عالم برزخ - سید منظور الحسن

عالم برزخ

زبان کا یہ عام اسلوب ہے کہ جن امور سے ہم براہ راست واقف نہ ہوں، ان کے بارے میں بیان کرنے کے لیے کوئی علامت یا تعبیر اختیار کر لی جاتی ہے۔عالم برزخ بھی اسی طرح کی تعبیر ہے۔ اس سے مراد انسانوں کے دنیا سے رخصت ہونے کے وقت سے لے کر قیامت تک کا زمانہ ہے۔ انسان جب اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو وہ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہوکر قیامت تک کے لیے ایک اوٹ میں چلا جاتا ہے۔عربی زبان میں اوٹ کے لیے’’ برزخ ‘‘کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اسی سے ہمارے ہاں موت کے بعد اور قیامت سے پہلے کے احوال کے لیے برزخ کی اصطلاح رائج ہو ئی ہے ۔ قرآن مجید میں یہ لفظ سورۂ مومنون میں آیا ہے۔ ارشاد ہے:
حَتّٰٓی اِذَا جَآءَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ. لَعَلِّیْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّا اِنَّھَا کَلِمَۃٌ ھُوَ قَآءِلُھَا وَ مِنْ وَّرَآءِھِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ.
’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہو گی تو وہ کہے گا کہ اے رب ،مجھے پھر واپس بھیج کہ جو کچھ چھوڑ آیا ہوں، اس میں کچھ نیکی کماؤں۔ ہرگز نہیں، یہ محض ایک بات ہے جو وہ کہنے والا بنے گا
(۲۳:۹۹۔۱۰۰)
اور آگے ان کے ایک پردہ ہو گا، اس دن تک کے لیے جس دن وہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘
برزخ ،کیفیت زندگی ہے یا حالت موت ؟ یہ اسی دنیا کا کوئی حصہ ہے یا اس سے ماورا کوئی عالم؟ اس عالم میں انسان کسی احساس کے بغیر ہو گا یا رنج و راحت کو محسوس کرے گا؟ اس اوٹ میں انسان بے خبر ہو گا یا اسے کچھ احوال پیش آئیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس معاملے میں ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان پر غور کرنے کے لیے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم پہلے موت و حیات، حساب کتاب اور جزا و سزا کے حوالے سے قرآن مجید کے نصوص کا مطالعہ کریں:
۱۔موت دنیوی زندگی سے پہلے
کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ. (البقرہ ۲ :۲۸)
’’تم اللہ کا کس طرح انکار کرتے ہو اور حال یہ ہے کہ تم مردہ تھے تو اس نے تم کو زندہ کیا۔‘‘
۲۔دنیوی زندگی
فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّ غَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَیِّنَ لَکُمْ وَ نُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآءُ اِلآی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلاً ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ.(الحج۲۲:۵)
’’ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ پھر ایک قطرۂ آب سے ، پھر ایک جنین سے، پھر ایک لوتھڑے سے ، کوئی کامل ہوتا ہے اور کوئی ناقص ۔ ایسا ہم نے اس لیے کیا تاکہ تم پر اپنی قدرت و حکمت اچھی طرح واضح کر دیں اور ہم رحموں میں ٹھہرا دیتے ہیں جو چاہتے ہیں ایک مدت معین کے لیے۔ پھر ہم تم کو ایک بچے کی شکل میں برآمد کرتے ہیں، پھر ایک وقت دیتے ہیں کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو۔‘‘
۳۔موت دنیوی زندگی کے بعد
کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ. (العنکبوت۲۹ : ۵۷)
’’ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے، پھر تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ ‘‘
قُلْ یَتَوَفّٰکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ
’’کہہ دو تمھاری جان وہ فرشتہ ہی قبض کرتا
وُکِّلَ بِکُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَ.
(السجدہ ۳۲ : ۱۱)
ہے جو تم پر مامور ہے، پھر تم اپنے رب ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ ‘‘
۴۔ شہادت کے بعد کی زندگی
وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ، بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ.( البقرہ ۲: ۱۵۴)
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں ان کو مردہ نہ کہو،بلکہ وہ زندہ ہیں، تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔‘‘
۵۔قیامت اوردوسری زندگی کا آغاز
نَحْنُ قَدَّرْنَا بَیْنَکُمُ الْمَوْتَ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوْقِیْنَ. عَلٰٓی اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَکُمْ وَنُنْشِءَکُمْ فِیْ مَالاَ تَعْلَمُوْنَ.
(الواقعہ ۵۶:۶۰۔ ۶۱)
’’ہم نے تمھارے درمیان موت مقدر کی ہے اور ہم عاجز رہنے والے نہیں ہیں، بلکہ قادر ہیں اس بات پر کہ ہم تمھاری جگہ تمھارے مانند بنا دیں اور تم کو اٹھائیں اس عالم میں جس کو تم نہیں جانتے۔‘‘
وَکُلُّ اَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ. وَلَقَدْ جَآءَ ھُمْ مِّنَ الْاَنْبَآءِ مَا فِیْہِ مُزْدَجَرٌ. حِکْمَۃٌ بَالِغَۃٌ فَمَا تُغْنِ النُّذُرُ. فَتَوَلَّ عَنْھُمْ یَوْمَ یَدْعُ الدَّاعِ اِلٰی شَیْ ءٍ نُّکُرٍ. خُشَّعًا اَبْصَارُھُمْ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ کَاَنَّھُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ . مُّھْطِعِیْنَ اِلَی الدَّاعِ یَقُوْلُ الْکٰفِرُوْنَ
’’اور ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ اور ان کو ماضی کی سرگزشتیں پہنچ چکی ہیں جن میں کافی سامان عبرت موجود ہے، نہایت دل نشیں حکمت، لیکن تنبیہات کیا کام دے رہی ہیں؟ تو ان سے اعراض کرو اور اس دن کا انتظار کرو جس دن پکارنے والا ان کو ایک نہایت ہی نامطلوب چیز کی طرف پکارے
ھٰذَا یَوْمٌ عَسِرٌ.(القمر۵۴: ۳۔۸)
گا۔ ان کی نگاہیں جھکی ہوں گی اور یہ نکلیں گے قبروں سے جس طرح منتشر ٹڈیاں نکلتی ہیں، بھاگتے ہوئے پکارنے والے کی طرف۔ اس

وقت کافر کہیں گے : یہ تو بڑا کٹھن دن آگیا۔ ‘‘
۶۔دو زندگیاں اور دو موتیں
قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ. (المومن ۴۰ : ۱۱ )
’’وہ کہیں گے: اے ہمارے رب، تو نے ہم کو دو بار موت دی اور دو بار زندگی دی تو ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیا تو کیا یہاں (دوزخ) سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟‘‘
کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ.(البقرہ ۲ :۲۸)
’’تم اللہ کا کس طرح انکار کرتے ہو اور حال یہ ہے کہ تم مردہ تھے تو اس نے تم کو زندہ کیا ، پھر وہ تم کو موت دیتا ہے، پھر زندہ کرے گا ، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
۷۔ دنیا میں عذاب
فَکُلاًّ اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ فَمِنْھُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا وَمِنْھُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُ وَمِنْھُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ وَمِنْھُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ.
(العنکبوت۲۹ : ۴۰)
’’پس ہم نے ان میں سے ہر ایک کو اس کے گناہ کی پاداش میں پکڑا ۔ ان میں سے بعض پر ہم نے گرد باد کا طوفان بھیجا ۔ اور ان میں سے بعض کو کڑک نے آ پکڑا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیااور ان میں سے بعض کو ہم نے غرق کر دیااور اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا،بلکہ وہ خود

اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنے۔‘‘
۸۔ بعد از موت اور قبل از قیامت انعام اور عذاب
وَلَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلآءِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ
’’اور اگر تم دیکھ پاتے جب فرشتے ان کفر کرنے والوں کی روحیں قبض کرتے ہیں
اَدْبَارَھُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ.
(الانفال ۸:۵۰)

مارتے ہوئے ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر، اور یہ کہتے ہوئے کہ اب چکھو مزہ جلنے کے عذاب کا۔ ‘‘
وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِ. اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا، وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ.
(المومن ۴۰ : ۴۵۔۴۶)
’’اور فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا۔ آگ ہے جس پر صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں ، اور جس دن قیامت ہو گی حکم ہو گا کہ فرعون والوں کو بدترین عذاب میں داخل کرو۔‘‘
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ قَالَ یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ. بِمَا غَفَرَلِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ.
(یٰسین۳۶:۲۶۔۲۷)
’’(آل فرعون کا مرد مومن اپنی قوم کو پیغمبر پر ایمان لانے کی نصیحت کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہواتو)ارشاد ہواکہ جنت میں داخل ہو جاؤ ۔ اس نے کہا :کاش! میری قوم جانتی کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت پانے والوں میں سے بنا یا ۔‘‘
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا، بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ.(آل عمران۳: ۱۶۹)
’’اورجو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں، ان کو مردہ نہ خیال کرو، بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، انھیں روزی مل رہی ہے۔‘‘
۹۔ آخرت کے عذاب سے پہلے دو مرتبہ عذاب
وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ سَنُعَذِّبُہُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَِ الٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ.
( التوبہ ۹: ۱۰۱)
’’اور تمھارے ارد گرد جو دیہاتی ہیں، ان میں منافق ہیں اور مدینہ والوں میں بھی منافق ہیں۔ یہ اپنے نفاق میں منجھ گئے ہیں۔ تم ان کو نہیں جانتے ،ہم ان کو جانتے ہیں۔ ہم انھیں دو بار عذاب دیں گے ۔ پھر وہ ایک عذاب عظیم

کی طرف دھکیلے جائیں گے ۔‘‘
۱۰۔ آخرت میں دوزخ کا عذاب
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَھُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَہٗ مَعَہٗ لِیَفْتَدُوْا بِہٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنْھُمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ. یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْہَا وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ.
(المائدہ ۵ : ۳۶۔۳۷)
’’بے شک، جن لوگوں نے کفر کیا ہے اگر انھیں وہ سب کچھ حاصل ہو جائے جو زمین میں ہے اور اس کے ساتھ اس کے برابر اور بھی تاکہ وہ اس کو فدیہ میں دے کر روز قیامت کے عذاب سے چھوٹ سکیں تو بھی ان کا فدیہ قبول نہ ہو گا، ان کے لیے بس ایک دردناک عذاب ہی ہے ۔ وہ زور لگائیں گے کہ آگ سے نکل بھاگیں، لیکن اس سے کبھی نکل نہ پائیں گے، ان کے لیے ایک دائمی عذاب ہوگا ۔ ‘‘
۱۱۔ دنیوی زندگی ہی میں بغیر حساب اخروی انجام کا فیصلہ
وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّلَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَھَا
’’اور مہاجرین و انصار میں سے جو سب سے پہلے سبقت کرنے والے ہیں، اور پھر جن لوگوں نے خوبی کے ساتھ ان کی پیروی کی ہے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے
الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ.(التوبہ ۹ : ۱۰۰ )
راضی ہوئے۔ اور اس نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور بڑی کامیابی یہی ہے ۔‘‘
لاَ یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلاَدِ.مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ثُمَّ مَاْوٰھُمْ
’’اور ملک کے اندر اِن کافروں کی یہ سرگرمیاں تمھیں کسی مغالطہ میں نہ ڈالیں۔
جَھَنَّمُ وَ بِءْسَ الْمِہَادُ.
(آل عمران ۳:۱۹۶۔۱۹۷)
یہ چند دن کی چاندنی ہے، پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی بری جگہ ہے ۔‘‘
۱۲۔بعد از قیامت حساب کے بعد اخروی انجام کا فیصلہ
یَوْمَ یَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِ. وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِھْنِ الْمَنْفُوْشِ. فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ. فَھُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ. وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ. فَاُمُّہٗ ھَاوِیَۃٌ.(القارعہ۱۰۱:۴۔۹)
’’اس دن لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح ہوں گے۔ اور پہاڑ دھنی ہوئی اون کی طرح ہو جائیں گے۔ پھر جس کے پلڑے بھاری ہوئے ، وہ دل پسند عیش میں ہو گااور جس کے پلڑے ہلکے ہوئے، اس کا ٹھکانا گہری کھائی ہے۔‘‘
مندرجہ بالا آیات کا خلاصہ ہم ان نکات کی صورت میں کر سکتے ہیں:
۱۔ اس دنیا میں آنے سے پہلے انسان مردہ تھا۔
۲۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو پہلی موت کے بعد پہلی زندگی عطا فرمائی اور بچے کی صورت میں اسے دنیا میں بھیجا۔
۳۔پہلی زندگی کے بعد اللہ تعالیٰ کے اذن سے فرشتہ انسان کی جان قبض کر لیتا ہے۔ انسان پر دوسری مرتبہ موت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور انسان دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
۴۔دنیا سے رخصت ہونے کے بعد قیامت سے پہلے ہی بعض لوگوں کودوسری زندگی میسر ہو جاتی ہے۔
۵۔ ایک وقت مقررہ پر قیامت واقع ہو گی اور تمام انسان بہ یک وقت دوسری زندگی حاصل کر لیں گے۔
۶۔ دوسری زندگی اپنی حقیقت کے اعتبار سے بالکل پہلی زندگی جیسی ہی ہو گی۔
۷۔ہر انسان کو اپنی پوری تاریخ میں دو زندگیاں اور دو موتیں حاصل ہوں گی۔
۸۔ بعض انسانوں کو دنیوی زندگی ہی میں عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا ۔
۹۔ بعض انسانوں کو موت کے بعد اور قیامت سے پہلے انعام اور عذاب ملے گا ۔
۱۰۔ بعض لوگوں کو آخرت کے عذاب عظیم سے پہلے دو مرتبہ عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا ۔
۱۱۔ بعض انسانوں کے لیے قیامت کے بعد دوزخ کا اخروی عذاب شروع ہو گا ۔
۱۲۔ بعض لوگوں کے اخروی انجام کا فیصلہ ان کی دنیوی زندگی ہی میں سنا دیا گیا ہے ۔
۱۳۔ قیامت کے بعد دوسری زندگی ملتے ہی اعمال کا باقاعدہ حساب شروع ہو جائے گا۔
۱۴۔ باقاعدہ حساب کتاب کے بعد انسانوں کی جزا و سزا طے ہو گی اور انھیں جنت و دوزخ میں داخل کیا جائے گا۔
قرآن مجید کے درج بالا مقامات کا اگر ہم بادی النظر میں مطالعہ کریں تو بظاہر چند تضادات محسوس ہوتے ہیں:
پہلا تضاد یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک طرف قرآن مجید یہ واضح کرتا ہے کہ ہر انسان کو دو زندگیاں میسر آئیں گی : ایک دنیوی زندگی اور ایک اخروی زندگی۱؂ اور دوسری طرف بعض انسانوں کے حوالے سے موت اور قیامت کے درمیان میں ایک تیسری زندگی کا تصور بھی پیش کرتا ہے۲؂۔
دوسرا تضاد یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک طرف قرآن مجید یہ بیان کرتا ہے کہ ایک مقرر وقت پر قیامت برپا ہونے کے بعدجزا و سزا کا معاملہ شروع ہو گا ۳؂ اور دوسری طرف اس کی آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ موت کے فوراً بعد اور قیامت سے پہلے ہی جزا و سزا کا سلسلہ شروع ہو جائے گا ۴؂۔ پھر جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید نے آخرت کے عذاب سے پہلے دو مرتبہ عذاب دینے کا حکم سنایا ہے ۵؂ تویہ تضاد اور زیادہ نمایاں محسوس ہونے لگتا ہے ۔
تیسرا تضاد یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایک طرف قرآن مجید کا مقدمہ یہ ہے کہ قیامت کے موقع پر باقاعدہ حساب کتاب کے بعد جنت اور دوزخ کا فیصلہ ہو گا ۶؂ اور دوسری طرف اسی کی آیات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ موت کے ساتھ ہی جنت اور دوزخ میں داخلہ شروع ہو جائے گا۔ ۷؂ اس کے علاوہ اس بارے میں بھی واضح اشارات ملتے ہیں کہ انسانوں کی زندگی ہی میں جنت اور دوزخ کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ ۸؂
ان تضادات کو محسوس کرنے کے بعد تین رویے اختیار کیے جا سکتے ہیں:
ایک یہ کہ قرآن مجید کو ایک ایسی کتاب قرار دے دیا جائے جس کی آیات، نعوذ باللہ، باہم متضاد اور متناقض ہیں۔
دوسرے یہ کہ آدمی اپنی کوتاہی فہم کا اعتراف کر کے خاموش ہو جائے ۔
تیسرے یہ کہ غور و فکر کر کے قرآن مجید کے ان مقامات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
بالبداہت واضح ہے کہ اس معاملے میں تیسرا رویہ ہی صحیح رویہ ہے۔قرآن مجید پروردگار عالم کا کلام ہے ، اس میں کسی تضاد یا تناقض کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان آیات پر اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت پوری طرح نمایاں ہوجاتی ہے کہ موت و حیات، حشر ونشر اور جزا و سزا کے حوالے سے یہ قانون خداوندی کے مختلف اجزا کا بیان ہے جو باہم مربوط اور ہم آہنگ ہیں۔ اس کی تفصیل ہم درج ذیل عنوانات کے تحت بیان کریں گے:
۱۔ موت اور قیامت میں حائل پردہ
۲۔ جسمانی وجود کے ساتھ دو زندگیاں
۳۔وفات و حیات کا مختلف مفہوم اور برزخ کی کیفیت
۴۔ عالم برزخ میں مختلف انسانوں سے مختلف معاملہ
۵۔ عذاب آخرت سے پہلے دنیوی اور برزخی عذاب
۶۔ حساب کتاب کے حوالے سے انسانوں کے تین گروہ
۱۔ موت اور قیامت میں حائل پردہ
قرآن مجید نے موت اور قیامت کے درمیان کی کیفیت کو ’برزخ‘ سے تعبیر کیا ہے ، جس کا معنی پردہ یا اوٹ ہے ۔ ارشاد ہے :
حَتّٰٓی اِذَا جَآءَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ. لَعَلِّیْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّا اِنَّھَا کَلِمَۃٌ ھُوَ قَآءِلُھَا وَ مِنْ وَّرَآءِھِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ.
(المومنون۲۳:۹۹۔۱۰۰)
’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہو گی تو وہ کہے گا کہ اے رب ،مجھے پھر واپس بھیج کہ جو کچھ چھوڑ آیا ہوں، اس میں کچھ نیکی کماؤں، ہرگز نہیں، یہ محض ایک بات ہے جو وہ کہنے والابنے گا اور آگے ان کے ایک پردہ ہو گا، اس دن تک کے لیے جس دن وہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘
۲۔ جسمانی وجود کے ساتھ دو زندگیاں
قرآن مجید نے اس بات کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ انسان کو دو زندگیاں ودیعت ہوں گی۔ایک زندگی اس دنیا میں موت سے پہلے اور دوسری زندگی قیامت کے بعد، یعنی ایک دنیوی زندگی اور ایک اخروی زندگی۔یہ دونوں زندگیاں اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک جیسی ہوں گی۔ قیامت کی زندگی ہو بہو ویسی ہی ہو گی، جیسی انسان نے دنیا میں گزاری۔وہ اسی طرح جسمانی اعضا کا حامل ہو گا؛ اسی طرح اس کی رگوں میں خون گردش کرے گا؛اسی طرح اس کا سلسلۂ تنفس جاری ہو گا؛ اسی طرح وہ سماعت ، بصارت اور نطق کی صلاحیتوں کا حامل ہو گا۔ گویا ایسی ہی زندگی اپنی کامل شکل میں وہاں ظہور پذیر ہو گی۔قرآن مجید نے اپنے لافانی اسلوب میں ’’دو بار زندگی ‘‘ کے الفاظ استعمال کر کے اس حقیقت کو پوری طرح واضح کر دیا ہے۔ سورۂ مومن میں ارشاد ہے:
قَالُوْا رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ.(۴۰ : ۱۱ )
’’وہ کہیں گے: اے ہمارے رب ، تو نے ہم کو دو بار موت دی اور دو بار زندگی دی تو ہم نے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیا تو کیا یہاں (دوزخ) سے نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے؟‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی اس آیت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’اس وقت یہ لوگ بڑی سعادت مندی اور بڑی صفائی کے ساتھ کہیں گے کہ اے رب، اب ہم اپنے تمام جرائم کا اقرار کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا ناممکن تھا اس وجہ سے ہم تیرے مواخذہ و محاسبہ سے بے خوف ہو کر تیرے رسول اور اس کی دعوت کا مذاق اڑاتے رہے لیکن اب تو نے ہمیں دو بار موت اور دو بار زندگی دے کر موت کے بعد کی زندگی کا اچھی طرح مشاہدہ کرا دیا، تو کیا اب اس کی بھی کوئی سبیل ہے کہ اس دوزخ سے ہمیں نکلنا نصیب ہو کہ ہم از سر نو دنیا میں جا کر ایمان اور عمل صالح کی زندگی بسر کریں۔دو بار موت ،سے ایک تو وہ حالت موت مراد ہے جو اس دنیا میں وجود پذیر ہونے سے پہلے انسان پر طاری ہوتی ہے اور دوسری وہ موت ہے جس سے ہر زندہ کو لازماً دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اسی طرح زندگی ایک تو وہ ہے جو اس دنیا میں حاصل ہوتی ہے اور دوسری وہ جو قیامت کو حاصل ہو گی۔‘‘
(تدبر قرآن ۷/ ۲۳)
اس سے واضح ہوا کہ انسان کو اپنی پوری تاریخ میں دو زندگیاں ہی حاصل ہوں گی ۔ اس کے علاوہ اس نوعیت کی کوئی تیسری زندگی اسے حاصل نہیں ہو گی ۔ چنانچہ عالم برزخ میں انسانی زندگی کی کیفیت دنیوی اور اخروی زندگی سے مختلف ہو گی ۔
۳۔وفات و حیات کا مختلف مفہوم اور برزخ کی کیفیت
قرآن مجید نے وفات اور حیات کے الفاظ کو ان کے عام مفہوم سے کچھ مختلف معنی میں بھی استعمال کیا ہے ۔
’وفات‘ کا عام مفہوم انسان کا دنیا سے رخصت ہو جانا ہے، لیکن قرآن مجید نے نیند کے لیے بھی ’وفات‘ کی تعبیر اختیار کی ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَ ھُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَ یَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ
’’اور وہی ہے جو تمھیں رات میں وفات دیتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم نے دن
فِیْہِ لِیُقْضٰٓی اَجَلٌ مُّسَمًّی ثُمَّ اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ. (الانعام ۶:۶۰)

میں کیا ہے، پھر تمھیں اس میں اٹھاتا ہے تاکہ مدت معین پوری کی جائے، پھر اسی کی طرف تمھارا لوٹنا ہے۔‘‘
’حیات‘ کا عام مفہوم دنیا میں زندگی بسر کرنا ہے، لیکن قرآن مجید نے یہی لفظ اللہ کی راہ میں قتل ہو کر دنیا سے رخصت ہو جانے والوں کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ ارشاد ہے:
وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ، بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ.( البقرہ ۲: ۱۵۴)
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں، ان کو مردہ نہ کہو ، بلکہ وہ زندہ ہیں تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔‘‘
گویا انسان زندگی رکھتے ہوئے بھی نیند کی حالت میں موت کی آغوش میں ہوتا ہے اور موت کی آغوش میں جا کر بھی زندگی سے بہرہ مند رہ سکتا ہے،لیکن نہ نیند عام معنوں میں موت ہے اور نہ شہدا کی زندگی عام معنوں میں زندگی ہے۔نیند کی موت چونکہ ہمارے روز مرہ معمول کا حصہ ہے، اس لیے اس کا ہم کافی حد تک شعور رکھتے ہیں۔ شہادت کے بعد کی زندگی کا ہم کوئی تجربہ نہیں رکھتے، اس لیے ہمیں اس کا کچھ شعور بھی نہیں ہے۔
شہدا کی یہ زندگی ظاہر ہے کہ وہ زندگی نہیں ہے جو قیامت کے بعد انسانوں کو حاصل ہو گی ۔ اگر اس سے مراد وہی زندگی ہوتی تو پھر اللہ تعالیٰ یہ ارشاد نہ فرماتے کہ تم اس کا شعور نہیں کر سکتے۔ قیامت کی زندگی چونکہ دنیوی زندگی جیسی ہے، اس لیے اس کا شعور ہمارے لیے نہایت آسان ہے۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ قیامت سب انسانوں کے لیے ایک ہی وقت پر آئے گی، اس بنا پر شہدا کی موت کو قیامت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ واضح ہے کہ شہدا کو موت کے بعد حاصل ہونے والی زندگی درحقیقت موت اور قیامت کے مابین کی زندگی ہے ،جسے برزخ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
ان اشارات کی بنا پر ہم یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ عالم برزخ حالت نوم سے مماثل ایک کیفیت ہے، جس میں ہم پر ایک نوعیت کی موت طاری ہوتی ہے اور ایک نوعیت کی زندگی ہم بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ موت ایسی ہوتی ہے کہ ہم اپنے جسمانی وجود اور اس کے بعض لوازم سے محروم ہوتے ہیں اور زندگی اس زندگی کے مماثل ہوتی ہے، جیسی ہم کیفیت نیند میں بسر کرتے ہیں۔
اس عالم میں جزا و سزا کے احوال کو عالم خواب پر قیاس کیا جا سکتا ہے ۔ نیند کی حالت میں ہر انسان خواب دیکھتا ہے ۔ خواب اچھا بھی ہوتا ہے اور برا بھی۔ اچھا خواب انسان پر فرحت و تسکین کی کیفیت طاری کرتا ہے، جبکہ برا خواب انسان کی طبیعت میں اضطراب و بے چینی پیدا کرتا ہے ۔ اس کیفیت میں انسان کا جسم تو ساکت ہوتا ہے، مگر وہ رنج و راحت کو محسوس کر رہا ہوتا ہے ۔ اس بنا پر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ عالم برزخ میں جزا و سزا کا معاملہ اسی طرح ہو گا ۔
تاہم برزخ کے لیے حالت نوم اور عالم خواب کی تعبیرات مماثلت کو بیان کرنے اور تفہیم مدعا کے لیے تو اختیار کی جا سکتی ہیں، مگر قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عالم برزخ اور عالم خواب ایک ہی جیسے عالم ہیں ۔عالم برزخ میں کیفیت زندگی کا معاملہ، بہرحال امور متشابہات میں سے ہے ۔ اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
۴۔ عالم برزخ میں مختلف انسانوں سے مختلف معاملہ
قرآن مجیدپر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم برزخ میں جزا و سزا کے حوالے سے انسانوں کے مختلف طبقوں سے مختلف معاملہ ہو گا۔ ان میں سے دو طبقات کے بارے میں قرآن بہت واضح ہے۔ ایک شہداکا طبقہ اور دوسرے رسولوں کے اتمام حجت کے بعدصفحۂ ہستی سے مٹا دیے جانے والے کفار کا طبقہ۔
پہلے طبقے کے بارے میں قرآن مجید کا واضح ارشاد ہے :
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا ، بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ ، فَرِحِیْنَ بِمَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ، وَیَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِہِمْ مِّنْ خَلْفِہِمْ اَلاَّ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ، یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ وَّاَنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَالْمُؤْمِنِیْنَ.
(آل عمران۳: ۱۶۹)
’’(اِس جنگ میں) جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں، اُنھیں ہرگز مردہ خیال نہ کرو۔ (وہ مردہ نہیں)، بلکہ اپنے پروردگار کے حضور میں زندہ ہیں، اُنھیں روزی مل رہی ہے۔ اللہ نے جو کچھ اپنے فضل میں سے اُنھیں عطا فرمایا ہے، اُس پر شاداں و فرحاں ، اُن کے پیچھے رہ جانے والوں میں سے جو لوگ ابھی اُن سے نہیں ملے، اُن کے بارے میں بشارت حاصل کرتے ہوئے کہ (خدا کی اِس ابدی بادشاہی میں) اُن کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ کبھی غم زدہ ہوں گے، اللہ کی نعمتوں اور اُس کے فضل سے خوش وقت اور اِس بات سے کہ ایمان والوں کے اجر کو اللہ کبھی ضائع نہ کرے گا۔‘‘
یعنی وہ لوگ جنھوں نے اللہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، وہ دنیا سے رخصت ہو کر اللہ کی رحمت میں ہوں گے اور اس کی طرف سے رزق پا کر خوش و خرم ہوں گے ۔
دوسرے طبقے کی مثال فرعون اور اس کے ساتھی ہیں جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے اتمام حجت کے بعد بھی ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ ان کے بارے میں بھی بہت وضاحت سے بیان ہوا ہے:
وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓءُ الْعَذَابِ. اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا، وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ.
(المومن ۴۰ : ۴۵۔۴۶)
’’اور فرعون والوں کو برے عذاب نے گھیر لیا۔ آگ ہے جس پر صبح و شام وہ پیش کیے جاتے ہیں، اور جس دن قیامت ہو گی، حکم ہو گا کہ فرعون والوں کو اس سے زیادہ سخت عذاب میں داخل کرو۔‘‘
یہ اصل میں وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ کے رسولوں نے براہ راست اللہ کی بندگی کی دعوت دی، مگرانھوں نے اسے قبول کرنے کے بجاے جانتے بوجھتے اس کا انکار کیا اور تمام عمر پیغمبر کی مخالفت پر کمر بستہ رہے۔ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوا اور وہ نیست و نابود ہو گئے۔وہ لوگ دنیا سے ختم ہونے کے بعدقیامت سے پہلے ہی عذاب کی کیفیت میں مبتلا ہوں گے۔
ان کے علاوہ جتنے لوگ ہیں، یعنی جونہ تو رسولوں کی تکذیب کے جرم میں صفحۂ ہستی سے مٹائے گئے اور نہ شہادت کے منصب پر فائز ہوئے ، ان کے بارے میں قرآن مجید خاموش ہے ۔
۵۔ عذاب آخرت سے پہلے دنیوی اور برزخی عذاب
قرآن مجید کا وہ مقام جس میں نہایت صراحت کے ساتھ برزخ کی زندگی کی طرف اشارہ موجود ہے، وہ سورۂ توبہ (۹)کی آیت ۱۰۱ ہے ۔ ارشاد فرمایا ہے :
وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُھُمْ
’’اور تمھارے ارد گرد جو دیہاتی ہیں، ان میں منافق ہیں اور مدینہ والوں میں بھی منافق ہیں۔ یہ اپنے نفاق میں منجھ گئے ہیں۔ تم ان کو نہیں
نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ سَنُعَذِّبُہُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ.
جانتے، ہم ان کو جانتے ہیں۔ ہم انھیں دو بار عذاب دیں گے ۔ پھر وہ ایک عذاب عظیم کی طرف دھکیلے جائیں گے ۔‘‘
یہ آیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مخاطبین کے بارے میں ایک وعید کے طور پر آئی ہے جنھوں نے پیغمبر اور اس کی دعوت کا اقرار محض اپنے اغراض و مفادات کی خاطر کیا ۔ درحقیقت یہ پیغمبر کی مخالفت پر کمربستہ تھے اور درپردہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے ۔ ان لوگوں کے لیے آخرت کے عذاب عظیم سے پہلے دو مرتبہ عذاب کا اعلان کیا گیا ۔ ایک وہ عذاب دنیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسولوں کے ان مخاطبین پر نازل ہوتا رہا ہے جو اتمام حجت کے بعد کفر اور سرکشی پر جمے رہے ۔ اس عذاب کی تاریخ عاد ، ثمود ، قوم لوط اور آل فرعون کے حوالے سے قرآن مجید میں درج ہے :
فَکُلاًّ اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ فَمِنْھُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا وَ مِنْھُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُ وَ مِنْھُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ
’’پس ہم نے ان میں سے ہر ایک کو اس کے گناہ کی پاداش میں پکڑا ۔ ان میں سے بعض پر ہم نے گرد باد کا طوفان بھیجا ۔ اور ان میں سے بعض کو کڑک نے آپکڑا اور ان
اَغْرَقْنَا وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَہُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ.
(العنکبوت۲۹ : ۴۰)
میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے غرق کر دیااور اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا،بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب عرب کے مشرکین و منافقین پر یہ عذاب اہل ایمان کی تلواروں کے ذریعے سے نازل ہوا :
بَرَآءَ ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖٓ اِلَی الَّذِیْنَ عٰھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ... فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا
’’ ان مشرکین سے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان براء ت ہے جن سے تو نے معاہدے کیے تھے... سو جب حرمت والے
الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ.
(التوبہ ۹: ۱،۵)
مہینے گزر جائیں تو ان مشرکین کو جہاں کہیں پاؤ، قتل کرو۔ ‘‘
دوسرا وہ عذاب برزخ ہے جو ان پر دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اور قیامت کے واقع ہونے سے پہلے نازل ہو گا ۔
مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں :
’’...’ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ‘ (ہم انھیں دو مرتبہ عذاب دیں گے ) میں ایک تو اس سزا کی طرف اشارہ ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں ان کو ملنے والی ہے ۔ دوسرے اس عذاب کی طرف جس سے یہ عالم برزخ میں دوچار ہوں گے ۔ ’ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ‘ یہ عذاب آخرت کی طرف اشارہ ہے جو سب سے زیادہ سخت ہو گا ۔ ‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۶۳۷)
۶۔ حساب کتاب کے حوالے سے انسانوں کے تین گروہ
قرآن مجید کے واضح اشارات سے ہم یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ آخرت میں حساب کتاب کے حوالے سے انسانوں کے تین گروہ ہوں گے ۔
پہلا گروہ انبیا ، شہدا ، صدیقین اور صالحین پر مشتمل ہو گا، یعنی وہ لوگ جنھوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ صرف اور صرف اپنے پروردگار کی خوشنودی کے لیے گزارا ۔ ان لوگوں کا پرجوش خیرمقدم کیا جائے گا ۔ ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ ، محمدعلیہم السلام اور ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما اسی گروہ میں شامل ہوں گے :
وَّ لَھَدَیْنٰھُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا. وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓءِکَ رَفِیْقًا.
’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گے، وہی ہیں جو انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کے اس گروہ کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ نے اپنا فضل فرمایا اور کیا ہی اچھے ہیں یہ رفیق ! یہ اللہ کی طرف سے فضل ہے
ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًا. (النساء ۴ : ۶۸۔۷۰)
اور اللہ کا علم کفایت کرتا ہے ۔ ‘‘
وَالَّذیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖٓ اُولٰٓءِکَ ھُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ وَالشُّھَدَآءُ عِنْدَ رَبِّھِمْ لَھُمْ اَجْرُھُمْ وَ نُوْرُھُمْ.
( الحدید ۵۷ : ۱۹)
’’اور جو لوگ ایمان لائے اللہ اور اس کے رسولوں پر وہی لوگ اپنے رب کے ہاں صدیقوں اور شہدا کے زمرے میں ہوں گے۔ ان کے لیے ان کا صلہ بھی ہو گا اور ان کی رو شنی بھی ۔ ‘‘
سورۂ نساء کی آیت کے الفاظ ’ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ‘ (جن پر اللہ نے اپنا فضل فرمایا) سے واضح ہے کہ یوم حساب کے موقع پر انھیں حساب کتاب کے اضطراب میں ڈالے بغیر کامیابی کی سندامتیاز عطا کر کے ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے ۔
دوسرا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہو گا جنھوں نے جانتے بوجھتے حق کا انکار کیا ، اپنے پروردگار کے ساتھ سرکشی کا رویہ اختیار کیا ، دنیا میں ظلم و عدوان کا بازار گرم رکھا اور اپنی تمام زندگی کو حق کی مخالفت اور باطل کی حمایت کے لیے وقف کر دیا ۔ نمرود ، فرعون ، ابوجہل ، ابولہب اسی گروہ میں شامل ہوں گے :
لاَ یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلاَدِ. مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ثُمَّ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَ بِءْسَ الْمِہَادُ.
(آل عمران ۳:۱۹۶۔۱۹۷)
’’اور ملک کے اندر اِن کافروں کی یہ سرگرمیاں تمھیں کسی مغالطہ میں نہ ڈالیں۔ یہ چند دن کی چاندنی ہے، پھر ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی بری جگہ ہے ۔‘‘
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰلاً بَعِیْدًا. اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ ظَلَمُوْا لَمْ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغْفِرَلَھُمْ وَلاَ لِیَھْدِیَھُمْ طَرِیْقًا.
( النساء ۴ : ۱۶۷ ۔ ۱۶۸ )
’’جن لوگوں نے کفر کیا اور اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے ان کو تو خدا نہ بخشنے کا ہے ، اور نہ جہنم کے سوا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، ان کو کوئی رستہ دکھانے کا ہے ۔‘‘
ان لوگوں کے معاملے میں بھی کسی حساب کتاب کی ضرورت نہیں ہو گی، بلکہ وہ اپنے کفرو سرکشی کی خود گواہی دیں گے :
حَتّٰٓی اِذَا جَآءَ تْھُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَھُمْ قَالُوْٓا اَیْنَ مَا کُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ قَالُوْا ضَلُّوْا عَنَّا وَ شَھِدُوْا عَلآی اَنْفُسِھِمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا کٰفِرِیْنَ. قَالَ ادْخُلُوْا فِیْ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِی النَّارِ.
(الاعراف ۷:۳۷ ۔۳۸)
’’یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے فرشتے ان کو قبض کرنے آئیں گے تو ان سے پوچھیں گے کہ اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے تھے، کہاں ہیں ؟ وہ جواب دیں گے کہ وہ تو سب ہم سے کھوئے گئے اور یہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ لاریب، وہ کفر میں رہے۔ حکم ہو گا: جاؤ ، پڑو دوزخ میں ان امتوں کے ساتھ جو تم سے پہلے جنوں اور انسانوں میں سے گزریں۔‘‘
تیسرے گروہ میں وہ لوگ شامل ہوں گے جو نہ تو اتنے نیکوکار ہوں گے کہ انبیا، شہدا اور صدیقین کی صف میں کھڑے ہو سکیں اور نہ اس سطح کے گناہ گار ہوں گے کہ انھیں سرکشوں کے گروہ میں کھڑا کیا جائے ۔ ان کے اعمال صالح اور اعمال بد ملے جلے ہوں گے ۔ بیش تر انسان اسی گروہ میں شامل ہوں گے ۔ یہی وہ لوگ ہوں گے جن کے لیے اصلاً قیامت ، یوم حساب ہو گی ۔ ان کے اعمال کو تولا جائے گا جن کے نیک اعمال کا پلڑا بھاری ہو گا، انھیں جنت کا انعام ملے گا اور جن کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہو گا، انھیں دوزخ کی سزا ہو گی :
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ. فَھُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ. وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ. فَاُمُّہٗ ھَاوِیَۃٌ.
(القارعہ ۱۰۱:۴۔۹)
’’پھر جس کے پلڑے بھاری ہوئے ، وہ دل پسند عیش میں ہو گااور جس کے پلڑے ہلکے ہوئے ،اس کا ٹھکانا گہری کھائی ہے۔‘‘
قرآن مجید نے سورۂ توبہ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین میں سے ان تینوں گروہوں کو نمایاں کر دیا ہے :
وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّلَھُمْ جَنّٰتٍ تَجِْرِیْ تَحْتَھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ.

’’اور مہاجرین و انصار میں سے جو سب سے پہلے سبقت کرنے والے ہیں ، اور پھر جن لوگوں نے خوبی کے ساتھ ان کی پیروی کی ہے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے ۔ اور اس نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، ان میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور بڑی کامیابی یہی ہے ۔
وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ سَنُعَذِّبُہُمْ مَّرَّتَیْنِ.ثُمَّ یُرَدُّوْنَِ الٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ .
اور تمھارے اردگرد جو دیہاتی ہیں، ان میں منافق ہیں اور مدینہ والوں میں بھی منافق ہیں ۔ یہ اپنے نفاق میں منجھ گئے ہیں ۔ تم ان کو نہیں جانتے ،ہم ان کو جانتے ہیں۔ ہم انھیں دو بار عذاب دیں گے۔ پھر وہ ایک عذاب عظیم کی طرف دھکیلے جائیں گے۔
وَ اٰخَرُوْنَ اعْتَرَفُوْا بِذُنُوْبِھِمْ خَلَطُوْا عَمَلاً صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّءًا عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْھِمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ
اور کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں جنھوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے ، انھوں نے کچھ نیکیاں کچھ بدیاں ساتھ ہی دونوں
رَّحِیْمٌ.(۹ : ۱۰۰ ۔ ۱۰۲ )
کمائی ہیں۔ امید ہے کہ اللہ ان پر رحمت کی نظر کرے۔ اللہ غفور و رحیم ہے۔‘‘
مندرجہ بالااستدلال کی روشنی میں برزخ کے بارے میں ہمارے نقطۂ نظر کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ برزخ انسان کی موت اور قیامت کی درمیانی کیفیت کی تعبیر ہے۔ انسان مرنے کے بعد قیامت تک اسی عالم میں رہے گا۔
۲۔ اس عالم میں انسانی زندگی کی کیفیت دنیوی اور اخروی زندگی سے مختلف ہو گی ۔
۳۔ اس عالم میں انسان کے احساسات ، کیفیات اور احوال کے بارے میں ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے ۔ یہ معاملہ امور متشابہات میں سے ہے ۔ تفہیم مدعا کے لیے اسے عالم خواب کے مماثل قرار دیا جا سکتا ہے ۔
۴۔ برزخ میں شہدا ، انبیا،صدیقین اور صالحین اللہ کی رحمت میں ہوں گے اورخوش حال ہوں گے۔
۵۔ اس عالم میں رسولوں کے منکرین کو ان کا ٹھکانا صبح و شام دکھایا جائے گااور اس طرح وہ عذاب کی کیفیت سے دو چار رہیں گے۔
۶۔ باقی انسان اپنے اعمال کے لحاظ سے اچھی یا بری کیفیت میں ہوں گے۔
۷۔قیامت کے روز تمام انسان عالم برزخ سے نکلیں گے اور جسمانی وجود کے ساتھ زندہ و بیدار ہوکر جزا و سزا کے لیے پیش ہوں گے۔

 

۱؂ ۴۰ : ۱۱۔
۲؂ ۲:۱۵۴۔
۳ ؂ ۱۰۱:۴۔۹۔
۴ ؂ ۸:۵۰ ، ۴۰: ۴۵۔ ۴۶، ۳:۱۶۹۔
۵ ؂ ۹ : ۱۰۱ ۔
۶؂ ۱۰۱: ۴۔۹۔
۷؂ ۱۶: ۲۸۔۲۹، ۳۶: ۲۶۔۲۷۔
۸؂ ۹:۱۰۰، ۳:۱۹۶۔۱۹۷ ۔

------------------------------

 

بشکریہ سید منظور الحسن
تحریر/اشاعت نومبر 2000 

مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Aug 27, 2016
6195 View