور ہوا اور اس نے کوئی مقدمہ چلائے بغیر سندھیوں پر جنگ نافذ کر دی اور بزور و قوت ملک پر قبضہ کر لیا۔ اگر وہ اپنے قیدیوں اور سامان کو بازیاب کرا کے واپس لے جاتا تو اس اقدام کو شاید غیر قانونی نہ کہا جاتا، مگر اس نے اس سے بہت آگے بڑھ کر ملک پر اپنا تسلط قائم کر لیااور رائے عامہ کے بغیر حکومت حاصل کر لی۔ چنانچہ اسے ایک’’ غیر قانونی طریقہ‘‘ قرار دیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ۔اس پہلو سے دیکھا جائے تو چوتھی شرط بھی اس میں موجود ہے ۔
۵۔اس زمانے میں عربوں کی جنگی ہیبت پوری دنیا پر مسلم تھی ۔ چنانچہ جیسے ہی سندھ پر حملہ ہوا ، وہاں کے باسی خوف و دہشت کا شکار ہو گئے ۔ اس طرح یہ آخری شرط بھی پوری ہو گئی ۔
گویا مشتاق صاحب کی تعریف کی رو سے محمد بن قاسم کا سندھ پر حملہ دہشت گردی کا ایک واقعہ ہے۔
اس کے بالکل بر عکس استاذ گرامی کی تعریف کی رو سے اسے ہر گزدہشت گردی قرار نہیں دیا جا سکتا۔کیونکہ :
۱۔یہ کارروائی غیر مقاتلین کے خلاف نہیں، بلکہ مقاتلین کے خلاف کی گئی۔
۲۔ یہ کارروائی غیر علانیہ نہیں، بلکہ علانیہ تھی۔
استاذِ گرامی اور مشتاق صاحب کی تعریف میں یہی وہ بنیادی فرق ہے جسے ہم نے گزشتہ مضمون میں واضح کرنے کی کوشش کی تھی ۔

بنیادی اعتراض

استاذِ گرامی کی تعریف پر جناب مشتاق احمد کا بنیادی اعتراض غالباً یہ ہے کہ اس میں غیر علانیہ کی شرط تعریف کی جامعیت کو مجروح کرتی ہے، کیونکہ بعض اوقات علانیہ اقدام بھی دہشت گردی قرار پا سکتا ہے۔ یہ اعتراض مشتاق صاحب نے اپنی ابتدائی تحریر میں بھی پیش کیا تھا۔ اس کے جواب میں ہم نے عرض کیا تھا کہ:

’’اس تعریف پر مشتاق صاحب کی طرف سے جو نقدقابل اعتنا ہے ، وہ یہ ہے کہ بعض ایسے موقعوں پر علانیہ تعدی بھی دہشت گردی قرار پا سکتی ہے جب غیر مقاتلین کو جان، مال یا آبرو بچانے کے حالات میسر ہی نہ ہوں۔ گویا اس صورت میں علانیہ یا غیر علانیہ کی بحث بے معنی ہو جاتی ہے۔
اس صورت میں ہمارے نزدیک اصل میں علانیہ کی شرط پوری ہی نہیں ہوتی۔ہر بات کے اندر کچھ مقدرات ہوتے ہیں جو اگرچہ ظاہرِ الفاظ میں بیان نہیں ہوتے، مگر اسلوبِ بیان اور سیاق و سباق کی بنا پراس کا لازمی حصہ تصور ہوتے ہیں۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ انسانوں کے خلاف کوئی تعدی اگر علانیہ ہو تو اسے دہشت گردی نہیں کہا جائے گاتو یہاں لفظ علانیہ میں یہ باتیں لازمی طور پر مقدر سمجھی جائیں گی:
ایک یہ کہ مخالفین کوواضح طور پر متنبہ کیا جائے کہ اگر بات نہ مانی گئی تو ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔
دوسرے یہ کہ اگر وہ مقاتلین ہیں تو انھیں ہتھیار ڈالنے اور اگر غیر مقاتلین ہیں تو انھیں مطیع ہوکر یا راہِ فرار اختیار کر کے جان، مال اور آبرو بچانے کا پورا موقع دیا جائے۔
چنانچہ استاذِ گرامی کے نزدیک کسی جنگی کارروائی کو غیر انسانی، غیر اخلاقی، غیر قانونی اور سرتاسر ظالمانہ تو قرار دیا جا سکتا ہے، مگر اسے دہشت گردی قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں مذکورہ دونوں شرائط پائی جاتی ہوں۔‘‘(اشراق، جنوری ۲۰۰۲، ۳۶)

موجودہ تحریر میں انھوں نے اس تنقید کو دہرایا ہے اور اسے دو مثالوں سے موکد کیا ہے۔ہم مشتاق صاحب کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ان مثالوں کو بیان کر کے ہمارے استدلال کو بہت حد تک واضح کر دیا ہے۔ آئیے ان مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ پہلی مثال یہ ہے :

’’ کسی گروہ نے بازار کے بیچ میں برسر عام اعلان کر دیا کہ ہم فائرنگ کرنے والے ہیں اور پھر فائرنگ شروع کر کے بعض کو زخمی اور بعض کو ہلاک کر دیا تو کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے؟ یقیناً ہے، حالانکہ یہ کارروائی غیر علانیہ نہیں، بلکہ علانیہ ہے۔‘‘

ہمارے نزدیک اس مثال پر علانیہ کی شرط کا اطلاق ہوتا ہی نہیں ہے ۔یہ اسی طرح کی بات ہے کہ کوئی شخص ہاتھ میں خنجر لیے دوسرے کے سینے پر سوار ہو اوراس کی رگِ جاں کاٹنے سے پہلے اسے کہے کہ اگر بھاگ سکتے ہو تو بھاگ جاؤ۔
مشتاق صاحب کی دوسری مثال یہ ہے :

’’اگر کسی گروہ نے بیچ بازار میں برسرعام اعلان کر کے کہا کہ لوگ اگر دوکان بند کر کے گھروں میں نہیں جائیں گے تو وہ ان پر فائرنگ کر دیں گے ۔ اور پھر وہ ہوائی فائرنگ کر دیتے ہیں جس میں کوئی زخمی نہیں ہوا، کوئی ہلاک نہیں ہوا تو کیا یہ دہشت گردی نہیں ہو گی؟ یا انھوں نے ہوائی فائرنگ بھی نہیں کی، لیکن صرف اسلحہ کی نمایش کی اور فائرنگ کی دھمکی دی تو کیا یہ دہشت گردی نہیں ہو گی؟‘‘

یقیناً یہ دہشت گردی نہیں ہو گی ،کیونکہ دہشت گردی کے وقوع اور اس کی دھمکی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ یہ اسی طرح کا فرق ہے جو قتل اور قتل کی دھمکی میں ہے۔ کیا مشتاق صاحب قتل کی دھمکی دینے والے پر قتل کی سزا نافذ کرنے کی اجازت دیں گے؟
اپنے مضمون کے آخر میں انھوں نے بعض واقعات کو اپنی تعریف کا اطلاق کر کے پیش کیا ہے ، ہمارے نزدیک چونکہ ان کی تعریف ہی مبہم ہے ، اس لیے اس کی بنا پر کسی واقعے کو زیر بحث لانا ہی خارج از بحث ہے۔

 ------------------------------

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق

تحریر/اشاعت مارچ 2002 
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Aug 23, 2016
3708 View